کیا حدیث کے مطابق عورت ناقص العقل ہے؟

۔

کیا عورتیں ناقص العقل ہیں ؟
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! ایسا کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔ عورتوں نے عرض کی کہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا، جی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بس یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ نے پوچھا کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے نہ روزہ رکھ سکتی ہے، عورتوں نے کہا ایسا ہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی اس کے دین کا نقصان ہے۔
(صحيح بخاري ، كتاب الحیض ، باب : ترك الحائض الصوم ، حدیث : 305 )
٭حدیث کا سیاق و سباق :
یہ حدیث حضورؐ نے ایک خاص موقع کے اوپر بیان فرمائی یعنی عید کے موقع پر جب حضورؐ جہاد کے لیے فنڈ جمع کررہے تھے ۔ اس موقع پر حضور ؐنے عورتوں کے لیے مجاز مرسل استعمال کیا (جب لفظ اپنے حقیقی معنوں کے بجائے مجازی معنوں میں اسطرح استعمال ہو کہ ان کے حقیقی اور مجازی معنوں میں تشبیہ کا تعلق نہ ہو بلکہ اس میں کوئی اور ہی تعلق پایا جائے جیسے روٹی کا مسئلہ بہت اہم ہے۔اس میں ایک روٹی مراد نہیں بلکہ روزگار مراد ہے) ۔ حدیث کا اگلا حصہ خود اس بات کی تصدیق کر رہا ہے ۔ یہاں اگر ہم ایک اور احادیث کا حوالہ بھی پیش کریں تو ہم اس مسلے کو بخوبی سمجھ سکتے :
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نماز عید میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ سے پہلے بغیر اذان اور تکبیر کے نماز پڑھی پھر سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کیساتھ تکیہ لگا کر کھڑے ہوئے اورا اللہ سے ڈرنے کا کہا اور اس کی فرمانبرداری کی ترغیب دی اور لوگوں کو سمجھایا اور نصیحت کی۔ پھر عورتوں کے پاس گئے اور ان کو سمجھایا اور فرمایا: ”خیرات کرو کہ اکثر تم میں سے جہنم کا ایندھن ہیں۔“ سو ایک عورت پچکے رخساروں والی ان کے بیچ سے کھڑی ہو گئی اور اس نے عرض کی کہ کیوں اے اللہ کے رسول؟! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس لئے کہ تم شکایت اور شوہر کی ناشکری بہت کرتی ہو ۔“ راوی کہتے ہیں یہ سن کر عورتیں اپنے زیوروں میں سے خیرات کرنے لگیں ا ور وہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑے میں اپنے کانوں کی بالیں اور ہاتھوں کے چھلے ڈالتی جاتی تھیں ۔ (صحیح مسلم حدیث نمبر (2048)
اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خواتین کے دین و دنیا میں کمی کی طرف متوجہ کرنے کا مقصد صرف یہ تھا کہ عورتیں جہاد جیسے مقدس فریضے کے لیے فراخ دلی سے صدقہ دیں۔ سیاق واضح ہوجانے کے بعد اب ہم مزید تفصیل کی طرف جاتے ہیں ۔
٭کیا عورتیں واقعی عقل میں کم ہیں ؟
اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں کہ مرد اور عورت عقل و جذبات کے حوالے سے ایک دوسرے سے کافی مختلف ہیں ۔ یہاں پہ عقل سے مراد نظریاتی ہے یا ہم اس کو مزید آسان کر دیتے ہیں ، مرد عورت سے تجزیہ و تحلیل ، فلسفیانہ استدلالات اور سیاسی و سماجی معاملات میں ذیادہ تیز ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ مرد ریاضیاتی اور خالص سائنسی معاملات میں عورت سے زیادہ بہتر نظر آتے ہیں اور اسی وجہ سے زیادہ تر سائنسی محقق اور نوبل انعام یافتہ مرد ہیں ۔ بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق جو بعد میں برٹش جرنل آف سائیکالوجی میں شائع ہوئی ‘سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد عورتوں کی بنسبت آئی کیو لیول کے حساب سے پانچ پوائنٹ آگے ہیں ۔دوسری طرف خواتین فطری طور پر جذباتی لحاظ سے ذیادہ اچھی اور مضبوط ہوتی ہیں اور اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جذبات انسان کے اعمال پر پوری طرح اثر انداز ہوتے ہیں۔ ایک ماں اپنے بچے کے جذبات کو باپ سے زیادہ سمجھ سکتی ہے مختصر یہ کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ ایک مرد I.Q. (Analytical and Logical intelligence) تجزیاتی اور منطقی لحاظ سے زیادہ ذہین ہوتا ہے جبکہ ایک عورت E.Q. (Emotional Intelligence) جذباتی لحاظ سے زیادہ ذہین ہوتی ہے اور مرد سے ذیادہ جذبات کی سمجھ رکھتی ہے۔ ایک تحقیق میں عورتوں نے ای کیو ٹیسٹ (ہمدردی ، ذاتی تعلقات اور سماجی ذمہ داریوں) میں مردوں کو پیچھے چھوڑ دیا ۔ 
 
٭عورتیں اور مرد برابر ہیں !
