سانحہ قصور کی آڑ میں جہاں باقی لوگوں کو اہل مذہب سے’ پرانے بدلے’ چکانے کا موقع ملا، اس بہانے اپنے درینہ مقاصد کو پورا کرنے کی کوششیں کی گئیں’ ملحدین کیسے چپ رہ سکتے تھے ، چنانچہ انکے ایک امام جو ملحد بچوں کے لیے تاریخی کہانیاں لکھنے کے حوالے سے مشہور ہیں’ نے بھی چند روایات کی بنیاد پر ‘ہائے یہ بچوں کے قاتل’ کے نام سے ایک کہانی ترتیب دی اور نتیجے یوں بیان کیا ۔پیارے بچو” جو مذہب والدین کے گناہوں کی سزا ان کے بچوں کو دے اور انہیں جہنم برد کر کے سخت ترین عذاب کی نوید سنائے اور انبیا کو بچوں کو مستقبل کے خطرات کے پیش نظر قتل کرنے کی اجازت دے، ایسا مذہب نہ تو بچوں کی معصومیت کی پرواہ کرتا ہے اور نہ ہی اسے کوئی اہمیت دیتا ہے، کتنا گھٹیا ہے وہ مذہب اور کتنا سنگ دل ہے وہ خدا جو بچوں کی گردن پر چھری پھیر کر اپنی ظالمانہ خواہشات کی تسکین کرتا ہے”۔۔ ہم گزشتہ تحاریر میں موضوع متعلقہ تقریبا ہر اعتراض کو زیربحث لاچکے ہیں ‘ اختتام اپنے ان اصل حریف ملحدین کے اعتراض کے جواب پر کررہے ہیں۔ ایڈمن
٭٭٭
درخت جنگل میں بھی اگتے ہیں اورباغ میں بھی ،لیکن جنگل میں جانے سے انسان ڈرتا ہے اورباغ میں جانے کو جی للچاتا ہے، جنگل میں کوئی درختوں کی دیکھ بھال نہیں کرتا لیکن باغ میں درختوں کی دیکھ بھال کی جاتی ہے چنانچہ جنگل میں درخت بغیر کسی ترتیب، قاعدے اورقانون کے اگ جاتے ہیں جب کہ باغ میں درخت ترتیب ، قاعدے اورقانون سے لگائے جاتے ہیں ، بس یہی مثال انسان کی ہے اگراسے دنیا میں بغیر کسی قاعدے اورقانون کے رہنے دیا جائے تو یہ دنیا کی زندگی ایک جنگلی زندگی میں بدل جائے گی اوراگر اسے کسی قاعدے اورقانون کا پابند بنایا جائے تو دنیا کی یہی زندگی امن وامان کا گہوارا بن جائے گی۔
انسانی زندگی میں انہی قواعد اورقوانین کو مذہب کہا جاتاہے، جو انسانی زندگی کی رہنمائی کر تے ہیں ،اورانہی کی پابندی انسانی نجات کا باعث ہوتی ہے ، لیکن کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ہماری اس انسانی زندگی کے امن وامان کو تباہ کرنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں۔ انکی خواہش یہ ہوتی ہے کہ ایسے تمام قواعد وقوانین ختم ہونے چاہیں جو انکے نفس کو گراں گزرتے ہیں ۔ یہ لوگ مذہب کا انکار کرتے ہیں پھر اپنے انکار کو عقلمندی ودانشمندی کی چادر اوڑھانے کے لئے مختلف حیلے بہانے ڈھونڈے میں لگے رہتےہیں ، جہاں اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی تو دور کی کوڑیاں لاتے ہیں ، ایسے ہی ایک صاحب نے بچوں کے قاتل کے عنوان سے اپنی بے بسی اور بے علمی کا اظہار کیا ہے، موصوف نے اپنی اس تحریر میں بہت کوشش کی کہ کسی مذھبی کتاب سے کوئی ایسی بات مل جائے ، جس سے بچوں پر ظلم ثابت کر کے اپنے اعتراض کے شوق کو پورا کیا جا سکے، لیکن افسوس جب کچھ نہ بن پڑا تو پھر اپنی طرف سے مقدمات قائم کئے ، ان سے نتائج اخذ کئے، اور پھرانہیں مذہب کے سرڈال دیا۔
