جنسی جرائم اور حل – مختصر مگر جامع

۔

۔

مروجہ داعی ریپ کلچر (Sex -Seduction -Culture) میں کوئی الہامی قانون بھی مکمل موثر ثابت نہیں ہوسکتا۔ اس سسٹم میں بالفرض اسلام سے یہ صفائی (جاروب) کا کام لیا جاتا ہے اور واقعتاً فرق بھی پڑتا ہے، تو پھر بھی یہ غیرفطری ہی رہے گا کہ ایک جانب نکتہ ابال تک پہنچانے والے ریپ کے داعیے تو جوں کے توں موجود رہیں لیکن ان دواعی سے مغلوب ہو کر اگر کوئی زنا کرلے تو اسلام آکے اسکو سخت سزا دے۔ یہ اسلام کا مزاج نہیں ہے کہ ایک جانب طواف کو سجا دھجا کر چوراہے میں بیٹھا دو اور کوئی خریدار آئے تو اسکو مجرم متعین کر کے تختہ دار پر چڑھا دو ۔
یہ سر تا سر منافقت ہے غیرفطریت ہے کہ ایک جانب پورا ریاستی و میڈیائی نظم ہوس پروری میں جُتا ہو اور دوسری جانب خود ہی پارسا بن کر مجرم کو تختہ دار پر چڑھانے پہ بھی بضد ہو، اور یہ سوال بھی اٹھائے جائیں کہ اسلام حق ہے تو اپنے طبقے میں ان جرائم کو روک کیوں نہیں پاتا ۔
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم جدید سسٹم کے پیدا کردہ گند کی صفائی کی ذمہ داری اسلام کے سر منڈھنے پہ بضد ہیں، جبکہ اسلام اس گندگی کا ذمہ دار ہے نہ اس گندگی کی صفائی کا، جس سسٹم نے یہ گندگی پھیلا رکھی ہے اسی کی ذمہ داری ہے کہ صاف کرے۔
المیہ یہ ہے کہ ہم ماڈرنزم کی قیمت سے واقفیت کے بغیر ماڈرنزم پر لٹو ہوئے پڑے ہیں، مغرب جب عورت کو مارکیٹ میں لانے کی بات کرتا ہے تو خاندانی نظام کی بربادی کی سازش کا جن برآمد ہو آتا ہے، حالانکہ یہ کوئی سازش وازش نہیں بلکہ ماڈرنزم اور ترقی کی قیمت ہے نیز مغرب کی خیرخواہی ہے کہ وہ ہمیں ہماری محبوبہ ترقی اور جدیدیت کیلیئے اپنے مجربات سے آگاہ کر رہا ہے ۔
نعمان احسان بتغیر قلیل
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
ہمارے ہاں جب بھی کبھی جدید انسان کی ہوس اور درندگی سر چڑھ کر بولتی ہے تو وقتی جوش اور ردعمل میں لٹکا دو جلا دو عبرت بنا دو کی دو چار روز صدائیں گونجتی ہیں اور پھر سب وقت کی گرد کی نظر ہو جاتا ہے، دوبارہ کسی واقعہ پر یہی صورتحال ہوتی ہے اور یوں یہ سائیکل لامتناہی رواں دواں ہے، ہم ہر دفعہ شور شرابا کرتے ہیں اور وقتی جوش میں آ کر جنونیت زدہ ہو جاتے ہیں لیکن اس بنیادی سوال کو ہر بارنظر انداز کیئے دیتے ہیں کہ وہ کون سے اسباب ہیں کہ جس نے جدید انسان کو ہوس زدہ درندہ بنا دیا ہے ؟ کیا اس میں جدید غیرفطری نظام اور اس کے الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ سمیت کلی ٹیکنو سائنٹفک ٹیکنالوجیکل اسٹرکچر کا بھی کوئی کردار ہے؟ جدید ریاست اورمارکیٹ کا جنسیت کی ہوس کو بوائلنگ پوانٹ تک پہنچانے والا سیکس سیڈکشن کلچر جو ان جنسی درندوں کی تھوک کے حساب سے پروڈکشن کر رہا ہے بالکل معصوم اور دودھ کا دھلا ہے ؟
دراصل ہم فرد سے آگے دیکھنے کی ہمت نہیں کررہےیا اپنے محبوب سسٹم کی محبت اور جدائی کے خوف سے جان بوجھ کر دیکھنا نہیں چاہتے! بہرحال معروضی صورتحال جو نقشہ پیش کر رہی ہے وہ کچھ یوں ہے کہ پورا جدید سسٹم کلی خطہ ارضی سے انسانیت ختم کر کے ہوس زدہ درندے جننے میں مسلسل جُتا ہوا ہے۔
(نعمان احسان)
 !

