1. کون سا اِسلام جناب، کیونکہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے، لٰہذا جب تک یہ اختلاف ختم نہیں ہوجاتے،اسلام کو اجتماعی نظم سے باہر رکھو۔
2. ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں،مگر ہم لڑتے تو نہیں نا، مولوی تو لڑتے ہیں،ایک دوسرے کو کافر وگمراہ کہتے ہیں۔
3. عقل پر مبنی نظام مذہب کی طرح ڈاگمیٹک نہیں ہوتا۔
4. عقلی نظام تبدیل ہوسکتا ہے،لٰہذا یہ اختلافات رفع کا بہتر فریم ورک فراہم کرتاہے۔
5. سیکولر ریاست خیر کے معاملے میں غیر جانبدار ہوتی ہے۔
6. چونکہ سیکولر ریاست کا کوئی اخلاقی ایجنڈا نہیں ہوتا، لٰہذا یہ کسی تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی۔
7. سیکولر ریاست تمام مذاہب کا فروغ ممکن بناتی ہے۔
8. سیکولر ریاست مذہبی اختلافات کا خاتمہ کرکے پُر امن بقائے باہمی ممکن بناتی ہے۔
9. سیکولر ریاست فرد کی پرائیویٹ لائف میں مداخلت نہیں کرتی۔
10. سیکولرازم ۔۔۔۔ لادینی نہیں کثیر مذھبی نظام ہے۔
یہ اور اسی قبیل کے چند مزید نکات ہمارے دیسی سیکولر حضرات مذہبی طبقے کے خلاف بطور”علمی دلیل” پیش کرکے رعب جماتے ہیں۔ درحقیقت سیکولرازم کےبارے میں اس قسم کے دعوے یا تو سیکولرازم سے جہالت کا غماز ہوتے ہیں اور یا پھر جانتے بوجھتے کذب بیانی۔ پہلی صورت میں ان کی حیثیت علمی دلائل نہیں ،بلکہ “مغالطہ انگیزیوں “کی ہے۔جب کہ دوسری صورت میں فریب کاری کی۔ البتہ ہمارے یہاں کے دیسی سیکولر لوگوں کی علمی کم مائیگی کوسامنے رکھتے ہوئے انہیں مغالطہ انگیزیوں پر محمول کرنا قرین قیاس ہے کیونکہ یہ تو “مقلدین محض” ہیں، ان بے چاروں کو تو اتنی بھی خبر نہیں کہ سیکولرازم کی بڑائی ثابت کرنے والے جن دعووں پر یہ تکیہ کیے بیٹھے ہیں آج خود مغربی اہل علم کے ہاں ان کی کوئی مسلمہ علمی و عقلی توجیہ باقی نہیں رہی۔ اس سلسلہ مضمون میں ہم چند ایسی ہی غلط العام مغالطہ انگیزیوں کا مختصر جائزہ پیش کریں گے۔ دھیان رہے ان میں سے اکثر و بیشتر عذر ایسے ہیں جو ہمارے دیسی سیکولر لوگ مذہب کو اجتماعی زندگی سے برطرف کرنے کےلیے استعمال کرتے ہیں، مگر ہم یہ دکھائیں گے کہ وہ تمام عذر جو یہ لوگ مذہب سے برات کےلیے استعمال کرتے ہیں خود ان کے اپنے تراشیدہ عقلی نظریات میں بدرجہ اتم بلکہ زیادہ بھیانک صورت میں موجود ہیں، لٰہذا دیانت کا تقاضا تو یہ ہے کہ یہ لوگ فوراً سے قبل اپنے ان تراشیدہ نظریات سے بھی توبہ کرلیں۔ وماتوفیقی الا باللہ۔ محمد زاہد صدیق مغل,اسٹنٹ پروفیسر،نسٹ سکول آف سوشل سائنسز،شعبہ اکنامکس۔
****************************
٭کون سا اسلام جناب؟
ایک زمانہ تھا جب دنیا میں لبرل طبقے تخلیقی صلاحیتوں کا مظہر سمجھے جاتے تھے، مگر نجانے ہمارے یہاں کے لبرل طبقے فکری طور پر اسقدر بانجھ کیوں ہوگئے ہیں کہ آج تک ہر اسلامی شق ، اصلاح یا ترمیم کے خلاف پچاس سال پرانی ایک ہی دلیل پر تکیہ کیے بیٹھے ہیں: ” کون سا اسلام جناب” کیوں کہ مولویوں کا اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف ہے لٰہذا جب تک یہ اختلافات ختم نہیں ہوجاتے اسلام کو ایک طرف کرو اور اجتماعی نظام عقل کی روشنی میں طے کیاجائے گا نہ کہ مذہب کی”۔ مگر یہ لوگ غور نہیں کرتے کہ اسلامی احکامات کی تشریح میں اختلاف کوئی ایسی شے نہیں جس کا ظہور آج پہلی دفعہ ہوگیا ہے،یہ تو قرون الیٰ سے لے کر آج تک چلتا رہا ہے۔ تو اگر ان تمام تر اختلافات کے باوجود مسلمان تیرہ سوسال تک حکومتیں چلاتے رہے ہیں تو آج یہ یکایک کیوں ناممکن نظر آنے لگا ہے؟ ان داعیان عقل و فکر کا مفروضہ یہ ہے کہ جس امر اور اصول میں اختلاف ہو اجتماعی زندگی میں ناصرف یہ کہ وہ قابل عمل نہیں بلکہ اس سے باہر رکھنا بھی ضروری ہے، جب تک کہ متعلقہ ماہرین علم کا اس پر اجماع نہ ہوجائے۔ درحقیقت یہ علمی دلیل نہیں بلکہ دین پر عمل نہ کرنے کا بہانہ ہے کیونکہ اگر یہ اصول زندگی کے ہر پہلو اور شعبے پر لاگو کردیا جائے تو یقین مانئے زندگی کا وجود صفحہ ہستی سے ہمیشہ کےلیے مٹ جائے گا۔ مثلاً اسی منطق کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ :
1. چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ زری ومالیاتی پالیسی کس طرح بنائی جانی چاہیے،لٰہذا اسٹیٹ بینک ،پلاننگ کمیشن ، ایف بی آر اور فنانس منسٹری وغیرہ کو اس وقت تک تالا لگادیاجائے جب تک تمام ماہرین معاشیات کااجماع نہ ہوجائے۔
2. چونکہ ماہرین معاشیات کا غربت کی تعریف، اس کے اسباب و وجوہات اور اس کا سدباب کرنے کے طریقوں کے بارے میں اختلاف ہے ،لٰہذا ساری دنیا میں غربت مٹانے والے پروگرام فی الفور بند کردیئے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے۔
3.چونکہ ماہرین معاشیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ملکیت کا کون سا نظام (نجی یا پبلک) اجتماعی ترقی کا ضامن ہے لٰہذا دنیا میں ملکیتوں کے تمام نظام معطل کردیے جائیں جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے۔
4. چونکہ ماہرین طب (ایلوپیتھ،ہومیوپیتھ،حکمت) کا بیماریوں کی تشخیص اور ان کے علاج کے درست طریقہ کار کے بارے میں اختلاف ہے،لٰہذا تمام ماہرین طب کو فی الفور علاج سے روک دیا جائےجب تک کہ اس پر اجماع نہ ہوجائے۔
5. چونکہ ماہرین سیاسیات کا اس امر میں اختلاف ہے کہ ریاست کی تعمیروتشکیل کے لیے کون سا نظام ریاست(آمریت،جمہوریت، اور اگر جمہوریت تو اس کی کون سی شکل) درست ہے لٰہذا دنیا میں ریاست کاری کے عمل کو اس وقت تک معطل رکھا جائے جب تک کہ اجماع نہ ہوجائے۔
6. چونکہ ماہرین قانون کا آئین کی بہت سی بنیادی شقوں کی تشریح میں اختلاف ہے،لٰہذا آئین کو ایک طرف کردیاجائے۔
یہ لِسٹ درحقیقت نہ ختم ہونے والی کڑی ہے۔ ذرا تصور کیجئے یہ تمام امور کس قدر اہم شعبہ جات زندگی سے متعلق ہیں۔ انسانی زندگی و صحت کی قدر وقیمت سے کون انکاری ہوسکتا ہے اور ان اطباء کی آئے دن کی فاش علمی غلطیوں سے لوگ اپنی زندگی و مال و دولت سے محروم ہورہے ہیں، اسی طرح غربت کا خاتمہ ، نظام ملکیت کی بنیاد،ریاستی زری و مالیاتی پالیسی کاانتظام و انصرام اور سب سے بڑھ کر خود نظم ریاست کی بنیاد میں کون سا امر غیرضروری ہے؟ اب سوچئے کہ اگر ان شعبہ جات وعلوم کے یہ “بنیادی اختلافات” ہمیں دنیا بھر میں ان کی معاشرتی وریاستی ادارتی صف بندی (institutionalization) سے نہیں روک رہے تو دینی طبقے کے اختلافات کیوں ہمیں اس عمل سے روکتے ہیں؟ اصل بات نیت کی ہے اور سچ ہے کہ جب ایک عمل کرنے کےلیے انسان کی نیت نہ ہوتو اسے بہانہ بھی دلیل نظر آتا ہے۔
٭مولوی تو لڑتے ہیں، ہم نہیں لڑتے
اس مقام پر سیکولر لوگ تمام مذاہب (یاتمام مذہبی گروہوں) کو “ایک گروہ” بناکر پینترا بدل کر بڑی چالاکی سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ “ٹھیک ہے اختلافات ہمارے درمیان بھی ہیں مگر ہم تم لوگوں کی طرح ایک دوسرے کو کافر نہیں کہتے اور نہ ہی لڑتے ہیں”۔ گویا یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ عقلی نظام ہائے زندگی کے اختلافات کے نتیجے میں اس طرح جنگ وجدل کی کیفیت برپا نہیں ہوتی جس طرح مذہبی اختلافات سے پیدا ہوتی ہے۔ اگر امر واقعی ایسا ہی ہے تو ہم پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ جب سب عقل پرست(درحقیقت مذہب مخالفین) “فروغِ آزادی کا ہی نعرہ لگاتے ہیں” (جس طرح اہل مذہب فروغِ عبدیت کا نعرہ لگاتے ہیں) تو یہ نہ صرف آپس میں بلکہ دوسروں سے بھی جنگ وجدل کی کیفیت میں کیوں مبتلا رہے ہیں اور آج بھی یہ سلسلہ تھمنے کا نام کیوں نہیں لے رہا؟ مثلاً
