قرآن کے عالمی اثرات اورانکی وجوہات

13680803_1798512697052021_3052317844277518408_n

اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لیے جو کتابیں نازل کیں ان میں قرآن مجید سب سے آخری کتاب ہے، لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے اس کا مقام سب سے آگے ہے۔ انسانوں نے جو کتابیں تصنیف کیں ان کا تو شمار ہی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے بعض کتابوں کا اثر بھی، اس میں شک نہیں، دنیا نے قبول کیا، لیکن قرآن مجید سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے۔ اس طرح کی ہر انسانی تصنیف نے ایک محدود دائرے میں اپنے اثرات چھوڑے، لیکن قرآن نے ایک عالم کو بدل کر رکھ دیا۔ اس نے دنیا کو نئے افراد دیے، نیا سماج دیا اور نیا طرزِحکومت عطا کیا۔
کسی فرد کو بدلنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے۔ قرآن نے فرد کو خطاب کیا اور اس کے ذہن و فکر اور سیرت و کردار ہی کا نہیں، اس کے جذبات و احساسات تک کا رخ موڑ دیا۔ اس نے طہارتِ فکر و نظر اور اخلاق و کردار کی اساس پر ایک پاکیزہ معاشرہ کا تصور دیا اور اس طرح کا معاشرہ قائم کرکے دکھادیا۔
اس نے کہا ریاست کو حرّیتِ فکر و عمل، عدل و انصاف اور مساوات کی اساس پر قائم ہونا چاہیے اور انسانی حقوق کا احترام اس کا فرض ہے۔ دنیا کو اس کے ذریعہ اس ریاست کا تجربہ ہوگیا۔ دنیا تغیرات کی آماج گاہ ہے۔ یہاں چھوٹی بڑی تبدیلیاں ہوتی ہی رہتی ہیں، لیکن قرآن کے ذریعہ اس نے ایک ہمہ جہت تبدیلی کا مشاہدہ کیا۔ یہ تبدیلی ہمیشہ کے لیے نمونہ بن گئی۔ جب بھی انسان خیر و فلاح کا وسیع تصور کرے گا یہ نمونہ اس کے سامنے ہوگا۔

قرآن حالات کا ردِّ عمل نہیں ہے
یہ عظیم انقلاب کسی ایک خطۂ زمیں تک محدود نہیں رہا، بلکہ دنیاکے بڑے حصے نے اس کا استقبال کیا اور بخوشی اس تبدیلی کو قبول کیا۔ اس کی بہت سی توجیہات کی جاسکتی ہیں۔ ایک توجیہ یہ کی جاتی ہے کہ یہ اس وقت کے عالمی اور خاص طور پر عرب کے ناگفتہ بہ حالات کا رد عمل تھا۔ پوری دنیا ایک طرح کے سیاسی انتشار میں مبتلا تھی۔ ایک طرف مذہب کے ماننے والوں کا غیر عقلی رویہ، ان کے باہمی نزاعات اور دوسری طرف بادشاہوں اور امیروں کی عیش کوشی، عوام کی معاشی بدحالی، طبقاتی کشمکش ، عدم مساوات، جنسی آوارگی اور اخلاقی بندشوں سے آزادی نے دنیا کو نڈھال کررکھا تھا۔اس کا رد عمل بھی کہیں کہیں ہوا، لیکن حالات اس سے بڑے رد عمل کا تقاضا کررہے تھے۔ جہاں تک جزیرۃ العرب کا تعلق ہے، حالات اس سے کہیں زیادہ ابتر تھے۔ وہاں کوئی مضبوط سیاسی نظام نہیں تھا۔ مختلف قبائل اپنے دائرے میں آزاد
تھے۔ وہ اصنام پرستی میں مبتلا تھے، لیکن ہر قبیلہ کا بت الگ تھا۔ ان کے درمیان تعصب اور عداوت کی دیواریں حائل تھیں۔ خانہ جنگی ، جہالت، معاشی بدحالی اور اخلاقی بگاڑ نے انھیں اپنے نرغے میں لے رکھا تھا۔ قرآن اسی کا رد عمل تھا اور یہ ردعمل کامیاب رہا اور عرب سے نکل کر عالمی سطح پر بھی اثر انداز ہوا۔ زبوں حال دنیا نے اس کا ساتھ دیا،جیسے وہ اس کی منتظر تھی۔
ردِّ عمل کے اس فلسفہ میں اس حقیقت کو نظر انداز کردیا جاتا ہے کہ ردِعمل انتقام کے جذبہ سے سرشار اور حدود و قیود سے آزاد ہوتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کوئی مثبت اور بڑی تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔ قرآن کے ذریعہ جو انقلاب آیا اس کا امتیاز یہ ہے کہ وہ اخلاق و قانون کا پابند اور عدل و انصاف کا حامی اور محافظ تھا۔ اسے ردِّ عمل قرار دینا ناواقفیت کی دلیل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کے ذریعہ جو انقلاب آیا اس کے اسباب خارج میں نہیں، بلکہ اس کے اندر موجود تھے جس کی وجہ سے لوگ اس کی طرف کھنچے چلے آرہے تھے۔ دشمنوں کے دلوں میں وہ اپنی جگہ بنا رہا تھا اور مخالف صفوں میں پیش قدمی کررہا تھا۔ ان ہی میں سے بعض اسباب کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔

