سوال: امام ابو حنیفہ ؒکے نزدیک ذمی اگر رسول ؐکو گالی دے تو اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا تو آسیہ بی بی کے کیس میں اگر توہین ثابت ہو بھی جائےتو کیا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے قول پر فتوی دے کر اسے ذمی جان کر معاف نہیں کیا جا سکتا؟
جواب:
جب یہ بات کی جاتی ہے کہ احناف (متقدمین)کے نزدیک شتمِ رسول سے ذمی کا عقدِ ذمہ نہیں ٹوٹنا، تو یہ ادھورا سچ ہے۔ پورا سچ یہ ہے کہ متقدمین احناف کے نزدیک شتمِ رسول سے عقدِ ذمہ تو یقیناً نہیں ٹوٹتا لیکن شتمِ رسول انتہائی سنگین جرم ہے جس پر تعزیر ضروری ہے اور یہ تعزیر شدید ترین سزا ، یعنی سزاے موت، کی صورت میں بھی دی جاسکتی ہے۔ اسی کو حنفی فقہاے کرام “سیاسۃ” کہتے ہیں۔
سیدھا سادہ سوال ہے۔ کیا ذمی کو ان افعال پر سزا دی جاسکتی ہے یا نہیں جو دار الاسلام کے قانون کی رو سے قابلِ سزا جرائم ہوں؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہے تو یہی اصول توہینِ رسالت کے متعلق بھی ہے کہ اس پر ذمی کو سزا دی جاسکتی ہے۔ پھر کیا اس جرم پر اس کی ذمی کی حیثیت ختم ہوجاتی ہے؟ متقدمین احناف کے نزدیک جیسے دیگر جرائم پر نہیں ہوتی، ایسے ہی اس جرم پر بھی نہیں ہوتی۔ وہ ان جرائم کے باوجود ذمی رہتا ہے۔ ذمی کی حیثیت صرف تین کاموں سے ختم ہوسکتی ہے: یا تو وہ مسلمان ہوجائے؛ یا دار الاسلام کی سکونت چھوڑ کر کہیں اور مستقل سکونت اختیار کرے؛ یا بغاوت کرے۔ بغاوت تنہا کی نہیں جاسکتی بلکہ اس کےلیے منظم جتھا چاہیے ہوتا ہے۔ چنانچہ ذمی کی جانب سے شتم رسول کتنا ہی سنگین جرم ہو اس کو قانوناً ذمہ توڑنے کے مترادف نہیں مانا جاسکتا۔ تاہم یہ جرم ہے اور سنگین جرم ہے؛ اس لیے پر شدید ترین سزا دی جاسکتی ہے۔
پس عقدِ ذمہ نہ ٹوٹنا الگ مسئلہ ہے اور سزا دینا ایک مستقل مسئلہ۔ ذمہ نہ ٹوٹنے کو سزا نہ دینے کا لزوم ثابت کرنا جہالت ہے۔
فقہ حنفی اور سیاستِ شرعیہ کی اصطلاح :
قرآن و سنت میں بعض اوقات جرائم کی سزا مقرر ہوتی ہے اور بعض اوقات کسی فعل کو قابلِ سزا جرم قرار دینے کے بعد اس کےلیے سزا مقرر کرنے کا اختیار مسلمانوں کی حکومت کو دیا جاتا ہے۔ اول الذکر کی مثال میں قصاص اور حدود کی سزاؤں کا ذکر کیا جاسکتا ہے اور ثانی الذکر میں ان سزاؤں کا ذکر کیا جاسکتا ہے جنھیں متقدمین فقہاے کرام تعزیر اور سیاسہ کے عنوان سے یاد کرتے ہیں۔
