ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے مصر میں مرسی کے صدر بننے سے پہلے کہا تھا کہ مغرب جمہوریت کی نئی تعریف کی کوششوں میں مصروف ہے اس لیے اگر اخوان المسلمون نے انتخابات جیت بھی لیے تو وہ برسرِ اقتدار نہیں آئے گی ۔ یہی ہوا نا صرف اخوان المسلمون کی منتخب جمہوری حکومت کا تختہ لٹ دیا گیا بلکہ عوامی احتجاج کو ابھی تک بے دردی کے ساتھ کچلا جا رہا ہے ۔ اس سارے ظلم کا جمہوریت اور انسانی حقوق کے وہ عالمی پاسبان اور انکا میڈیا تماشا دیکھ رہے ہیں جو انہی ممالک میں اس چھوٹی سی غیر جمہوری بات پر چینخنا اپنا حق سمجھتے ہیں جو انکے مفادات کے مطابق ہو۔ ساری دنیا مشاہدہ کر رہی ہے کہ مصر اور الجزائر میں رائے عامہ کی نمائندگی کرنے والی جمہوری جماعتوں اور انہیں فوجی قوت کے زور سے کچل دینے والی آمریتوں کی امریکہ کے حواری دیگر مغربی ممالک کس کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک جمہوریت کوئی اصول اور فلسفہ نہیں ہے کہ وہ اسے دنیا کے ہر خطہ میں اور ہر حال میں کارفرما دیکھنا چاہتا ہے بلکہ یہ محض ایک ہتھیار ہے جسے امریکہ اور مغربی ممالک اپنے فلسفہ و ثقافت کے فروغ اور مفادات کے حصول و تحفظ کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اور جمہوریت کے اولین دعوے داروں کے اسی طرز عمل اور رویہ نے خود جمہوریت کی افادیت کو مشکوک بنا کر رکھ دیا ہے۔امریکہ کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے کیا فیصلہ کر رہے ہیں بلکہ اس کا ٹارگٹ صرف اور صرف یہ ہے کہ مسلم ممالک میں امریکہ اور دیگر مغربی ملکوں نے جو نوآبادیاتی اور استحصالی نظام مسلط کر رکھا ہے وہ ہر حال میں محفوظ رہے اور اسے کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
حال ہی میں ترکی کی جمہوری حکومت کا تختہ الٹنے کا جو پلان فیل ہوا اس پر بھی مغربی کی پریشانی سب کے سامنے ہے۔ ترکی میں فوجی بغاوت کے آغاز پر مغربی میڈیا میں خوشی کی جو لہر دیکھی گئی وہ اس بغاوت کی ناکامی کے بعد مایوسی و غم و غصے میں تبدیل ہوگئی ہے۔ مغربی پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں لوگ اس بات پر نوحہ کناں رہا کہ ترکی کو غیر مہذب بننے سے روکنے کی آخری کوشش بھی ناکام ہوگئی۔ جمہوریت پسند مغربی مفکرین کے یہ خیالات ان کے دوغلے پن کی علامت نہیں، بلکہ یہی خیالات جمہوریت کے “اصل چہرے” کی عکاسی کرتے ہیں۔ چنانچہ مصر میں اخوان کی حکومت کا تختہ الٹنے کا واقعہ ہو یا الجزائر میں اسلامک فرنٹ کی جمہوری کامیابی کو فسخ قرار دینے کا معاملہ، مغربی مفکرین ہر ایسے موقع پر اسی نوع کے خیالات کا اظہار و پرچار کرتے ہیں۔ یہ کوئی حادثہ یا سادہ قسم کا تضاد نہیں بلکہ اس رویے کی گہری فکری بنیادی ہیں اور ایسے ہی واقعات درحقیقت جمہوریت کی اصلی حقیقت سمجھنے میں مددگار ہوتے ہیں۔ ذیل میں اس کا اجمالا تذکرہ کیا جاتا ہے۔
