اگر کوئی ان تاویلات فاسدہ کی تفصیلات جاننا چاہتا ہو توصرف [سر]سید احمد خان کی تفسیرالقرآن دیکھ لے کہ جس میں فرشتوں کو انسان کی مثبت صلاحتیں، جن اور شیاطین کو منفی جذبات، آدم علیہ السلام کو فرد کے بجائے نوع انسانی، جنت اور جہنم کو مقامات کے بجائے راحت وخوشی اور تکلیف و مصیبت کی انسانی کیفیات سے تعبیر کر کے ان اسلامی تصورات کی سائنسی نظریات سے مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ الغر ض یہ کہ سائنسی علم کو معیار بنا کر قرآنی تعلیمات کو اس پر پرکھنا قرآن کے واضح اور صریح احکامات و تعلیمات کے انکار کا راستہ کھولتا ہے۔خطبات اقبال میں جنت و جہنم کو مقامات کے بجائے کیفیات قرار دیا گیا ہے یہی نقطۂ نظر غلام احمد پرویز نے اختیار کیا۔ یہ نقطہ نظر نیا نہیں مسلم فلاسفہ کی تاریخ میں مل جاتا ہے۔
کیا دل بھی سوچتا ہے؟
آج کے دور میں اس رویے کی جھلک دیکھنا ہو تو قلب کی حقیقت پر مختلف مفکرین کی آراء پر غور کرلیجئے ۔ قرآن میں کئی مقامات پر یہ بات دہرائی گئی ہے کہ بد کردار لوگوں کے قلوب پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ چونکہ موجودہ سائنس یہ دعوی کرتی ہے کہ سوچنے کا عمل تو ذہن سر انجام دیتا ہے جبکہ دل تو محض خون کی روانی برقرار رکھنے کی ایک مشین ہے، لہذا اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سائنسی تحقیقات کی روشنی میں قرآن کی ان آیات کا مطلب کیا ہوگا جن میں دلوں پر مہر لگانے کی بات کہی گئی ہے؟
جب لوگوں سے اس بات کا کوئی سائنسی جواب نہ بن پایا تو انھوں نے اس اعتراض کا حل نکالنے کی راہ یہ نکالی کہ عر بی زبان میں قلب کا ترجمہ صرف دل ہی نہیں بلکہ ’ذہانت‘ [intellect] بھی ہوتا ہے۔ لہذا قرآن کی آیا ت کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگا دی جاتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ ان کی ذہانت پر مہر لگا دی جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ حقیقت کے بارے میں سوچ نہیں سکتے۔ اس انوکھی تفسیر پر ایک اشکال یہ پیدا ہوا کہ قرآن میں تو کہا گیا ہے کہ قلب ’صدر ‘ میں ہے [فانہا لا تعمی الابصار ولکن تعمی القلوب التی فی الصدور: حقیقت یہ ہے کہ آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہوجاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں] اور صدر کا معنی سینہ یا چھاتی ہوتا ہے۔ تواگر قلب سے مراد ذہانت ہے [جس کا منبع ذہن ہوتا ہے ]، اور ذہن سینے میں نہیں ہوتا، تو پھر قلب کے صدر میں ہونے کے کیا معنی ہونگے؟ اس کے جواب میں یہ کہہ دیا گیا کہ صدر کا معنی سینہ ہی نہیں ہوتا بلکہ اسکا مطلب ’وسط‘ [centre] بھی ہوتا ہے، لہذا اب آیت کے معنی یہ ہوئے کہ تمہاری ذہانت [قلب] جو تمہارے وسط [صدر]میں ہے۔