اب جہاں تک توہینِ رسالت کے فعل کا تعلق ہے اس میں دو رائیں نہیں ہوسکتیں کہ قرآن و سنت کی رو سے یہ قابلِ سزا جرم ہے۔ کئی آیات اور احادیث اس ضمن میں پیش کی جاسکتی ہیں۔ ان میں وہ آیات اور احادیث بھی شامل ہیں جو ارتداد کے متعلق ہیں کیونکہ توہینِ رسالت کا جرم یقیناً کفر ہے اور مسلمان کی جانب سے کفر کے ارتکاب پر ارتداد کا حکم لاگو ہوتا ہے۔ البتہ غیرمسلم کی جانب سے توہینِ رسالت کا فعل ارتداد نہیں کہلا سکتا اس لیے متقدمین احناف کے نزدیک اس پر حد نہیں انکے نزدیک اسکو تعزیرا سزا دی جائے گی اور اس پر سزا کا تعین حکمران یا قاضی کا کام ہے ۔ یہ اس صورت کا حکم ہے جب اس جرم کا ارتکاب انفرادی سطح پر ہو۔ اگر اس جرم کا ارتکاب کسی منظم جتھے کی جانب سے اجتماعی طور پر ہو، یا اس فعل کو کسی منظم جتھے کی جانب سے تائید اور تحفظ حاصل ہو ، تو اس صورت میں یہ جنگی اقدام ہے جس کے لیے قرآن و سنت نے قتال کا حکم دیا ہے۔
خلاصہ یہ کہ متقدمین احناف کا جو اختلاف غیر مسلم کے بارے میں نقل کیا جاتا ہے، وہ محض نظری اختلاف ہے کہ توہین کرنے سے ذمی کا ذمہ بھی ٹوٹتا ہے یا نہیں.جمہور فقہاء کے نزدیک اس کا ذمہ بھی ٹوٹ جاتا ہے اور وہ محاربی کی طرح ہوجاتا ہےجبکہ متقدمین احناف کے نزدیک چونکہ وہ توہین سے بھی بڑے جرم یعنی کفر وشرک میں مبتلا ہے، لہذا ذمہ تو نہیں ٹوٹے گا، ہاں توہین پر اسے قتل کیا جائیگا.اس کو یوں سمجھ لیجئے کہ احناف کے ہاں اگر ذمی کسی مسلمان عورت سے زنا کرے، تب بھی اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتالیکن زنا کی وجہ سے جو سزا اسے ملنی ہوگی سنگسار کرنے یا کوڑوں کی وہ تو اسے پھر بھی ملے گی بعینہ توہین کی وجہ سے ذمہ تو نہیں ٹوٹتا، مگر سزا توہین کی ملے گی۔
متاخرین احناف:
اوپر بیان کیا گیا مسلک متقدمین احناف کا ہے متأخرین احناف نقض ذمہ کے ہی قائل ہیں۔
٭اعتراض :امام ابوحنیفہ کے نزدیک ذمی شاتم رسول کو حدا قتل نہیں کیا جاسکتا۔
جواب : امام ابوحنیفہؒ کا یہ قول ارتداد کے باب میں انکے فتوے کی بنا پر ہے کہ ایسا کرنے سے مسلمان تو بسبب ارتداد بطور حد قتل ہوگا اور غیر مسلم پر ارتداد لاگو نہیں ہوتا تو وہ بطور حد قتل نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا انہوں نے تعزیری سزا سے بھی منع کرکے یہ کہا تھا تھا کہ ایسا کرنے والے کو کھلا چھوڑ دو؟ کیا حنفی فقہ کی کتب میں یہی لکھا ہوا ہے کہ اس عمل کی کوئی سزا دی ہی نہیں جاسکتی یا یہ لکھا ہوا ہے کہ تعزیرا دی جاسکتی ہے حدا نہیں؟غامدی صاحب بھی ٹی وی پروگرامز میں یہ ادھوری بات کہتے رہتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ایسا شخص واجب القتل نہیں۔ ان سے یہ بھی پوچھ لینا چاھئے کہ کیا آپ امام ابوحنیفہ کی اس رائے کو مانتے ہیں کہ مرتد(گستاخ مسلمان) کو قتل کرنا چاھئے؟ اگر نہیں تو پھر ان کی ادھوری بات پکڑنے کا کیا مطلب؟
