موجودہ تہذیب آزادی کے نام پر یہ جھانسہ دیتی ھے کہ فرد یہاں ”جو” چاھنا چاھے چاھنے اور اسے حاصل کرسکنے کیلئے آزاد ھے”۔
مگر فی الحقیقت یہ ایک لغو دعوی ھے، عملا اس نظام میں فرد صرف وہی چاہ سکتا اور چاھتا ھے جس کے نتیجے میں سرمائے میں اضافہ ھو کیونکہ آزادی کا مطلب ہی سرمائے میں اضافہ ھے، اسکا دوسرا کوئی مطلب نہیں۔ موجودہ نظم میں خواھشات کی ہر وہ ترتیب جو فرد کو حصول سرمایہ (accumulation of capital) کا مکلف نہ بنائے لغو، غیرعقلی اور بے معنی بن کر رہ جاتی ھے۔
درحقیقت موجودہ اجتماعی نظم جس شے کی بنیاد پر فرد کی صلاحیتوں کی قدر کا تعین کرتا ھے وہ ‘ability to contribute in accumulation of capital’ (بڑھوتری سرمائے میں اضافے کی صلاحیت) ھے، اسی طرح اس نظام میں فرد کی یہ صلاحیت کہ وہ کتنی خواھشات کی تسکین کرسکتا ھے اس کا تعین اسکی ability to buy (قوت خرید) کے پیمانے سے ھوتا ھے، پس اس نظم اجتماعی میں فرد اپنی ذاتی زندگی میں وہی اخلاقی پیمانے اور خواھشات کی وہی ترجیح قائم کرنے پر مجبور ھے جس کے نتیجے میں اسکی ability to buy میں اضافہ ھو جسکے لئے اپنی ability to contribute in accumulation of capital میں اضافہ کرنا لازم ھے۔ چنانچہ یہ کوئی سازش یا حادثہ نہیں کہ موجودہ نظم اجتماعی میں غالب ترین اکثریت اپنی ”ذاتی زندگی” میں انہی ”اجتماعی اقداری پیمانوں” کو قبول کئے ھوئے ہیں اور اپنی آنے والی نسلوں کو بھی انہی کے مطابق تیار کررھی ھے۔ یہ اجتماعی نظم کا ذاتی ذندگی پر جبر اور حفاظت کا نتیجہ ھے۔
آخر ہر فرد ایسا کیوں کررہا ھے؟ اس لئے کہ فرد اپنی ذاتی زندگی میں انہی پیمانوں کو اپناتا اور فروغ دیتا ھے جسکے نتیجے میں وہ اجتماعی زندگی میں کامیاب ھوسکے۔ جس ذاتی زندگی کا اجتماعی زندگی سے لینا دینا نہ ھو وہ آہستہ آہستہ خود بخود لغو معلوم ھونے لگتی ھے۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ مذہبی پیمانوں کو اجتماعی زندگی کا حصہ بنے بغیر ذاتی زندگی تک محدود رھنا چاھئے انکا اصل مطمع نظر مذھب کو انسانی زندگی سے کلیتا بے دخل کرنا ھوتا ھے۔ ذاتی زندگی کے جس اظہار کو اجتماعی زندگی کی حفاظت میسر نہ ھو وہ مسلسل خطرے سے دوچار رہتی ھے اور بالآخر مدھم ھوتے ھوتے اپنی موت آپ ہی مرجاتی ھے، مغرب میں فرد کی انفرادی زندگی میں مذھب کی شکست و ریخت اور بے دخلی اور مسلم دنیا میں ھر لحظہ دم توڑتی اور کشمکش کا شکار مذہبی انفرادیت اسی سچائی کی تاریخ ھے۔
جو مسلم مفکرین (مثلا وحیدالدین خان ٹائپ) غلبہ دین کی جدوجہد کے قائل نہیں وہ سیکولروں کے اسی دھوکے کا شکار ہیں، ایسے لوگ ذاتی اور اجتماعی زندگی کے بنیادی تعلق کو سمجھنے سے قاصر رھے۔
سیکولرازم کا معنی – مسئلہ آخرت بےکار سوال ہے۔!
سیکولرازم کا تقاضا یہ مان لینا بھی ہے کہ معاشرتی و ریاستی صف بندی میں یہ سوال کہ ‘ افراد اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یا جہنم میں ‘ ایک لایعنی و مہمل سوال ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ بات کہ آیا ‘ افراد کو معاشرے میں ذیادہ نیکیاں اور کم گناہ کمانے کے مواقع میسر ہیں’ ایک بے کار سوال ہے۔ کیونکہ جونہی’ نیکی اور بدی کے مواقع’ کا سوال اٹھایا جائے مذہب فورا ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی میدان میں آجائے گا۔
اسلامی نکتہ نگاہ سے معاشرتی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع ذیادہ فراہم ہیں یا جہنم میں ( ترغیب منکر کی ہے یا معروف کی؟)۔ مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ مرنے کے بعد جنت و جہنم میں جانا بے کارو بے معنی معاملات ہیں’ جبکہ اسلام سب سے اہم اور پہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائیگا۔ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں بلکہ دنیا میں جہاں بھی سیکولر جمہوری اقدار( آزادی اور مساوات) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کا ر ہوتا چلا گیا۔ درحقیقت افراد کی نجی زندگی میں وہی اقدار پنپتی ہیں جو اجتماعی زندگی میں قابل قدر سمجھی جارہی ہوتی ہیں !!۔ جن ذاتی اقدار کا اجتماعی زندگی میں کامیابی و ناکامی سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو آخر فرد کیونکر انہیں اختیار کرتا چلا جائے گا؟
چنانچہ یہی وجہ ہے کہ آج ہمارا اجتماعی نظام فرد کو علم دین کے حصول کے کسی درجے میں بھی مجبور نہیں کررہا تو دینی علوم کا حصول افرا کی نجی زندگیوں میں غیر متعلقہ ہوتا جارہا ہے مگر سائنسی علوم ہر کسی کا مطمع نظر بنتا جارہا ہے کیونکہ جدید اجتماعی زندگی اسی علم کے ارد گرد تعمیر کی گئی ہے۔
زاہد مغل