تصورِ توحید
اللہ تعالیٰ کے وجود کا تصور انسان کی فطرت میں ہے۔ دنیا کے تمام ہی مذاہب نے اس کی تائید اور تصویب کی ہے، لیکن یہ آلودۂ شرک بھی رہا ہے۔ اللہ کے رسولوں نے توحید کی دعوت دی اور اسی پر اپنی تعلیمات کی بنیاد رکھی، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ چشمۂ صافی گدلا ہوتا چلا گیا۔ قرآن مجید نے اسے نکھار کر رکھ دیا اور اب وہ بے آمیز اور خالص شکل میں دنیا کے سامنے تھا۔
قرآن مجید نے پوری تفصیل سے عقیدۂ توحید پیش کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ذات وحدہ لاشریک ہے۔ پوری کائنات، جس کی وسعت کا اندازہ نہیں کیا جاسکتا، تنہا اس کی پیدا کردہ ہے۔ اس کی تخلیق میں کوئی دوسرا شریک نہیں ہے۔ وہی اس کا مالک اور فرماں روا ہے، کسی اورکا اس میں ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔
مذہب کی دنیا میں یہ خیال پایا جاتا تھا کہ اس کائنات کی تخلیق کے بعد اللہ تعالیٰ اس سے بے تعلق ہوگیا ہے۔ قرآن نے اس کی تردید کی اور بتایا کہ وہ
عرشِ بریں کا مالک ہے اور پورے کارخانۂ عالم کو اپنی مرضی سے چلا رہا ہے:
اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّ ذِیْ خَلَقَ السَّمٰوَاتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہ، حَثِیْثاً وَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَ النُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ بِاَمْرِہٰ اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَ الْاَمْرُ تَبَارَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ۔ ﴿الاعراف: ۵۴﴾
بے شک تمھارا رب وہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دن میں پیدا کیا، پھر عرش پر متمکن ہوا۔ جو رات کے ذریعہ دن کو ڈھانک دیتا ہے اور دن تیزی سے اس کے پیچھے چلا آتا ہے۔ اس نے سورج ، چاند اور ستارے پیدا کیے۔ سب اس کے حکم کے تابع ہیں۔ سن لو! اسی کے لیے خاص ہے پیدا کرنا بھی اور حکم دینا بھی۔ بابرکت ہے اللہ کی ذات جو ربُّ العالمین ہے۔
وہ حَیّ و قیّوم ہے۔سارے عالم کو تھامے ہوئے ہے۔ ایک لمحہ کے لیے وہ اس سے غافل نہیں ہے:
اَللّٰہُ لآَ اِلٰہَ اِلّاَہُوَ الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ لاَ تَاْخُذُہ، سِنَۃٌ وَّ لاَ نَوْمٌ لَّہ، ما فِی السَّمٰوَاتِ وَم َا فِی الْاَرْضِ ۔﴿البقرۃ:۲۵۵﴾
اللہ تعالیٰ وہ ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ ہے اور کائنات کو تھامے ہوئے ہے۔ نہ اسے اونگھ لاحق ہوتی ہے اور نہ نیند آتی ہے۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اس کی ملکیت ہے۔
قرآن نے شرک کی جڑکاٹ دی اورسوائے ایک ذاتِ خداوند کے ہر چھوٹے بڑے خدا کے تسلط اور اقتدار سے انکار کردیا۔ اب انسان اس دنیا پر صرف اللہ ِ واحد کی حکم رانی دیکھ رہا تھا۔