جمہوریت کا اصلی معنی و مقصد لبرل سیکولر نظم کی بالادستی کا قیام ہے، البتہ لبرل سرمایہ دارانہ نظام کے داخلی تضادات میں سے ایک بنیادی تضاد اس کے جمہوری ریاستی نظم میں جنرل ول اور ول آف آل کے مابین امکانی تضاد ہے۔ یعنی جنرل ول (عقیدہ ‘فروغ آزادی’ کے ریاستی غلبے) کے اظہار کو ول آف آل (اکثریتی راۓ) کے اظہار سے ان معنی میں خطرہ لاحق رہتا ہے کہ اکثریتی رائے آزادی (اور وہ بھی اس کی مخصوص مغربی تشریح) کے سوا کسی دوسری قدر کو زندگی کا مقصد قرار دے۔ یہ خطرہ خصوصا ایسے علاقوں میں بالفعل زیادہ ہوتا ہے جہاں
(1) عوام کی اکثریت “ہیومن” (خدا کا باغی) ہونے کا انکار کرتی ہو،
(2) جمہوری اقدار (آزادی، مساوات و ترقی) اور سول سوسائٹی کی معاشرتی جڑیں کمزور ہوں اور
(3) خصوصا مذہب پسند سیاسی جماعتوں کا عوامی حلقہ اثر گہرا اور مضبوط ہو۔
جمہوری مفکرین کا یہ مفروضہ تھا کہ انسان کو جب بھی رائے دہی کا حق ملے گا وہ آزادی ہی کو اختیار کرے گا۔ البتہ اس مفروضے کو ول آف آل سے لاحق عملی خطرات سے بچانے (باالفاظ دیگر ول آف آل کو جنرل ول میں ضم کرنے) کے لیے چند حکمت عملیاں وضع کی گئیں جن میں سے چند مستقل نوعیت جبکہ چند ہنگامی نوعیت کی ہیں۔
٭مستقل حکمت عملیاں:
1. جمہوری عمل کو براہ راست ڈیموکریسی کے بجائے نمائندہ ڈیموکریسی کے اصول پر استوار کرنا (ایسے افراد جو ہیومن ہونے کو باطل سمجھتے ہیں، اس نظام میں عام طور پر کم ہی تعداد میں پارلیمنٹ پہنچ پاتے ہیں)
2. نظام اقتدار کو مستقل (آئین، عدلیہ، فوج، بیورواور ٹیکنوکریسی وغیرہ) اور غیر مستقل (پارلیمنٹ) میں تقسیم کرکے ول آف آل کا دائرہ غیر مستقل (اور اس کے بھی محض ایک ایوان کے) دائرے تک محدود کردینا اور ریاست کے ”مستقل مفاد” (جنرل ول) کے تحفظ کی ذمہ داری مستقل افراد اور اداروں کے ہاتھوں میں تھما دینا تاکہ غیر مستقل افراد کی ریاست کے مستقل مفاد کے خلاف فیصلے کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوسکے۔ مستقل اداروں میں اقتدار انھی لوگوں کے ہاتھ میں رہے جو سرمایہ دارانہ مقاصد اور علمیت کے غلبے پر یقین رکھتے ہوں، یہی وجہ ہے کہ مستقل اداروں میں جمہوری عمل نافذ نہیں، وہاں “میرٹ” کا اصول لاگو ہے
3. جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے سول سوسائٹی اور سرمایہ دارانہ علوم کا فروغ تاکہ اغراض کی معاشرت و سیاست کو فروغ ملے اور مذہب پسندوں کی دعوت مہمل بنتی چلی جائے اور وہ بھی “حقوق کی سیاست” کرنے پر مجبور ہوتے چلے جائیں نتیجتا ان کی دعوت بھی ول آف آل کو جنرل ول میں ہی ضم کرنے کا مذہبی جواز فراہم کرے (مذہبی سیاسی جماعتوں کو یوں نیوٹرالائز کرلینا اس نظام کی بڑی کامیابی ہوتی ہے)
٭ہنگامی حکمت عملیاں:
اگر جمہوریت (ووٹنگ کے عمل) کو درج بالا مقصد کے سوا کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کیا جائے تو مقامی و عالمی طاقتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی حکومتوں کا تختہ الٹ کر حکومت ایسے لوگوں کے ہاتھ میں دیں جو “اصل مقصد” کی حفاظت کرسکتے ہوں۔ چنانچہ جمہوری اصولوں کی رو سے ایسے حالات میں “تہذیب اور خود جمہوریت کو خطرات” سے بچانے کے لیے درج ذیل اقدامات جائز ہوتے ہیں:
