سورۃ البینہ کی فرضی گمشدہ آیات کی حقیقت

12115825_1757195091183782_7672980099966323997_n

ثیودور نولڈکی (Theodor Nöldeke) کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عیسائی مشنری ” ضائع شدہ آیات“کے موضوع سے قرآن مجید پر الزام تراشیاں کرتے رہتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک الزام یہ ہے کہ سورہ البینہ کی ایک آیت ضائع ہو گئی تھی۔ جیسے نولڈکی اپنی کتاب ” Geschichte des Qorans 1/242 Leipzig 1909″ میں جامع ترمذی کی ایک حدیث سے یہ استدلال کرتا ہے:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ ”إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْکَ الْقُرْآنَ“ فَقَرَأَ عَلَيْهِ }لَمْ يَکُنْ الَّذِينَ کَفَرُوا{ وَقَرَأَ فِيهَا ”إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ“ وَقَرَأَ عَلَيْهِ ”لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ۔ (جامع ترمذی الرقم: 3898)
”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا : ” اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں(قرآن) پڑھ کر سناؤں“، پھر آپ نے انہیں {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ }پڑھ کر سنایا، اور اس میں یہ بھی پڑھا ” إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ“ یعنی بیشک دین کی حقیقت اللہ کے نزدیک(دین) حنیفیت اسلام ہے نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا ۔ اور آپ نے ان کے سامنے یہ بھی پڑھا: ” لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ“۔ یعنی اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے “۔

فرضی طور پر گمشدہ آیات
یہاں دو گمشدہ فرضی آیات ملتی ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے سورہ البینہ کی آیت کے بعد پڑھیں۔ پہلی:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ الْمُسْلِمَةُ لَا الْيَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا الْمَجُوسِيَّةُ مَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُکْفَرَهُ
” بے شک اللہ کے نزدیک دین راست کی حقیقت سچا اسلام ہے نہ کہ یہودیت نہ کہ نصرانیت، نہ کہ مجوسیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا“۔
اور دوسری فرضی آیت یہ ہے:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ
” اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی“۔

حقیقت:
حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں فرضی آیات کبھی قرآن مجید کی سورۃ البینہ کا حصہ تھیں ہی نہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ الفاظ سورۃ البینہ کی آیت کی تفسیر میں فرمائے تھے۔ یہ دو وجوہات کی بنا پر واضح ہے:
1: امام حاکمؒ کی مستدرک میں اسی روایت کے الفاظ اس بات کی ناقابل تردید گواہی دے رہے ہیں کہ یہ الفاظ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے بطور تفسیر فرمائے تھے۔ روایت ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ أَمَرَنِي أَنْ أَقْرَأَ عَلَيْكَ الْقُرْآنَ، فَقَرَأَ: {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ} وَمِنْ نَعْتِهَا لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ، فَأَعْطَيْتُهُ، سَأَلَ ثَانِيًا، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ ثَانِيًا، سَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ، وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ(مستدرک حاکم جلد2 صفحہ 244 الرقم:2889 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت2010) امام ذہبیؒ نے اس کو صحیح کہا ہے۔
”ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان سے فرمایا : ” اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہیں پڑھ کر سناؤں“۔ پھر آپ نے انہیں {لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ }پڑھ کر سنایا، اور اس کی وضاحت میں(آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے) فرمایا : ” لَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ، فَأَعْطَيْتُهُ، سَأَلَ ثَانِيًا، وَإِنْ أَعْطَيْتُهُ ثَانِيًا، سَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ“۔ اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے۔ ” وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ، وَمَنْ يَعْمَلْ خَيْرًا فَلَنْ يُكْفَرَهُ“اور درحقیقت دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔ اور جو شخص جو نیکی کرے گا اسے ضرور اس کا اجر ملے گا۔
یہ حدیث بالکل واضح کرتی ہے کہ فرضی آیات، قرآن مجید کا ہرگز حصہ نہ تھی بلکہ البینہ کی بعض آیات کی وضاحت و تفسیر میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ الفاظ کہے۔

