گریویٹیشنل ویو کی دریافت پر ایتھسٹ طبقے کے طنز کا بے لوث جائزہ :
آج کل ایک لہر چل رہی ہے، بطور خاص فیس پر وہ یہ کہ
’’جناب! گریوی ٹیشنل ویو کے ساتھ اپنے اپنے مذہبی عقائد کو جوڑنے اور پھر اس سے اپنے عقائد کی تصدیق کا ناجائز فائدہ اُٹھانے والے ’’بندگانِ خدا‘‘ دھوکے باز، موقع پرست اور غلط ہیں۔ جب بھی کوئی نئی سائنسی دریافت، ایجاد یا نظریہ سامنے آتاہے تو ایسے لوگ جھٹ سے اپنی اپنی بغلوں میں اپنے اپنے قران دبائے بھاگے چلے آتے ہیں اور کہتے ہیں، ’یہ دیکھو! یہ بات ہمارے قران میں پہلے سے لکھی ہوئی ہے‘‘۔
اس طرح کرنے والے لوگوں کو عصر حاضر کے اہل ِ فلسفہ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے اور اُن کا مؤقف یہ ہے کہ اپنے عقائد کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی نظریات و افکار کو بطور آلہ استعمال کرنا دیانتدارانہ عمل نہیں ہے اور اِس لیے ایسے خیالات کو کبھی بھی اکیڈمک حیثیت نہیں دی جاسکتی۔
میری دانست میں اس اعتراض میں تمام تر قوت صرف ایک الزام کی وجہ سے ہے اور وہ یہ ہے کہ،
’’مذہبی لوگوں کا یہ عمل دیانتدارنہ نہیں ہوسکتا اور اس وجہ سے اِسے اکیڈمک حیثیت نہیں مل سکتی‘‘۔
دیانتدارانہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ مذہبی عقیدہ ہمارے ذہن میں پہلے سے ہوتاہے اور یہی علم الکلام کی معروف تعریف بھی ہے۔ ہماری خواہش بھی پہلے سے ہوتی ہے کہ ہمارا ہی عقیدہ درست ثابت ہو چنانچہ جب کبھی کوئی ایسی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے جو ہمارے عقیدے کی سچائی کو ثابت کرنے کے لیے دلیل کا کام کرسکے تو ہم جھٹ سے اس دریافت کواپنے عقیدے کے حق میں استعمال کرنا شروع کردیتے ہیں جبکہ ایک سچا محقق کبھی جانبدار نہیں ہوتا۔ چونکہ اپنے پہلے سے قبول شدہ مذہبی عقیدے کو ثابت کرنے کے لیے سائنسی دریافت کوبطور آلہ استعمال کیا جارہا ہےاس لیے محقق جانبدار ہے اور اس کا کام اکیڈمیا کے نزدیک بے کار ہے۔ یہ بڑی خوبصورت اور معقول بات ہے۔
لیکن عصر ِ حاضر کے طلبۂ فلسفہ و سائنس اور ایتھسٹ برادری کی طرف سے اس معقول ترین اعتراض کی فطرت پر چند منطقی سوال پیدا ہوتے ہیں جو میری دانست میں کسی طور نظر انداز نہیں کیے جاسکتے۔
پہلا سوال،
ایک سائنسدان خود مذہبی شخص ہوسکتاہے۔ بے شمار ہندو، مسلمان، عیسائی، یہودی سائنسدان اب بھی ہیں اور ہمیشہ سے تھے۔ اب تصور کریں کہ ایک سائنسدان کہتاہے ’’میں نے فلاں دریافت کا آئیڈیا اولڈ ٹیسٹمنٹ سے لیا تھا‘‘۔ اس کے ایسا کہنے کے بعد کون سا سائنسی یا منطقی طریقہ ہے جس سے اس کے دعوے کو جھٹلایا جاسکے؟ اس سوال کا جواب سوائے اس کے اور کوئی نہیں دیا جاسکتا کہ اس کی سائنسی دریافت چونکہ ایک سائنسی دریافت ہے چنانچہ لازمی طور پر اس سے پہلے بھی کچھ ایسی سائنس موجود ہوگی جس کے تسلسل میں وہ آگے بڑھ سکا۔ سابقہ سائنس کی موجودگی، اس بات کا ثبوت ہے کہ اس کے پاس آئیڈیا فقط بائیبل سے نہیں آیا تھا بلکہ وہ ایک سائنسدان تھا اور اس کا سابقہ مطالعہ ہی موجب بنا کہ وہ ایک نیا آئیڈیا سوچ سکے۔ یہ جواب معقول ہے لیکن اس کے دعوے کو مکمل طور پر رد نہیں کرپاتا۔ بفرض ِ محال اسے اولڈ ٹیسٹمنٹ کی تلاوت کے دوران کسی آیت سے انسائیٹ ملی، ایک جھماکہ سا ہوا اور کوئی نئی بات سمجھ میں آئی۔ اگر وہ تلاوت نہ کررہا ہوتا، مذکورہ آیت اس کے سامنے نہ آئی ہوتی اور وہ بصیرت اسے کبھی نہ ملی ہوتی تو سابقہ سائنس اس کے کس کام کی تھی؟
دوسرا سوال،
اِس بات کا پتہ کیسے چلے گا کہ محقق کی نیّت فی الواقعہ اپنے ہی عقیدے کو درست ثابت کرنا ہے فلہذا اس کا عمل بائیسڈ یعنی کہ جانبدارانہ ہے؟ فرض کریں ایک محقق مذہب کے لحاظ سے ایک اور مذہب کا ہے اور اپنی ریسرچ میں کسی اور مذہب کے عقیدے کو ثابت کرتاہے تو ہم کس بنا پر کہیں گے کہ وہ بائیسڈ ، جانبدار یا بددیانت ہے؟ فرض کریں ایک محقق مسلمان ہے اور گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت سے اس کی ریسرچ میں کچھ ایسے حقائق سامنے آرہے ہیں جو ہندوؤں کے آواگون یعنی ’’بار بار جنم‘‘ کے عقیدہ کی تصدیق کی دلیل کے طور پر استعمال ہوسکتے ہیں۔ فرض کریں وہ مسلمان محقق ایک آرٹکل لکھتاہے اور نئی سائنسی دریافت کی مدد سے آواگون کے حق میں بحث کرتاہے۔ تو کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ اب بھی وہ جانبدار ہے؟
تیسرا سوال،
فرض کریں ایک شخص نے کہا کہ سپیس ٹائم فیبرک جو نظر نہیں آتی اور آسمان اُس پر قائم ہیں، ان کا ذکر قران میں اس طرح ہے، ’’الله وہ ہے جس نے آسمانوں کو ستونوں کے بغیر بلند کیا جنہیں تم دیکھ رہے ہو‘‘۔ تو ایسا کہنے سے یہ کیسے ثابت ہوجاتاہےکہ سٹیٹمنٹ پیش کرنے والا علمی بددیانتی کا مرتکب ہورہا ہے۔ اس کے برعکس اس نے جس عمل کا مظاہر کیا اسے تحقیق کی زبان میں لٹریچر ریور کہا جاتاہے اور عام طور مذہب پسند محققین اپنے اپنے لٹریچر ریوز میں مذہبی میٹریل کو پیش کرتے رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ پہلے اکیڈمک مؤرخ بابائے تاریخ ہیروڈوٹس سے لے کر ہمارے عہد کے مشہور ایتھیسٹ سائنسدان کارل ساگان تک کتنے ہی سائنس دانوں نے اپنی کتابوں کے ابواب کے شروع میں متعدد ایسی کوٹس دی ہوئی ہیں جو مذہبی ہیں یا مذہبی کتابوں سے ہیں۔ ہمارے پاس مشہور کمیونسٹ سبط ِ حسن قدیم دیوی دیوتاؤں کے ناموں اور کہانیوں کو اپنے دور کے فلسفیانہ مناظر سے تطبیق کے لیے پیش کرتاہے۔ ’’موسیٰ سے مارکس تک‘‘ کے ٹائٹل پر پرومیتھوسس کی تصویر اور فلیپ پر لکھی کہانی اس بات کا ثبوت ہے کہ مذہب کا نہ ماننے والا سبطِ حسن بھی اپنے تحقیق میں لٹریچر ریور کے طور پر صحائف یا مائیتھالوجی کا ذکر درج کرنا غیر مناسب نہیں سمجھتا۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی تحقیق کے شروع میں جس قدر بھی لٹریچر اس سے ماقبل ہے اس کا درج کیا جانا مستحسن ہے، اس بات سے بالکل بے نیاز ہوکر کہ وہ سٹیٹمنٹ کسی فیتھ یا مذہب سے آرہی ہے۔
چنانچہ یہ ٹرینڈ کہ ’’ہاں ہاں، گریوٹی ویو کے دریافت ہوتے ہیں مذہبی عقائد کی تائید اور تصدیق کا سلسلہ کیوں شروع کردیا گیا؟‘‘۔۔۔۔۔۔۔۔ اکیڈمیا کی طرف سے نہیں آرہا۔ بلکہ یہ سوشل سائنسز پر ماڈرن ویسٹرن کیپٹالسٹ افکار کے غلبہ کے بعد ایک فیشن کا حصہ بن کر محققین کو شرمندہ کرنے کے لیے استعمال کیا جانے والا نہایت بھونڈا ہتھیار ہے۔ بھونڈا اس لیے اگر اس اعتراض کو درست مان لیا جائے تو ہمیں سقراط سے لے کر مارکس سے پہلے پہلے تک کی لگ بھگ تمام فلاسفی اور ڈیماکریٹس سے لے کر نیوٹن اورنیوٹن سے لے کر آئن سٹائن تک کی تقریباً تمام تر سائنس بھی اس اعتراض کی رُو سے رد کرنا ہوگی کیونکہ یہ لوگ مذہبی تھے اور اکثر اپنی دریافتوں پر اس لیے بھی خوش ہوا کرتے تھے کہ ان کی دریافتیں اُن کے مذہبی عقائد کی تائید کرتی ہیں۔
کانٹ نے عقل کی حدود متعین کیں تو قدیم علوم کی بعض شاخیں ملعون قرار دی جانے لگیں جن میں علم الکلام بھی ایک ہے۔ علم الکلام فلسفہ کی اُس شاخ کو کہتے ہیں جس میں عقائد کو عقلی بنیادیں فراہم کی جاتی ہیں۔ مسلمانوں میں غزالی اور مغربی فلاسفہ میں کانٹ کے ورُود تک زیادہ تر فلسفی موجودہ تعریف کی رُو سے دراصل متکلمین ہی تھے۔ مکالمات میں ہم سقراط کو بھی عالم ِ زیریں اور جہنم کے درمیان پائی جانے والی مماثلتیں بیان کرتاہوا پاتے ہیں۔ افلاطون کو تو الٰہیات کا خالقِ اوّل مانا جاتاہے۔ مولانا اشرف علی تھانوی افلاطون کو سب سے پہلا ’’الٰہی‘‘ لکھتے ہیں۔
جدید مغربی فلسفیوں کا بابا آدم رینے ڈیکارٹ علم الکلام کا زبردست ماہر ہے۔ جس کی دلیل ِ وجودی کا توڑ کانٹ کی بے پناہ منطق بھی پوری طرح نہیں کرپاتی۔ عیسائیوں میں مسلمانوں سے زیادہ متکلمین گزرے ہیں بلکہ تاریخ فلسفہ میں لکھا ہے کہ Scholasticism ہے ہی عیسائیوں کے (میڈی وَل) فلاسفی کے دور کی ایجاد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ایک زمانہ تھا جب عیسائی مذہبی پیشوا فلسفی بھی ہوا کرتے تھے۔ سینٹ آگسٹین کو تو فلسفہ کے طالب علم جانتے ہی ایک فلسفی کی حیثیت سے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ چند دہائیوں سے متکلمین کو ’’کلامی‘‘ کہہ کر گویا اپنے تئیں گالی دی جاتی اورعلم الکلام کو ایک ناقص علم قرار دیا جاتاہے۔ پاکستان میں بعض پڑھے لکھے اور روشن خیال طلبہ کے نزدیک علم الکلام سب سے بُرا ہے اور اُن کے اِس خیال کی بنیادیں زیادہ علی عباس جلالپوری کی کتابوں سے آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں۔ علی عباس جلالپوری کی کتاب ’’اقبال کا علم الکلام‘‘ پڑھ کر منطق کا طالب علم بخوبی جان جاتاہے کہ ان کے ہاں مغالطہ ’’مسنگ دہ پوائنٹ‘‘ کی بھرمار ہے۔ وہ اقبال کی نیّت پہلے بتاتے اور افکار کا ذکر بعد میں کرتے ہیں۔ ان کی تحریر کا انداز کچھ اس طرح ہے،
’’اقبال نے جدید سائنس اور مذہبی مسلمّات کی تطبیق کی سعی کی ہے۔ اس کے ساتھ کہتے ہیں کہ ’فلسفیانہ تفکر میں قطعیت کا کوئی وجود نہیں ہے۔‘ اس سے ان کا مقصد ایک خدشے کی پیش قیاسی کرناہے اور وہ یہ ہے کہ ممکن ہے کبھی مستقبل میں طبیعات کی دنیا میں کوئی ایسا انکشاف کیا جائے جو ان کے نظریات کو باطل قرار دے جن پر انہوں نے تشکیل جدید الٰہیاتِ اسلامیہ میں تاویلات و توجیہات کی عمارت اُٹھائی ہے۔‘‘
علی عباس جلالپوری پہلے صفحے سے آخری صفحے تک اِسی طرح اقبال کے مقاصد اور ارادوں سے پیشگی باخبر رہتے ہیں۔
خیر! بے شمار منطقی مغالطوں کے باوجود علی عباس جلالپوری کے استدلال نے مذہب بیزار ذہنوں کو متوجہ کیا اور ہمارے ہاں بھی اُس فیشن کا کچھ تعارف ہوا جو مغربی طلبہ میں برٹرینڈ رسل کے بعد تیزی سے مقبول ہوا تھا۔ یعنی علم الکلام کو سربزم کوسنا اور یہ کہنا کہ یہ علم نہیں بددیانتی ہے۔ ان لوگوں کی طرف سے ایک ہی مقدمہ بار بار پیش کیا جاتاہے،
’’آپ اپنے مذہبی عقائد کو سائنس اور عقل سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ مطلق کی غیر مطلق کے ساتھ کیا تطبیق؟ سائنس آج کچھ کہتی ہے کل کچھ اور کہنے لگے گی۔ تو کیا آپ اس وقت اپنے عقائد کی موجودہ تشریحات سے مُکر جاؤگے؟‘‘
علم الکلام سے اس قدر نفرت کا رجحان اگرچہ محدود پیمانے پر لیکن ہمارے ہاں بھی فیشن کی حیثیت اختیار کرچکاہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ فلسفہ کے دامن میں جس قدر خزانہ موجود ہے یہ علم الکلام کا دیا صدقہ ہے۔بلکہ ایک لحاظ سے دیکھاجائے تو فلسفہ کی ابتدأ ہی علم الکلام سے ہوتی ہے کیونکہ پہلا فلسفی تھیلس جس یونیفائینگ تھیوری کو تلاش کررہا تھا وہ فی الاصل خدا کی ہی تلاش تھی۔ بظاہر محسوس ہوتاہے کہ عہد ِ حاضر کی مادیت خدا اور اس کے کاموں سے بے پرواہ ہے لیکن بغور دیکھنے پر معلوم ہوتاہے کہ سائنس بلاارادہ محض قدیم یونانی مائیتھالوجی کی تصدیق پر لگی ہے۔ میری دانست میں سائنس ہمیشہ خود سب سے بڑی متکلم رہی ہے۔ اگر دیگ خود ہی شیرینی سے لبریز ہو تو چمچے کاہے شرما سکتے ہیں؟
