.
ابو حرب بن ابی الاسودؒ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں حضرت ابو موسٰی اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو ان کے پاس تین سو ایسے لوگ آئے جو قرآن مجید پڑھ سکتے تھے، حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے کہا: تم اہلِ بصرہ میں سب سے بہتر ہو اور اے قرآن پڑھنے والو! قرآن پڑھتے رہو، کہیں زیادہ مدت گذر جانے سے تمہارے دل سخت نہ ہوجائیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے دل سخت ہوگئے تھے۔ ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جو طول اور شدت میں سورۃ توبہ کے برابر تھی مجھے وہ سورت بھلا دی گئی۔ البتہ اس کی اتنی بات یاد رہی ہے کہ ابنِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا۔ ابنِ آدم کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی، اور ہم ایک اور سورت بھی پڑھا کرتے تھے جو مسبحات میں سے کسی ایک سورت کے برابر تھی وہ بھی مجھے بھلا دی گئی البتہ اس میں سے مجھے اتنا یاد ہے: ” اے ایمان والو وہ بات کیوں کہتے ہو جس کو خود نہیں کرتے تمہاری گردنوں میں شہادت لکھ لی جائے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے متعلق سوال پوچھا جائے گا۔ (مسلم، کتاب الزکواۃ، باب لو ان لا بن آدم و ادیین لا بتغی ثالثاً، ح 2419، ص 422)
مصر کے معروف منکرِ حدیث محمود ابوریہ (ابوریہ، أضواء علی السنۃ المحمدیۃ، ص 257) نے مذکورہ بالا روایت کو اس وجہ سے اپنی تنقید کا نشانہ بنایا ہے کہ یہ روایت حفاظتِ قرآن کے عقئدے سے متصادم ہے۔ اگر اس قسم کی روایات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معترضین غور و فکر کی زحمت گوارا نہیں کرتے ورنہ اس روایت کو درج ذیل تاویلات کی موجودگی میں قرآن مجید کی حقانیت کے خلاف قرار دینا درست نہیں۔
1۔ قرآن مجید تواتر سے ثابت ہےا ور اس قسم کی روایات اور اخبارِ آحاد ہیں اور خبرِ واحد چونکہ ظنی ہوتی ہے، اس لیے یہ روایت قرآن مجید کی قطعیت کے منافی نہیں ہے۔
2۔ یہ روایت خود امام مسلم کی نظر میں بھی صحیح تک کے اعلیٰ درجے پر نہیں ہے۔ امام مسلم ؒ نے صحیح مسلم کی تدوین میں جن اصولوں کو پیشِ نظر رکھا ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے وہ خود صحیح مسلم کے مقدمہ مین رقمطراز ہیں:”قسم اول میں پہلے ہم ان احادیث کو بیان کریں گے جن کی اسانید دوسری اسانید کی نسبت عیب اور نقائص سے محفوظ ہیں، جن کے راوی معتبر، ثقہ اور قوی حافظہ کے مالک ہیں اور ان کی روایات میں شدید اختلاف اور کثیر اختلاط نہیں ہوتا اور یہ بات ان کی روایت کردہ احادیث سے پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے۔ اس قسم کے لوگوں کی روایات بیان کرنے کے بعد ہم ان روایات کا ذکر کریں گے جن کی روایت میں بعض راوی ایسے بھی ہوں گے جو قوت اور ثقاہت میں قسمِ اول کے پایہ کے نہیں ہوں گے، اگرچہ تقوٰی، پرہیز گاری، صداقت اور امانت میں ان کا مرتبہ کم نہیں ہوگا” (مسلم، مقدمۃ الکتاب، ص 5)