اللہ کی ذات سے انسان کا تعلق
اللہ تعالیٰ سے انسان کا تعلق غیرواضح، بلکہ ایک طرح سے منقطع رہا ہے۔ قرآن نے انسان کا رشتہ اللہ تعالیٰ سے جوڑ دیا۔ اس نے کہا کہ انسان اس دنیا میں خود سے نہیں آتا۔ اس کی پیدائش، اس کا رزق ، اس کی صلاحیتیں اور توانائیاں، اس کا مرض و صحت سے دوچار ہونا اور اس کی موت و حیات سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے، کسی دوسرے کے پاس کچھ نہیں ہے۔ لہٰذا تمھارا تعلق اس سے اور صرف اس سے ہونا چاہیے۔ سورۂ فاطر میں ہے:
’’اللہ نے تمھیں مٹی سے پیدا کیا اور پھر نطفہ سے۔ اس نے تمھارے جوڑے بنائے، جو عورت حاملہ ہوتی ہے اور بچے کو جنم دیتی ہے سب اس کے علم میں ہے۔ کسی کو زیادہ عمر ملتی ہے اور کسی کی عمر میں کمی ہوتی ہے تو یہ سب ﴿اللہ کے ہاں﴾ ایک کتاب میں لکھا ہوا ہے۔ ان میں سے کوئی کام اللہ کے لیے دشوار نہیں ہے۔ دریائوں میں انتہائی شیریں پانی ہوتا ہے جو پینے کے کام آتا ہے اور انتہائی تلخ اور نمکین بھی۔ دونوں ہی سے تازہ گوشت ملتا ہے اور استعمال کے لیے زیورات بھی حاصل ہوتے ہیں۔ تم دیکھتے ہو کہ کشتیاں اس کا سینہ چیرتی ہوئی چلی جاتی ہیں، تاکہ تم اس کا فضل تلاش کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی کی ذات ہے جو رات اور دن کو ایک دوسرے میں داخل کرتی رہتی ہے۔ سورج اور چاند کو اس نے مسخر کررکھا ہے ، جو ایک مقررہ مدت تک گردش میں ہیں:
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَ ہُ الْمُلْکُ وَ الَّ ذِیْنَ تَدْعُ وْنَ مِنْ دُوْنِ ہٰ م َا یَمْلِ کُوْنَ مِ نْ قِطْمِیْرٍ¡ اِنْ تَدْعُوْہُمْ لَا یَسْمَعُ وْا دُعَ آئَ کُمْ وَ لَوْ سَمِعُوْا م َا اسْتَج َابُوْا لَ کُمْ وَیَوْمَ الْقِیَامَۃِ یَکْفُرُونَ بِشِرْکِکُمْ وَ لَا یُنَبِّئُکَ مِثْلُ خَبِیْرٍ¡﴿فاطر:۳۱،۴۱﴾
یہی اللہ تمھارا رب ہے۔ اسی کی بادشاہت ہے۔ اس کے سوا جن معبودوں کو تم پکارتے ہو وہ کھجور کی گٹھلی کے چھلکے کے برابر بھی کسی چیز کے مالک نہیں ہیں۔ اگر تم ان کو پکارو تو وہ تمھاری پکار نہیں سن سکتے اور سن بھی لیں تو تمھاری بات کا جواب نہیں دے سکتے۔ اور قیامت کے روز تمھارے شرک سے انکار کردیں گے۔ اور تمھیں اس طرح کی صحیح بات ایک باخبر کے سوا کوئی نہیں دے سکتا۔
اس طرح کی تصریحات پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں۔ اللہ واحد کے عقیدے نے انسانوں کو ہر جھوٹے معبود سے نجات دی۔ انسان کی گردن میں
خودساختہ خداؤں کا جو طوق غلامی پڑا ہوا تھا، اسے کاٹ دیا۔ جب کسی کے ہاتھ میں کوئی اقتدار نہیں ہے تو کیوں وہ اس سے توقع رکھے اور اسے اپنا مالک و
کارساز سمجھے۔ اب کسی فرعون کو اجازت نہ تھی کہ اپنی بادشاہت و حکومت کا ڈنکا پیٹے اور دوسروں کو غلام بنائے۔
اللہ تعالیٰ تک براہ راست رسائی ہوسکتی ہے
اللہ تعالیٰ تک رسائی کے لیے انسان ذرائع اور واسطوں کو ضروری خیال کرتا تھا۔ مشرکین کہتے تھے:
مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّ‌بُونَا إِلَى اللَّـهِ زُلْفَىٰ ﴿الزمر:۳﴾
’’ہم ان معبودوں کی صرف اس لیے عبادت کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں۔‘‘
قرآن نے بتایا کہ اللہ تک پہنچنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے لیے انسان کو کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس سے وہ براہِ راست تعلق قائم کرسکتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اس سے قریب ہے اور اس کی دعائیں سنتا اور جواب دیتا ہے۔ ان کا کام یہ ہے کہ وہ اس پر ایمان رکھیں اور اس کی ہدایات پر عمل کریں:
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِ‌يبٌ ۖ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ ۖ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَلْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْ‌شُدُونَ﴿البقرہ: ۱۸۶﴾
جب میرے بندے میرے متعلق آپ سے سوال کریں تو بتادیجیے کہ میں قریب ہی ہوں۔ پکارنے والا جب پکارتا ہے تو میں اس کی پکار سنتا اور جواب دیتا ہوں۔ لہٰذا انھیں بھی چاہیے کہ میری پکار کا جواب دیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ امید ہے وہ ہدایت پائیں گے۔