باقی آئمہ کا تو اس پر اتفاق ہے کہ مسلمان بعد از توہین مرتد ہوجاتا ہےاسے حداً قتل کیا جائیگا ۔اسی طرح ذمی کے بارے میں ان کا کہنا یہ ہے کہ گستاخی سے ان کا ذمہ ختم ہوجاتا ہےوہ حربی بن جاتا ہے جو مباح الدم ہوتا ہےاوپر سے گستاخی کیوجہ سے متعین طور پر واجب القتل ہوجاتا ہے۔لہذا ان کے ہاں حربی اور ذمی (بعد از توہین) اور مسلمان گستاخ ایک ہی درجے کے ہوگئے قتل کے معاملے میں۔یعنی حداً قتل بلا استتابت۔
متقدمین احناف کے ہاں تھوڑی سی تفصیل ہے احناف متقدمین کے ہاں ذمہ تو گستاخی سے نہیں ٹوٹتا، تاہم گستاخ کو قتل کیا جانا درست ہے۔کیونکہ موجب قتل دشنام اورگستاخی ہے، جو بہرحال ذمی میں بھی موجود ہے۔ لیکن متقدمین احناف کے ہاں اس کو حداً نہیں تعزیراً قتل کیا جائیگااور تعزیر میں حد سے بڑھکر بھی سزا ممکن ہے جبکہ حد میں تنکے کے برابر بھی کمی زیادتی ممکن نہیں(حد میں شبے کا فائدہ ملزم کو دے کر اسکو آزاد کیا جاسکتا ہے تعزیر میں اسے کوئی نا کوئی سزا ضرور ملتی ہے۔ آسیہ مسیح کے کیس میں یہی ہوا کہ اسے حد کیوجہ سے شبے کا فائدہ دے کر آزاد کردیا گیا)۔احناف کا گستاخ ذمی کی سزا کو حد کی بجائے تعزیر کے تحت لانا دو دقیق اصولوں کی بناء پر ہے۔ایک تو یہ کہ حدود لزوم ایمان ہوتے ہیں جب ذمی کے پاس ایمان ہی نہیں تو اسے حد جو ایک ایمانی شرط کی شے ہے، نہیں لگنی چاہیئے۔ہاں اسے سزا دینی ہے تو اسے ایک اور ٹائٹل تعزیر کے تحت جتنی چاہو، سزا دیدو،چاہو تو قتل کردو،جلاوطن کردو،کوڑے لگادو،جرمانہ کردو۔ گویا یہ کہنا بہت بڑا مغالطہ ہے کہ احناف متقدمین کے ہاں ذمی کا قتل ہے ہی نہیں۔قتل تو ہے، مگر لزوماً اور حداً نہیں، سیاسۃ اور تعزیراً ہے۔
یہ متقدمین احناف کا قول ہے، متاخرین احناف کے ہاں یہ رائے ہے کہ گستاخی سے ذمی کا ذمہ اور عہد ٹوٹ جاتا ہےاور وہ حربی بن جاتا ہے۔امام نسفی، ابن ہمام، امام عینی اور شاہ ولی اللہ،قاضی ثناءاللہ پانی پتی اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمہم اللہ جیسے آئمہ احناف اس کے قائل ہیں۔اور ابن عابدین رح کے الفاظ میں تو یہ خروج عن المذہب بھی نہیں، بلکہ خود مذہب احناف کا ہی ذرا کم مشہور قول ہے۔لیجئے پڑھئے، “ما بحثہ الامام العینی والمحقق ابن الھمام من حیث الانتقاض ایضاً، فلیس خارجاً عن المذہب بالکلیہ۔نعم ھو خلاف المشہور۔یعنی یہ قول بھی خود مذہب احناف ہی کا قول ہےاسے اختیار کرنے سے بالکلیہ خروج عن المذہب نہیں ہوتا ۔ اور متأخرین کا تو گویا اس پر اجماع ہے کہ ذمہ ہی ٹوٹ جاتا ہے۔متحدہ ہندوستان سے لے کر علمائے پاکستان تک سب کا یہی فتویٰ ہے۔ متأخرین کے نزدیک گستاخی نہ کرنا خود عہد کا حصہ ہےتو جب گستاخی کرلی تو ذمہ توڑ دیالہذا اب وہ محارب بن گیااور اس کا وہی حکم ہے، جو دوسرے آئمہ کا بیان کردیا۔ یہی پاکستان کا قانون ہےاور حکمِ حاکم ویسے بھی رافع اختلاف ہوتا ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ علمی توارث میں احناف متأخرین کا بہت سے معاملات میں متقدمین سے اختلاف ہےاور متأخرین کے قول پر ہی فتوٰی بھی ہمارے علمی میراث میں ثابت و موجود ہے۔جیسے آئمہ اور قرآء حضرات کو تنخواہ لینا امام صاحب کے نزدیک نامناسب بلکہ جائز نہیں۔مگر متأخرین نے ضرورت اور حالات کے تحت جواز کا فتوٰی دیا ہےاور اسی کا اعتبار بھی ہورہا۔ایسے ہی متأخرین نے اسی خدشے کے پیش نظرجو آج کا واقعہ بن چکا ہےکہ کوئی آدمی توہین کرے اور پھر معافی مانگےاسے معاف کردیا جائے، تو دوسرا کھڑا ہو،اسے معاف کردیا جائے، تو تیسرا کھڑا ہو۔یوں مسلم معاشرہ غیظ وغضب اور انارکی کا شکار ہوجائیگااور شاتمین ومجرمین چھوٹتے رہیں گے،بایں وجہ عہد کے نقض اور تعزیر کی بجائے حد کو بطور سزا کےقبول کرلیا ہے اور اب اسی پر فتوٰی ہے۔سو سرے سے یہ مسئلہ محل اختلاف بن ہی نہیں سکتا۔.
باقی رہا مسلمان کا معاملہ تو اس میں احناف متقدمین استتبات کا موقع فراہم کرتےہیں، کم ازکم قبل الاخذ۔لیکن صرف استحباباً اور بھی محض تین دن کے اندر اندر۔جبکہ متأخرین مثل دوسرے آئمہ کے توہین سے ہونے والے ارتداد پر توبہ کے قائل نہیں۔بلکہ ہرحال میں قتل کے قائل ہیں۔.
٭اعتراض :فقہ حنفی کے مطابق ذمی کو تعزیرا قتل کیا جا سکتا ہے اور حکمران کا تعزیرا قتل کرنااس کی رائے ہے اور رائے کی بنا پر کسی کا خون حلال کرنا درست نہیں ہے۔
جواب:
۱: فقہا کے ہاں کسی پاداش کے تعزیر کے باب میں سے ہونے کے یہ معنے نہیں کہ وہ شریعت سے منقول نہیں کہ اس حوالے سے نصوص میں کوئی رہنمائی نہیں کی، بلکہ یہ ممکن ہے کہ کوئی سزا نص ہی سے ثابت ہو لیکن وہ سیاست شرعیہ کے باب میں سے ہو نہ کہ “حد” کے باب میں سے، جس میں تصرف کرنے کا نبی کو بھی اختیار نہ تھا۔ توہین رسالت پر سزا پیغمبر خدا صلى الله عليه وسلم سے ثابت ہے لیکن اختلاف اس کی فقہی تکییف میں ہے، احناف اسے سیاست شرعیہ کے باب میں سے قرار دیتے ہیں۔ اس لیے یہاں اس اصول کا اطلاق غیر متعلق ہو جاتا ہے کہ “رائے سے خون بہایا” جا رہا ہے کیونکہ یہاں “قتل” کی سزا پیغمبر خدا صلى الله عليه وسلم ہی کی طرف سے ثابت ہے۔
بلکہ اگر اس فقہی تکییف کو اس کے آثار، یعنی نتائج، کے لحاظ سے دیکھا جائے، تو اس میں خون کی زیادہ حرمت ہے کیونکہ یہ فقہی موقف اس احتمال کی کھڑکی کھلی رکھتا ہے کہ توہین کے ثبوت کے باوجودہمیشہ قتل نہ کیا جائے۔
۲: تعزیر کے حوالے سے یہ بات واضح رہنا بھی ضروری ہے کہ اسے وضعی قوانین کے تناظر میں نہیں دیکھا جا سکتا۔ چناچہ فقہا قاضی کو تعزیر میں بھی پابند فرماتے ہیں۔ مثلا زنا اور اس کے متعلقات کے باب میں یہ قید بڑھاتے ہیں کہ اگر کسی کو کوڑوں سے تعزیر کی جائے، تو چالیس سے کم ہونے چاہیں!
