گزشتہ بحث کےبعد یہ غلط فہمی خودبخود صاف ہوجانی چاہیئے کیونکہ اپنے دائرہ عمل میں سیکولر ریاست صرف انہی تصورات خیر اور حقوق کو برداشت کرتی ہے جو اسکے اپنے تصور خیر (ہیومن رائٹس،یعنی ہیومن کی آزادی) سے متصادم نہ ہوں، اور ایسے تصورات خیر جو ہیومن رائٹس سے متصادم ہوں انکی بذریعہ قوت بیخ کنی (suppress) کردیتی ہے۔ ان حقائق کوچند آسان مثالوں سے سمجھا جاسکتاہے۔ فرض کریں ہندو اپنی مذہبی روایات کی بنیاد پر ‘ستی کرنے’ یامعاشرے کو اپنے مخصوص ‘ذات پات کے نظم’ پر تشکیل دینا چاہتے ہیں، سوال یہ ہے کہ سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت دے گی؟ ہرگز نہیں، کیوں؟ اسی لئے نا کہ ‘ ہیومن رائٹس قانون انہیں ان اعمال کی اجازت نہیں دیتا کہ یہ اعمال وترجیحات بنیادی انسانی حقوق کے فلسفے سے متصادم ہیں’ ۔ تو سیکولر ریاست ان اعمال کی اجازت نہ دے کر بلکہ بذریعہ جبر،قوت وقانون انہیں بند کرکے ہندو تصور خیر کی بیخ کنی نہیں کرتی؟ اتنا ہی نہیں ذات پات کے نظام کی تشکیل منہدم کرکے سیکولر ریاست ہندو انفرادیت کے فروغ کا راستہ بند کردیتی ہے اور اس طرح ہندو انفرادیت کی بھی بیخ کنی کردیتی ہے کیونکہ ہندوؤں کے خیال میں ذات پات کے معاشرتی نظم کے بغیر وہ انفرادیت جو انکے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ ہے کبھی دریافت نہیں کی جاسکتی۔ دوسرے لفظوں میں سیکولر ریاست ہیومن رائٹس کےنام پر ہندو رسوم ہی نہیں بلکہ ہندوعقائد کو مہمل بناکر انکی بھی بیخ کنی کرڈالتی ہے۔ اسی طرح فرض کریں ایک مسلمان لڑکی کسی کافر سے شادی کرنا چاہتی یا مسلمان لڑکا بدکاری کرنا یاکسی لڑکے کےساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، ظاہر ہے اس معاملے میں اسلامی معاشرہ و ریاست ہرگز اس کی اجازت نہیں دے گی، مگر چونکہ ہیومن رائٹس قانون ان افعال کو ہیومن کا حق قرار دیتا ہےلہٰذا اس ریاست میں افراد کو انکی قانونی اجازت اور ریاستی سرپرستی حاصل ہوگی۔ اگر مسلمان اجتماعیت اس لڑکی اور لڑکے پر اپنا تصور خیر مسلط کرنے کی کوشش کرے گی تو لبرل ریاست ان کے خلاف کاروائی کرکے ان کی سرکوبی کردے گی۔ اب دیکھئے مسلمان چاہتے ہیں کہ ان کے معاشرتی نظم بقاء جس اجتماعی ڈھانچے میں مضمر ہے اسے تحفظ فراہم کیا جائے مگر سیکولر ریاست عین اسکے برعکس قانون بناتی ہے۔ کیا اسکے نتیجے میں اسلامی معاشرت اور نتیجتاً اسلامی انفرادیت انتشار اور تحلیل کا شکار نہیں ہوجائے گی؟
یہاں بنیادی بات یہ سمجھنے کی ہے کہ ہیومن رائٹس ‘ ہیومن (خود کو قائم بالذات سمجھنے والی یعنی خدا کی باغی انفرادیت) کے حقوق’
