مسئلہ ناموس رسالت ﷺ صرف ایک شخصیت کے دفاع کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مصلح ایک راہنما ایک مفکر سے بڑھ کر ایک نظریے ایک عقیدے بلکہ ایک ملت کے وجود کے دفاع کا مسئلہ ہے اور بعض معاملات میں یہ مسئلہ اسلام کے بنیادی ترین عقیدے توحید سے بھی زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔
ایسا کیوں ہے ؟ گفتگو یہ ہے کہ ہم تک دین نبی کریم ﷺ کے توسط سے پہنچا اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کو ہی غیر معتبر کردیا جائے تو مسلم عقیدے کی بنیاد ہی ڈھے جاتی ہے یہ امر شاید دور جدید کے شکست خوردہ مسلم گروہ نہ سمجھتے ہوں لیکن اس امر کو کفار نے ہمیشہ سمجھا ہے ، اللہ رب العزت نے اسلام سے پہلے نبی کریم ﷺ کے کردار کو منوایا اور عرب کو یہ کہنے پر مجبور کردیا کہ محمد ﷺ صادق اور امین ہیں دین کی دعوت اس اقرار کے بعد پیش کی گئی اور عجیب نکتہ یہ ہے کہ اس کے جواب میں نبی کریم ﷺ کی دعوت یا نظریے پر حملہ نہیں کیا گیا بلکہ آپ ﷺ کی ذات پر حملہ کیا گیا آپﷺ کے کردار پر حملہ کیا گیا بھلے وہ رات کی تاریکیوں میں ہونے والی عقلاء عرب کی مشاورت ہو یا پھر نجاشی کے دربار میں قریش کے وفد اور اولین مہاجرین کی گفتگو ہو ، کبھی آپ صلی اللہ علی وسلم کو کاہن قرار دینے کی کوشش ، کبھی شاعر کہا گیا ،کبھی مجنون قرار دینے کی کوشش ہوئی ، کبھی باغی کہا گیا ،تو کبھی بادشاہت کا طالب بنا کر پیش کیا گیا نعوذ بااللہ من ذالک ۔
پھر گفتگو مکے سے نکل کر مدینے پہنچی تو نبی کریمﷺ کے خانوادے پر الزامات لگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت و امانت کو مشکوک کرنے کی کوشش کی گئی ایک گروہ ادب کی آڑ میں کھڑا ہوا اور شعر گوئی کے ذریعے نبی کریم ﷺ کی شان میں گستاخی ہوئی ، پھر جب دعوت مشرکین کے حلقوں سے نکل کر یہود و نصاریٰ کے حلقوں تک پہنچی تو الزامات کی نئی لڑی شروع ہوئی کبھی تعدد ازواج پر اعتراض کبھی حضرت عائشہ صدیقہ رض سے کم عمری کے نکاح پر اعتراض کبھی قدیم مذہبی کتب سے مواد لینے کا الزام کبھی یہودی قبائل کو مدینے سے بے دخل کرنے پر تکلیف کا اظہار۔
بعد ازاں ایک مکمل استشراقی منہج فکر وجود میں آیا کبھی چرچ کے ماتحت تو کبھی یہودی مفکرین کی تقریر و تحریر میں ، گفتگو کیلئے یہ ایک مستقل موضوع ہے لیکن اہم نکتہ یہ ہے کہ آج بھی نئی بوتلوں میں پرانی شراب پیش کی جا رہی ہے آج کا مغرب کہ جو قریب قریب ملحد ہو چکا ہے انہی اعتراضات کی جگالی کر رہا ہے کہ جو ان کے پیش رو مستشرقین اٹھا کر جا چکے ہیں اگر
Dante Alighieri
“Divine Comedy”
میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا ہے اور ادب کے نام پر کرتا ہے تو
Charlie Hebdo آزادی اظہار کے نام پر یہ کام کرتا دکھائی دیتا ہے ، لیکن ہماری گفتگو یہاں پر مغرب سے نہیں ہے اس تمام تمہید کا رخ اس طبقے کی طرف ہے کہ جو ہماری ہی صفوں کے لوگ ہیں۔
ہمارے یہاں اس فکر کا آغاز استعماری غلبے کے بعد ہوا چاہے وہ فرانسیسی استعمار ہو یا برطانوی استعمار استشراقی فکر کے نتیجے میں استغرابی گروہ نمودار ہوا اور اس گروہ نے یہ دعویٰ کیا کہ درحقیقت ہم ہی مقدمہ پہنچانے میں ناکام رہے ہیں اس دعوے کی حقیقت کی حقیقت کو کھولا جائے تو دوگروہ ہمارے سامنے آتے ہیں ، ایک تو وہ کہ جو استعمار سے اس درجہ متاثر تھے کہ انہیں کسی بھی شکل میں مذہب کے مقدمے کو استعمار کے تابع کرنا تھا دوسرے وہ کہ جو مذہب کے مقدمے کی بابت شکوک کا شکار تھے۔
آج ہمارے مقابل استعمار نہیں بلکہ نو استعمار ہے عالمگیریت کے اس دور میں کہ جب دنیا ایک بڑے گاؤں کی شکل اختیار کر چکی ہے آج کا استعمار کسی مخصوص علاقے اس علاقے کی جغرافیائی حدود میں موجود افراد ان کی تہذیب ان کے مذہب ان کے نظیرات پر ہی غلبہ حاصل نہیں کرتا بلکہ آج کا استعمار دنیار بھر کے لوگوں پر اثر انداز ہوتا ہے اور اس کے پاس وہ تمام وسائل ہیں کہ وہ ایسا کرسکے یہ استعمار ایک عالمی ملٹائی نیشنل ہے کہ جس کے پیچھے میڈیا کی ایک بہت بڑی مشین کام کر رہی ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ جو ہمارا شکست خوردہ مذہبی طبقہ اٹھاتا ہے وہ سوال کیا ہے، وہ سوال ہے.