اللہ گناہوں کو معاف کرتا ہے
انسان گناہ سے مشکل ہی سے بچ پاتا ہے۔ بعض اوقات بڑے بڑے گناہ بھی اس سے سرزد ہوجاتے ہیں، لیکن اس کا ضمیر گناہ کی خلش محسوس کرتا ہے، ارتکابِ گناہ اس کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا رہتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کا گناہ دھل جائے اور وہ اس کی سزا سے بچ جائے۔اس کے لیے وہ ضروری سمجھتا تھا کہ دیوتائوں اور دیویوں کو خوش کیا جائے۔ ورنہ وہ ان کے غضب کا شکار ہوگا۔ اس مقصد سے طرح طرح کے رسوم ادا کرتا۔ یہ رسوم مذہبی رہنمائوں کے ذریعہ انجام پاتے تھے۔شرک کی دنیا میں اب بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ گناہ کی زندگی گزارنے کے بعد انسان کبھی مایوس بھی ہوجاتا ہے کہ اب اس کے لیے ہدایت کی راہ بند ہوچکی ہے۔ قرآن مجید نے معصیت پرور انسانوں اور بڑے بڑے مجرموں کو اللہ کا پیغام سنایا اور ہمت دلائی کہ توبہ کے دروازے تاحیات کھلے ہوئے ہیں۔ مایوس ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اللہ تعالیٰ غفور و رحیم ہے۔ وہ بڑے سے بڑے مجرم کو معاف کرنے کے لیے تیار ہے:
’’اے میرے بندو، جنہوں نے گناہوں کے ارتکاب سے اپنے اوپر زیادتی کی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوجائو۔ اللہ سارے گناہ معاف کردے گا۔ وہ تو غفور و رحیم ہے۔ اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے مطیع و فرماں بردار بن جائو، قبل اس کے کہ اللہ کا عذاب آجائے اور کہیں سے تمھاری کوئی مدد نہ ہو۔‘‘ ﴿الزمر: ۵۳-۵۴﴾
قرآن مجید نے جس طرح بگڑے ہوئے افراد کو ، قاتلوں اور سیہ کاروں کو، اللہ سے براہ راست تعلق قائم کرنے اور گناہوں سے توبہ کی دعوت دی، اس سے اس راہ کی بندشیں اور واسطے ختم ہورہے تھے اور انسان توبہ و استغفار کے ساتھ سیدھے اللہ کی طرف متوجہ ہورہا تھا۔