ہم دیکھتے ہیں بعض چیزوں کی مردوں میں کمی ہوتی ہے جس کو خواتین پورا کر دیتی ہے اور بعض چیزوں کی کمی عورتیں میں ہوتی ہے اس کو مرد پورا کر دیتے ہیں ۔ مردوں کو جذبات کے لیے یا جذباتی زندگی یا وابستگی کے لیے عورتوں کی ضرورت ہوتی ہے اور عورتوں کو عقلی معاملات میں مدد کے لیے مردوں کی ضرورت ہوتی ہیں لہذامرد و عورت ایک دوسرے کے بغیر نامکمل ہیں ۔ اس لیے حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ :ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: إن النساء شقائق الرجال :عورتیں مردوں ہی کی شقیقہ (ہم جنس ) ہیں۔(سنن أبو داود، )’شقیقہ’ کا مطلب ہے پیدائش اور فطرت میں یکساں ہونا ۔ لحاظہ تکریم آدمیت اور شرفِ انسانیت اور شرعی لحاظ سے مرد و عورت میں کوئی فرق نہیں ۔
ہم نے دیکھ لیا کہ حضورؐ نے جو فرمایا ہے وہ حقیقت ہے اور یہ بات ایک خاص موقع کی اہمیت کے لیے کہی گئی ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ ذہانت چاہے جذباتی ہو یا منطقی وہ مرد و عورت کی حیثیت کا اندازہ لگانے کا معیار نہیں بلکہ اس کا واحد معیار صداقت اور تقوی ہے جیسا کہ اللہ تعالی قران پاک میں فرماتے ہیں : اِنَّ اَكْرمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقَاكُمْ :بے شک زیادہ عزت والا تم میں سے اللہ کے نزدیک وہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہے،
واللہ اعلم
تحریر وقار اکبر چیمہ ، ترجمہ سید اکبر بخاری

  • عبدالمجید نتکانی
    November 30, 2021 at 1:58 pm

    خدا آپ کو جزائے خیر دے۔ آپ نے میرا برسوں سے لاینحل دماغ کو جھنجھوڑتا اعتراض مدلل اور جامع ایسا حل کر دیا ہے جیسے آٹے سے بال نکال لیتے ہیں۔ جزاک اللہ خیرا

  • عورتیں ناقص العقل’ اور ‘آدھی گواہی’ کا معاملہ’ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
    December 21, 2021 at 11:20 am

    […] حدیث:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحیٰ یا عیدالفطر میں عیدگاہ تشریف لے گئے۔ وہاں آپ عورتوں کے پاس سے گزرے اور فرمایا : اے عورتوں کی جماعت ! صدقہ کرو ، کیونکہ میں نے جہنم میں زیادہ تم ہی کو دیکھا ہے۔انہوں نے کہا : یا رسول اللہ ، ایسا کیوں ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا: تم لعن طعن بہت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو ، باوجود عقل اور دین میں ناقص ہونے کے ، میں نے تم سے زیادہ کسی کو بھی ایک عقلمند اور تجربہ کار آدمی کو دیوانہ بنا دینے والا نہیں دیکھا۔عورتوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ہمارے دین اور ہماری عقل میں نقصان کیا ہے ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : کیا عورت کی گواہی ، مرد کی گواہی سے نصف نہیں ہے؟ انہوں نے کہا : جی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کی عقل کا نقصان ہے۔ پھر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے پوچھا : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تو نہ نماز پڑھ سکتی ہے ، نہ روزہ رکھ سکتی ہے؟ عورتوں نے کہا : ایسا ہی ہے۔ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : یہی اس کے دین کا نقصان ہے. (صحيح بخاري ، كتاب الحیض ، باب : ترك الحائض الصوم ، حدیث : 305 ) اس حدیث کی بنیاد پر ایک قاعدۂ کلّیہ بنا لیا گیا ہے کہ اسلام کے مطابق عورتوں میں مردوں کے مقابلے میں عقل کی کمی ہوتی ہے اور ان کی فکری صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں، حالانکہ حدیث میں یہ بات نہیں کہی گئی۔یہ احتمال اسی حدیث میں آپ کے اس ارشاد سے بھی دور ہوجاتا ہے کہ ’’عورت ہوشیار مرد کی عقل کو گم کر دیتی ہے‘‘ اگر عورت کی اپنی عقل ناقص قرار د دی گئی ہوتی تو یہ نا کہا جاتا ہے کہ وہ ہوشیار مرد کی عقل کو بھی قابو کرلیتی ہے۔ اسی حدیث میں آگے یہ وضاحت موجود ہے کہ عورتوں کے ’ناقصات العقل و الدین‘ ہونے کا کیا مفہوم ہے؟ اس میں عورتوں کی دینی اور دنیاوی معاملات میں ان کی اصلی خلقت و فطری عوارض کی وجہ سے آنے والی کمی کی طرف اشارہ ہے یعنی ایام مخصوص میں نماز و روزہ کی ادائیگی میں دی گئی شرعی رعایت و رخصت اور گواہی دینے کے معاملات میں صنف نازک کو کم ذمہ داری سونپے جانا۔   ٭وضاحت: عورتوں کے اس سوال پر کہ ناقصات العقل کا کیا مطلب ہے؟ آپؐ نے ان سے دریافت فرمایا کہ کیا عورت کی گواہی مرد کی گواہی کا نصف نہیں ہے؟ آپؐ کا اشارہ اس ارشاد باری کی طرف تھا جس میں بعض صورتوں میں دو عورتوں کی گواہی کو ایک مرد کے برابر قرار دیا گیا ہے، اور اس کی یہ توجیہ بیان کی گئی ہے کہ اگر ایک عورت بھول جائے تو دوسری اسے یا دلا دے۔ (البقرۃ : 282 ) جدید سائنسی تحقیقات کے مطابق عورت اور مرد کی ذہانت میں کوئی خاص فرق نہیں اور جو بظاہر ہے وہ اس وجہ سے کہ ذہانت ماپنے کے جو معیارات ہیں ان میں سے کچھ میں خواتین کی کارکردگی بہتر پائی گئ ہے اور کچھ میں مرد حضرات کی۔ ذہانت کی بنیادوں میں سے ایک یادداشت/حافظہ بھی ہے اور اس کی بھی کئ جہتیں ہیں جن میں سے کچھ میں مرد آگے ہےتو باقی میں عورت۔ تحقیقات کے مطابق بصری حافظے میں مرد کو بہتر پایا گیا ہے اور سمعی حافظے میں عورت کو۔ شریعت نے بھی گواہی (بصری معاملے ) میں عورت کیساتھ ایک عورت یاددہانی کے لیے تجویز کی ہے۔!   ٭غلطی کا امکان کیسے ہے ؟ 1۔ فطری طور پر حیض، حمل، ولادت اور بچوں کی پرورش وغیرہ کے مسائل کیوجہ سے عورت پر نسیانی کیفیت طاری رہتی ہے ، یہ معاملات بسا اوقات باقی معاملات سے اس کی توجہ کو کم کردیتے ہیں اور اسکے دائرے سے باہر کی چیزیں بھول جاتی ہیں ، اسی لئے ایسے معاملات جو اسکے مزاج اور ذمہ داری کے نہیں ان میں اگر وہ اختیاری طور پر ذمہ دار ٹھہرا دی جائے تو شریعت یاد دہانی کے لیے ایک اور عورت کی شرط رکھتی ہے تاکہ ایسے معاملات میں اسے انوالو (گھسیٹا) ہی نا کیا جائے اور وہ غلط گواہی دینے کے گناہ سے بھی بچ سکے ۔ جو عورتوں سے مخصوص معاملات ہیں وہاں ایک ہی عورت کی گواہی ہزار مردوں پر بھاری ہے ، جیسے رضاعت (دودھ پلانے) کی معرفت اور نکاح کے عیوب وغیرہ جاننے کے مسائل ہیں۔ اسلام نے اس بات کو پسند نہیں کیاکہ عورت اپنے گھر کے کاروبار اور بچوں کو چھوڑکر عدالتوں کے چکر لگاتی پھرے اور دن دن بھر وہاں بیٹھ کر انتظار کرتی رہے۔ ۔ گواہی کی ضرورت کسی غیرمرد کے مقدمے میں بھی آسکتی ہے ایسی صورت میں عورت کو غیرمردوں کے ساتھ بھی سفر کرناپڑسکتا ہے۔اس مصلحت کے پیش نظر اسلام نے عورت کی گواہی کاانکار تو نہیں کیا مگر یہ قیدضرور لگادی کہ گواہی دینے کے لیے کوئی عورت غیرمردوں کے ساتھ کبھی بھی تنہا نہ جاسکے۔ اس طرح ایک بہ جائے دو عورتیں ایک ساتھ رہ سکیں تاکہ ان کی عصمت و عفت پر نہ تو کوئی حرف آسکے اور نہ وہ مشکوک ہوسکیں۔ ایسے سارے حالات کو سامنے رکھ کر اسلام نے عورت کی گواہی کونصف قرار دے کر اس پر احسان کیاہے تاکہ وہ تنہا رہنے کے ممکنہ خطرات سے محفوظ رہ سکے اور ایک گواہی کے لیے دوعورتوں کی زیرباری کی وجہ سے لوگ انکو گواہی کے لیے ترجیح نہ دیں۔   2۔ عورت کی فطرت میں جذبات کا غلبہ ہوتا ہے۔ وہ اپنے فطری جذبات سے مغلوب ہو کر اشیاء کے بارے میں فیصلہ کرتی ہے۔ اس کے جذبات بسا اوقات اس کی عقل پر بھی غالب آجاتے ہیں۔ موجودہ دور کے ایک محقق شیخ محمد علی صابونیؒ نے لکھا ہے: ’’مرد کی عقل اس کے جذبات پر غالب رہتی ہے، جب کہ عورت کے جذبات اس کے عقل پر غالب رہتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے۔ اگر عورتوں میں جذبات کی فراوانی نہ ہوتی تو بچوں کی پرورش صحیح طریقے سے نہ ہو پاتی۔ تربیتِ اطفال کے لیے قوی جذبات مطلوب ہیں نہ کہ عقلی فلسفہ‘‘۔(محمد علی الصابونی، من کنو ز السنۃ : ۱۹۷۰م،ص ۱۵۴) اللہ تعالی نے عورتوں میں جذبات کا پہلو غالب رکھا ھے بانسبت مردوں کے اور یہ عورتوں کے حق میں عیب نہیں بلکہ ایک لحاظ سے خوبی ھے ۔اگر عورت میں جذبات کا پہلو غالب نہ ھوتا تو وہ بچے کے رونے پر تڑپتی نہ۔باپ تو کڑوٹ لے کر سو جاتا ھے ماں ساری رات جاگتی ھے ۔یہی اگر نہ ھوتا تو نہ اولاد کی صحیح پرورش ھوتی نہ شوھر کو سکون ملتا ۔ مذکورہ حدیث میں اسی بنیاد پر ان پر حیرت کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ وہ بڑے سے بڑے عقلمند آدمی کی عقل کو بھی گم کردیتی ہیں ، وہ اپنے جذبات کا اظھار کر کے مرد کو اپنا دیوانہ بنادیتی ہے یا اس کو اتنا طیش میں لے آتی ھیں کہ وہ سوچتا ھی نہیں اور عورت کی خاطر لڑ نے ، مرنے کو تیار ہوجاتا ہے ۔ عورت کی اس فطرت کو تقسیم نہیں کیاجاسکتا کہ ایک معاملے میں اس کی فطرت کچھ ہو اور دوسرے میں کچھ۔ کیوں کہ عورت کی شخصیت ایک ہی ہے اور انفعالیت، جذباتیت اس کی فطرت اور طبیعت ہے۔ چنانچہ یہ جذباتی پن اولاد اور دیگر امور انجام دینے کے لئے جہاں ان کی خوبی ھے وہیں بعض جگہوں پر یہی اس کی کمزوری بھی بن جاتا ہے ۔ خواتین جب جذبات میں آتی ہیں تو معاملے کے انجام پر غور نہیں کرتی ،فورا فیصلہ کر لیتی ھیں اور بعدمیں جب جذبات ٹھنڈے ھوتے ھیں تو افسوس کرتی ھیں، اسی کو حدیث میں نقص ( کم) عقلی کہا گیا ہے ۔