2: اگر یہ فرضی آیات درحقیقت قرآن مجید کی آیات ہوتیں تو دوسری احادیث میں ان کے الفاظ میں بالکل فرق نہ ہوتا، جیسا کہ قرآنی الفاظ میں بالکل بھی فرق نہیں ہیں۔ آئیں ان لے الفاظ کے فرق کو دیکھتے ہیں۔
2.1اللہ کے نزدیک دین
سنن ترمذی کی روایت میں ہم پڑھتے ہیں:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الحَنِيفِيَّةُ المُسْلِمَةُ لَا اليَهُودِيَّةُ وَلَا النَّصْرَانِيَّةُ وَلَا المَجُوسِيَّةُ
بیشک دین کی حقیقت اللہ کے نزدیک(دین) حنیفیت اسلام ہے نہ یہودیت نہ نصرانیت اور نہ مجوسیت۔
مسند احمد بن حنبل کی حدیث الرقم:21203 اس طرح ہے:
إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
درحقیقت دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
مسند احمد بن حنبل کی ہی ایک اور حدیث الرقم: 21202 یوں ہے:
وَإِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ الْقَيِّمَ عِنْدَ اللهِ الْحَنِيفِيَّةُ، غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ، وَلَا الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
اور درحقیقت سچا دین اللہ کے نزدیک حنیفیت(اسلام) ہے نہ کہ مشرکیت اور نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
ایک اور کتاب الاحادیث مختارہ الرقم: 1162 میں ہمیں اس حدیث کے الفاظ مختلف ملتے ہیں:
إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ لَا الْمُشْرِكَةُ وَلا الْيَهُودِيَّةُ وَلا النَّصْرَانِيَّةُ
درحقیقت اللہ نے نزدیک دین کی حقیقت آسان(دین)حنیفیت ہے۔ نہ مشرکیت اور نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
اور مستدرک حاکم الرقم:2889 میں اسی حدیث کے الفاظ مختلف ہیں اور وہاں مشرکیت کا کوئی تذکرہ نہیں:
وَإِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ غَيْرَ الْيَهُودِيَّةِ، وَلَا النَّصْرَانِيَّةِ
اور بے شک اللہ کے نزدیک دین حنیفیت ہے، نہ یہودیت اور نہ نصرانیت۔
احادیث کے الفاظ کا یہ فرق ظاہر کرتا ہے کہ یہ الفاظ قرآن مجید کا حصہ نہ تھے۔ اور ثبوت اس کا یہ ہے کہ ان احادیث میں جہاں جہاں بھی آیت قرآنی یعنی البینہ کی آیت بیان ہوئی وہ ہمیشہ بغیر الفاظ کہ کسی فرق سے بیان ہوئی اور احادیث کے دیگر الفاظ میں فرق ہے۔ یہ فرق بالکل واضح کرتا ہے کہ یہ الفاظ کبھی بھی قرآن مجید کا حصہ نہ تھے، اور نہ ہی راویان احادیث ان الفاظ کو قرآن مجید کا حصہ گردانتے تھے۔
کچھ احادیث میں یہ ” إِنَّ الدِّينَ“ ہے، کچھ میں ” إِنَّ ذَاتَ الدِّينِ“اور کچھ میں یہ ” إِنَّ ذَلِكَ الدِّينَ الْقَيِّمَ “ ہے۔ کچھ احادیث میں یہ ” الحَنِيفِيَّةُ المُسْلِمَةُ “ ہے، کچھ میں صرف ”الحَنِيفِيَّةُ“ اور دیگر حدیث میں یہ ایک اور تبدیلی کے ساتھ ” الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ “ ہے۔ ایک حدیث میں ” لَا المَجُوسِيَّةُ“ یعنی ”نہ مجوسیت“ کے الفاظ ہیں اور دوسری میں ” لَا الْمُشْرِكَةُ “ یعنی ”نہ مشرکیت“ اور ایک حدیث میں یہ الفاظ ہیں ہی نہیں۔ اور ایک حدیث میں الفاظ ” غَيْرُ الْمُشْرِكَةِ“ ہیں اور دوسری میں ”لَا الْمُشْرِكَةُ “۔
مزید یہ کہ سنن ترمذی کی حدیث میں الفاظ ”مَنْ يَعْمَلْ“ ہے اور دیگر احادیث میں یہ الفاظ ” وَمَنْ يَعْمَلْ“ ہے۔ یعنی ”و“ کے ساتھ ہیں۔
ایک اور بات پر بھی توجہ کی جائے کہ الفاظ ” ذَاتَ الدِّينِ“، ” الْيَهُودِيَّةُ“، ” النَّصْرَانِيَّةِ“ اور ” المَجُوسِيَّةُ“قرآن مجید میں نہیں استعمال کئے گئے جو ظاہر کرتا ہے کہ یہ غیر قرآنی انداز ہے۔