موصوف نے اپنی تحریر میں جو بنیادی اعتراضات کئے اوران میں جو غلطیاں کیں ان کی نشاندہی سے قبل ہم آنحضرتﷺ نے بچوں کے ساتھ جو معاملات کئے اور ان کو جو حقوق دیے’ چند اشاروں میں انکو ریفریش کردیتے ہیں :
آنحضرتﷺ سے پہلے زمانہ میں بچیوں کو زندہ درگور کر دیا جاتاتھا، اس سفاکیت کا خاتمہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا، اسلام قبول کرنے آنے والی عورتوں سے اس کا وعدہ لیا جاتاکہ وہ بچوں کو قتل نہیں کریں گی، بچوں کو مارنے سے منع کیا، عرب جو بچوں کو پیار کرنا عیب سمجھتے تھے، آنحضرت ﷺ نے انہیں پیار کرنا سکھایا ، اوراولاد کو ایک بوسہ دینے پر جنت میں ایک درجہ بڑھنے کا ثواب ، بچیوں کی اچھی تربیت پر اجر وثواب کی خوشخبریاں سنائیں ،جنگ میں عورتوں ، بوڑھوں اوربچوں کوجو جنگ کا حصہ نہیں بنتے تھے، قتل کرنے، ایذاء پہچانے پر پابندی لگائی، بچوں کو نماز کا حکم دینے کے لئے بھی سات سال کی عمر کی قید لگائی،بلوغت سے پہلے بچوں کو احکام شریعت میں سزا جزا سے مستثنیٰ قراردیا۔ خود آنحضرتﷺ کی بچوں کیساتھ شفقت کا حال یہ تھا کہ بچوں کی وجہ سے نماز کو مختصر کر لیتے تھے، آپﷺ سجدہ میں ہوتے اورپیٹھ پر بچوں کی موجودگی کے باعث سجدہ لمبا کر لیا کرتے ، راستہ میں بچے مل جاتے تو ان سے پیار کرتے، بچپن میں جو بچہ فوت ہوجائے اس کے والدین کو صبر پر جنت کی بشارت سناتے ، یہود کے بچوں کی عیادت کے لیے بھی پہنچ جاتے ،۔ آپ نے یتیم بچوں کے ساتھ شفقت ونرمی کے برتاؤ کے ساتھ سر پر ہاتھ پھیرنے سے ہر بال کے بدلے گناہ معاف ہونے کی خوشخبری دے کر امت کو بچوں سے محبت کی طرف مائل کیا اور واضح اعلان فرمایا کہ جو ہمارے بچوں پر شفقت نہیں کرتا اورہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا ، وہ مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں۔
ان احکامات کو دیکھ کر کوئی عقل مندانسان یہ نہیں کہہ سکتا کہ خدائی احکام بچوں کے ساتھ ظلم پر مبنی ہیں، بلکہ کوئی ایک حکم ِ الٰہی بھی ایسا نہیں جو بچوں سے ظلم کا شائبہ بھی دیتا ہو۔
اب ہم معترض کے صغریٰ کبریٰ کی طرف آتے ہیں جو اس نے آسمانی ہدایات کو بچوں پر ظلم قرار دینے کے لئے ملائے ہیں۔
٭1۔ لکھتے ہیں:
” آسمانی مذاہب کی آمد کے ساتھ، جس کا آغاز ابراہیم نامی نبی سے ہوتا ہے، بچوں کے ساتھ ظلم وزیادتی کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔‘‘
موصوف نے آگے ذبیح اسماعیل علیہ السلام کے واقعہ سے استدلال کیا اور لکھا” یقیناً بچہ دہشت زدہ ہوگیا ہوگا جب اسے پتہ چلا ہوگا کہ اس کا باپ اسے ذبح کرنے والا ہے۔ بچوں کو ذبح کرنے کا یہ پہلا تاریخی ریکارڈ ہے جو مذاہب کی آمد کے ساتھ ہی شروع ہوگیا تھا۔‘‘
