دیگر کئی امور کی طرح اس معاملے میں بھی نہ صرف یہ کہ غامدی صاحب کی آرا میں ارتقا (کبھی معکوس ارتقا) ہوا ہے بلکہ چونکہ یہ آرا حالات کے دباو کے نتیجے میں تبدیل ہوتی رہی ہیں (playing to the gallery ان کا بنیادی مسئلہ ہے )، اس لیے ان میں تعارض بھی موجود ہے ۔ چنانچہ جب کبھی فقہاے کرام پر نکتہ چینی کی ضرورت ہو اور لوگوں کی جذباتی کیفیت کو مزید برانگیختہ کرنے کا موقع ہو تو غامدی صاحب کے متاثرین اس طرح کے اقتباسات پیش کرنا شروع کردیتے ہیں:
“ثبوت جرم کے لیے قرآن مجید نے کسی خاص طریقے کی پابندی لازم نہیں ٹھیرائی ، اِس لیے یہ بالکل قطعی ہے کہ اسلامی قانون میں جرم اُن سب طریقوں سے ثابت ہوتا ہے جنھیں اخلاقیات قانون میں مسلمہ طور پر ثبوت جرم کے طریقوں کی حیثیت سے قبول کیا جاتا ہے اور جن کے بارے میں عقل تقاضا کرتی ہے کہ اُن سے اِسے ثابت ہونا چاہیے ۔ چنانچہ حالات، قرائن، طبی معاینہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گواہوں کی شہادت ، مجرم کے اقرار، قسم ، قسامہ اور اِس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم دنیا میں ثابت ہوتے ہیں ، اسلامی شریعت کے جرائم بھی اُن سے بالکل اِسی طرح ثابت قرار پاتے ہیں ۔” (برہان، قانونِ شہادت)
عموماً زنا بالجبر کی بحث میں غامدی صاحب کے متاثرین غامدی صاحب کے بیان کردہ اس اصول سے ایک استثنا کا ذکر کرتے ہیں : کہ شریعت نے زنا کے جرم کے ثبوت کےلیے چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں۔ اس کے بعد وہ بتاتے ہیں کہ زنا کا جرم زنا بالجبر سے مختلف ہے اور یہ کہ یہ حرابہ کی قسم ہے ۔ وہ یہ نہیں بتاتے کہ قرآن نے نص صریح میں ایک اور جرم کےلیے بھی چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں اور اس جرم کو غامدی صاحب “حرابہ” ہی میں شمار کرتے ہیں۔ آئیے خود غامدی صاحب کے الفاظ ملاحظہ کریں:
“دوم یہ کہ کسی معاشرے میں اگر قحبہ عورتیں ہوں تو اُن سے نمٹنے کے لیے قرآن مجید کی رو سے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں جو اِس بات پر گواہی دیں کہ فلاں فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے ۔ وہ اگر عدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالت نقدو جرح کے بعد اُن کی گواہی پر مطمئن ہو جاتی ہے تو وہ اُس عورت کو سزا دے سکتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآءِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ، فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا. (النساء ۴ : ۱۵)’’اور تمھاری عورتوں میں سے جو بدکاری کرتی ہیں، اُن پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو ۔ پھر اگر وہ گواہی دے دیں تو اُن کو گھروں میں بند کر دو ، یہاں تک کہ موت اُنھیں لے جائے یا اللہ اُن کے لیے کوئی راہ نکال دے ۔ ‘”
اس آیت کے متعلق غامدی صاحب کی یہ تاویل کس حد تک درست ہے، سردست ہم اس پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔ ہم صرف یہ دکھانا چاہتے ہیں کہ زنا کے علاوہ ایک اور جرم بھی ہے جس کے لیے قرآن نے چار گواہ ضروری قرار دیے ہیں اور اس جرم کی تشخیص انھوں نے “قحبہ گری” سے کی ہے ۔
اب ایک قدم آگے بڑھا کر دیکھیے کہ قحبہ گری یا “زنا کی عادی عورت” کے جرم کو غامدی صاحب حدود میں شمار کرتے ہیں یا نہیں اور اگر ہاں تو کس حد کا اطلاق اس جرم پر کرتے ہیں؟
