بحث کا یہ موقع مناسب نہیں، مگر ایک صاحب نے اپنی پوسٹ میں “موقع کا زیادہ سے زیادہ” فائدہ اٹھانے کے لیے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ “دیکھیے فقہ کے اصولوں کے مطابق حالیہ کیس میں متاثرہ بچی کو کبھی وہ عدل و انصاف نہ مل پاتا جو سب لوگوں کے دل کی آواز ہے۔” برادر محمد مشتاق صاحب نے ان کی پوسٹ میں پیوست اصولی غلطیوں کی عمدہ طریقے سے نشاندہی فرما دی ہے۔ یہاں مقصود یہ ہے کہ متعلقہ پوسٹ میں پیوست غلطی کو ایک مزید نکتہ نگاہ سے دیکھا جائے۔
متعلقہ پوسٹ میں اصل نکتے (کہ نصوص کی روشنی میں فقہاء کرام کی پوزیشن میں کیا غلطی و مسئلہ ہے) پر کوئی نقد، یہاں تک کہ اشارہ تک موجود نہیں، ان کی پوسٹ کے پس پشت دلیل کا تمام تر وزن “فی الوقت موجود جذباتی ہیجان” سے مستعار ہے۔ یہ ہیجان کس بنا پر ہے؟ اس بنا پر کہ:
(الف) ایک چھوٹی سی بچی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا
(ب) اسے قتل کر دیا گیا
(ج) اسے کچرا کنڈی میں ڈال دیا گیا
(د) ہر قسم کے میڈیا میں اس پر غم و غصے سے بھرپور فضا ہے۔
یہ ہے وہ مجموعہ جس کے سہارے انہوں نے اپنا کیس (ان کی اصولی غلطیوں کو فی الحال اگنور کیجیے اور ایک لمحے کے لیے یہ مان لیجیے کہ یہ معاملہ جوں کا توں ہے جیسے انہوں نے بیان کیا) کھڑا کیا ہے۔ اپنی پوسٹ میں انہوں نے نہایت سادگی کے ساتھ اس مفروضے کو درست فرض کر لیا کہ اس غم و غصے کی حالت میں لوگوں کے دلوں میں جو غصہ ہے، گویا وہی عدل و انصاف کا تقاضا ہے اور چونکہ غامدی صاحب کا اجتہاد اس فوری غصے کی تسکین کا باعث بن سکتا ہے، لہذا وہ درست ہے، جبکہ فقہاء کی پوزیشن اس غصے کی تسکین کے لیے کافی نہیں، لہذا وہ غلط ہے۔ یہ ایک غیر ثابت شدہ و باطل مفروضہ ہے۔ اگر شرعی احکامات کو اس طرح وقتی جذبات کے حوالوں سے ماپے جانے کا اصول درست مان لیا جائے تو پھر رسول اللہﷺ کے گستاخانہ کارٹون بنانے والے کے قتل کو بھی آپ جائز سمجھیے کیونکہ یہ بھی مسلمانوں کے غم و غصے میں تسکین کا باعث ہے۔ لہذا ہم چاہیں گے کہ صاحب پوسٹ بجائے موجودہ ہیجانی کیفیت کو استعمال کرنے کے نصوص کی روشنی میں اپنے مقدمے کو پیش کریں۔
دوسری بات یہ کہ صاحب پوسٹ نے چپکے سے ایک مناظرانہ چالاکی کا مظاہرہ کیا۔ وہ یہ کہ انہوں نے بات یہاں سے شروع کی کہ “اگر بچی زندہ ہوتی تو؟” یعنی (الف) تا (د) کے مجموعے سے مل کر جو فضا بنی ہوئی ہے، اس میں سے (ب) تا (د) کو انہوں نے قاری کی نظر سے اوجھل کردیا، اور پھر اپنا تجزیہ داغ دیا۔ بھائی مسئلہ یہ ہے کہ جس معاشرتی تناظر سے آپ اپنے کیس میں وزن پیدا کرنا چاہتے ہیں، (ب) تا (د) کو اگنور کرنے کے بعد اس میں وہ حساسیت ہی غائب ہوجاتی ہے اور ممکن ہے کہ جب آپ صرف صورت (الف) میں اپنے کیس کو پیش کریں تو آپ کی بات کو جانچنے کا میرٹ بدل جائے۔ چلیں میں سمجھانے کے لیے مثال دیتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے یہاں بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے کے کیسز پائے جاتے ہیں، اور تو اور خود خاندانوں میں (چچا، ماموں وغیرہ کی صورت میں) اس کی مثالیں مل جاتی ہیں۔ بسا اوقات یہ معاملات کسی سبب معلوم بھی ہوجاتے ہیں، تو کیا لوگ اپنے متعلقہ رشتہ دار کو پکڑ کر سنگسار کر دیتے ہیں، یا پولیس کے حوالے کردیتے ہیں؟ نہیں، کیوں؟ اس لیے کہ تناظر بدل گیا اور جب تناظر بدل گیا تو عین ممکن ہے کہ ایک جرم ثابت کرنے کے لیے جس وجہ یا دلیل کو آپ ایک کیس میں کافی سمجھ رہے تھے، ممکن ہے کسی دوسرے تناظر میں اسے کافی نہ سمجھیں۔ اگر یہ بات سمجھ آگئی کہ انہوں نے اپنا مقدمہ ایک مخصوص کیس کے تناظر میں مفروضوں کے ساتھ کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے، تو اب اس سے اگلی بات کی وضاحت کرنے کی کوشش کی جائے گی۔
انسان کی ایک کمزوری یہ ہے کہ متعدد جہات میں توازن قائم کرتے وقت وہ اکثر وقتی یا حادثاتی نوعیت کے جذبات سے متاثر ہوکر “عمومی و حادثاتی” پہلوؤں کو خلط ملط کر دیتا ہے۔ مثلا حالیہ واقعے کی سنگینی کے تناظر میں فی الوقت بہت سے لوگ “سخت سے سخت سزا” (مثلا رجم یا سر عام پھانسی وغیرہ) کی حمایت کرر ہے ہیں، مگر یقین مانیے کہ چند ماہ بعد تفتیش کے بعد (جب جذبات ذرا ٹھہراؤ کی سطح پر آچکے ہوں گے) اگر عدالت واقعی مجرم کو سرعام رجم کرنے کی سزا سنا دے اور حکومت اس پر عمل کا فیصلہ کرلے تو انھی لوگوں کی ایک اکثریت اس کے خلاف لب کشائی کر رہی ہوگی، ہیومن رائٹس کی یہی تنظیمیں پھر اس “ظلم” پر عالمی میڈیا کو متوجہ کریں گی بلکہ خود ہمارے میڈیا والے ہی شور مچا دیں گے۔
انسانی زندگی سے متعلق ہر عمل کی متعدد جہات ہوتی ہیں اور انسانی عمل کو ریگولیٹ کرنے والا ہر قانون، جی ہاں ہر قانون و تشریح، ان متعدد جہات میں اقداری ترجیح کا کوئی پیمانہ لازما قائم کرتا ہے۔ مثلا قصاص کی سزا میں جہاں کسی جان تلف کرنے کی سزا کا پہلو ہے تو دوسری طرف ایک اور جان کو تلف کرنے یا مثلا مجرم کے لواحقین کے غم یا ان کی معاشی کفالت کا پہلو وغیرہ موجود ہے۔ اب قصاص کا قانون ان کے درمیان اقداری ترجیح کا یہ پیمانہ فرض کرتا ہے کہ اول الذکر (یعنی جان تلف کرنے کی سزا) دیگر پہلوؤں سے بہرحال مقدم ہے، اس لیے اسے نافذ کیا جائے گا۔ چنانچہ شارع جب کوئی حکم متعین کرتا ہے تو وہ درحقیقت متعدد پہلوؤں کے مابین اقداری ترجیح کا ایک توازن ہوتا ہے۔ اسی طرح شارع نے زنا کی سزا کے لیے نصاب و اثبات کا جو طریقہ کار مقرر کیا ہے، اس میں “فرد کی عصمت” کو انتہائی اہمیت و ترجیح دی گئی ہے۔