حضرت ابراہیم ؑ کے واقعہ میں موصوف نے جن اوھام کی بنیاد پر اپنی آرگومینٹ کو مکمل کیا اس سے قبل ایک جملہ ’’آسمانی مذاہب کی آمد کے ساتھ ، جس کا آغاز ابراہیم نامی نبی سے ہوتا ہے ‘‘ موصوف کی علمی حیثیت کا پردہ چاک کرتاہے، اسےاتنا علم بھی نہیں کہ آسمانی مذاہب کا آغاز کہاں سے ہوتا ہے؟
حضرت ابراہیم ؑ کی واقعہ کی حقیقت صرف اتنی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک امتحان میں ڈالا اور انہیں ایک خواب دکھایا گیا ، انہوں نے اس خواب کاتذکرہ اپنے بیٹے سے کیا،موصوف کو چونکہ عربی سے زیادہ شغف نہیں ورنہ حضرت ابراہیم ؑ کے الفاظ ’’فانظر ماذا تریٰ‘‘ ہی موصوف کے اعتراض کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں، حضرت ابراہیم ؑ اپنے بیٹے سے پوچھ رہے ہیں تمہاری کیا رائے ہے؟ نہ کوئی زور نہ زبردستی، بیٹے کے الفاظ بھی چونکہ عربی میں ہیں،اس لئے موصوف شاید سمجھے نہیں اورفرضیہ قائم کردیا کہ ’’ یقیناً بچہ دہشت زدہ ہوگیا ہوگا جب اسے پتہ چلا ہوگا کہ اس کا باپ اسے ذبح کرنے والا ہے۔‘‘ بیٹے کے جوابی الفاظ ہیں ’’قال یآبت افعل ما تؤمر ، ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین‘‘ کہ ابا جان آپ کو جو حکم دیا گیا ہے وہ کر گزرئیے ، آپ اللہ کے حکم سے مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔ جو بیٹا باپ کو حوصلہ دے رہا ہو ، موصوف اس کے بارے میں فرما رہے ہیں کہ وہ دہشت زدہ ہوا ہوگا، یہ بھی ہوائی بات ہے، جس کی کوئی دلیل حضرت موصوف کے پاس نہیں، بہرحال یہ صرف امتحان تھا، جس میں باپ بھی راضی، بیٹا بھی راضی اورامتحان لینے والا رب بھی راضی۔اللہ تعالیٰ نے بیٹے کی جگہ دنبہ ذبح کروا کے بیٹے کو بچا لیا، لیکن موصوف کو یہ بچوں کے خلاف پہلا ظلم مل گیا؟
٭2.موصوف بچوں پر ظلم کے ثبوت کے لیے دوسرا واقعہ حضرت خضر ؑاوربچے کا قتل کا پیش کیا اور اسکے لیے تفسیر قرطبی کے ایک ضعیف قول کا سہار ا لینے کی کوشش کی۔ موصوف کوشاید تفسیر قرطبی کا یہ جملہ سمجھ ہی نہیں آیا’’قال أبو العالية: لم يره إلا موسى، ولو رأوه لحالوا بينه وبين الغلام.‘‘ تفسير القرطبي (11/ 20)، اس واقعہ کو صرف موسیٰ علیہ السلام نے دیکھا تھا اورکسی کو بھی یہ واقعہ نظر نہیں آیااوروجہ اس کی یہ تھی کہ یہ معاملہ عالم ِدنیا کا تھا ہی نہیں ، عالم ِ غیب کا تھا، جس سے اس وقت صرف موسیٰ علیہ السلام کے لئے پردہ اٹھایاگیا، یہ بھی صرف تعلیم موسیٰ کے لئے تھا ٭، اس کی مثال ایسی ہے جیسے حضرت عزرائیل ؑ اگر کسی کی روح نکالتے ہوئے دکھائی دیئے جائیں تو کہنے والا اعتراض کرنے لگے کہ عزرائیل نے فلاں کا قتل کیا ہے۔!