“اِس صورت میں اصل مسئلہ چونکہ عورت ہی کا ہوتا ہے، اِس لیے مرد زیربحث نہیں آئے۔ یعنی اِس بات کے گواہ کہ یہ فی الواقع زنا کی عادی قحبہ عورتیں ہیں۔ سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔ اِس سے واضح ہے کہ یہ ایک عارضی حکم تھا۔ چنانچہ اِس میں جس راہ نکالنے کا ذکر ہے، وہ بعد میں اِس طرح نکلی کہ قحبہ ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا اور اِن جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق اِن پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔”(البیان، سورۃ النساء، آیت 15 پر حاشیہ)
اس اقتباس کو بار بار پڑھیے اور بالخصوص درج ذیل مقامات پر غور کریں:
” سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔”
” قحبہ ہونے کی وجہ سے اِن عورتوں کو زنا اور فساد فی الارض، دونوں کا مجرم قرار دیا گیا ۔”
” اِن جرائم کی جو سزائیں سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۲ اور سورۂ مائدہ (۵) کی آیت ۳۳ میں بیان ہوئی ہیں، وہ بعض روایتوں کے مطابق اِن پر نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی۔”
اس سے یہ معلوم ہوا کہ قحبہ دو جرائم کا ارتکاب کرتی ہے: زنا اور فساد فی الارض اور اس وجہ سے اسے دونوں جرائم کی سزا دی جاتی ہے؛ ایک سزا سورۃ النور میں ہے (زنا کی) اور دوسری سزا سورۃ المآئدۃ میں ہے (فساد فی الارض کی) ؛ قحبہ کا جرم ثابت کرنے کےلیے معیار ثبوت چار گواہوں کی گواہی ہے کیونکہ ” سورۂ نور میں بھی اللہ تعالیٰ نے اِس جرم کو ثابت کرنے کے لیے چار گواہوں کی یہ شرط اِسی طرح برقرار رکھی ہے۔”
اب اس پر ایک اور نکتے کا اضافہ کیجیے۔
قرآن کریم نے بے حیائی کے ضمن میں عموماً دو قسمیں بیان کی ہیں: مسافحات اور متخذات اخدان۔ غامدی صاحب نے ان الفاظ کا ترجمہ اس طرح کیا ہے : “بدکاری کرنے والیاں اور آشنائی گانٹھنے والیاں”۔ ان کی راے یہ ہے کہ سورۃ النسآء کی آیت 15 میں مسافحات کا ذکر ہے اور آیت 16 میں متخذات اخدان کا ذکر ہے ۔ چنانچہ آیت 16 کی تاویل میں کہتے ہیں :
” یہ زنا کے عام مجرموں کا ذکر ہے جو بالعموم یاری آشنائی کے نتیجے میں اِس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ اِس میں زانی اور زانیہ، دونوں چونکہ متعین ہوتے ہیں، اِس لیے دونوں کا ذکر ہوا ہے اور مذکر کے صیغے زبان کے عام قاعدے کے مطابق شریک غالب کے لحاظ سے آئے ہیں۔ یہی ایذا ہے جو بعد میں سو کوڑوں کی صورت میں متعین کر دی گئی ۔”
پس قحبہ گری ہو یا زنا ، سفاح ہو یا اتخاذ اخدان، فساد فی الارض ہو یا “عام زنا “، دونوں کےلیے غامدی صاحب چار گواہوں کی شرط ضروری مانتے ہیں۔
اب ان دو باتوں کے ساتھ تیسری بات کا اضافہ کیجیے کہ روایات میں جہاں رجم کی سزا کا ذکر ہے، اسے غامدی صاحب قحبہ گری، فساد فی الارض اور زنا بالجبر کی سزا قرار دیتے ہیں ۔ یہ بات اتنی مشہور ہے کہ اس کےلیے کوئی اقتباس پیش کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہے ۔ اب دیکھیے کہ رجم کی سزا کے متعلق روایات سے کیا معلوم ہوتا ہے کہ یہ سزا کس بنیاد پر دی گئی؟ کسی بھی روایت میں آپ کو اقرار یا چار گواہوں کے سوا کوئی تیسرا طریقہ نہیں ملتا۔ لے دے کے ایک روایت (فجر کے وقت عورت پر جنسی حملے کا واقعہ) ملتی ہے جس سے غامدی صاحب کے متاثرین یہ استدلال کرتے ہیں کہ “زنا بالجبر” کی سزا “متاثرہ عورت کی گواہی” پر دی گئی ۔ اس روایت پر الگ بحث کی ضرورت ہے لیکن سردست اتنا نوٹ کرنا کافی ہے کہ غامدی صاحب کے اصولوں کے مطابق اس روایت سے استدلال ہی غلط ہے کیونکہ اس کی سند بھی مضطرب ہے اور متن بھی اور جب تک روایت سنداً صحیح نہ ہو غامدی صاحب اسے استدلال کےلیے استعمال کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ نیز اس روایت میں بھی اس شخص کے اقرار کا ذکر بہرحال ہے۔
