مغربی فکر انسانوں کو مقدسات سے آزادی دلانے نکلی تھی۔
مقصد اس کا یہ تھا کہ ’مقدسات‘ انسانوں کو بہت سارے متناقض اور غیر منطقی چیزوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن انسانوں کو ’مقدسات‘ سے آزاد کرنے کے جذبے نے مغرب کو بھی آزادی کے نام پر ایک ایسی ’مقدس‘ چیز فراہم کردی ہے جس پر مغرب کسی بھی طرح کی منطقی بحث کے بجائے بس کارٹون بنانے پر مصر ہے۔
مغرب کے نزدیک انسانوں کی مادرپدر آزادی ایک ’مقدس‘ چیز بن گئی ہے۔ ان کا اپنا تصور انسان اور انسان پرستی مقدس بن گئی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کی قطعی کوئی پروا نہیں ہے کہ اپنے تقدسات کے بارے میں ان کی اس سرفروشانہ روش کی وجہ سے کس طرح گلوبل ولیج ایک میدان جنگ بنتا جارہا ہے۔ ا
قصہ کوتاہ۔۔۔ انسان مقدسات سے تو آزاد نہیں ہوسکا۔ بس اتنا ہوا ہے کہ ’مذہبی مقدسات‘ کی جگہ پر ’سیکولر مقدسات‘ آ گئے ہیں”
ذیشان وڑائچ
مقصد اس کا یہ تھا کہ ’مقدسات‘ انسانوں کو بہت سارے متناقض اور غیر منطقی چیزوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔
لیکن انسانوں کو ’مقدسات‘ سے آزاد کرنے کے جذبے نے مغرب کو بھی آزادی کے نام پر ایک ایسی ’مقدس‘ چیز فراہم کردی ہے جس پر مغرب کسی بھی طرح کی منطقی بحث کے بجائے بس کارٹون بنانے پر مصر ہے۔
مغرب کے نزدیک انسانوں کی مادرپدر آزادی ایک ’مقدس‘ چیز بن گئی ہے۔ ان کا اپنا تصور انسان اور انسان پرستی مقدس بن گئی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ انہیں اس بات کی قطعی کوئی پروا نہیں ہے کہ اپنے تقدسات کے بارے میں ان کی اس سرفروشانہ روش کی وجہ سے کس طرح گلوبل ولیج ایک میدان جنگ بنتا جارہا ہے۔ ا
قصہ کوتاہ۔۔۔ انسان مقدسات سے تو آزاد نہیں ہوسکا۔ بس اتنا ہوا ہے کہ ’مذہبی مقدسات‘ کی جگہ پر ’سیکولر مقدسات‘ آ گئے ہیں”
ذیشان وڑائچ