لبرلز نے فرقہ مارکسزم کے بانی مارکس کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟
انہی لبرلز نے نطشے کویہودی اور پاگل کیوں کہاتھا( جب اس نے ان کی یہ پول کھولی تھی کہ تم عقل کےنام پر نئی قسم کی امپیرئیل ازم کو فروغ دے رہے ہو)؟
لینن اور ماؤ نے روس اور چائنہ میں لبرلز اور قوم پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا؟
جرمنی کےنسل پرستوں نے ان دونوں کے ساتھ کیاسلوک کیاتھا؟
پھر ان دونوں نے نسل پرستوں کے ساتھ کیا سلوک کیاتھا؟
آج تک ان آپسی جنگوں میں جو کروڑوں انسان قتل کردیے گئے، ان نظریات کے فروغ کےلیے جن قوموں کی نسل کشی کردی گئی(مثلاً ریڈانڈین اور ابورجینز) وہ کس کھاتے میں گئے؟
آج بھی یہ تمام فرقے ایک دوسرے کےساتھ کیا معاملہ کررہے ہیں؟
کیا یہ سب ایک دوسرے کو “اپنا بھائی” سمجھ کر ایک دوسرے کی خیرخواہی کےلیے کوشاں ہیں؟
تو پھر یہ کس منہ سے یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ “ہم نہ تو آپس میں کسی کو کافر کہتے ہیں اور نہ ہی لڑتے ہیں” نیز “مذہب کی تاریخ خونی تاریخ ہے”؟
پھر کوئی ان سے پوچھے کہ اچھا یہ تو بتاؤ کہ “آزادی’ ‘ کا جونعرہ تم بلند کررہے ہو کیا اس کے فروغ کا کوئی ‘ایک اجماعی طریقہ’ ہے تمھارے پاس؟ چنانچہ معاملہ یہ ہے کہ جب ان سے یہ پوچھا جائے کہ’ آزادی کیسے حاصل ہوتی ہے’ ،تو اس امر میں ہر کسی کا’اپنا اپنافرقہ’ہے۔ مثلاً انارکزم، لبرٹیرنزم،لبرلزم، ڈیموکریٹک سوشل ازم،کمیونزم، نیشنل ازم،نسل پرستی، فیمینزم،پوسٹ ماڈرنزم وغیرہم ہر ایک کی فروغ آزادی کی اپنی ایک تشریح ہے اور ان میں یہ طے کرنے کاکوئی اصول موجود نہیں کہ ‘آزادی کی درست تشریح’ کون سی ہے۔ تو جب ان لوگوں میں اس امر میں کوئی اجماع ہی نہیں (اور نہ ہی ہوسکتا ہے)کہ’ آزادی کس طرح حاصل ہوتی ہے’ اور جب حصول آزادی کا درست طریقہ ہی ان کےدرمیان نزاعی امر ہے تو کس بنیاد پر یہ لوگ ریاست کو کسی ‘ایک طریقے’ کا پابند بنانے کی بات کرتےہیں؟ اگر مذہبی اختلافات ریاست کو کسی ایک طریقے کا پابند بنانے میں مانع ہیں تو یہ اختلافات کیوں نہیں؟ (یہاں علم معاشیات وسیاسیات کی درج بالا مثالیں پھر عود آتی ہیں کہ ان سب کا مقصد بھی فروغ آزادی ہی ہے۔)
اس مقام پر سیکولر لوگ بڑی ہوشیاری سے اہل مذہب کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ’ہم ہر ملک کی عوام کو حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے لیے جو بھی طرز حکومت اختیار کرنا چاہیں کرلیں’۔ لیکن اگر یہ بات واقعی درست ہےتو پھر یہ سب آج تک ایک دوسرے کی ریاستوں میں نقب زنی کیوں کرتے چلے آرہے ہیں؟ کبھی کمیونزم کے توسیع پسندانہ عزائم کے ساتھ تو کبھی ہیومن رائٹس و جمہوریت کے دفاع کےنام پرتم لوگ دنیا بھر میں استعمارانہ دھماچوکڑی کیو ں مچارکھتے ہو؟ آخر پوری دنیا کی معیشت و ذرائع پر گرفت مضبوط رکھنے کےلیے عالمی نگران ایجنسیوں کا دائرہ کیوں بڑھاتےجارہے ہو؟ گلوبلائزیشن کے نام پر قومی ریاستوں کو کمزور کرنے کا سلسلہ کیوں چلارکھا ہے تم نے؟
Muhammad Nasir Abbas
March 10, 2018 at 2:56 amAdd me