rights of human کا تحفظ کرتے ہیں نہ کہ ‘مسلم(ہندو یا عیسائی) انفرادیت کے حقوق’ rights of MUSLIM ۔دیکھئے مسلم مرد کی مرد سےشادی ‘ہومن کا حق’ تو ہے مگر ‘مسلمان کا حق نہیں’، سوال یہ ہے کہ جب ان دو قسم کی انفرادیتوں کے حقوق میں مخاصمت ہوگی تو کیا سیکولر ریاست کسی ایک کو دوسرے پر ترجیح دیتی ہے یا نہیں؟ نیز کس کو کس پر ترجیح دیتی ہے؟ درحقیقت اسی سوال کے جواب میں سیکولر ریاست کی ‘جانبداریت’ کی ساری واردات چھپی ہوئی ہے۔ تو جب یہ ریاست ‘ ہیومن رائٹس’ (ایک مخصوص تصور انفرادیت و خیر) کو دیگر تصورات خیر پر فوقیت دیتی ہے نیز اسی پیمانے پر انہیں جانچتی ہے توکیا یہ بذات خود ایک مخصوص تصور خیر کی طرف جانبداریت کا رویہ نہیں؟ پس خوب یاد رہے کہ اپنے مخصوص خیر کے معاملے میں لبرل جمہوری ریاست بھی انتہائی راسخ العقیدہ (Dogmatic) اور intolerant ہوتی ہے۔ اور اپنے اس مخصوص تصور خیر سے متصادم کسی نظریئے کی بالادستی کو روانہیں رکھتی۔ چنانچہ مشہور لبرل مفکر رالز (Rawls) کہتا ہے کہ مذہبی آزادی کو لبرلزم کے لئے خطرہ بننے کی اجازت نہیں دی جاسکتی، وہ مذہبی نظریات جو لبرل آزادیوں کا انکار کریں ان کو عملاً کچل دینا اتنا ہی ضروری ہے جتنا کسی وبا کو ختم کرنا ضروری ہوتاہے۔ اسی بنیاد پر ہیومن رائٹس کی چمپئن یورپی اقوام نے کروڑوں ریڈانڈین اور دیگر اقوام کا قتل عام روا رکھا( جان لاک اور جیفر سن کے الفاظ میں ریڈانڈین بھینسے اور بھیڑیئے ہیں) اور آج بھی مجاہدین کو قتل کیاجارہاہے۔
٭سیکولر ریاست تمام تصورات خیر کے فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے
اب تک کی بحث کےبعد اس نکتے پر زیادہ تفصیلی گفتگو کی ضرورت تو نہیں البتہ چند ایک مزید پہلووں سے بھی اس دعوے کا جائزہ لیاجاسکتاہے۔ اصولی بات یہ ہے کہ افراد کی ذاتی زندگیوں میں وہی اقدار ،کیفیات ، صلاحیتیں و اعمال پھلتے پھولتے ہیں جن کے اظہار کے اجتماعی زندگی میں مواقع موجود ہوں، جنہیں اجتماعی زندگی میں قدر کی نگاہ سےدیکھا جاتا ہو، نیز جن کے حصول وعدم حصول پر اجتماعی زندگی میں کامیابی وناکامی کاانحصار ہو۔ ایسی اقدار جو اجتماعی زندگی کے میں لا یعنی ومہمل تصور کی جاتی ہوں یہ سمجھنا کہ لوگوں کی انفرادی زندگی میں پھلتی پھولتی رہیں گی ایک غیر عقلی بات ہے۔ جس ذاتی زندگی کا اجتماعی زندگی کےساتھ کوئی تعلق نہ ہو آہستہ آہستہ مہمل بن کر اپنی موت آپ ہی مرجایاکرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب ہمارا اجتماعی سیکولر نظام فرد کو علم دین کے حصول کیلئے کسی درجے میں بھی مجبور نہیں کررہا تو دینی علوم کا حصول افراد کی نجی زندگیوں میں غیر متعلقہ ہوتاجارہاہے مگر سائنسی علوم ہر کسی کا مطمع نظر بن رہاہے جسکی وجہ یہ ہے کہ جدید اجتماعی زندگی اسی علم کے اردگرد تعمیر کی گئی ہے۔