1. ڈکٹیٹرز یا بادشاہوں کے ذریعے لبرل سرمایہ دارانہ ادارتی صف بندی کے عمل کو کچھ وقت کے لیے فروغ اور استحکام دینا تاکہ جب جمہوری اقدار و ادارے مستحکم ہوجائیں عوام خود ہی ان کے خلاف بغاوت کرکے حق خودارادیت مانگ لیں۔ ظاہر ہے اس عمل کے بیج بونے اور اس فصل کی کٹائی کے عمل میں لبرل سرمایہ دارانہ نظام کا سربراہ اعلی یعنی امریکہ اپنے ‘قومی مفادات’ کو بھی مد نظر رکھتا ہے
2. جنرل ول کے خلاف ول آف آل کے اظہار کو بذریعہ قانون (عدلیہ) یا جبر (فوج کشی) فسخ کردینا اور بذریعہ قوت مذہب پسندوں کی بیخ کنی کرنا
3. اگر مستقل مقامی اداروں میں ایسی ول آف آل کی تحدید اور تنسیخ کی صلاحیت نہ ہو تو “ہیومن رائٹس کی سنگین خلاف ورزیوں” کی آڑ میں عالمی (نیٹو) افواج کے ذریعے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دینا۔ اس بین الاقوامی مداخلت کے جواز کےلیے مقامی “آزاد میڈیا” دنیا کے سامنے مقامی حالات کی منفی تصویر کشی کرنے میں پیش پیش پوتا ہے تاکہ دنیا کو یقین آجائے کہ یہاں واقعی انسانیت و تہذیب دشمن عناصر اقتدار پر قابض ہوچکے ہیں اور انکا خاتمہ نوع انسانی کی بقا کیلئے اشد ضروری ہے
4. اگر ایسا کرنا بھی ممکن نہ ہو تو عالمی سطح پر تجارتی و معاشی پابندیاں عائد کردینا اس امید پر کہ عوام بھوک، افلاس، غربت، مہنگائی، بے روزگاری وغیرہ کا شکار ہوکر ایسی ول آف ال استوار کرنے والوں سے توبہ کرلیں گے
جمہوری مفکرین کو ابتدا میں یہ امید تھی کہ مستقل نوعیت کے اقدامات کے بعد “جنرل ول” (یعنی آزادی کی بالادستی کا اصول) “ول آف آل” (اکثریت کی رائے) کے “غلط اظہار” سے محفوظ رہے گا۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ مغربی مفکرین کی امیدیں بارآور نہیں ہوئیں، چنانچہ اسلامی تنظیموں نے یکے بعد دیگرے عین جمہوری عمل کے ذریعے اقتدار کی کنجیوں تک رسائی حاصل کرنا شروع کردی۔ ترکی کے معاملے میں بھی مغربی مفکرین فکر کے مارے انگلیاں چبا رہے ہیں کہ دیکھو اردگان نے عدلیہ اور فوج (مستقل اداروں) میں بھی اسلامی ذہن رکھنے والے لوگ لگا دیے ہیں جس کا معنی یہ ہے کہ اقتدار اب مستقل طور پر اسلامی لوگوں کے پاس محفوظ ہونے لگا ہے۔ ان مفکرین کا اوبامہ سے بجا طور پر تقاضا ہے کہ اوبامہ لبرل جمہوری نظام کے دفاع اور اسے لاحق خطرات کو ختم کرنے کے سلسلے میں امریکہ کی جو عالمی ذمہ داریاں ہیں انہیں ادا کرے۔
مزے کی بات یہ ہے کہ اردگان کی پارٹی کچھ بہت زیادہ ریڈیکل اسلامی ایجنڈا بھی نہیں رکھتی مگر اس کے باوجود بھی مغربی میڈیا اور مفکرین سے اس کی جمہوری کامیابی ہضم نہیں ہو رہی، اگر کہیں کوئی “روایت پسند” اسلامی جماعت جمہوریت کے ذریعے برسر اقتدار آ گئی تو سوچیے اس وقت ان کے پیٹ میں کیسے مروڑ اٹھتے ہوں گے اور اسے صفحہ ہستی سے مٹادینے کے لیے یہ کیا کیا جتن نہ کرتے ہوں گے! اس کا ایک نظارہ ماضی میں ہم مصر میں دیکھ چکے ہیں