یہ سب خضر ؑ نے اپنی مرضی سے نہیں کیا تھا جیسا کہ خود قرآن میں انکا یہ قول موجود ہے ’’وما فعلتہ عن امری ‘‘، انہیں جیسا باری تعالیٰ کی طرف سے حکم ملا ، ویسے ہی کیا، باری تعالیٰ کا کسی کو موت دینا، چاہے وہ کسی حادثے سے ہی کیوں نہ ہو، قتل نہیں کہلاتا۔
اسی طرح موصوف نے ’’فخشینا‘‘ سے جو شبہ کا معنی اخذ کر کے اعتراض کیا ہے، کہ ’’ ایک منصف خدا کسی نبی کو ایک معصوم بچے کو مستقبل کے شبہ پر قتل کرنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟‘‘دراصل موصوف کے مطالعہ نہ کرنے پر دال ہے، ورنہ اسی تفسیر قرطبی میں ’’فخشینا ‘‘کا معنی ’’علمنا ‘‘یعنی ہم جانتے ہیں ، بھی مذکور ہے، لیکن چونکہ اس معنی سے موصوف کے لئے اعتراض کی گنجائش نہیں بنتی تھی ،اس لئے اس سے صرف ِ نظر کردیا۔
٭3۔موصوف نے ایک اور اعتراض اولاد کو فتنہ سے تعبیر کرنے پر کیا اور اسے بچوں کے خلاف قراردیا ہے، لیکن یہ موصوف کا کمال ِ علم ہی یہ جرأت کر سکتا ہے،کہ اولاد کو صرف نابالغ بچوں کے ساتھ خاص کرے، لیکن بہرحال چونکہ صاحب عربی سے اکثر دھوکہ کھا جاتے ہیں، اس لئے اردو کے لفظ ’’فتنہ‘‘ کو عربی کے لفظ’’فتنہ‘‘ پر قیاس کر بیٹھے ہیں، اگر یہ قیاس نہ کرتے اور براہ راست عربی میں سمجھنے کی کوشش کرتے تو جان جاتے کہ ’’فتنہ‘‘عربی میں ’’آزمائش، امتحان ‘‘کو بھی کہتے ہیں اوریہاں یہی مراد ہے۔ اگر موصوف یہ بیان کر لیتے تو اعتراض کا عقدہ کھل جاتا، اولا دکے امتحان ہونے میں شاید کسی کو کوئی اشکال ہی نہیں ۔
٭4۔موصوف نے کفار ومشرکین کے بچوں کے بارے میں ایک روایت کے الفاظ سے بچوں پر اسلام کا ظلم ثابت کرنے کی کوشش کی ، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس بارے میں دونوں طرح کی روایات موجود ہیں کہ کفارومشرکین کے بچے آخرت میں جنت میں ہونگے یا جہنم میں ہونگے؟ لیکن موصوف نے راجح بات چھپا کر اسلام دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ امام نووی رحمہ اللہ اور دیگرمحققین نے اسی کوراجح قراردیاہے کہ اولادکفارجوبلوغت سے پہلے دنیاسے چل بسے وہ اہل جنت میں سے ہیں۔مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
“آیت ’’ولاتزر وازرۃ وّزرَ اخریٰ ‘‘کے تحت تفسیرمظہری میں لکھاہے کہ اس آیت سے ثابت ہوتاہے کہ مشرکین وکفارکی اولاد جوبالغ ہونے سے پہلے مرجائے ان کو عذاب نہ ہوگا؛ کیوں کہ ماں باپ کے کفرسے وہ سزاکے مستحق نہیں ہوں گے”۔(معارف القرآن)
موصوف نے باقی بھی جو اعتراضات کئے ہیں ان کا حال بھی یہی ہے کہ کسی ایک سے بھی موصوف کا مدعا ثابت نہیں ہوتا، بلکہ اس سے الٹ خدائی احکامات جو بچوں سے متعلق آنحضرت ﷺ نے اس امت تک پہنچائے ہیں اوران کی ایک جھلک ابتداء مضمون میں بھی دکھلائی گئی ہے ‘کے بعد کسی عقل مندآدمی کے لئے کم از کم یہ اعتراض کرنے کی گنجائش نہیں رہتی کہ خدائی احکامات یعنی مذھبی تعلیمات کسی بھی طرح سے بچوں کے خلاف ہیں۔ ملحدین کی مذہب کے خلاف ہر تحریر ایسے ہی علمی مکروفریب پر مشتمل ہوتی ہے، انکے فتنے سے بچنے کا ایک ہی حل ہے کہ عوام علماء سے مضبوط رابطہ رکھیں اورایسے موقعوں پر علماء سے رہنمائی لیں۔
تحریر مولانا محمد ابراھیم
