۔
معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے عرض کیا: مجھے ایک عورت ملی ہے جو اچھے خاندان والی ہے، خوبصورت ہے لیکن اس سے اولاد نہیں ہوتی تو کیا میں اس سے شادی کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں ، پھر وہ آپ کے پاس دوسری بار آیا تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو منع فرمایا، پھر تیسری بار آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوب محبت کرنے والی اور خوب جننے والی عورت سے شادی کرو، کیونکہ ( بروز قیامت ) میں تمہاری کثرت کی وجہ سے دوسری امتوں پر فخر کروں گا۔( سنن نسائی – حدیث 3229)
اس حدیث کو بانجھ عورت سے شادی کی ممانعت بنا کر پیش کیا جاتا ہے جب کہ رسول اللہ نے ایسی کوئی بات نہیں کی ۔اگر بانجھ عورت سے شادی کرنا غلط ہوتا یا گناہ ہوتا یا حرام ہوتا تو باقاعدہ اس کا حکم جاری کیا جاتا(آج تک کسی مولوی، عالم، دارالافتاء نے اسے حرام قرار نہیں دیا ) ۔جبکہ مذکورہ بالا حدیث بہت صاف طور پر واضح کر رہی ہے کہ یہ اس دور کا واقعہ ہے کہ جب امت قلیل تھی ،مسلمان تھوڑے تھے اور ان کو ضرورت تھی کہ آبادی زیادہ ہو ۔اس تناظر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت کی کہ ایسی عورت سے شادی کی جائے جو زیادہ بچے پیدا کرنے والی ہو ۔
آج کے اس جدید دور میں کہ جب بعض حالات کے سبب یورپی اقوام میں شرح پیدائش کافی کم ہو چکی ہے اور بہت سے ممالک میں نوجوانوں کی قلت اور بوڑھے افراد کی کثرت ہو چکی ہے تو وہاں حکومتیں زیادہ بچے پیدا کرنے کے لئے ترغیب کے طور پر مختلف سہولیات کا اعلان کرتی ہیں ۔ تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ اس معاشرے میں بانجھ عورت کی کوئی عزت نہیں ، زیادہ بچے پیدا کرنے والی عورت کو “ایکسٹرا پروٹوکول اور انعامات و سہولیات ” دے کر بانجھ عورتوں کی دل شکنی کی جاتی ہے اور ان کو دوسرے درجے کی عورتیں بنا کے رکھ دیا گیا ہے ۔؟
دوسرا اس بات کا بھی احتمال ہے کہ ان صاحب کے ذاتی حالات ایسے ہوں ان کے لئے بہتر ہو کہ وہ ایسی عورت سے شادی نہ کریں ۔آج کے دن کی ہی بات ہے کہ ایک دوست اور فیس بک کے معروف مصنف مکتبہ قدوسیہ تشریف لائے میں نے ان سے حال احوال کے درمیان پوچھا کہ آپ کے کتنے بچے ہیں ۔تو انہوں نے بتایا کہ میں لا ولد ہوں، میرے ہاں اولاد نہیں ہوئی ۔ساتھ ہی انہوں نے یہ بتایا کہ : “ہم پانچ بہن بھائی ہیں اور اللہ کی مرضی ہے کہ ہم پانچوں کے گھر میں کسی کے ہاں اولاد نہیں ہوئی ۔” اب تصور کیجئے ایسے کوئی صاحب اگر کسی بانجھ عورت سے شادی کرنے جا رہے ہو تو پاس سے جو بھی ہوگا وہ یہی مشورہ دے گا کہ ایسا نہ کرو ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو ان کے حالات کے مطابق مشورہ دیا کرتے تھے ۔اور ساتھ یہ بھی فرما دیا کرتے تھے کہ یہ مشورہ ہے مانو بھلے نہ مانو ۔ان صحابیہ خاتون کا قصہ مشہور ہے کہ جن کو اپنے خاوند سے محبت نہ تھی جب کہ خاوند کی جان ان میں تھی ۔ان خاتون صحابیہ نے طلاق لینے کا فیصلہ کیا تو خاوند کی جان پر بن آئی ۔وہ مدینے کی گلیوں میں آنسو بہاتے مجنوں ہوئے پھرتے تھے اور بستی کی بستی ان کی حالت دیکھ کر ترس کھا رہی تھی ۔ہوتے ہوتے معاملہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا تو آپ نے ان صحابیہ کو بلایا اور کہا “اسے نہ چھوڑو ” سعادتمند صحابیہ نے سر جھکاتے ہوئے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ ؟ تو آپ نے فرمایا مشورہ ہے ۔تو ان خاتون نے ماننے سے معذرت کر لی ۔ اسی طرح ایک اور صحابی نے شادی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کس سے شادی کی ہے ؟
ایک صاحب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتلایا فلاں عورت سے شادی کی ۔وہ عورت طلاق یافتہ یا بیوہ تھی جبکہ یہ صاحب کنوارے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے کنواری عورت سے شادی کیوں نہ کی وہ تم سے کھیلتی تم اس سے کھیلتے ۔۔ اس پر ان صحابی نے عذر خواہی کی کہ “میرے چھوٹے چھوٹے بہن بھائی ہیں اور والدہ حیات نہیں مجبوری تھی کہ کسی گھر گرہستی کی تجربہ کار عورت سے عقد کرتا “۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ظاہری حالات کے مطابق ان کو مشورہ دیا کرتے تھے ۔بانجھ عورت سے شادی نہ کرنے کا یہ معاملہ بھی ایسا ہی ایک مشورہ تھا ، کوئی تا ابد شریعت کا حکم نہ تھا ۔اگر شریعت کا حکم ہوتا تو اس کو حرام قرار دے دیا جاتا ۔جبکہ پورے ذخیرہ حدیث میں ایسی کسی حرمت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ۔
ابوبکر قدوسی