آخرت کا تصور
دنیا انسان کے سامنے ہے۔ اس سے وہ انکار نہیں کرسکتا۔ اس میں غیرمعمولی کشش ہے، اس لیے وہ اس میں پوری طرح غرق رہا ہے اور اب بھی اسی میں مدہوش ہے۔ آخرت گناہوں سے اوجھل ہے۔ اس سے وہ غافل اور بے خبر ہے۔ حالاں کہ یہ دنیا انسان کا حال اور آخرت اس کا مستقبل ہے۔ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت کو بقائے دوام حاصل ہوگا۔ یہاں فکر و عمل کے لیے انسان آزاد ہے اور وہاں اس کا حساب کتاب ہوگا اور انسان اپنے اچھے یا برے انجام سے دوچار ہوگا۔
آخرت کا تصور کسی نہ کسی شکل میں مذاہبِ عالم میں رہا ہے۔ لیکن افراد اور قوموں کے احساس برتری، اللہ کے دربار میں سفارش و شفاعت کے غلط تصور جیسے باطل خیالات نے اسے غبار آلود کردیا ہے۔ قرآن نے ان سب کی تردید کی اور آخرت کا بے آمیز عقیدہ پورے زور اور قوت سے پیش کیا اور اس کے حق میں اس قدر مضبوط دلائل فراہم کیے کہ وہ خواب و خیال نہیں، بلکہ زندہ حقیقت بن گیا۔
’’اے ایمان والو! کیا میں تمھیں وہ تجارت بتائوں جو دردناک عذاب ﴿جہنم﴾ سے نجات دے؟ اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھو اور اللہ کے راستے میں اپنے اموال اور اپنی جانوں سے جہاد ﴿بدرجۂ غایت جدوجہد﴾ کرو۔ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے، اگر تم جانو۔ اللہ تمھارے گناہوں کو معاف کردے گا اور تمھیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا، جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوںگی اور پاکیزہ مکانات عطا کرے گا جو ہمیشہ رہنے والے باغات میں ہوں گے۔ یہ بڑی کامیابی ہے‘‘ ﴿الصف:۱۲﴾

مادیت اور روحانیت میں توازن
دنیا کے سامنے مادیت اور روحانیت کا مسئلہ شروع ہی سے رہا ہے۔ دونوں میں تضاد سمجھا گیا اور اس کے لیے راستے بھی جدا جدا اختیار کیے گئے۔ اس حقیقت کو فراموش کردیا گیا کہ انسان کی مادی ضرورتیں بھی ہیں اور اس کی روح کے مطالبات بھی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انسان بالعموم مادی خواہشات کے پیچھے پڑا رہتا ہے۔ اس سے اس کی روح کی تسکین نہیں ہوپاتی۔ بعض لوگ روح کی تسکین کے لیے مادی تقاضوں سے صرفِ نظر کرنے لگتے ہیں۔ قرآن نے ان دونوں میں توازن قائم کیا۔ اس نے ترک دنیا یا رہبانیت کو مذہب کی دنیا میں ایک بدعت قرار دیا﴿الحدید:۷۲﴾ اور اس خیال کی تردید کی کہ مادی تقاضوں کو پورا کرنا، بہتر خوراک، صاف ستھرا لباس، یا آرام دہ رہائش کا استعمال روحانی ارتقائ کے منافی ہے۔ جائز حدود میں ان کی تکمیل کو اس نے کارِثواب قرار دیا اور اس کی ترغیب دی:
يَا بَنِي آدَمَ خُذُوا زِينَتَكُمْ عِندَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَكُلُوا وَاشْرَ‌بُوا وَلَا تُسْرِ‌فُوا ۚ إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِ‌فِينَ ؒ قُلْ مَنْ حَرَّ‌مَ زِينَةَ اللَّـهِ الَّتِي أَخْرَ‌جَ لِعِبَادِهِ وَالطَّيِّبَاتِ مِنَ الرِّ‌زْقِ ۚ قُلْ هِيَ لِلَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۗ كَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ¡
اے بنی آدم! مسجد کی ہر حاضری میں اپنی زینت سے آراستہ رہو اور کھائو اور پیو اور اسراف نہ کرو۔ بے شک اللہ تعالیٰ اسراف کو پسند نہیں کرتا۔ ان سے کہو، ﴿بتائو﴾ کس نے اللہ کی اس زینت کو جو اس نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کی ہے اور کھانے کی صاف ستھری چیزوں کو حرام کیا ہے؟ ان سے کہو کہ یہ نعمتیں دنیا کی زندگی میں ﴿اصلاً﴾ ان لوگوں کے لیے ہیں جو ایمان رکھتے ہیں، قیامت میں تو خاص ان ہی کے لیے ہوں گی۔اس طرح ہم آیات کھول کھول کر بیان کرتے ہیں ان لوگوں کے لیے جو جانتے ہیں۔ ﴿الاعراف:۳۱-۳۲﴾