حضور سرور دو عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسی و خضر علیہ السلام کے واقعے کی تفصیل ایک طویل حدیث میں بیان فرمائی ہے جو صحیح بخاری میں کئی سندوں سے منقول ہے۔ اس حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کسی نے یہ سوال کیا کہ اس وقت روئے زمین پر سب سے بڑا عالم کون ہے ؟ چونکہ ہر پیغمبر اپنے وقت میں دین کا سب سے بڑا عالم ہوتا ہے۔ اس لیے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جواب میں یہی فرما دیا ہے کہ میں ہی سب سے بڑا عالم ہوں۔ اللہ تعالیٰ کو یہ بات پسند نہیں آئی اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہ ہدایت دی گئی کہ اس سوال کا صحیح جواب یہ تھا کہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں کہ سب سے بڑا عالم کون ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو علم کے کچھ ایسے گوشوں سے روشناس کرائیں جو ان کی واقفیت کے دائرے سے باہر تھے۔ چنانچہ انہیں حکم دیا کہ وہ حضرت خضر (علیہ السلام) کے پاس جائیں۔ ان کو پتہ یہ بتایا گیا کہ جہاں دو دریا ملتے ہیں۔ وہاں تک سفر کریں، اور اپنے ساتھ ایک مچھلی لے جائیں۔ ایک موقع ایسا آئے گا کہ وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔ بس اسی جگہ انہیں حضرت خضر (علیہ السلام) مل جائیں گے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنے نوجوان شاگرد حضرت یوشع (علیہ السلام) کو ساتھ لے کر اس سفر پر روانہ ہوئے۔ جو بعد میں خود پیغمبر بننے والے تھے۔ آگے کا واقعہ خود قرآن کریم میں آرہا ہے۔ البتہ یہاں اتنا سمجھ لینا چاہیے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو جو یہ سفر کرایا گیا۔ اس کا ایک مقصد تو یہ ادب سکھانا تھا کہ اپنے آپ کو سب سے بڑا عالم کہنا کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ علم تو ایک ناپید کنارا سمندر ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کونسا علم کس کے پاس زیادہ ہے۔ اور دوسرا مقصد یہ تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) خود آنکھوں سے اس بات کی ایک جھلک دیکھ لیں کہ اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور علم سے اس کائنات کا نظام کس طرح چلا رہا ہے۔ اس کائنات میں بہت سے ایسے واقعات روز مرہ انسان کے سامنے آتے رہتے ہیں جن کا مقصد اس کی سمجھ میں نہیں آتا، حالانکہ کوئی واقعہ تو اللہ تعالیٰ کی کسی نہ کسی حکمت کے بغیر نہیں ہوتا۔ انسان کی نظر چونکہ محدود ہے، اس لیے وہ اس حکمت کو بسا اوقات نہیں سمجھتا، لیکن جس قادر مطلق کے ہاتھ میں پوری کائنات کی باگ ڈور ہے، وہی جانتا ہے کہ کس وقت کیا واقعہ پیش آنا چاہیے۔
ان کو جس خصوصی علم کے سکھانے کا ذکر فرمایا گیا ہے، اس سے مراد تکوینیات کا علم ہے۔ صحیح بخاری کی حدیث میں بھی ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے کہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے ایک ایسا علم دیا ہے جو آپ کے پاس نہیں (یعنی تکوینیات کا علم) اور آپ کو ایسا علم دیا ہے جو میرے پاس نہیں (یعنی شریعت کا علم)۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو حضرت خضر (علیہ السلام) سے ملوانے اور یہ واقعات دکھانے کا اصل مقصد ایک اہم حقیقت کا مشاہدہ کرانا تھا اور اسی حقیقت کو واضح کرنے کے لئے قرآن کریم نے یہ واقعہ ہمارے لئے بیان