2.2 مال سے بھری دو وادیاں
سنن ترمذی کی حدیث میں الفاظ یوں ہیں:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَانِيًا، وَلَوْ کَانَ لَهُ ثَانِيًا، لَابْتَغَی إِلَيْهِ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا تُرَابٌ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَی مَنْ تَابَ
”اگر ابن آدم کے پاس مال کی ایک وادی ہو تو وہ دوسری وادی کی خواہش کرے گا اور اگر اسے دوسری بھی مل جائے تو وہ تیسری چاہے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے“۔
اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث الرقم: 21203 کے الفاظ یوں ہیں:
لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ مِنْ مَالٍ، لَسَأَلَ وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ
”اگر ابن آدم کے پاس مال کی دو وادیاں ہوتیں تو وہ تیسری وادی مانگے گا، اور آدم زادہ کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی“۔
فرق کو نوٹ کریں کہ کیسے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ساتھ بات واضح ہوتی جا رہی ہے اور احادیث کا آخری حصہ یعنی توبہ کرنے والی کی توبہ قبول ہوتی ہے، مستقل ہے۔
اور مستدرک حاکم الرقم:2889 اور مسند احمد بن حنبل الرقم: 21202 کی احادیث میں ہم یوں پڑھتے ہیں:
وَلَوْ أَنَّ ابْنَ آدَمَ سَأَلَ وَادِيًا مِنْ مَالٍ فَأُعْطِيَهُ، لَسَأَلَ ثَانِيًا وَلَوْ سَأَلَ ثَانِيًا فَأُعْطِيَهُ، لَسَأَلَ ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللهُ عَلَى مَنْ تَابَ
اگر ابن آدم مال کی ایک وادی مانگے اور وہ اسے دے دی جائے تو وہ دوسری کا سوال کرے گا اور اگر دوسری کا سوال کرنے پر وہ بھی مل جائے تو تیسری کا سوال کرے گا، اور ابن آدم کا پیٹ صرف خاک ہی بھر سکے گی۔ اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرتے ہیں جو توبہ کرتا ہے۔
اب ان تینوں میں احادیث میں بھی الفاظ کا فرق بالکل واضح ہے۔
اس کے علاوہ سنن ترمذی کی حدیث کا مستدرک حاکم کی اوپر بیان حدیث(2889) سے موازنہ کریں۔ سنن ترمذی کی حدیث میں ’دین حنیفیت کے متعلقہ بات‘ کو ’انسان کی مال کی وادیوں کے متعلق چاہت‘ سے پہلے بیان کیا گیا ہے اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث:21203 میں طریق بیان بھی یہی ہے۔ جبکہ مستدرک حاکم کی حدیث میں ’دین حنیفیت کے متعلقہ بات‘ کو’مال کی دو دادیوں کے متعلقہ بیان‘ کے بعد بیان کیا گیا ہے اور مسند احمد بن حنبل کی حدیث:21202 میں طریق بیان بھی یہی ہے۔
یہ ترتیب کا فرق بھی ثابت کرتا ہے کہ یہ الفاظ قرآن مجید کے نہیں ہیں جیسا کہ قرآنی الفاظ کو ایک خاص ترتیب سے بیان کیا گیا ہے۔
یہ الفاظ کس جملہ قرآنیہ کی تفسیر ہیں؟
یہ الفاظ دراصل سورۃ البینہ کی آیت 5 کی وضاحت کرتے ہیں:
وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ وَذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ (البینہ 98:5)
”حالانکہ ان کو یہی حکم دیا گیا تھا کہ صرف ایک اللہ کی عبادت کریں، اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے بالکل یکسو ہو کر نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور یہی درست دین ہے“۔
بظاہر انسان کی وادیوں کی چاہت کے متعلقہ بیان زکوٰۃ کے ادائیگی پر تاکید ” يُؤْتُوا الزَّكَاةَ“ ہے اور واضح کیا گیا ہے کہ بصورت دیگر انسان میں دولت کی تڑپ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اور دین حنیفیت کے متعلقہ بیان سورۃ البینہ کے الفاظ ” دِينُ الْقَيِّمَةِ“کی وضاحت کر رہے ہیں۔