“ہم نے تو مذہب کا مقدمہ ان تک پہنچایا ہی نہیں۔
ہم مذہب کا مقدمہ ان تک پہنچا ہی نہیں سکے۔
ہمارے دلائل بہت کمزور ہیں اور اس جدید دور میں نہیں چل سکتے۔
ہم علمی طور پر اتنے پست ہیں کہ وہ ہماری بات سنیں ہی کیوں۔
ہمارے قدیم دلائل آج غیر متعلق ہو چکے ہیں”۔
یہ سوال شکست خوردہ طبقہ مختلف انداز اور مختلف شکلوں میں اٹھاتا رہا ہے بظاہر یہ ایک اہم سوال دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت یہ سوال ہے کیا ؟
اس سوال کے نتیجے میں دو مکاتب فکر سامنے آتے ہیں۔
پہلا مکتب فکر تو وہ ہے کہ جو اس بات کا طالب ہے کہ مذہب کی تعلیمات کو اس حد تک تبدیل کردیا جائے کہ تہذیب مغرب انہیں قبول کرنے پو تیار ہوجائے یہ گروہ ہمیں اپنے اطراف میں ایک بڑی تعداد میں دکھائی دیتا ہے چاہے وہ سرسید ہوں چاہے ڈاکٹر فضل الرحمٰن ہوں یا علامہ وحید الدین خان یا استاد غامدی ہوں اس گروہ کے نزدیک آج کے اعتبار سے مذہب اس حد تک تبدیل ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے کہ وہ مغرب کی نگاہ میں قابل قبول ہو سکے۔
دوسرے گروہ کے نزدیک مذہب کے دلائل کا طرز بدلنا ہوگا یعنی مذب کو اپنی فقہی و کلامی روایت سے ہٹ کر جدید فلسفے و منطق بلکہ سائنسی علمیت کے تناظر میں دلائل کو پیش کیا جائے۔
ان سوالات پر گفتگو اپنی جگہ مگر سوال یہ ہے کہ کیا ایسا کیا نہیں جا چکا کیا یہ طریقہ ہم سے پہلے آزمایا نہیں گیا ، درحقیقت غلط فہمی یہ ہے کہ مغرب کا پہلا مکالمہ اسلام سے ہوا ہے مگر ایسا نہیں ہے جب چرچ کا تعلق ریاست سے ٹوٹ رہا ہے تھا اور مذہبی علمیت کی جگہ جدید فلسفہ لے رہا تھا تو چرچ نے اپنی پوری کوشش کی کہ وہ جدید تہذیب کی نگاہ میں قابل قبول ہو سکے چرچ نے اپنی مذہبی تعلیمات کو تبدیل کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ یہاں تک گئے کہ انہوں نے ہم جنس پرست چرچ کو بھی جگہ دی۔
ایک طرف تو بائبل کا یہ موقف ہم جنس پرستی کے حوالے سے
You shall not lie with a male as with a woman; it is an abomination. (Leviticus 18:22)
If a man lies with a male as with a woman, both of them have committed an abomination; they shall surely be put to death; their blood is upon them. (Leviticus 20:13)
تو دوسری طرف آج کے پوپ کا بیان
Pope Francis has said that he thinks same-sex couples should be allowed to have “civil unions”.
پھر evolutionist مکتب فکر کے مقابل creationist کی بھرپور محنت !
کیا مغربی مسیحیت نے ہر وہ کوشش نہیں کرلی اور ہر وہ طریقہ استعمال نہیں کرلیا کہ جدید ذہن ان کی بات سن سکے مگر اس کا کیا نتیجہ نکلا کیا مغرب ان کی بات سننے کو تیار ہوا جدید ذہن کو کسی ایک مذہب سے نہیں بلکہ مذہب سے مسئلہ ہے کیا جدید مغرب بس ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی شان میں گستاخ کرتا ہے نہیں بلکہ جتنی گستاخی مغرب نے مسیح علیہ السلام کی شان میں کی ہے کسی اور مذہبی شخصیت کی شان میں نہیں کی ،
جو مطالبہ ہمارے شکست خوردہ مسلمان ہم سے کر رہے ہیں وہ سب کرنے کے باوجود مسیحیت خود کو گستاخی نہیں بچا سکی تو پھر یہ بچگانہ سوال ہی کیوں ؟ کیا یہ سوال کرنے والے اتنے ہی انجان اور اتنے ہی معصوم ہیں یا یہ خود کو اور مسلم امہ کو دھوکا دے رہے ہیں۔
حسیب احمد حسیب