ان تین باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب فساد فی الارض میں زنا شامل ہو تو غامدی صاحب اس کے ثبوت کےلیے چار گواہ ضروری سمجھتے ہیں۔
اب جبکہ یہ معلوم ہوچکا کہ غامدی صاحب صرف زنا کےلیے ہی نہیں بلکہ زنا+فساد کے مجموعے کے ثبوت کےلیے بھی چار گواہوں کی گواہی ضروری سمجھتے ہیں تو ان کے ترجمان صاحب کو دو میں سے ایک بات ماننی چاہیے :
1۔ یہ کہ وہ زنا بالجبر کے ثبوت کےلیے بھی چار گواہوں کی گواہی ضروری سمجھتے ہیں ؛ یا
2۔ یہ کہ وہ زنا بالجبر کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی گواہی اس لیے ضروری نہیں سمجھتے کہ فساد فی الارض کی ہر قسم کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی گواہی ضروری نہیں ہوتی ۔
ہمیں معلوم ہے کہ ترجمان صاحب پہلا امکان تو مان ہی نہیں سکتے (کیونکہ وہ پہلے ہی اپنے ایک غلط مفروضے کی وجہ سے فقہاے کرام کے خلاف اچھی خاصی ڈرامے بازی کرچکے ہیں)۔ اس لیے دوسرے امکان پر بحث ضروری ہوگئی ہے ۔
اس صورت میں ان پر لازم ہے کہ وہ درج ذیل تین سوالات کے جواب دیں :
1۔ یہ کہ زنا اور قحبہ گری کےلیے چار گواہ کیوں چاہئیں؟ ایک گواہ یا دو گواہ یا تین گواہ کیوں کافی نہیں ہیں؟ اگر گواہوں کی تعداد سے فرق نہیں پڑتا بلکہ اصل چیز گواہی کا معیار ہے ( وہ بات جو یہ حلقہ مسلسل دھڑلے سے کہتا آیا ہے) تو ان دو جرائم کے ثبوت کےلیے چار گواہ کیوں درکار ہیں؟ جہاں تک فقہاے کرام کا تعلق ہے وہ زنا کےلیے تو چار گواہ ضروری سمجھتے ہیں لیکن “قحبہ گری” کو وہ سیاسہ جرائم میں سمجھتے ہیں اور اس کے ثبوت کےلیے چار گواہوں کی گواہی ضروری نہیں سمجھتے اور یہی قرینِ عقل بھی ہے۔ فرد کی پردہ پوشی ایک امر ہے اور فحاشی کا اڈا چلانا ایک بالکل ہی مختلف امر۔ دونوں جرائم کو ایک نوعیت کا جرم سمجھنا حماقت ہے اور یہ حماقت کم از کم غامدی صاحب تو نہیں کرسکتے ۔ اسی لیے انھوں نے قحبہ گری کو عام جرائم سے اٹھا کر “فساد فی الارض” میں شامل کیا ہے ۔ ہاں۔ اس سوال کا جواب ان کے ذمے رہتا ہے کہ فساد فی الارض کے ثبوت کےلیے “حالات، قرائن، طبی معاینہ، پوسٹ مارٹم، انگلیوں کے نشانات، گواہوں کی شہادت ، مجرم کے اقرار، قسم ، قسامہ اور اِس طرح کے دوسرے تمام شواہد سے جس طرح جرم دنیا میں ثابت ہوتے ہیں” اسی طرح یہ جرم ان سے کیوں ثابت نہیں ہوتا؟ وہ صرف اتنا بتاتے ہیں کہ :
” کسی معاشرے میں اگر قحبہ عورتیں ہوں تو اُن سے نمٹنے کے لیے قرآن مجید کی رو سے یہی کافی ہے کہ چار مسلمان گواہ طلب کیے جائیں جو اِس بات پر گواہی دیں کہ فلاں فی الواقع زنا کی عادی ایک قحبہ عورت ہے ۔ وہ اگر عدالت میں پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ گواہی دیتے ہیں کہ ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں اور عدالت نقدو جرح کے بعد اُن کی گواہی پر مطمئن ہو جاتی ہے تو وہ اُس عورت کو سزا دے سکتی ہے ۔”