کچھ ممکنہ سوالات کے جوابات:
1: شائد کوئی کہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ بیانات البینہ کی پانچویں آیت کی تفسیر کرتی ہوں، حالانکہ احادیث میں تو البینہ کی پہلی آیت کے چند الفاظ آئے ہیں۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف ابتدائی چند الفاظ کا ہی بیان کرنا سورۃ البینہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے ہیں بجائے اس کا نام لیا جائے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مختلف راویوں نے سورۃ البینہ کی طرف اشارہ کرنے کے لئے مختلف حدودِ الفاظ استعمال کیں۔
جیسا کہ سنن ترمذی کی حدیث میں البینہ کے الفاظ صرف ” لَمْ يَکُنْ الَّذِينَ کَفَرُوا“ یہ ہیں۔ مسند احمد بن حنبل کی روایت 21202 میں الفاظ ” لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ“ ہیں۔ مستدرک حاکم کی حدیث 2889 میں یہ الفاظ ” لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ“ہیں۔ الغرض ان تمام احادیث میں پہلی آیت بھی مکمل طور پر بیان نہیں کی گئی۔ اور الاحادیث مختارہ روایت کی حدیث میں تو صرف ” لَمْ يَكُنِ“ بیان ہے۔ پس یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ البینہ کی پہلی آیت کی مختلف حدودِ الفاظ صرف سورہ البینہ کی طرف اشارۃ بیان ہیں۔
2: جہاں تک اس معاملہ کی بات ہے کہ کچھ احادیث میں ” ثُمَّ خَتَمَهَا بِمَا بَقِيَ مِنْهَا“ یعنی ”پھر انہوں نے بقیہ سورت پڑھی“ کے الفاظ آئیں ہیں تو ان سے مراد آیت 6 اور 7 ہیں، کہ پہلی پانچ آیات کی تفسیر گذر چکی اور اس کے بعد بقیہ آیات پڑھیں گئیں۔
3: اگر کوئی کہے کہ احادیث صاف طور پر کہہ رہیں ہیں کہ ” وَقَرَأَ فِيهَا“یعنی ” اور اس میں یہ بھی پڑھا“ تو یہ کیسے بطور تفسیر و تفصیل ہو سکتیں ہیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام احادیث کو یکجا کریں تو مستدرک حاکم کی حدیث 2889 صاف طور پر بتلا رہی ہے ” وَمِنْ نَعْتِهَا“یعنی ” اور اس کی وضاحت میں“، کہ یہ الفاظ بطور تفسیر ہیں۔” وَقَرَأَ فِيهَا“ کے الفاظ بعد کے راوی کہ ہیں اور اس کی دلیل اسی حدیث میں موجود ” وَقَرَأَ عَلَيْهِ“، ”انہوں نے اس کے سامنے پڑھا“ یعنی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے سامنے پڑھا، کے الفاظ ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ الفاظ بعد کے راوی کہ ہیں ورنہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اپنے لئے متکلم غائب(Third Person) کا صیغہ نہ استعمال کرتے۔ در حقیقت مسند احمد بن حنبل کی حدیث21203 کے الفاظ ” قَالَ شُعْبَةُ“ واضح طور پر بتلا رہیں ہے کہ یہ الفاظ ایک راوی شعبہ(شعبہ بن حجاج بن الورد) کے ہیں۔ بعد کے راوی کے الفاظ جس میں بھی ایک تسلسل نہیں مذکورہ حقائق قرآن مجید کے عظیم تواتر کے سامنے ہرگز حجت نہیں ہو سکتے۔
خلاصہ
مذکورہ تفصیل یہ ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے دونوں تفصیلات قرآن مجید کے حصہ کے طور پر نہیں بیان کئے تھے۔ وہ کبھی بھی سورۃ البینہ کا حصہ نہیں تھیں۔ یہ صرف حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی تفسیر تھی۔ تفصیلات میں الفاظ کا فرق اور غیر قرآنی طریق کار بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ یہ الفاظ کبھی بھی قرآن مجید کے حصہ کے طور پر نہیں بیان کئے گئے تھے۔
ترجمہ آرٹیکل
http://www.letmeturnthetables.com/2011/09/surah-98-bayyinah-lost-verse-quran.html

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password