فرمایا ہے، اسلامی شریعت کی رو سے کسی کے لئے یہ بالکل جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے کی ملکیت میں اسکی اجازت کے بغیر کوئی تصرف کرے، خاص طور پر اس کی تو ہرگز اجازت نہیں دی جاسکتی کے اس کی ملکیت کو کوئی نقصان پہنچادے، چاہے وہ نقصان خود مالک کے فائدے کی نیت ہی سے پہنچایا گیا ہو لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) نے کشتی والوں کی اجازت کے بغیر اس کا تختہ نکال دیا، اسی طرح کسی بےگناہ کو قتل کرنا شریعت میں انتہائی سنگین جرم ہے خاص طور پر کسی نابالغ لڑکے کو قتل کرنا تو حالت جنگ میں بھی جائز نہیں ہے، یہاں تک کہ اگر یہ معلوم ہو کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کوئی فساد مچائے گا، تب بھی اس وقت اسے قتل کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ان پر خاموش نہیں رہ سکے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حضرت خضر (علیہ السلام) نے شریعت کے بالکل خلاف یہ کام کیسے کئے، اس سوال کا جواب جاننے کے لئے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اس کائنات میں جتنے واقعات ہوتے ہیں چاہے وہ ہماری نظر میں اچھے معلوم ہوتے ہوں یا برے ان کا تعلق ایک ایسے جہاں سے ہے جو ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہے، اور جسے اصطلاح میں عالم تکوین کہا جاتا ہے جو براہ راست اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کے تکوینی احکام کے ذریعے کنٹرول ہورہا ہے، کس شخص کو کتنے عرصے زندہ رہنا ہے ؟ اور کب اس کی موت واقع ہوگی، وہ کتنے عرصے صحت مند رہے گا اور کب بیمار ہوجائے گا، اسے کب کونسا روز گار نصیب ہوگا ؟ اور اس کے ذریعے وہ کتنی روزی کماسکے گا ؟ اس قسم کے سارے معاملات اللہ تعالیٰ براہ راست طے فرماتے ہیں اور ان فیصلوں کو نافذ کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے کچھ کارندے مقرر فرما رکھے ہیں جو ہماری نگاہوں سے پوشیدہ رہ کر اللہ تعالیٰ کے ان تکوینی احکام کی تعمیل کرتے ہیں، مثلاً جب اللہ تعالیٰ نے یہ طے فرمالیا کہ فلاں شخص کی موت کا وقت آگیا ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے موت کا فرشتہ اس شخص کی روح قبض کرنے کے لئے پہنچ جاتا ہے، جب وہ اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کی تعمیل میں کسی کی موت واقع کررہا ہوتا ہے تو وہ کسی جرم کا ارتکاب نہیں کرتا ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل کرتا ہے، کسی انسان کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی دوسرے کی جان لے، لیکن جس فرشتے کو اللہ تعالیٰ نے اسی کام پر مقرر فرمایا ہے اس کے لئے یہ کوئی جرم نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے تکوینی احکام کو نافذ کرنے کے لئے عام طور سے فرشتے مقرر ہوتے ہیں ؛ لیکن اللہ تعالیٰ جس کو چاہیں یہ فریضہ سونپ سکتے ہیں، حضرت خضر (علیہ السلام) اگرچہ انسان تھے ؛ لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کو فرشتوں کی طرح عالم تکوین کا پیغمبر بنادیا تھا، انہوں نے جو کچھ کیا اللہ تعالیٰ کے تکوینی حکم کے ذریعے کیا، لہذا جس طرح موت کے فرشتے پر یہ اعتراض نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ایک