توہین رسالت کے ضمن میں کچھ ملحدوں اور غیر مسلموں کا سٹیٹس نظر آیا جن کا خلاصہ یہ تھا کہ عزت زبردستی نہیں کروائی جاسکتی اور یہ کہ ان سے نبیؐ کے عزت کروانے کی کوشش عبث ہے۔
یہ پیغام خود ایک عبث پیغام ہے۔ ہم مسلمان ملحدوں اور غیر مسلموں سے قطعاً یہ مطالبہ نہیں کر رہے ہیں کہ وہ نبی اکرمؐ کی عزت کریں۔ اگر وہ عزت کریں تو یہ یقینا ان کی خود قسمتی ہوتی، لیکن ہمارا مطالبہ یہ ہے ہی نہیں۔ ہم اتنی سمجھ ضرور رکھتے ہیں کہ جو محمدؐ کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہو انہوں نے اللہ سے منسوب کر کے جھوٹا پیغام دیا وہ ان کی عزت نہیں کرسکتا۔
چونکہ بحث کا تناظر توہین رسالت ہے اس لئے اس پیغام سے جو چیز واضح ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ ملحدوں اور ان گستاخ پرستوں کے نزدیک دو میں سے کسی ایک چیز کا ہی اختیار ہے۔ یا تو نبیؐ کی عزت و احترام کریں جیسا کہ عام طور پر مسلمان کرتے ہیں یا ان کے اندر سے کوئی شدید قسم کا دماغی داعیہ پیدا ہوتا ہے جس کے تتیجے میں یہ نبیؐ پر ققرے یا بھپتی کستے ہیں یا طعنے دیتے ہیں۔ حالانکہ جس کی دماغی کیفیت صحیح ہوتی ہے اس کے لئے ایک بہت ہی سادہ سا آپشن یہ بھی ہوتا ہے کہ خاموش رہے، یا پھر منطقی اور مہذب انداز میں اپنا نکتہ نظر پیش کرے۔ ہجو گوئی اور وہ بھی اس ذات کے بارے میں جن کا احترام دیڑھ ارب انسان کرتے ہیں ذہنی پستی کے علاوہ اور کس چیز کی علامت ہے؟
جو لوگ نبیؐ کو نبی نہیں مانتے منطقی اور علمی اعتبار سے ہمارا ان سے یہ مطالبہ ہے کہ۔۔
نبی یا اسلام کے کسی بھی شعائر سے متعلق بات کرتے ہوئے منطقی انداز میں توجیہات کے ساتھ بات کریں۔ توجیہات بتانے سے پہلے آپ پہلے ہی سے اپنا نتیجہ اخذ کرکے گالی سے بات کریں گے تو پھر یہاں پر آپ کی عقل شروع ہونے سے پہلے منطقی بحث کا امکان ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے پاس محمدؐ کی مخالفت کرنے کے لئے کوئی ٹھوس گراؤنڈ موجود ہے تو پھر آپ کو اپنا نتیجہ بیان کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ آپ کی توجیہات خود نتیجہ بیان کردے گی۔ ہاں اگر آپ خود اپنی توجیہات کے بارے میں متشکک ہیں تو پھر آپ کو اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لئے طعنے بازی، نیم کالنگ(Name calling)، بھپتیاں، فقرے بازی، ہجو گوئی جیسی گھٹیا اور غیر علمی حرکات کا اضافہ کرنا پڑے گا۔ ایسا کر کے آپ صرف اپنا مقدمہ کمزور کر رہے ہوتے ہیں۔ اور اگر نبیؐ کے بارے میں ہی اپنی اس ذپنی پستی کا اظہار کرنے پر آپ کا اصرار ہے تو پھر آپ خود اپنے آپ کو انسانیت کے مقام سے نیچے گرا دیتے ہیں۔ جب آپ عقل کے بجائے اپنی ذہنی پستی یا گھٹیا پن کا اظہار کرنے پر ہی مصر ہیں تو پھر انسانی بنیاد پر مسلمان اجتماعیت سے اپنے کسی حق کا مطالبہ کرنے پر اصرار نری حماقت ہے۔
جب آپ بحث میں کسی مذہبی علامت یا شخصیت کے بارے میں توہین آمیز رویہ اختیار کرتے ہیں تو دراصل یہ اس بات کا اعلان ہوتا ہے کہ اس خاص معاملے میں آپ عقل اور Reasoning نام کی چیز سے کوسوں دور ہیں۔ آپ کے دماغ نے عقل کوreasoning کے لئے نہیں بلکہ بدزبانی اور مغلظات کے لئے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہوا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک دوسرے انسان کے ساتھ معاملہ کرتے ہوئے جذبات نام کی کسی چیز کو بھی کوئی قدر نہیں دیتے۔