اگر تفسیر کا معیار عربی لغت ہی ٹھہرے، ، پھر تو ہر باطل سے باطل نظریہ بھی لوگوں نے اسی قرآن سے ثابت کردکھایا ہے۔ اہل علم پر اس آیت میں صدر کے معنی وسط لینے کی معنوی بے ڈھنگی عین واضح ہے، لیکن سوال تو یہ ہے کہ ہمیں قرآن کی ایسی تاویل کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے جو احادیث، پوری اسلامی تاریخ ،اسلامی علمیت اور روایت کو رد کرتی ہو؟ یہ تاویل اس قدر لغو ہے کہ اس پر کلام کرنا بھی تضیع اوقات ہے ، البتہ چند اصولی باتیں ذیل میں بیان کردی گئی ہیں:
1. کیا سائنس کے پاس اس بات کا کوئی حتمی ثبوت ہے کہ سوچنے کا کام صرف ذہن ہی کرتا ہے؟ اگر کوئی کہے ہاں، تو اسکا مطلب یہ ہوا کہ اسے سائنس کا کچھ علم ہی نہیں ، وہ اسلیے کہ ہم نے پچھلے مضمون میں اس بات پر تفصیل سے روشنی ڈالی تھی کہ سائنس کے پاس علم حاصل کرنے کا ایسا کوئی طریقہ ہے ہی نہیں جس کے ذریعہ انسان کسی بات کو ثابت کرسکے۔
2. یہ دعوی بھی اپنی جگہ غلط ہے کہ دل کا سوچنے کے عمل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، وہ س لیے کہ علم نفسیات اور حیاتیات کی جدید تحقیقات کے مطابق دماغ اور دل میں ایک خاص نوعیت کا تعلق بہر حال موجو د ہے ۔ فرض کریں کل کو یہ تحقیقات مزید آگے بڑھ کر یہ ثابت کردیں کہ سوچنے کے عمل میں دل کا بھی کچھ عمل دخل ہے تو ہمارے مفکرین کیا کریں گے؟ کیا پھر قرآنی الفاظ کی نئی تفسیر کریں گے؟ کیا اس سے لوگوں کا ایمان قرآن پر سے متزلزل نہیں ہوگا؟
3. اگر تفسیر کے لیے سائنس ہی معیار و منہاج ہو تو پھر دل ہی کیا ، سائنس تو روح کا بھی انکار کرتی ہے جبکہ قرآن و احادیث تو اس کے اثبات سے بھرے پڑے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اب اس روح کے بارے میں ہمارے مفکرین کیا کہیں گے؟ انہیں چاہئے کہ یا تو اسکا انکار کردیں یا پھر اس کی بھی کوئی نئی سائنسی توجیہہ کردیں [جیسے ایک صاحب نے فرمایا کہ ہوسکتا ہے روح سے مراد وہی شے ہو جسے سائنس توانائی [energy]کہتی ہے ، انا للہ وانا الیہ راجعون]۔ حق بات یہی ہے کہ جو لوگ سائنس کو بنیاد بنا کر قرآن کی تفسیر کرتے ہیں وہ اسی قسم کی عجیب وغریب باتیں کرتے ہیں جن کا اسلامی علمیت اور عقل و خرد سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
4. لفظ قلب کی تعبیر ذہانت اور صدر کی وسط کرنے والوں نے یہ نہ سوچا کہ اس تعبیر کے بعد ان احادیث نبوی ﷺ کا کیا بنے گا جن میں قلب کو دل ہی کہا گیا ہے ؟ مثلاً ایک مشہور حدیث میں آپ ﷺ کا ارشاد ان الفاظ میں روایت ہوا ہے :
ان فی الجسد مضغضۃاذاصلحت، صلح الجسد کلہ، واذا فسدت فسد الجسد کلہ الاوھی القلب
ترجمہ: بے شک جسم میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے، اگر وہ اصلاح یافتہ ہو تو سار جسم صالح ہوتا ہے، اگر گوشت کے اس لوتھڑے میں فساد پیدا ہوجائے تو سارا جسم مفسد ہوجا تا ہے۔ جان لو وہ قلب ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ اس حدیث میں قلب کے لیے لفظ مضغضۃاستعمال کیا گیا ہے جسکا معنی قریب قریب ’گوشت کا لوتھڑا ‘ ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ ذہانت کو مضغۃ یعنی گوشت کا لوتھڑا کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا، بلکہ مضغۃ تو دل ہی ہو سکتا ہے۔ نیز یہ بات بھی سب کو معلوم ہے کہ یہ دل ہی ہے جو گوشت کے لوتھڑے کی مانند ہوتا ہے نہ کہ ذہن، جس سے صاف معلوم ہوا کہ اس حدیث میں قلب دل ہی کو کہا گیا ہے۔ ایک اور حدیث میں آپ ﷺ نے تقوے کے مقام کے بارے میں اپنے سینہ مبارک کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ التقوی ھھنا ،تقوی یہاں ہوتا ہے [یعنی دل میں ]۔ ایسے ہی ایک اورروایت میں بیان ہوا کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے آپﷺ سے فرمایا کہ مجھے اپنی جان آپﷺ سے زیادہ عزیز محسوس ہوتی ہے تو آپﷺ نے انکے سینہ مبارک پر ہلکا سا ہاتھ سے جھٹکا دیا جس کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اب یہ کیفیت بدل گئی ہے اور آپﷺ کی محبت اپنی جان سے بھی بڑھ گئی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ سینے پر ہاتھ کیوں مارا؟ اگر قلب سے مراد ذہانت ہوتی تو سر پر ہاتھ مارنا چاہئے تھا۔ اسی طرح ایک حدیث میں بیان ہو ا ہے کہ جب کوئی مومن ایک گناہ کرتا ہے تو اس کے قلب پر ایک سیاہ نشان ڈال دیا جاتا ہے۔ اگر تو وہ توبہ کرلے تو وہ سیاہ نشان مٹا دیا جاتا ہے، اور اگر وہ مزید گناہ کرتا ہی چلا جائے تو وہ سیاہ نشان بھی بڑھتا چلا جاتا ہے یہاں تک کہ اسکا پورا قلب سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر اس سے توبہ کی توفیق سلب کرلی جاتی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر قلب سے مراد ذہن ہے تو اس پر سیاہ نشان کے کیا معنی ہوئے؟
کیا سائنس اس بات کو مانتی ہے کہ کہ گناہ کے کام کرنے سے کسی شخص کی ذہانت یا سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے؟ ہم تو یہ دیکھتے ہیں کہ کافر، گناہ گار اور فاسق وفاجر قسم کے لوگوں کی ذہانت کے چرچے بھی چہار دنگ عالم میں عام ہیں۔ مثلاً آئن سٹائن مشہور سائنس دان ہے جس کی ذہانت بھرے سائنسی نظریات نے فزکس کی دنیا میں تہلکہ مچا کر رکھ دیا ہے، لیکن اسکا کردار اورزندگی کس قدر غیر اخلاقی تھی اسکا اندازہ اس کے ان خطوط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس کی پوتی نے شائع کیے [انہیں پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے گویا وہ اپنی بیوی کے سوا تمام عورتوں سے تعلقات رکھتا تھا] اسی طرح کانٹ اتنا ذہین آدمی تھا کہ پچھلے تین سو سال میں پورے مغربی فکر و فلسفے میں اس پائے کا فلسفی آج تک پیدا نہیں ہوا، لیکن وہ اغلام باز تھا۔ اسی طرح بیسویں صدی کا مشہور ترین فلسفی فوکو [Focault]ایڈز کی بیماری میں مبتلا ہوکر ہلاک ہوا۔ یہ محض چند مثالیں ہیں، ورنہ اگر آپ دنیا کے اکثر وبیشتر ’ذہین‘ ترین سائنسدانوں وغیرہ کی زندگی کا مطالعہ کرکے دیکھیں گے ، تو اکثر و بیشتر کی زندگیاں اخلاق رزیلہ نجاست اور تعفن سے بھری ہوئی دکھائی دے گی۔ سوال یہ ہے کہ ایسے گناہ گار لوگ پھر اتنے ذہین کیوں ہیں؟