********

لبرل معاشروں میں “ریپ” ایک شور مچانے کی چیز نہ کہ ختم کرنے کی

بھائی! لبرل معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں “جنس” کا بخار باقاعدہ عام کیا گیا ہو، “ریپ” کے دواعی stimulations جہاں آسمان سے باتیں کر رہے ہوں؛ اور اس پر سزائیں عورت کے بدن سے “مٹی جھاڑنے” کے مترادف۔ (معذرت خواہ ہوں، فحش گوئی مقصود نہیں، کسی کی غیرت بیدار ہو جائے تو البتہ اچھا ہے)۔ لبرل معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ برسا ہا برس اپنی دلچسپی اور ’ایکسائٹمنٹ‘ نہ کھو سکے اور جس کا ایک ایک ٹویٹ ہزار ہزار ’لائیک‘ اور ’شیئر‘ لے کر جائے! لبرل معاشرہ جہاں عورتیں اپنی “عزت” لوٹی جانے کا واقعہ تقریباً ویسے ہی بتا سکیں جیسے سڑک پر “پرس” چھینے جانے کا! “عزت” بس اتنی ہی ہوتی ہے اس گھر میں، دوستو، تھوڑی جھاڑ کر بحال ہو جاتی ہے اور زندگی رواں دواں! آپ اس پر “عبرتناک” سزا دلوانے چلے! غیرت کی بِین، اس لبرل کے آگے!؟
دنیا کے جو معاشرے لبرلزم کے کئی کئی زینے چڑھ چکے، اوپر بیان ہونے والی بات پر وہ ایک زندہ و موجود دلیل ہیں۔ ’’ریپ‘‘ سے متعلق آپ اُن ملکوں کے اعداد و شمار دیکھیے، سر پکڑ کر رہ جائیں گے۔ شاید یہ مبالغہ نہ ہو، کوئی ملک جتنا لبرل، ’’ریپ‘‘ کا گراف وہاں اتنا بلند۔ لہٰذا ایک شےء لبرلزم کے ساتھ باقاعدہ جڑی ہوئی اور اس کی ایک غیرمتبدل consistent پہچان چلی آتی ہے۔ ایک سماجی پیکیج کا طبعی و فطری جزو ہے۔ وہاں آپ اس کی پرورش کے مزید سے مزید اسباب دیکھنے کے منتظر رہیے نہ کہ اس کے سد باب کے۔ ہاں جہاں تک اس پر شور اٹھانے کی بات ہے تو معذرت کے ساتھ، ’’ریپ‘‘ کے حوالے سے وہ ایک لبرل معاشرے کو بہت اچھا لگتا ہے، نہ معلوم کیوں! بلکہ یہ ہے ہی اس کے یہاں شور اٹھانے کی بات نہ کہ ختم کرنے کی! لبرل کلچر کا یہ ایک لازمی و دائمی حصہ ہے! ’’می ٹو‘‘ اس میں ایک مقبول ترین ٹرینڈ کا نام ہے، دوبارہ معذرت کے ساتھ! اس پر ’’عبرتناک سزا‘‘ کی توقع کرتے وقت دراصل آپ آدمی کے غیرت اور فطرت پر ہونے کی ایک خاص سطح فرض کر لیتے ہیں، جو کہ لبرلزم کے ساتھ خاصی شدید زیادتی ہے، جو غیرت کو ایک مِتھ یعنی خرافات کا درجہ دیتا ہے۔ (شیخ حامدکمال الدین)