روح کے سکون اور اطمینان کے لیے قرآن مجید نے اللہ تعالیٰ سے تعلق اور اس کے احکام کی اطاعت کو ضروری قرار دیا اور اللہ تعالیٰ سے محبت، ذکر، اخلاص توبہ اور انابت جیسے پاکیزہ جذبات ابھارے اور بتایا کہ اللہ کی یاد ہی سے اطمینانِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ ﴿الرعد:۲۸﴾
قرآن نے اس طرح روحانیت اور مادیت کی کشمکش ختم کی اور دنیا کو ایک متوازن راہِ عمل دکھائی۔

انسان سب سے برتر مخلوق ہے
انسان اپنی عظمت سے ناواقف تھا۔ وہ اس عظیم کارخانۂ عالم کو ڈر اور خوف کی نظر سے دیکھتا، اس کے ذرہ ذرہ کو دیوتا یا خدا سمجھتا اور اس کے سامنے اپنی
جبینِ نیاز جھکا دیتا۔ قرآن نے بتایا کہ وہ دنیا کی ہر شیٔ سے برتر اور اشرف المخلوقات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس کی عظمت کا اعلان ہے:
’’ہم نے بنی آدم کو عزت کا مقام دیا ہے اور اس قابل بنایا ہے کہ خشکی اور سمندر میں سفر کرسکے اور اس کی غذا کے لیے صاف ستھری اور پاکیزہ چیزیں فراہم کی ہیں اور اپنی بہت سی مخلوقات پر اسے فضیلت اور برتری عطا کی ہے۔‘‘ط﴿الاسراء:۷۰﴾
یہ عالمِ ہست و بود اپنی تمام وسعتوں اور وسائل کے ساتھ اس کے لیے مسخر کردیا گیا ہے۔ اسے ایسے فطری قوانین کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھاتا چلا آرہا ہے اور مزید استفادے کی راہیں اس کے سامنے کھلی ہیں۔ یہ صرف اللہ تعالیٰ کا احسان ہے۔ اس میں کسی دوسرے کا کوئی حصہ نہیں ہے:
’’وہ اللہ ہی کی ذات ہے جس نے تمھارے لیے سمندر کو مسخر کردیا، تاکہ اس کے حکم سے اس میں کشتیاں چلیں اور تم اس کا فضل ﴿رزق﴾ تلاش کرو اور اس کا شکر ادا کرو۔ اسی نے تمھارے لیے اپنی طرف سے آسمانوں اور زمین کی تمام چیزیں مسخر کردی ہیں، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیں۔‘‘ ﴿الجاثیۃ: ۱۲-۱۳﴾
یہ مضمون مزید وضاحت کے ساتھ سورۂ ابراہیم میں بیان ہوا ہے:
’’اللہ ہی نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا، آسمان سے پانی برسایا، اس کے ذریعہ تمھارے رزق کے لیے طرح طرح کے پھل پیدا کیے۔ اس نے تمھارے لیے کشتی ﴿جہاز﴾ کو مسخر کیا، تاکہ وہ اس کے حکم سے سمندر میں چلے ، اس نے تمھارے لیے دریا مسخر کیے، اس نے تمھارے لیے سورج اور چاند کو مسخر کیا کہ وہ مسلسل گردش میں ہیں۔ اس نے تمھارے لیے رات اور دن کو مسخر کیا۔ اس نے تم کو وہ سب کچھ دیا جو تم ﴿تمھاری فطرت﴾ نے طلب کیا۔ اگر تم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنے لگو تو شمار نہیں کرسکو گے۔﴿اس کے باوجود﴾ حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی بے انصاف اور بڑا ہی ناشکرا ہے‘‘۔ ﴿ابراہیم:۳۱-۳۴﴾
قرآن نے اس حقیقت سے پردہ ہٹایا کہ یہ دنیا اس لیے ہے کہ انسان اس سے فائدہ اٹھائے، نہ یہ کہ اس کے سامنے سجدہ ریز ہوجائے، اطاعت اور بندگی کا حق صرف اس ذات کا ہے جو اس دنیا کا خالق و مالک ہے۔ خدا اور اس کی پیدا کردہ کائنات کے بارے میں اس تصور سے انسان نے اس وسیع دنیا کو اپنے تابع دیکھا اور بغیر کسی خوف اور اندیشے کے اس سے فائدہ اٹھانے کی تدبیر کی۔ وہ اس اعتماد کے ساتھ آگے بڑھ رہا تھا کہ وہ خدا کا بندہ ہے اور خدا نے یہاں کی ہر چیز سے استفادے کا اس کو حق دیا ہے۔
قرآن نے انسان کو ’خلیفۃ اللہ فی الارض ‘ کہا۔ وہ زمین میں خدا کا خلیفہ ہے۔ اس کا کام دوسروں کی غلامی نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دین پر عمل کرنا اور دنیا میں اسے نافذ کرنا ہے۔ اس پہلو سے اس نے انسان کو جو مقام بلند عطا کیا اس کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