گواہی دینے کے لیے چونکہ انفعالیت سے پوری طرح پاک ہونے او رکسی تأثر اور جذباتیت کے بغیر واقعات سے واقف ہونے کی ضرورت ہوتی ہےاسی لیے اسکی گواہی میں ایک اور عورت کو بھی شامل کرلیا گیا ہے تاکہ کسی ذاتی جذبے کے زیر اثر فیصلے کا امکان نا رہے ۔ یہ تعلیم احتیاط کی بنیاد پر ہے تحقیر کی بنیاد پر نہیں ہے۔کسی بھی ذمہ داری کی ادائیگی میں سہولت اور نرمی رحمتِ خداوندی ہوتی ہے۔   3۔نقص عقل سے مراد معروف’ کم عقلی ‘ہے :اردو میں “نقص” کا مطلب “عیب” ہے، جبکہ عربی میں اسکا مطلب “کمی” ہے ۔ حدیث کے جملوں سے بھی ظاہر ہے کہ اس سے اردو والا نقص مراد نہیں لیا جاسکتا جس کا مطلب عقل میں خرابی ہے۔ حدیث میں کمیت مراد ہے نہ کہ کیفیت چنانچہ یہی لفظ نقص اسی حدیث میں انکے دین کے لیے بھی استعمال ہوا ہے ظاہر ہے حیض و نفاس کیوجہ سے انکا دین ناقص نہیں ہورہا بلکہ انکی عبادت کی کمیت ، مقدار میں کمی آرہی ہے۔ ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عورتیں خواتین خراب یا ناقص دین والی ہوتی ہیں ۔ ناقص کے وہی معنی مراد لیے جاسکتے ہیں جو اس حدیث کے پس منظر میں نبی پاک ؐ کا منشاء ہیں ۔ آپ ؐ یہ دینی رعایتں جتلا کے عورتوں کو جہاد کے لیے صدقہ دینے کی ترغیب دے رہے تھے ۔ ورنہ احادیث میں ہی ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن سے عورت کے علمی و فکری تفوق کا اظہار ہوتا ہے اور اسلام میں اس کے عظیم مقام و مرتبے کا ثبوت ملتا ہے۔ بے شمار لوگوں نے خواتین کے علم و فضل، فقاہت و ذہانت سے استفادہ کیا ہے اور وہ اپنی وسعت علمی اور اعلیٰ صلاحیت کی وجہ سے مردوں سے فائق رہی ہیں۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کا شمار اکابر فقہاء صحابہ میں ہوتا ہے، فقاہت اور اجتھاد میں بے شمار مرد صحابہ کرام پر فائق تھیں ، اکثر صحابہ کرام فقہی مسائل کی تفہیم و توضیح کے لیے آپ سے رجوع کرتے تھے۔   خلاصہ یہ کہ حدیث میں ناقصات العقل کا مطلب وہ نہیں جو ہمارے ہاں عام سمجھا جاتا ہے۔اسلام کے نزدیک اگر عورت کی عقل واقعتاً ساقط الاعتبار ہوتی تو عورتوں کے مخصوص معاملات جیسے حیض، حمل، رضاعت، نو مولود کے رونے اور ہر وہ امر جس پر مرد حضرات مطلع نہیں ہوتے ان میں ایک عورت کی گواہی پر فیصلہ کا مدار نہ رکھا جاتا۔ دین اسلام میں دنیوی معاملات میں مرد اور نسوانی معاملات میں خواتین کی گواہی کا جو اعتبار ہے وہ عین حکمت و فطرت اور اسلامی فلسفہ زندگی کے مطابق ہے۔ اسکو سیکولر طرز معاشرت میں دیکھنا اشکال پیدا کرتا ہے، ظاہر ہے یہ احکام اس معاشرے کے لیے نازل ہی نہیں ہوئے جہاں عورت اپنی فطری ذمہ داریوں کیساتھ یا انکو چھوڑ کے مردانہ ذمہ داریاں بھی اپنے سر لیے ہوئے ہے۔ استفادہ تحریر: رضی الاسلام ندوی، رضوان احمد خان، عمران عالم فلاحی مزید وضاحت کیلئے دیکھیے تحریر […]

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password