*******

لبرل ازم کے پاس معاشرتی جرائم کا حل کیا ہے  ؟

زینب، آصفہ، فرشتہ جیسی بچیوں کیساتھ جنسی ذیادتی کے سانحات پر میں نے اسلام پسند اور لبرلز میں یکساں غم و غصہ دیکھا ہے۔مسئلہ یہاں آ کر خراب ہوتا ہے کہ اس جرم کا اور اس جیسے کئی معاشرتی جرائم کا حل کیا ہے؟ کیا یہ عارضی غم و غصے کی رولر کوسٹر ہی ہمارا مقدر ہے یا کسی نظریے کے پاس ایسے ٹھوس قوانین اور لائے عمل موجود ہے جو ان جرائم کی جڑ کاٹ سکیں؟
حقائق پر مبنی سچ یہ ہے کہ کیپٹلزم کی سماجی فکر یعنی ‘لبرلزم’ اس سوال کے جواب سے عاجز ہے۔ اس دعوے کی عملی دلیل یہ ہے کہ چائلڈ پورن اس عالمی نظام کے تحت، تمام سطحی قوانین ہونے کے باوجود ایک انتہائی منافع بخش انڈسٹری بن چکا ہے۔ Children trafficing کے سب سے بڑے گاہک انہی لبرل ترقی یافتہ ممالک کے امراء اور شرفاء ہیں۔
ٹھنڈے اور غیر جانبدار ذہن سے سمجھنا چاہیے کہ لبرلزم دراصل سیکولرزم کی سماجی شاخ ہے اور سیکولرازم کے پاس ایسی کوئی حتمی فکر سرے سے موجود ہی نہیں جو کسی بھی عمل کو مطلق غلط یا جرم ثابت کر کے اس کا سدباب کر سکے۔ مغربی معاشروں میں بھی ایک صدی پہلے تک کئی ایسے اعمال کو برائی یا جرم سمجھا جاتا تھا جو بلآخر معاشرے کے لبرل ارتقاء کی بھینٹ چڑھ کر اب باقاعدہ انڈسٹری کی شکل اختیار کر چکے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ لبرلزم پہلے فرد کی آزادی فکر و اظہار کے نام پر برائی کا رجحان پیدا کرتا ہے اور جب اکثریت اس رجحان سے متاثر ہو جاتی ہے تو سیکولرزم اس برائی کو قانونی شکل دے کر اس عمل کو ‘برائی’ کی فہرست سے نکال پھینکتا ہے۔
عین ممکن ہے کہ کل کو لبرل معاشروں میں چائلڈ سیکس کا رجحان اکثریت کا مزاج بن جائے اور “طریفین کی رضامندی” کے ساتھ مشروط کر کے اسے بھی قانونی جواز مل جائے اور جسم فروشی، جوا، ہم جنس پرستی، شراب، نیوڈسٹ ساحلوں کی طرح یہ گھنونا گناہ بھی ‘گناہ’ نہ رہے۔
کہنے کا مطلب یہ قطعی نہیں کہ لبرلزم کوئی اخلاقی و قانونی سانچہ نہیں رکھتا، کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اس سانچے میں پیوندکاری یوں ہوتی ہے کہ گویا کوئی بھی امر حتمی طور پر نہ اس سانچے کے اندر ہے نہ باہر۔
یہ وہ مقام ہے جہاں انسان مکمل طور پر عاجز ہے۔ وہ عاجز ہے کہ سماجی، قانونی، اخلاقی اقدار کا تعین خالص عقل کی بنیاد پر کر سکے۔ اخلاقیات مکمل طور پر انبیاء کی طرف سے انسانیت کو دیا گیا تحفہ ہے اور انبیاء کی تعلیمات سے دور ہو کر کسی سماجی و اخلاقی جرم کی جڑ کاٹنا اور عوام کے مزاج کو برائی کے مخالف کر دینا ناممکن ہے۔ انسان کی فلاح اللہ کے قوانین کو انکھ بند کر کے ماننے میں ہے۔
ابو ابراہیم

٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

اسلام نے جرائم کو جڑ سے اکھاڑ ڈالنے کے لیے جو منصوبہ پیش کیا اس کا خلاصہ یہ ہے :

1. سب سے پہلے وہ انسان کو خدائے تعالیٰ اور آخرت پر ایمان لانے کی دعوت دیتا ہے اور نفس کی پاکیزگی کا ایک نظام پیش کرتا ہے جس کے ہوتے ہوئے انسان کے دل اور دماغ سے جرم اور گناہ کا تصور بھی نہیں پیدا ہوتا۔

2. اس کے بعد وہ ایک ایسا سماج قائم کرتا ہے جس میں رہ کر انسان اپنی بنیادی ضرورتیں اور خواہشات جائز ذرائع سے پوری کرسکتا ہے اور اسے ان ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ناجائز اور مجرمانہ وسائل اختیار نہیں کرنے پڑتے ۔

3. جب پہلے دو طریقوں سے ارتکاب جرائم کو روکنا ممکن نہیں ہوسکتا تو پھر انہیں روکنے کے لیے حکومت کی مشینری کو حرکت دینے کی ہدایت کرتا ہے۔
اسلام نے کچھ اس طرح نظام معاشرت کو مرتب کیا ہے کہ ریاست اس بات کی ذمہ دار ہوتی ہے کہ وہ عوام کو زندگی کے وسائل فراہم کرے اور عوام کو ضروریات زندگی سے بے نیاز کردے۔ اسکو ایسا ماحول دے جس سے طبیعتیں نیکی کی طرف ہی مائل رہیں ۔ اتنی آسانیاں پیدا کرنے کے باوجود بھی اگر کوئی شخض چوری کرتا ہے یا دوسروں کے مال پر غاصبانہ قبضہ جماتا ہے، یا بدکاری کرتا ہے ،دھوکے سے روپیہ حاصل کرتا ہے تو بجا طور پر اس بات کا مستحق ہے کہ اُسے سخت سزا دی جائے۔خلاصہ یہ کہ اسلام نے صرف سخت سزائیں دینے پر ہی اکتفا نہیں کیا ہے بلکہ سزاؤں کے نفاذ سے پہلے اس نے ایک ایسا معاشرتی نظام بھی قائم کرنے پر زور دیا ہے جس میں جرائم کے ارتکاب کی گنجائش ہی باقی نہ رہے

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password