۔
ایک خیال یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ اسلام نے عرب تمدن کو احکامات کے لئے خام مال کے طور پر استعمال کیا، ان کے یہاں جو کچھ بڑی بڑی خرابیاں تھیں بس ان کی اصلاح کردی اور باقی کو مختلف حیثیتوں میں برقرار رکھا (مثلا کسی کو اپنا حصہ بنالیا اور کسی کے بارے میں خاموشی اختیار کی)۔ اس مفروضے کی بنیاد پر “جیسا معاشرہ ویسا اسلام” کے اجتہاد کی راہ استوار کی جاتی ہے۔ مثلا اس کی بنیاد پر یہ اجتہاد کیا جاتا ہے کہ عربوں کے یہاں خواتین گھروں پر رھتی تھیں اور کمانے کی ذمہ داری مرد پر تھی تو اس لئے اسی پر نان نفقے کی ذمہ داری ڈال دی گئی اور اسی کے تناظر میں مرد کو طلاق کا حق وغیرہ بھی دیا گیا۔ لیکن ایک ایسا سماج جہاں مرد و عورت دونوں کماتے ہوں وہاں اس حکم پر عمل کرنا مقصود نہیں ہونا چاہئے بلکہ طلاق کے معاملے میں برابری کی بنیاد پر کوئی صورت نکالنی چاہئے (یہی استدلال حدود کی سزاؤں کی صورت پر بھی کیا جاتا ہے)۔
یہ استدلال متعدد غلط مفروضات پر مبنی ہے جن کی طرف مخصرا اشارہ کیا جاتا ہے (آج لیکچر میں ان پر کچھ تفصیل سے گفتگو ہوسکی)۔
– پہلی بات: “حکم کی بنیاد معاشرتی حقائق ہوتے ہیں” اس کی کوئی براہ راست منصوص بنیاد موجود نہیں۔ عقلا جس قدر یہ مفروضہ قرین از قیاس ہے اسی قدر یہ بھی قرین از قیاس ہے کہ اللہ تعالی نے احکامات معاشرے کی ساکھ کو دیکھ کر نہیں بلکہ مخصوص انفرادیت و معاشرت قائم کرنے کے لئے نازل کئے تھے
– دوسری بات: اس مفروضے کے تحت کئے جانے والے اجتہاد کی حد کیا ہوگی، یہ طے کرنے کا کوئی اصول نہیں۔ چنانچہ اس استدلال کی ذد صرف طلاق کے حکم پر ہی نہیں بلکہ خود نکاح پر بھی پڑتی ہے۔ یہ کیوں نہ فرض کیا جائے کہ عربوں کے یہاں چونکہ نکاح کا طریقہ رائج تھا تو شریعت نے اس کا حکم دے دیا اور بس؟ اگر نسب کی حفاظت کا مسئلہ ہے اس کے لئے ڈی این اے موجود ہے، تو اب کیا وجہ ہے کہ نکاح کرکے گھر بسانے کو ایک مستقل شرعی حکم مانا جائے، بالخصوص ایک ایسے معاشرے میں جہاں نکاح نہ کرنا عام بات ہو؟ چنانچہ اس طریقہ اجتہاد میں اس کا جواب دینے کا کوئی معین اصول موجود نہیں اور نہ ہی ممکن ہے۔ اس اصول اجتہاد کا منطقی نتیجہ یہ ہے کہ اسلام کے احکامات ماضی کے لوگوں کے لئے نازل کئے گئے تھے
– تیسری بات: پھر اس استدلال سے بھی صرف من پسند نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے، یعنی حق طلاق میں مساوات لیکن اس کے ساتھ جڑا ہوا منطقی نتیجہ کہ مرد پر سے نان نفقے کی ذمہ داری بھی ختم ہونی چاہئے اس کا کہیں ذکر نہیں ہوتا۔ کیوں بھائی کیا مرد کو الو سمجھ رکھا ہے کہ وہ عورت کو اپنا استحصال کرنے کی کھلی چھٹی دے رکھے کہ وہ نئے تمدن کے اندر بھی عورت پر اپنا کمایا ہوا مال لٹاتا رہے؟
– اصل بات: معاملہ یوں نہیں کہ اللہ تعالی نے عربوں کی معاشرت کو بطور خام مال استعمال کیا بلکہ یوں ہے کہ عربوں کے یہاں انبیاء کی تعلیمات کے نتیجے میں جو کچھ اچھا موجود تھا اسے برقرار رکھا گیا اور جو خراب ہوچکا تھا اس کی اصلاح کردی گئی۔ اسلام کے بارے میں ہمارا یہی کہنا ہے کہ اسلام کوئی نیا دین نہیں ہے بلکہ یہ انبیاء کے سلسلے ہی کی آخری کڑی ہے۔ تو اب بات بالکل سیدھی ہے کہ اسلام کی تعلیمات انبیاء کی مستقل تعلیمات ہی کا بیان تھی نہ کہ عربوں کے تمدن کی مجبوری کی وجہ سے دئیے گئے چند وقتی احکامات جنہیں اپنی مرضی سے معطل کردیا جائے۔
ڈاکٹر زاہد مغل