سوال یہ ہے کہ جو لوگ یہ گواہی دیں گے کہ ” ہم اِسے قحبہ کی حیثیت سے جانتے ہیں “وہ یہ کس بنیاد پر کہیں گے؟ کیا وہ یہ کہیں گے کہ ہم خود اس کے گاہک رہے ہیں؟ یا یہ کہیں گے کہ ہم نے دوسروں کو اس کے پاس اس مقصد کےلیے آتا جاتا دیکھا ہے؟ اگر یہ دوسری بات ہے تو کیا اس سے بدرجہا بہتر طرقِ اثبات اور نہیں ہوسکتے؟
کیا سی سی ٹی وی فوٹیج کام نہیں کرسکے گی؟ یہ سوال غامدی صاحب کے ایک متاثر ڈاکٹر صاحب نے زنا بالجبر کے متعلق اٹھایا تھا۔ یہ سوال قحبہ عورتوں اور چکلے کے بارے میں کیوں نہیں اٹھایا جاسکتا؟
2۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ جب غامدی صاحب چار گواہوں کی شرط ” زنا کی عادی ایک قحبہ عورت” کےلیے ضروری سمجھتے ہیں تو یہ کیسے ثابت ہوگا کہ وہ “زنا کی عادی” ہے ؟ یہ سوال اس لیے اہم ہے کہ “زنا کی عادی قحبہ عورت” اور “بدکاری کو پیشہ بنانے والوں” کو غامدی صاحب صرف “زنا” کے مجرم نہیں مانتے بلکہ وہ انھیں “فساد فی الارض” بلکہ اس سے آگے بڑھ کر “حرابہ” کا مرتکب مانتے ہیں اور حرابہ کے مرتکب کےلیے وہ جو سزائیں تجویز کرتے ہیں ان میں ایک سزا رجم بھی ہے ۔ یقین نہ ہو تو یہ ان کی عبارت پڑھیے:
” زمین میں فساد پیدا کرنے کی تعبیر ۔۔۔اُس صورت حال کے لیے آتی ہے، جب کوئی شخص یا گروہ قانون سے بغاوت کرکے لوگوں کی جان و مال ، آبرو اور عقل و راے کے خلاف برسر جنگ ہو جائے۔ چنانچہ قتل دہشت گردی، زنا زنا بالجبر اور چوری ڈاکا بن جائے یا لوگ بدکاری کو پیشہ بنا لیں یا کھلم کھلا اوباشی پر اتر آئیں یا اپنی آوارہ منشی، بدمعاشی اور جنسی بے راہ روی کی بنا پر شریفوں کی عزت و آبرو کے لیے خطرہ بن جائیں یا نظم ریاست کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوں ۔۔۔”(میزان ، حدود و تعزیرات)
آگے وہ واضح کرتے ہیں کہ حرابہ کی سزا میں ایک تقتیل بھی ہے اور یہ کہ رجم تقتیل کی ایک صورت ہے :
” رجم ،یعنی سنگ ساری بھی ،ہمارے نزدیک اِسی کے تحت داخل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے زمانے میں اوباشی کے بعض مجرموں کو یہ سزا اِسی آیت کے حکم کی پیروی میں دی ہے۔”
تو سوال یہ ہے کہ کیسے ثابت ہوگا کہ عورت “عام زنا” کا جرم نہیں کررہی بلکہ اس کی “عادی” ہے؟ کیا محض گواہوں کی اس گواہی پر کہ وہ “عادی” ہے یا اس کےلیے عدالتوں کے سابقہ فیصلے درکار ہوں گے کہ کئی بار اسے “عام زنا “کی سزا عدالت نے دے دی ہے (جو غامدی صاحب کے نزدیک سو کوڑے ہیں) لیکن اس کے باوجود یہ “عادی” ہے اور یہ اس عادت کو نہیں چھوڑ رہی تو اس وجہ سے اب اسے فساد فی الارض، بلکہ حرابہ، کی سزا کے طور پر رجم کیا جائے یا اس کے ہاتھ پیر کاٹ لیے جائیں یا اسے مصلوب کیا جائے یا اسے “علاقہ بدر” کیا جائے ؟ (اس آخری صورت میں ویسے یہ امکان تو رہتا ہی ہے کہ اپنے علاقے سے نکل کر وہ اور کھل کر اپنی عادت پر عمل شروع کردے کیونکہ وہاں تو کوئی اسے جاننے والا بھی نہیں ہوگا۔ اپنے علاقے میں کم از کم لوگوں کو اس کی عادت کا معلوم تو ہوتا ہے ۔ )
غامدی صاحب کی سادہ فکری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ “عادی مجرموں” کو بھی ایک ہی دفعہ کی کارروائی میں تقتیل ، یعنی رجم، کی سزا سنانے کے قائل ہیں حالانکہ اس کا “عادی مجرم” ہونے کےلیے اور کچھ نہیں تو سابقہ مجرمانہ ریکارڈ اور سزائیں تو ہونی چاہئیں۔ تاہم ان کے مقلدین ان فقہاے کرام پر استہزائیہ جملے چست کرتے ہیں جو ذرا سا بھی شبہ پیدا ہونے کی صورت میں حد کے ساقط ہونے کی بات کرتے ہیں!
3۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ زنا بالجبر اور قحبہ گری میں فرق کی وجہ کیا ہے؟ کیا صرف یہ کہ ایک میں عورت ملزمہ ہے تو چار گواہ چاہئیں اور دوسرے میں مرد ملزم ہے تو ڈی این اے رپورٹ اور سی سی ٹی وی فوٹیج بھی کافی ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ قحبہ گری اور زنا بالجبر کے علاوہ “فساد فی الارض” اور حرابہ کی ایک قسم “زنا کا عادی مجرم” بھی ہوتا ہے ، خواہ مرد ہو، تو کیا اس کےلیے بھی چار گواہ چاہئیں؟ اگر نہیں تو کیوں نہیں؟ اور اگر ہاں تو چار گواہ کیسے ثابت کریں گے کہ وہ پہلی دفعہ یہ جرم نہیں کررہا بلکہ “عادی” ہے ؟ یا اس کے جرم کے ثبوت کےلیے قرائن کافی ہوں گے؟
آخری بات
آخری بات یہ ہے کہ زنا بالجبر ، قحبہ گری اور “عادی ” مجرموں پر غامدی صاحب “عام جرائم” کا قانون لاگو نہیں کرتے بلکہ انھیں “فساد فی الارض” اور “حرابہ” سمجھتے ہیں۔ اگر ان کے ترجمان قحبہ اور زنا کے عادی مجرم کو زنا بالجبر کے مرتکب سے اس بنیاد پر مختلف سمجھتے ہیں کہ قحبہ اور زنا کا عادی مجرم یہ جرم دوسرے فرد کی مرضی سے کرتا ہے جبکہ زنا بالجبر کا مجرم یہ جرم عورت کی مرضی کے بغیر کرتا ہے تو یہ فرق ناقابلِ قبول ہے۔
ایک تو اس وجہ سے کہ یہ فرق لبرلزم کے ڈسکورس کی پیداوار ہے اور اسے اسلامی قانون کے اصولوں سے کوئی مناسبت نہیں ہے۔ باقی باتیں ایک طرف صرف اس ایک بات پر غور کریں کہ لبرلزم کے اصولوں کی روشنی میں ایک بار کا زنا یا بار بار کا زنا کوئی جرم نہیں کیونکہ یہ فریقین کی مرضی سے کیا جاتا ہے جبکہ اسلامی قانون کی رو سے یہ اللہ کے خلاف جرم ہے کیونکہ اللہ نے اس سے روکا ہے اور اس پر سزا مقرر کی ہے ۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب بھی مانتے ہیں کہ اسلامی قانون کے اصولوں کی روشنی میں ایک بار کا زنا جرم ہے اور بار بار کا زنا فساد فی الارض اور حرابہ ہے ۔ اس بنیادی اختلاف کے بعد کیسے لبرلزم کے اصول (مرضی کی موجودگی یا عدم موجودگی) کو یہاں فرق کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے؟
بہرحال غامدی صاحب کے ترجمان اور مقلدین پر لازم ہے کہ وہ ہمیں صاف الفاظ میں بتائیں کہ زنا کی درج ذیل چار قسموں میں جب وہ تین قسموں کےلیے چار گواہ ضروری سمجھتے ہیں تو چوتھی قسم کےلیے کیوں ضروری نہیں سمجھتےبالخصوص جبکہ وہ پہلی قسم کے سوا باقی تینوں قسموں کو فساد فی الارض اور حرابہ مانتے ہیں ؟
1۔ “عام زنا “
2۔ بدکاری کا پیشہ /قحبہ گری
3۔ “زنا کی عادت”
4۔ زنا بالجبر ۔
تحریر ڈاکٹر محمد مشتاق احمد چیئرمین شعبۂ قانون ، بین الاقوامی اسلامی یونی ورسٹی، اسلام آباد