اعتراض :
قرآن کے مطابق یہودی کہتے ہیں کہ حضرت عزیر علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں کہ مسیح اللہ تعالیٰ کے بیٹے ہیں۔
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ عُزَیۡرُۨ ابۡنُ اللّٰہِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَی الۡمَسِیۡحُ ابۡنُ اللّٰہِ .. ﴿سورۃ التوبہ، آیت 30 ﴾
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر اللہ کا بیٹا ہے اور عیسائی کہتے ہیں مسیح اللہ کا بیٹا ہے .
اب عیسائیوں کے بارے میں تو سب جانتے ہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ لیکن یہودیوں کے بارے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ تو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ کا بیٹا نہیں مانتے ، اور نہ ہی یہودیوں کی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ عزیر اللہ تعالیٰ کے بیٹے تھے۔ نہ ہی آج کل کے یہودی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ یہودیوں کا کبھی یہ عقیدہ رہا ہو۔
تبصرہ:
اس اشکال کے جواب میں چند نکات پیش ہیں۔
1۔بعض ملحدین نے اس آیت پر یہ اعتراض اٹھایا ہے کہ قرآن مجید کے اس دعوٰی یہودی عزیرعلیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے ‘ کی تصدیق بائبل نہیں کرتی۔ یہ اعتراض حقیقت میں قرآن پر بنتا نہیں بلکہ بائبل پر بنتا ہے کہ اُس نے ہر ہر واقعہ کے متعلق معلومات فراہم نہیں کی یا پھر اس عقیدے کو قصداً تحریف کی بھینٹ چڑھا دیا گیا یا پھر بغض اسلام میں یہودیوں نے تاریخ پر خط نسخ پھیر دیا ۔ اگر یہودیوں میں ایسا کوئی فرقہ موجود نہ رہا ہوتا تو یثرب اور خیبر وغیرہ کے یہودی ضرور اس آیت پر اعتراض کرتے اور لازما کہتے کہ یہ بات ان سے غلط طور پر منسوب کی جا رہی ہے۔ ان کا اعتراض نہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان میں ایسا فرقہ موجود تھا۔ جو دن رات اسی ٹو میں رہتے تھے کہ ہمیں اعتراض کی کوئی بات ملے، حضور اور صحابہ کا مذاق اڑانا، مناظرے اور کئی جگہ سوالات تک قرآن نے ذکر کیے ہیں یہ ممکن نہیں کہ قرآن پر اعتراض کا اتنا اہم پوائنٹ وہ مس کرجاتے جسے آج کے متعصبین لے کے بیٹھے ہوئے ہیں ، نبی کریم ﷺ کے معاصرین یہود یوں کا اس پر سکوت اختیار کرنا اس بات کی دلیل مبین ہے کہ ابتدائے اسلام میں یہودیوں میں نہ صرف ایسے لوگ موجود تھے بلکہ اہل مدینہ ان لوگوں سے واقفیت بھی رکھتے تھے۔
2۔یہ بات قانون فطرت ہے کہ کسی بھی قوم یا جماعت میں فرقے عدم سے وجود میں آتے ہیں اور پھر دوبارہ معدوم ہوجاتے ہیں لہذا کسی فرقے کے وجود کا زمانہ حال میں موجود نہ ہونا اُس کے لائمی عدم وجود کی دلیل نہیں بن سکتا۔یہودیوں میں ایک غاریہ فرقہ ہوا کرتا تھا جوکہ غاروں میں سکونت پذیر رہتے تھے مگر آج یہ موجو د نہیں۔اِسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زمانے میں ایک فرقہ اسینی کے نام سے موجود تھا لیکن انجیل میں کہیں بھی اس کا تذکرہ نہیں اور 1947 میں اس فرقہ کی عظیم باقیات یروشلم کے قریب قمران نامی علاقے سے ملی ہیں۔اناجیل میں موجودیہودی فرقے صدوقی،فریسی وغیرہ کوئی بھی آج موجود نہیں تو اس کا مطلب یہ کہاں سے برآمد ہوگیا کہ یہ فرقے موجود ہی نہیں تھے۔ اگر قرآن مجید کے دعویٰ کے مطابق عزیز علیہ السلام کو خدا کا بیٹا ماننے والا یہودی فرقہ موجود نہیں تویہ قرآن مجید کی عدم صداقت کی دلیل ہے تو پھر یہ اعتراض بدرجہ اولیٰ بائبل پر وارد ہوجاتا ہے جو سودمی،ادومی،صدوقی وفریسی نامی فرقوں کے وجود کی خبر دیتی ہیں مگر آج ان فرقوں کا کوئی وجود ہی نہیں۔ حقیقت میں یہ اعتراض کسی پر بھی نہیں بنتا بلکہ تذکرہ کرنے والے کی حقانیت کی دلیل ہے کہ وہ ایسی باتیں بھی بتا رہا ہے جو صدیوں پرانی ہیں اور اسکے گواہ اسکے اپنے نہیں غیر مذہب کے لوگ ہیں ۔۔۔!!!