۳: نیز اس بحث کا تعلق، چونکہ قضا اور عدالتی نظام سے ہے، اس لیے یہاں یہ پہلو اجاگر کرنا بھی بے محل نہیں کہ قاضی کو حاکم کی طرف سے “ولایت” (Jurisdiction) ملتی ہے جو اسے مقید کر دیتی ہے، یعنی حاکم وقت قاضی کو اس کا پابند کر سکتا ہے کہ وہ کسی رائے میں مخصوص مسلک کے مطابق فیصلہ کرے، مثلا ظاهر الرواية ہی کے مطابق فیصلہ کرے۔ اس لیے، تعزیر کے باب میں یہ بات نہیں قاضی کو کھلی چھٹی مل گئی۔
ولو قيده السلطان بصحيح مذهبه کزماننا تقيد بلا خلاف لکونه معزولا عنه انتهى (الدر المختار، کتاب القضاء)
اس لیے یہاں یہ اصول کہ رائے سے قتل کرنا روا نہیں غیر متعلق ہے۔
۴: اور رائے کے معنے بھی واضح نہیں کیے گئے کیونکہ حد کے نافذ کرنے میں بھی قاضی کے اجتہاد ونظر کا عمل دخل ہے۔ اس لحاظ سے، ہر حد میں رائے (Judgement) کا عمل دخل ہے۔ ورنہ احناف جب قاضی کو بطور تعزیر شاتم رسول کو قتل کرنے کی اجازت دیتے ہیں، تو اس کی وجہ وہ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہے۔ نیز اور یہی روایات ان کے فقہی چوکھٹے میں عمومی طور سے تعزیر میں قتل کے جواز کی بنیاد بھی بن جائیں گی۔اب اس بات سے خواہ اختلاف کیا جائے کہ پیغمبر خدا صلى الله عليه وسلم کے عمل کو “حد” قرار دیا جائے “تعزیر” نہیں، لیکن اس وقت اساس یہ اصول نہ ہو گا کہ: “رائے سے قتل کرنا روا نہیں”
5: جب کسی فقہی موقف پر تبصرہ کیا جائے گا، تو اس کے پورے متکامل نظام کو لے کر کیا جائے گا۔ جہاں متقدمین فقہا تعزیر کے طور پرقتل کی بات کرتے ہیں، وہاں اس کے ساتھ قیود بھی بڑھاتے ہیں۔ اب اگر کوئی ان کا غلط استعمال کرے، تو وہ حدود کا بھی ہو سکتا ہے۔
خلاصہ یہ کہ زیر بحث مسئلہ تعبیر وتشریح کا ہے ۔ ہر فقہی مذہب میں کئی مسائل میں ایک سے زائد آرا پائی جاتی ہیں لیکن جسے “مذہب” کہا جاتا ہے وہ ان آرا میں کوئی ایک راے ہی ہوتی ہے اور اس ایک راے کے تعین کےلیے ہر مذہب کے کئی اصول ہوتے ہیں ۔ فقہاے زمانہ کے لیے دونوں طرف کی گنجائش موجود ہوگی کہ وہ اپنے دور کے تقاضوں اور ضروریات کے مطابق ان میں سے کسی ایک کو اختیار کر لیں۔ جمہوری اصولوں کے مطابق ایک مسلمان ملک کے مسلمان باشندوں کو اپنے مذہبی جذبات کے تحفظ کے لیے قانون بنانے کا حق حاصل ہے اور توہین رسالت کی سزا کے لیے یہا ں کے علماء کا جمہور فقہاء کی متفقہ رائے کو نافد کرنا جمہوری اور شرعی طور پر درست ہے ، مسلمان عوام اس پر مطمئن ہیں اور کسی قانونی تبدیلی کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
استفادہ تحریر ڈاکٹر مشتاق ، زاہد مغل ، مولانا علی عمران