بےگناہ کی جان لے کر گناہ کا ارتکاب کیا ہے، کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اسی بات کے لئے مامور تھا، اسی طرح حضرت خضر (علیہ السلام) بھی اس کشتی کو عیب لگانے اور اس لڑکے کو قتل کرنے پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے تکوینی طور پر مامور تھے، اس لئے ان کا یہ عمل کوئی جرم نہیں تھا، البتہ ہم لوگ دنیا میں رہتے ہوئے شریعت کے احکام کے پابند ہیں اور ہمیں عالم تکوین کا نہ علم عطا کیا گیا ہے اور نہ اس عالم سے متعلق ہمیں کوئی ذمہ داری سونپی گئی ہے، اس لئے ہم انہی احکام کے مکلف ہیں جو اس جیتی جاگتی زندگی میں ہمیں آنکھوں سے نظر آتے ہیں، چنانچہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) جو اسی جیتی جاگتی دنیا کے پیغمبر تھے، اور جو شریعت ان کو دی گئی تھی، اسی کے پابند تھے، اس لئے وہ نہ حضرت خضر (علیہ السلام) کی ان باتوں پر خاموش رہ سکے اور نہ آئندہ ان کے ساتھ چل سکے، ان تین واقعات کے بعد وہ سمجھ گئے کہ ان صاحب کا دائرے کار میرے دائرہ کار سے بالکل الگ ہے اور میں ان کے ساتھ نہیں چل سکتا، البتہ اس طرح انہیں یہ حقیقت کھلی آنکھوں دکھادی گئی کہ اس کائنات میں جو کچھ ہورہا ہے اس کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی لا محدود حکمت کار فرما ہے، اگر ہمیں کسی واقعہ کی وجہ سمجھ میں نہ آئے تو اسکی بنا پر اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر کسی اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جس عالم تکوین میں اس کی حکمت واضح ہوسکتی ہے وہ ہماری نگاہوں سے پوشیدہ ہے، روز مرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے منظر ایسے نظر آتے ہیں جن پر ہمارا دل دکھتا ہے بہت سے انسانوں کی مظلومیت کو دیکھ کر بعض اوقات دل میں شکوک و شبہات پیدا ہونے لگتے ہیں، حضرت خضر (علیہ السلام) کے ذریعے عالم تکوین کی ایک جھلک دکھا کر ایک مومن کے لئے ایسے شکوک و شبہات کا خاتمہ کردیا گیا ہے،
البتہ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عالم تکوین اور اس کے کارندے ہماری آنکھوں سے پوشیدہ ہیں، حضرت خضر (علیہ السلام) بھی اس طرح پوشیدہ تھے، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عالم تکوین کی ایک جھلک دکھانے کے لئے وحی کے ذریعے ان کا پتہ بتادیا گیا، اب جبکہ وحی کا دروازہ بند ہوچکا ہے کسی کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ یقینی طور پر تکوین کے کسی کارندے تک رسائی حاصل کرسکے، اور نہ نظر آنے والی دنیا میں کوئی شخص یہ دعوی کرسکتا ہے کہ وہ تکوین کا کارندہ ہے، اور اسے تکوینی اختیارات حاصل ہیں، لہذا جن لوگوں نے حضرت خضر (علیہ السلام) کے واقعے کی بنیاد پر شریعت کے ظاہری احکام کی خلاف ورزی کو جائز قرار دینے کی کوشش کی ہے انہوں نے سراسر گمراہی پھیلائی ہے، مثلاً بعض نام نہاد درویشوں کا تصوف وغیرہ کے نام لے کر یہ کہنا کہ شریعت کے احکام ظاہر بیں لوگوں کے لئے ہیں، اور ہم ان سے مستثنی ہیں، پر لے درجے کی گمراہی ہے، آج کسی کے پاس کوئی ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ شریعت کے احکام سے مستثنی ہوسکے۔
تفسیر سورت الکہف آیت 33-82، آسان ترجمہ قرآن از مفتی تقی عثمانی
٭