اب یہ عین ممکن ہے کہ کسی ایک آدھ کیس میں عمل کے ارتکاب کا اظہار یوں ہو کہ ان دیگر پہلوؤں کا حاصل جمع اول الذکر سے مساوی یا اس پر غالب آجائے، اور اس کی بےشمار مثالیں جمع یا فرض کی جاسکتی ہیں، بالی وڈ سے ہالی وڈ تک کی فلموں میں ایسی تھیمز پر بے شمار فلمیں موجود ہیں جہاں ایک “قاتل ہیرو” کو بالاخر عدالت رہا کر دیتی ہے، اور تمام ناظرین کا دل یہ گواہی دینے لگتا ہے کہ “یہی عدل کا تقاضا تھا، عدالت نے بالکل درست کیا”۔ ان کیسز کو کیسے ایڈریس کیا جائے؟ کیا ایسے کیسز کو مد نظر رکھتے ہوئے “اصل و عمومی قانون” ہی کو تبدیل کر دیا جائے یا انھیں ایڈریس کرنے کے لیے عمومی قانون میں کوئی ایسا اضافی قضیہ شامل کیا جائے جو اس کیس کو اس عمومی کیس سے ممیز کر سکے، جس کی عمومی سزا موجود ہے؟ ہمارے فاضل دوست کا کہنا دراصل یہ ہے کہ اس کیس کو ایڈریس کرنے کے لیے پورے نظام فکر کو بدلنا لازم ہے، (جس کے لیے انہوں نے سوائے ہیجانی کیفیت کو استعمال کرنے کے کوئی دلیل نہیں دی) جبکہ علماء پاکستان میں اس موضوع پر ہونے والی بحث میں پہلے ہی اس قسم کے کیسز سے متعلق یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان میں تعزیرا سزائے موت دی جاسکتی ہے، نیز اس کے لیے چار گواہوں کی شرط بھی لازم نہیں۔
اب دیکھیے کہ علماء نے مسئلے کا حل پیش کر دیا، مگر چونکہ صاحب پوسٹ کے نزدیک مسئلے کا حل اہم نہیں، بلکہ اہم چیز اپنے فکری مخالف کو غیر معقول ثابت کرنا نیز اپنے گروہی مفادات کو بڑھاوا دینا ہے، لہذا انہوں نے مسئلے کی ایسی منظر کشی کی جس سے اس ہیجانی کیفیت میں لوگوں کو یہ لگے کہ “دیکھو فقہ کتنی ظالم ہے اور غامدی صاحب کا مذہب کتنا اچھا ہے”۔ (یہاں موقع کی نزاکت اجازت نہیں دیتی ورنہ معمولی سے تھاٹ ایکسپیریمنٹ سے ہم اپنے محترم کو ایسی مثال تخلیق کرکے دکھاتے جس سے ان کی فقہ کے احکامات سے ایک فریق پر بظاہر ظلم ہوتا دکھائی دے، ہم نے وہ مثال لکھ کر پھر محو کر دی کہ اس سے بہت سے لوگوں کے جذبات مجروح ہوجائیں گے)۔ ہمارے نزدیک ان کی یہ پوسٹ علم کی دنیا میں کوئی وقعت نہیں رکھتی، کیونکہ اس میں کوئی علمی دلیل سرے سے ہے ہی نہیں، اسے زیادہ سے زیادہ “موقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے وضع کردہ مناظرانہ اپیل” کہا جاسکتا ہے۔ اس کی مثال اس بریلوی مناظر کی سی ہے کہ جب وہابی مناظر نے دوران مناظرہ تقریر میں “قال قالا رسول اللہﷺ ” کہا تو بریلوی مناظر نے شور مچا دیا کہ دیکھو یہ گستاخ رسول اللہﷺ کو کالا کالا کہتا ہے، میں پہلے ہی کہتا تھا کہ یہ وہابی گستاخ ہے، اور لوگوں نے پکڑ کر وہابی مولوی کی پھینٹی لگا دی۔
ڈاکٹر زاہد مغل