یہ چند احادیث تو بر جستہ ہی بیان کردی گئی ہیں ورنہ اگر کتب احادیث کو بغور پڑھا جائے تو اس موضوع پر دسیوں احادیث پیش کی جاسکتی ہیں۔ اب ایک طرف یہ احادیث ہیں جو در حقیقت قرآن مجید کی اصل شارح ہیں، دوسری طرف وہ الل ٹپ لغوی تاویلات ہیں جو ہمارے مفکرین حضرات بیا ن کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ان میں سے کس کی بات مانی جائے ؟ ظاہر بات ہے کہ احادیث کے سامنے ایسی لغوی بحثوں اور ظنی [speculative]سائنسی اصولوں کی حیثیت مکھی کے پر جتنی بھی نہیں۔
5. فرض کریں کہ ہم ایک لمحے کے لیے یہ دعوی مان لیتے ہیں کہ سوچنے کا کام ذہن ہی کرتا ہے دل نہیں کرتا، تب بھی قرآنی اصطلاح ’قلب‘ کی کوئی نئی تاویل کرنے کی ضرورت نہیں ۔وہ اس لیے کہ حقیقت کا ادراک عقل کے بس کی بات ہی نہیں [اس بات کی تفصیل بیان کرنے کا یہ موقع نہیں]۔ عقل کی پرواز تو صرف وہاں تک ہے جہاں تک حواس خمسہ سے حاصل ہونے والے مشاہدات و تجربات اسے لے جاسکتے ہیں، اور اس دنیامیں مابعد الطبعیاتی حقائق [مثلاً ذات باری تعالی، مقصد انسانی، زندگی بعد الموت وغیرہ ] پر کوئی مشاہدہ ممکن ہی نہیں کہ جس کے ذریعے ان حقائق کے حوالے سے عقل کوئی رائے قائم کرسکے۔ لہذا حقیقت کا ادراک سرے سے عقل کے ذریعے ممکن ہی نہیں، بلکہ اسکا ذریعہ تو قلب ہے ۔ قرآن و حدیث نے حقیقت کے ادراک کے لیے اسی قلب کی پاکیزگی اور تطہیر کی جانب اصل توجہ دلائی ہے اور اگر کسی کو قلب کی دنیا کے حالات جاننے کا شوق ہو تو حجۃ الاسلام امام غزالی ؒ کی کتاب احیاء العلوم الدین کی تیسری اور چوتھی جلد پڑھ لے۔
پس جاننا چاہئے کہ درست طریقہ تفسیر یہی ہے کہ ہم قرآن مجیدکو ہی بنیاد بنا کر باقی نظریات کے حق یا باطل ہونے کا فیصلہ کریں کیونکہ قرآن ہی اصل ’معیار اور علمیت [episteme] ہے اور اس حقیقت کو قرآن نے اپنے لیے فرقان [حق و باطل میں فرق کرنے کامعیارو میزان ]اور الحق [واحد اور اصل حقیقت]کے الفاظ کے ساتھ تعبیر فرمایا ہے۔یعنی قرآن خود آخری اور حتمی معیار اور میزان علم ہے جسمیں تول کر ہر نظرئیے کی حقانیت کو جانچا جانا چاہیے۔ بھلا ہو مولانا احمد رضا خانؒ ، مولانا اشراف علی تھانویؒ ، مولانا قاسم نانوتویؒ ، پیر مہر علی شاہؒ ، سید جماعت علی شاہؒ ، مولانا محمود الحسنؒ ، سید احمد سعیدکاظمیؒ ، مولانا شفیع عثمانیؒ ، پیر کرم شاہ الازہری [رحمہم اللہ اجمعین] اور ان جیسے اور علما ء اور صوفیاء کرام کا جنہوں نے زمانے کے عام چلن سے مرعوب نہ ہو کر حق کی وہی تعبیر اختیا ر کیے رکھی جو صحیح روایات کے ساتھ اسلاف سے ثابت ہے۔ اگر یہ حضرات نے بھی زمانے کے عام چلن کے مطابق خام سائنس سے مرعوب ہو کر قرآن کی غلط سلط تاویلات عوام میں عام کر دیتے تو سائنس کی دنیا میں نیوٹن کے نظرئیے کے ابطال کے بعد عوام الناس کا قرآن مجید کی حقانیت سے ایمان جاتارہتا[اس کی ایک مثال آگے آئے گی]۔
ندیم عارف
January 15, 2017 at 1:10 pmما شاء اللہ اللہ جزائے خیر عطا فرمائے بس یونہی ہمیں ہمارے روٹس سے منسلک رکھتے رہیں
Azmat Ali nadwi
April 27, 2020 at 12:04 pmبہت خوب!
جزاکم اللہ خیرا
اللہ تعالیٰ آپ کو دنیا و آخرت میں بہترین بدلہ عطا فرمائے آمین