یہ بات قابلِ توجہ ہے کہ امام مسلم نے اس باب میں پانچ روایات نقل کی ہیں اور چونکہ یہ روایت ان کی نظر میں سب سے کمزور تھی اس لیے انھوں نے اپنے اصول کے مطابق اس روایت کو سب سے آخر میں ذکر کیا ہے۔ یہ بذات خود بڑا واضح اشارہ ہے کہ امام مسلم ؒ کی نظر میں یہ حدیث دوسری احادیث سے کمزور ہے، اور انہوں نے اس روایت کو وہ مقام اور رفعت نہیں دی جو پہلی احادیث کو دی ہے۔
3۔ اس باب میں امام مسلم ؒ نے جو پانچ روایات نقل کی ہیں ان میں سے پہلی چار روایات میں ” لوکان لا بن آدم و ادیان ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ” کو قرآن کی آیات کے طور پر روایت نہیں کیا گیا۔
اس باب کی پہلی تین روایات حضرت انس (رضی اللہ تعالی عنہ ) سے مروی ہیں۔ ان میں حضرت انس بن مالک (رضی اللہ تعالی عنہ (م 92ھ)) سے یہ الفاظ منقول ہیں:” سمعت رسول اللہ ﷺ یقول ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فلا أدری أشیء أنزل أم شیء کان یقولہ” ترجمہ: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اور مجھے یہ پتہ نہیں کہ آپ ﷺ پر وہ بات(ابنِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا) نازل ہوئی تھی یا آپ ﷺ از خود فرمارہے تھے۔ ” ( باقی روایت حسبِ سابق ہے۔ ) (مسلم، کتاب الزکواۃ، باب لو ان لا بن آدم و ادیین لا بتغی ثالثاً، ح 2416، ص 421)
چوتھی روایت حضرت عبداللہ بن عباس (رضی اللہ تعالی عنہ (م 68ھ)) سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: ” فلا أدی أمن القرآن ھو أم لا ” وفی روایۃ زھیرؒ قال: فلا أدری أمن القرآن، لم یذکر ابنِ عباس (رضی اللہ تعالی عنہ )” ترجمہ: مجھے معلوم نہیں کہ یہ (ابنِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری کی خواہش کرے گا) قرآن سے ہے یا نہیں۔ زہیرؒ کی روایت میں ہے کہ ابنِ عباس ( رضی اللہ تعالی عنہ ) نے یہ الفاظ نہیں کہے کہ ” مجھے معلوم نہیں کہ یہ قرآن سے ہے کہ نہیں ہے۔ (ایضاً، ح 2419، ص 421)
4۔ مغالطہ کی اسی سلسلہ کی ایک کڑی یہ بھی ہے کہ قرآن سناتے ہوئے بعض دفعہ صحابی قرآن میں تفسیر طلب الفاظ کی تفسیر بھی کرتے چلے جاتے تھے، ہندوستانی علماء بھی بکثرت اس کام کو کرتے ہیں لیکن چونکہ ان کے تفسیری الفاظ اردو میں ہوتے ہیں اس لئے سب جانتے ہیں کہ درمیان کے الفاظ قرآنی الفاظ کی تفسیر سے تعلق رکھتے ہیں لیکن چونکہ صحابہ کی مادری زبان بھی چونکہ وہی تھی جو قرآن کی زبان ہے اسی سے بعضوں نے تفسیر کے ان عربی الفاظ سے یہ غلط فائدہ اٹھانا چاہا اور مشہور کر دیا کہ فلاں سورۃ میں موجود الفاظ کے ساتھ فلاں فلاں الفاظ پائے جاتے تھے جواب قرآن سے خارج ہو گئے ہیں۔ جیسا کہ صحابی رسول ﷺ حضرت ابی (رضی اللہ تعالی عنہ ) بن کعب کا واقعہ ہے کہ آپ (رضی اللہ تعالی عنہ ) سورۃ البینہ سنا رہے تھے جب وہ ( وما امروا الا لیعبدو اللہ مخلصین لہ الدین حنفاء ) تک پہنچے تو ( مخلصین لہ الدین ) کی تشریخ کرنے لگے پھر اسکے بعد باقی آیات پڑھیں اس سے مستشرقین نے یہ دعوی کیا کہ وہ تشریح جو عربی میں ہے وہ بھی سورۃ البینہ کا حصہ تھی۔واقعہ یہ ہے کہ عربی زبان سے تھوڑا بہت بھی لگاو جو رکھتا ہے سننے کے ساتھ ہی سمجھ سکتا ہے کہ یہ تشریحی الفاظ زربفت میں ٹاٹ کا پیوند کی طرح علیحدہ نظر آتے ہیں۔