فکر و عمل کی وسعت عطا کی
انسان کے فکر و عمل کی دنیا محدود تھی۔ وہ خاندانوں ، قوموں اور ملکوں میں تقسیم تھا اور ان ہی کے نفع و ضرر کے بارے میں سوچتا تھا۔ آج بھی یہی صورت حال ہے۔ قرآن نے انسان سے بہ حیثیت انسان خطاب کیا۔ اس نے آواز دی ’یاایہا الانسان‘ ﴿اے انسان!﴾ ’ایہا الناس‘ ﴿اے لوگو!﴾ ’یا بنی آدم‘ ﴿اے اولادِ آدم﴾۔ یہاں صرف دو چار حوالیے دیے جارہے ہیں۔
﴿۱﴾ يَا أَيُّهَا الْإِنسَانُ مَا غَرَّ‌كَ بِرَ‌بِّكَ الْكَرِ‌يمِ ﴿الانفطار:۶﴾
اے انسان! کس چیز نے تجھے تیرے رب کریم سے دھوکے میں ڈال دیا۔
﴿۲﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَ‌بَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ¡﴿البقرۃ:۲۱﴾
اے لوگو! اپنے رب کی بندگی کرو جس نے تم کو بھی پیدا کیا اور ان کو بھی جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں۔ امید ہے تم اللہ کی نافرمانی سے بچو گے۔
﴿۳﴾ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَ‌بَّكُمْ ۚ إِنَّ زَلْزَلَةَ السَّاعَةِ شَيْءٌ عَظِيمٌ ﴿الحج:۱﴾
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو۔ ﴿قیامت آنے والی ہے﴾ بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی ﴿بھیانک﴾ چیز ہے۔
﴿۴﴾ يَا بَنِي آدَمَ إِمَّا يَأْتِيَنَّكُمْ رُ‌سُلٌ مِّنكُمْ يَقُصُّونَ عَلَيْكُمْ آيَاتِي ۙ فَمَنِ اتَّقَىٰ وَأَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ
يَحْزَنُونَ¡ ﴿الاعراف:۳۵﴾
اے بنی آدم اگر تمھارے پاس تم ہی میں سے اللہ کے رسول آئیں جو تمھیں میری آیات سنائیں تو جو لوگ تقویٰ اختیار کریں گے اور اپنی اصلاح کریں
گے تو ان کے لیے ﴿قیامت میں﴾ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
﴿۵﴾ وَالْعَصْرِ‌ ؒ إِنَّ الْإِنسَانَ لَفِي خُسْرٍ‌ ؒ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‌¡
قسم ہے زمانے کی! بے شک انسان خسران میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور جنھوں نے نیک عمل کیے اور ایک دوسرے کو حق کی
تاکید اور ایک دوسرے کو صبر کی نصیحت کرتے رہے۔
انسان جو تنگ دائروں میں بند تھا، قرآن مجید نے اسے نوع انسانی کے وسیع میدان میں پہنچایا اور قومی و نسلی مفادات کی جگہ ساری دنیا میں پھیلے ہوئے اولاد آدم کی صلاح و فلاح کے بارے میں سوچنا سکھایا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قرآن کا پیغام جغرافیائی حدود سے آزاد ہوگیا اور دنیا کے ہر انسان نے محسوس کیا کہ قرآن اس سے مخاطب ہے اور اس کی فلاح وکام رانی کی راہ دکھاتا ہے۔ اس کے سامنے قومیت یا علاقائیت کی جگہ آفاقیت اور بین الاقوامیت تھی۔ دنیا کے ہر انسان کے لیے اس میں جگہ تھی۔