3۔ یہود میں یہ عقیدہ کیسے اور کب وجود میں آیا ؟ ؟ یہودی قوم اپنی شرارت کی وجہ سے ہمیشہ ذلت اور پریشانیوں کا شکار رہی. ایک دور ایسا بھی آیا کہ اس دور میں تورات کو بھی جلا دیا گیا تھا تب حضرت عزیر نے اللہ کے حکم سے دوبارہ تورات لکھی جب یہ لوگ جنگ سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اپنے چھپائے ہوئے نسخوں سے اس کو ملایا جو حضرت عزیر نے لکھا تھاتب اس کو ہو بہو پا کر ان کی عزت کرنے لگئ اور ان کو شریعت موسوی کا نائب اور ایک بہت بڑے عالم کا درجہ دنے لگے اور بعض نے ان کو خدا کا بیٹا تک بنا ڈالا ۔بعد میں یہ شرک ان میں پھیلتا گیا ، یہاں تک کہ بعد کے نبیوں نے آکر اصلاح کی اور یہ لوگ محدود ہوتے گئے۔ اس آیت کے شان نزول میں ایک جگہ پڑھا تھا حضرت عباسؓ غالباََ فرماتے ہیں کہ ایک دن یہود کے کچھ سردار اللہ کے رسول ﷺ کے پاس آئے اور فرمایا کہ ہم آپ پر کیسے ایمان لاہیں جب کہ آپ عزیر کو اللہ کا بیٹا بھی نہیں مانتے تب یہ آیات نازل ہوہیں.۔۔۔ جس طرح عیسائیت میں کیتھولک اور پروٹیسٹنٹ کی تقسیم ہوئی، کیتھولک اکثریت میں رہے، اس طرح یہود میں ایک زمانہ ایسے یہود کی اکثریت کا بھی رہا ہے، قرآن نے اسی اکثریت کے عقیدے کی خبر تھی جو عیسائیوں میں کیتھولک کو بھی حاصل تھی۔
-4 ڈاکٹر محمود احمد غازی لکھتے ہیں “آج سے 54 سال قبل اردن کے علاقے میں بڑا عجیب و غریب واقعہ پیش آیا۔ Dead Sea جس کو بحر میت (یا بحر مردار) بھی کہتے ہیں۔ اس کے ایک طرف پہاڑ ہے اور پہاڑ کے اختتام پر بحر میت شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے دوسرے کنارے پر اس علاقہ کی حدود شروع ہوتی ہیں جس کو مغربی کنارہ کہتے ہیں جس پر اب اسرائیل نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں ایک چھوٹا سا گاؤں تھا۔ وہاں ایک چرواہا رہتا تھا جس کا نام احمد تھا۔ وہ روزانہ اس جگہ اپنی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ اپنی بکریاں چراتا چراتا پہاڑ کے اوپر چلا گیا اور شام تک وہاں بکریاں چراتا رہا۔ جب واپس جا رہا تھا تو ایک بکری گم ہو گئی۔ وہ اس بکری کی تلاش میں نکلا۔ چلتے چلتے اسے ایک غار دکھائی دیا۔ اس نے سوچا کہ شاید بکری غار کے اندر چلی گئی ہے۔ بکری کو بلانے کے لئے اس نے آواز دی تو اندر سے بکری کی آواز آئی۔ وہ غار کے اندر داخل ہو گیا۔ وہ غار کے اندر چلتا گیا اور بکری بھی آگے آگے چلتی گئی۔ جب خاصا اندر چلا گیا تو اسے کچھ اندھیرا سا محسوس ہوا۔ یہ اپنی بکری چھوڑ کر واپس آ گیا اور اگلے دن کچھ لوگوں کو ساتھ لے کر گیا اور ساتھ ہی روشنی کا انتظام کرے کے لئے کوئی شمع یا لالٹین بھی ساتھ لیتا گیا۔ جب وہ اندر داخل ہوا اور بکری کو ساتھ لانے لگا تو اس نے دیکھا کہ غار کے اندر مٹی کے بہت سارے بڑے بڑے گھڑے رکھے ہوئے ہیں۔ اس کو یہ خیال ہوا کہ شاید یہ کوئی پرانا خزانہ ہے جو یہاں چھپا ہوا ہے۔ اس نے ایک مٹکے میں ہاتھ ڈالا تو اس میں پرانے کاغذ اس طرح لپٹے ہوئے رکھے تھے جیسے طومار لپٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک کو چھیڑا، وہ پھٹ گیا۔ دوسرے کو چھیڑا وہ بھی پھٹ گیا۔ ہر مٹکے میں ایسے ہی طومار بھرے ہوئے تھے۔ وہ واپس آ گیا اور اس نے آ کر گاؤں والوں کو بتایا کہ شاید وہاں کوئی خزانہ دفن ہے۔ بہت سے گاؤں والے وہاں پہنچے اور انہوں نے ان مٹکوں میں ہاتھ ڈال کر کچھ نکالنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں بہت سے کاغذ پھٹ گئے۔ اتفاق سے وہاں ماہرین آثار قدیمہ کی ایک ٹیم آئی ہوئی تھی جو چند مغربی ماہرین پر مشتمل تھی۔ جب انہیں یہ قصہ معلوم ہوا تو وہ بھی وہاں پہنچے اوران میں سے بہت سے کاغذات اورکتابیں چرا کر لے گئے۔ مقامی حکومت کو جب ان کی اس حرکت کا پتہ چلا تو انہوں نے انہیں روکا اور یہ تمام کاغذات اور کتابیں سرکاری قبضہ میں لے کر ایک مرکز میں رکھ دیں اور ماہرین کی ایک ٹیم مقرر کی کہ وہ کاغذوں اور طوماروں کا مطالعہ کر کے دیکھیں کہ یہ کیا کتابیں ہیں۔ کہاں سے آئی ہیں اور کس نے لکھی ہیں اور ان میں کیا لکھا ہوا ہے۔ ان آثار و دستاویزات کا جو حصہ مغربی ماہرین لے گئے تھے، انہوں نے بھی ان کاغذات کا مطالعہ کرنا شروع کیا۔ قدیم خطوط اور مذاہب کے ماہرین کو بلوایا گیا۔ انہوں نے بھی ان کتابوں کو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ ایک بہت بڑا کتب خانہ تھا جو کسی بڑے عیسائی عالم کی ملکیت تھا۔ وہ عیسائی عالم اس زمانہ میں تھا جب عیسائیوں پر مظالم ہو رہے تھے اور یہودیوں کی حکومت تھی۔ یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے 150،100 سال بعد کا واقعہ ہے۔ یہ لوگ اہل ایمان اور صاحب توحید تھے۔ جب ان پر مظالم ہوئے تو یہ اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ اس کتب خانہ کے مالک عالم کو خیال ہوا کہ کتابوں کا یہ قیمتی ذخیرہ لوگ ضائع کر دیں گے۔ اس لئے وہ اس ذخیرہ کو غار میں چھپا کر چلا گیا کہ اگر زندگی بچی تو واپس آ کر لے لوں گا۔ اس کے بعد اس کو واپس آنے اور اپنے کتب خانے کو واپس حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا۔ یوں یہ کتب خانہ کم و بیش اٹھارہ سو سال وہاں غاروں میں محفوظ رہا۔ گویا سن 100 یا 150 عیسوی سے یہ کتابیں وہاں رکھی ہوئی تھیں۔
کوئی پونے دو ہزار سال پہلے کے لکھے ہوئے یہ ذخائر قدیم عبرانی اور سریانی زبانوں میں تھے۔ ان میں سے ایک ایک کر کے چیزیں اب شائع ہو رہی ہیں۔ کچھ چیزیں اردن میں شائع ہوئی ہیں اور کچھ انگریزی زبان میں یورپ میں شائع ہو رہی ہیں۔ یونیسکو اس عظیم کام کے لئے پیسہ دے رہی ہے۔ ان میں سے کچھ حصے جو 1960 یا اس کے لگ بھگ شائع ہوئے تھے ان میں ایک پوری کتاب ہے جو غالبا کسی عیسائی عالم کی لکھی ہوئی ہے۔ اس کا کچھ حصہ یہودیوں کی تردید میں ہے۔ خاص طور پر ان یہودیوں کی تردید میں جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتے ہیں۔ کتاب میں اس عقیدے کی برائی بیان کی گئی ہے اور اس مشرکانہ عقیدہ پر ان یہودیوں کو شرم دلائی گئی ہے اور پھر یہ وضاحت بھی لکھی گئی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات تو ایک ہے۔ اس کا کوئی بیٹا نہیں ہے۔ اور عزیر علیہ السلام تو اللہ کے نیک بندے اور انسان تھے۔ وہ اللہ تعالیٰ کے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں؟گویا اسلام سے بہت پہلے کا یہودیوں کے اپنے ہاتھ کا لکھا ہوا، عیسائیوں کا محفوظ کیا ہوا اور اہل مغرب کا چھاپا ہوا ایک مسودہ مل گیا کہ جس سے یہ ثابت ہو گیا کہ اس زمانہ میں یہودیوں میں ایک فرقہ ایسا موجود تھا جو حضرت عزیر علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ کا بیٹا مانتا تھا۔(محاضرات قرآنی، ڈاکٹر محمود احمد غازی)