یہاں یہ استدلال بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ ابنِ مسعود (رضٰی اللہ تعالی (م 32ھ)) اور ابی (رضی اللہ تعالی عنہ ) ابن کعب ( م 30ھ) کے بارے میں مستشرقین اور منکرین حدیث نے یہ مشہور کررکھا ہے کہ ان کے پاس مصحفِ صدیقی سے ہٹ کر قرآن کے کے نسخے موجود تھے، تو پھر چاہیئے تھا کہ اس سورت کا ذکر ان کے ذاتی نسخوں میں موجود ہوتا لیکن انھوں نے بھی ایسی کسی سورت کا نام تک نہیں لیا۔اسی لیے علامہ قرطبیؒ ( م 671ھ ) نے اس روایت کے بارے میں ابوبکر الأنباریؒ ( م 327) کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس روایت کو قرآن کی آیت کہنا باطل ہے۔
5۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے الفاظ: و انا کنا نقرأ سورۃً ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ ” اور اہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے ۔ ۔ ” سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت یا سورۃ تمام صحابہ کو یاد ہوگی، یہ بات تسلیم نہیں کی جاسکتی کہ کوئی آیت یا سورت قرآن کا حصہ ہو اور وہ صرف ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) ہی کو یاد ہو۔ یہ سورت یقیناً صحابہ کرام (رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین ) میں معروف ہوگی اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ ابو موسی اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) کو ساری سورت بھول گئی ہو کہ دوسرے صحابہ (رضوان اللہ تعالی علیھم اجعمین ) نے نہ اس سورت کا نام لیا ہو اور نہ ہی اس کی موجودگی کا کبھی ذکر کیا ہو۔ عہدِ صدیقی میں زید (رضی اللہ تعالی عنہ ) بن ثابت (م 44ھ) کی زیر نگرانی تدوینِ قرآن کا کام ہوا تو اس وقت اعلانِ عام کیا گیا کہ جس جس کے پاس قرآن کا کوئی حصہ لکھا ہوا موجود ہو وہ مسجد نبوی میں اسے ” تدوین قرآن کمیٹی ” کے سامنے پیش کرے۔ اس وقت ابو موسیٰ اشعری (رضی اللہ تعالی عنہ ) ( م51ھ) اور نہ ہی کسی اور صحابی (رضی اللہ تعالی عنہ ) نے اس سورت کا ذکر کیا۔ اس طرح حضرت عثمان (رضی اللہ تعالی عنہ ) کے عہد میں بھی ہوا۔ حالانکہ صحابہ (رضی اللہ تعالی عنہ ) مین بہت سے حفاظِ قرآن موجود تھے۔
استفادہ تحریر:قرآن سے منسوب بعض روایات حدیث ، ڈاکٹر محمد اکرم ورک ( ایسوسی ایٹ پروفیسر،، شعبہ علومِ اسلامیہ، گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج، سیٹلائٹ ٹاؤن ، گوجرانوالہ )
عامر
March 25, 2017 at 8:26 pmایک ضمنی اشکال ہے کہ کیا اس سے صحیح مسلم کی صحت پر اجماع کا دعویٰ باقی رہے گا؟
ایڈمن
April 13, 2017 at 6:12 amجی مصنف کی یہی نشاندہی بھی صحیح مسلم کی صحت کا درجہ بڑھاتی ہے۔!
آرٹیکل لسٹ (قرآن) | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
September 18, 2018 at 9:38 am[…] 8. کیا ‘ابنِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں۔ ۔ الخ قرآن کی… […]
قرآن – الحاد جدید کا علمی محاکمہ
June 29, 2024 at 9:01 am[…] 8. کیا ‘ابنِ آدم کے لیے مال کی دو وادیاں ہوں۔ ۔ الخ قرآن کی… […]