غیر ضروری بندشوں سے آزادی
انسان، آباء و اجداد کی تقلید ، بے معنی رسوم و روایات اور مذہب کے نام پر طرح طرح کی بندشوں میں جکڑا ہوا تھا۔ قرآن نے اسے ان بندشوں سے آزاد کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کہا گیا کہ ’’آپ ان کو ﴿اہل کتاب کو﴾ معروف کا حکم دیتے اور منکر سے منع کرتے ہیں، ان کے لیے پاک چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دیتے ہیں۔ ان پر جو بوجھ ہے اسے اتارتے ہیں اور جن طوق و سلاسل میں وہ جکڑے ہوئے ہیں انھیں ختم کرتے ہیں۔‘‘ ﴿الاعراف:۱۵۷﴾
قرآن مجید، حرّیتِ فکر و عمل کا علم بردار بن کر ابھرا اور اس نے کسی بھی معاملہ میں جبر واکراہ کو غلط قرار دیا۔ اس نے اپنا عقیدہ اور فکر، دلائل کے ساتھ پیش کیا اور اس پر غور و فکر کی دعوت دی۔ وہ اس اطمینان کے ساتھ اپنا نقطہ نظر پیش کرتا ہے کہ آدمی ہوش مندی اور دانائی سے کام لے تو اس کا انکار نہیں کرسکتا، لیکن اس کے باوجود اس کے تسلیم کرنے پر وہ کسی کو مجبور نہیں کرتا۔ اس نے علی الاعلان کہا
’لا اکراہ فی الدین‘ البقرۃ:۲۵۶﴿دین کے قبول کرنے کے لیے کسی پر جبر نہیں ہے﴾
مزید وضاحت ہے:
’’کہہ دو، حق تمھارے رب کی طرف سے آیا ہے جس کا جی چاہے اسے قبول کرے اور جو اس کا انکار کرنا چاہے انکار کرے۔‘‘﴿الکہف:۲۹﴾
اس طرح انسان کو کھلی فضا ملی اور آزادی کے ساتھ اپنے لیے راہ حیات طے کرنے کا حق حاصل ہوا۔ یہ سب سے بڑی نعمت تھی جس سے وہ اب تک محروم تھا۔

عقیدہ کا تعلق پوری زندگی سے
مذہب عام طور پر انسان سے بعض رسوم و رواج کا مطالبہ کرتا ہے۔ اس کے بعد اس کا کردار ختم ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید نے توحید ، رسالت اور آخرت کو ایک حیات آفریں عقیدہ کی حیثیت سے پیش کیا اور اس کی بنیاد پر ایک پورا نظامِ شریعت عطا کیا۔ اس میں عبادات بھی ہیں، اخلاق بھی ہے، معاشرت، معیشت اور قانون سے متعلق ہدایات بھی ہیں، جو اس بات کا ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اس عقیدے کے تحت کس طرح کی زندگی گزاری جاتی ہے۔
عقیدے سے مربوط اس طرح کا مکمل نظام حیات دنیا کو پہلی مرتبہ ملا،جس سے مذہب کی دنیا ناآشنا تھی۔ قرآن نے عقیدہ کے ساتھ نظام شریعت بھی دیا۔ اس کے بغیر عقیدہ و مذہب کی معنویت باقی نہیں رہتی۔

یہ فکر و نظر کے نئے آفاق تھے، سعی و عمل کی دنیائے تاباں تھی۔ اس میں شرک کی تمام راہیں مسدود تھیں اور اللہ واحد کی عبادت کا عقیدہ پورے آب و تاب کے ساتھ موجود تھا۔ یہاں بے شمار خداؤں کے اقتدار کی جگہ ایک خدا کا اقتدار تھا اور پوری زندگی پر صرف اس کی حکم رانی تھی، اس میں بے قید زندگی اپنا جواز کھو چکی تھی اور ہر قدم پر جواب دہی کا احساس ابھر رہا تھا، یہاں مادی اور روحانی تقاضوں کی تکمیل تھی اور دنیا و آخرت کی فوز و فلاح تھی۔
یہاں عظمت آدم کا ادراک تھا۔ یہاں وہ بندشیں ٹوٹ رہی تھیں جو انسان کی ترقی کی راہ میں حائل تھیں۔ یہاں فکر و عمل کی آزادی تھی اور آدمی کو خود سے اپنی راہِ حیات طے کرنے کا حق تھا، اس وجہ سے مشرق و مغرب اور شمال و جنوب کا انسان اس کی طرف لپک رہا تھا۔ وہ آگے بڑھ کر اسے اس طرح سینے سے لگا رہا تھا جیسے یہ اس کی متاع گم گشتہ ہے۔ اسے وہ سب کچھ مل رہا ہے جس سے وہ اب تک محروم تھا۔

تحریر : سید جلال الدین عمری

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password