اب ذاتی اور اجتماعی زندگی کے اس باہمی تعلق کو سامنے رکھ کر اس بات پر غور کریں کہ سیکولر ڈسکورس کا ایک اہم تقاضا آخرت کی اقداری حیثیت کا انکار کردینا بلکہ اسے لا یعنی ومہمل قرار دینا بھی ہے۔ چنانچہ سیکولر ڈسکورس کہتاہے کہ معاشرتی و ریاستی صف بندی میں یہ سوال کہ’ افراد اس معاشرے میں زندگی بسر کرنے کے بعد جنت میں جائیں گے یاجہنم میں’ ایک لایعنی ومہمل سوال ہے۔ دوسرے لفظوںمیں یہ مسئلہ کہ آیا ‘ افراد کو معاشرے میں زیادہ نیکیاں اور کم گناہ کمانے کے مواقع میسر ہیں’ ایک بے کار سوال ہے، کیونکہ جونہی ‘ نیکی اور بدی کے مواقع’ کا سوال اٹھایاجائے گا مذہب فوراً ذاتی زندگی سے نکل کر اجتماعی میدان میں آجاتاہے۔ اتناہی نہیں اس ریاست کے نزدیک خود’نیکی وبدی’ ہی لایعنی تصورات ہیں۔ اب ظاہر ہے اسلامی نکتہ نگاہ سے آخرت کی اقداری حیثیت بنیادی نوعیت کی ہے ، یعنی یہاں معاشرتی وریاستی صف بندی میں اصل اور فیصلہ کن سوال ہی یہ ہے کہ افراد کو جنت میں جانے کے مواقع زیادہ فراہم ہونگے یا جہنم میں؟ مگر مذہب کو فرد کا نجی مسئلہ قرار دینے کا مطلب یہ اعلان کرنا ہے کہ’ مرنے کے بعد جنت وجہنم میں جانا’ اجتماعی نظم کی تشکیل میں بے کار وبے معنی سوال ہے، جبکہ اسلام میں سب سے اہم اور پہلا سوال ہی یہ ہے کہ مرنے کے بعد کوئی شخص کہاں جائیگا۔ اب دیکھئے مذہب اجتماعی نظم کے قیام کیلئے جس شے کی اقداری حیثیت وفوقیت کو کلیدی سمجھتا ہے سیکولر ڈسکورس اسے لایعنی قرار دیکر نکال باہر کردینا چاہتاہے۔ اب یہ کیسے ممکن ہے کہ سیکولر اجتماعی نظم بھی قائم ہوجائے مگر لوگوں کی زندگیوں میں آخرت بطور قدر بھی پنپتی رہے؟ صرف ایک فاترالعقل انسان ہی ایسا امکان سوچ سکتاہے۔ جس خاندان کےکسی اجتماعی عمل اور فیصلے میں تقوٰی و پرہیزگاری سے متعلقہ سمجھے ہی نہ جارہے ہوں آخر وہاں بچے کیونکر تقوٰی وپرہیزگاری اختیار کرتے رہنے کو ترجیح دیتے رہیں گے؟ اسے کہتے ہیں کہ people seek what the system rewards، یعنی افراد اس شے کی تگ ودد کرتے ہیں جسے نظام قدر کی نگاہ سے دیکھتاہے۔ یہ محض نظریاتی باتیں نہیں، بلکہ دنیا میں جہاں بھی سیکولر جمہوری اقدار(آزادی،مساوات اور ترقی) کا فروغ ہوا، ان معاشروں کے افراد کی زندگیوں میں فکر آخرت اور مرنے کے بعد کی زندگی کا سوال بے کار ہوتا چلاگیا اور لذت پرستانہ فکر معاش فکرمعاد پر غالب آگیا۔ درحقیقت افراد کی نجی زندگی میں وہی اقدار پنپتی ہیں جو اجتماعی زندگی میں قابل قدر سمجھی جارہی ہوتی ہیں، جن ذاتی اقدار کا اجتماعی زندگی میں کامیابی وناکامی سے سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو آخر فرد کیونکر انہیں اختیار کرتا چلاجائے گا؟ لہٰذا یہ کہنا کہ سیکولر نظم ‘ہرتصورخیر’ کو فروغ کے مساوی مواقع فراہم کرتی ہے ایک سفید جھوٹ ہے۔ درحقیقت لبرل معاشروں میں سیکولر ریاست جس نظام زندگی کو جبراً مسلط کرتی ہے وہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام زندگی ہے جس کے نتیجے میں سوائے ہیومن کےتمام اجتماعیتیں لازماً تحلیل ہوجاتی ہیں اور دیگر تمام نظام ہائے زندگی پر عمل کرنے کا دائرہ کار کم سے کم تر ہوتے ہوتے ختم ہوجاتاہے۔