پروفیسر وائیٹ ہیڈ کا ایک قول اقبال نے نقل کیا ہے،
’’مذہب کا ہر عہد عقلیت کا عہد تھا‘‘۔
حقیقت یہی ہے کہ مذہب عامۃ الناس کا فلسفہ ہے اور فلسفہ کچھ خاص لوگوں کا مذہب۔ مذہب کے وجود میں دل سے پہلے عقل کو راضی کرنے کی صلاحیت موجود ہے اور یہ سارا کام علم الکلام کی ذمہ داری ہے۔
علم الکلام فلسفہ کی ایک اہم ترین شاخ ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں میں سرسید شبلی، ابوالکلام اور اقبال نے اپنے اپنے انداز میں عقائد کو ہر عاقل کے لیے سہل بنا دیا۔ اقبال کی ’’دی ری کنسٹرکشن‘‘ ہمارے خطہ میں کی گئی کامیاب ترین کوشش ہے جس نے مسلمانوں کو ندامت سے نجات دلائی اور ان کے عقائد کو مسیحیت سے بڑھ کر استدلال فراہم کیا۔
ازراہ ِ تفنن کہا جائے تو معلوم ہوتاہے کہ اہل ِ سائنس کو فقط ایک بات کا غصہ ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم جب مذہبی مقدمات سے مدد نہیں لیتے تو مذہب ہمارے مقدمات سے مدد کیوں لیتا ہے؟ گزشتہ دنوں ہِگز پارٹکل کے حوالے سے ایک سائنسدان نے اپنے انٹرویو میں کہا کہ،
’’لوگ جب ہِگز پارٹیکلز کو گاڈ(God) پارٹیکل کہتے ہیں تو مجھے شدید غصہ آتاہے۔ اب اسی غصے کی وجہ سے میں نے انہیں ڈاگ(Dog) پارٹیکل کہنا شروع کردیا ہے۔
ہمارے معترضین کو دیکھنا چاہیے کہ گریوی ٹیشنل ویو کی دریافت پر صرف مسلمان ہی خوش نہیں ہوئے تقریباً ہرمذہب کے ایسے لوگ خوش ہوئے ہیں جو متکلمین کی طرز پر سوچنے کے عادی ہیں۔
سچ تو یہ ہے کہ مذہب نے ایک وقت میں سائنس کی نہ صرف رہنمائی کی ہے بلکہ ایک زمانہ ہوا کرتا تھا جب سائنسی ایجادات، تحقیقات اور ان کی ترویج و ترقی کی تمام تر ذمہ داری مذہب ہی کے شانوں پر تھی۔ کتنے ہی بڑے بڑے پادری اور پر ِ یسٹ، مذہبی سکالرز اور پیشوأ خود سائنسدان گزرے ہیں۔ یہ یہودیت ہو یا عیسائیت، اسلام ہو یا ہندومت ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مذہب اور مذہبی عقائد نے صدیوں تک سائنس کی خدمت کی ہے۔ اور عین وہی زمانے ہیں جب ہر فلسفہ میں ’’علم الکلام‘‘ جیسی طاقتور شاخ داخل ہورہی ہے۔
میرا ذاتی مؤقف یہ ہے کہ اگر کوئی نئی سائنسی دریافت سامنے آتی ہے اور مذہبی ذہن کے بعض محققین اُسے اپنے عقائد کی تصدیق یا تائید کے لیے استعمال کرتے ہیں تو منطقی طور پر کسی طرح بھی ثابت نہیں کیا جاسکتا کہ یہ عمل بددیانتی پر مبنی ہے۔ بالفاظ ِ دگر اگر بدیادنتی پر مبنی ہو بھی تو ایسی کوئی سائنس یا منطق سرے سے موجود نہیں جو اس بات کی تصدیق کرسکے کہ متکلم کا عمل فی الواقعہ بدیانتی پر مبنی تھا اور آزادانہ تحقیق کے تمام تقاضے پورے نہ کرتا تھا۔
ادریس آزاد