بحث کے دوران گالی اور توہین آمیز انداز اختیار کرنا اپنی حقیقت کے اعتبار سے بحث کو عقل کے دائرے سے نکال سفلی جذبات، طعنے مارنا، شناعت بازی، کمینگی اور ذہنی پستی کے مقابلے میں میدان میں لے آتا ہے۔ جب آپ یہ رویہ اختیار کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانی رفعت کو چھوڑ کر شعوری پستی میں مبتلا ہیں۔ یہاں پراگر ہم یا کوئی مسلمان آپ سے مقابلہ کرتا ہے تو پھر ہمیں اسی میدان کا کھلاڑی ہونا چاہئے۔ آپ کو سمجھنا چاہئے کہ یہ ہمارا میدان نہیں بلکہ شیاطین کا میدان ہے۔ یہاں پر ہماری مجبوری یہ ہے کہ ہم دلیل کا مقابلہ دلیل سے کرسکتے ہیں اور تلوار کا مقابلہ تلوار سے۔ لیکن اس ذہنی پستی اور کمینگی کا مقابلہ کرنے کے معاملے میں ہم تہی دامن ہیں اس لئے مشتعل ہوجانا ایک فطری مجبوری ہے۔
دوسری طرف انسانی شعور کی رفعت کا ایک اور مظہر عقل کے ساتھ ساتھ تعلقات، رشتوں کا احترام اورمحبت کے مراکز ہیں ۔ انسان اپنی معاشرت میں چاہے وہ قومیت ہو، مذہب ہو، خاندان ہو، اپنے کچھ تعلقات اور محبت کے مراکز رکھتا ہے اور اس کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ ایک فرد اپنے محبت کے مراکز کے بارے میں کوئی غلط بات یا گالی سننے کا روادار نہیں ہوتا۔ کسی کے مرکز محبت کی توہین کرنا یا اس کو گالی دینا اس فرد کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنتا ہے۔
اگر آپ کو لگتا ہے کہ مسلمانوں نے اپنے لئے محبت کے غلط مراکز قائم کر لئے ہیں اور نبیؐ کے بارے میں ان کا یہ رویہ غیر عقلی ہے تو ایسے میں ایک عقل مند فرد کا طرز عمل یہ ہونا چاہئے کہ وہ توہین آمیز رویہ اختیار کرنے کے بجائے اپنے مؤقف میں عقلی دلائل فراہم کرے اور واضح کرے کہ ہم نے اپنے لئے ایک غلط محبت کا مرکز چن لیا ہے۔ چونکہ یہ چیزیں انسانی شعور، نفسیات اور رویوں سے متعلق ہوتی ہیں اس لئے پوری طرح منطقی دائرے میں نہیں آتی۔ اس لئے یہاں اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کے صحیح ہونے کے باوجود مسلمان آپ کی بات نہیں مان رہے ہیں تو اس بات کا پورا امکان موجود ہوتا ہے کہ آپ خود غلط ہوں۔ اگر آپ اس کو مسلمانوں کا نفسیاتی مسئلہ سمجھ رہے ہیں تو پھر اس بات کا پورا امکان موجود ہے کہ یہ خود آپ کا نفسیاتی مسئلہ ہو۔ اس لئے بدزبانی اور مغلظات کسی بھی صورت میں اس کا حل نہیں ہیں۔
مسلمان نبیؐ سے بے انتہا محبت اور احترام کا تعلق رکھتے ہیں۔ اگر آپ مسلمانوں کے نبیؐ کے معاملے میں منطقی انداز اور باہمی انسانی مفاہمت کا معاملہ نہیں کرتے، اگر آپ کو لگتا ہے کہ نبیﷺ کے بارے میں بات کرنے کے لئے آپ کے پاس طعنے، بھپتاں، فقرے بازی، بدزبانی اور مغلظات ہی ہیں تو پھر آپ مسلمانوں سے کیا توقع رکھتے ہیں؟ منطق اور جذبات تو انسانی شعور کی رفعت کی ہم ترین علامت ہیں اور جب آپ بار بار اسی انسانی رفعت پر حملہ آور ہیں تو ہم آپ کو انسان تسلیم ہی کیوں کریں؟
ذیشان وڑائچ