مستشرقین کومشرق اور خصوصیت سے اسلام کی کوئی خوبی ایک نظر نہیں بھاتی، اگرہنرکو عیب بنانے میں کامیاب نہ ہوں توکم ازکم اتنا توکرتے ہی ہیں کہ مسلمانوں اور عربوں کے کارناموں کا رشتہ کسی اور قوم اور خاص کرروم ویونان سے جوڑ دیتے ہیں تاکہ یہ مسلمانوں کے کھاتہ میں نہ رہ سکے، یہی کام ان حضرات نے فقہ کے بارے میں کیا اور اسلامی فقہ کو”رومن قوانین” سے ماخوذ ومستفاد اور قرآن وحدیث سے بے تعلق یاکم ہم آہنگ قرار دیا ہے۔اس سلسلے میں ان کے کیے گئے دعاوی پر ان سطور میں اسی پرروشنی ڈالی جانی ہے۔
*تین بحث طلب نکات:
اس کے لیے اوّل ہمین یہ بات دیکھنی ہوگی کہ کیا امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے فقہاء اسلام نے احکام شریعت کے لیے جومصادر مقرر کئے ہیں ان میں کسی اجنبی قانون کے لیے کوئی جگہ ہے یانہیں؟ اور وہ کس حد تک کتاب وسنت سے متعلق یاغیرمتعلق ہیں، دوسرے امام ابوحنیفہ ؒ و دیگر قدیم فقہاء تک رومن قوانین کی رسائی تاریخی قرائن کی روشنی میں ممکن ہے؟ تیسرے رومن قوانین اور فقہ اسلامی کا مسائل زندگی کے مختلف شعبوں میں موازنہ کرنا ہوگا کہ ان میں کس درجہ مطابقت اور ہم آہنگی ہے اور جن احکام میں مطابقت ہے اس کی بنیاد کتاب وسنت اور عقل عام کے تقاضے ہیں، یارومی قوانین سے استفادہ۔ یہ تین نکات ہیں، جن کی روشنی میں بہ سہولت اس دعوے کوکہ فقہ اسلامی رومی قوانین سے مستفاد ہے، پرکھا جاسکتا ہے اور اسی ترتیب سے ہمیں اس مسئلہ پرگفتگو کرنی ہے۔
*فقہ اسلامی کے مآخذ:
فقہ اسلامی کے ماخذ کا ہم پہلے بھی ایک تحریر میں تفصیلی جائزہ پیش کر چکے ہیں ۔فقہائے اسلام نے بنیادی طور پرقانون کے چارسرچشمے (Sourcess of Law) مقرر کئے ، ان میں ترتیب اس طرح ہے کہ اوّل قرآن مجید کوپیشِ نظر رکھا جائے؛ پھررسول اللہﷺ کی حدیثیں سامنے رکھیں جائیں، اس کے بعد ان احکام کا درجہ ہے،جن پر امت کا اجماع واتفاق ہے، ظاہر ہے کہ امت کا کسی ایسی بات پراتفاق ممکن نہیں جوقرآن وحدیث کی روح کے خلاف ہو، اس لیے اجماع بھی دراصل کتاب وسنت کے مزاج ومذاق کی اجماعی ترجمانی سے عبارت ہے، چوتھا درجہ “قیاس” کا ہے، قیاس یہ ہے کہ کتاب وسنت میں کسی مسئلہ میں جس سبب خاص کی بناء پرکوئی حکم لگایا گیا ہو، وہ سبب جہاں جہاں پایا جائے وہاں وہی حکم لگایا جائے، مثلاً حدیث میں کتے کے جھوٹے کوناپاک قرار دیا گیا، حدیث سے بعض اور جانوروں کے جھوٹے کے متعلق بھی ایسا ہی حکم ملتا ہے، فقہاء نے غور کیا اور اس نتیجہ پرپہونچے کہ اس کی وجہ ان جانوروں کاناپاک ہونا ہے لہٰذا فیصلہ کیا کہ تمام جانور جن کا گوشت ناپاک اور حرام ہے، ان کا جھوٹا بھی حرام اور ناپاک ہے اسی کا نام “قیاس” ہے۔ اسی طرح قیاس کی اصل غایت کتاب وسنت کے احکام کے دائرہ کوسیع اور ان صورتوں تک متعدی کرنا ہے، جن کا کتاب اللہ اور سنتِ رسولﷺ میں ذکر نہیں۔ گویا فقہ کے اصل مآخذ “کتاب وسنت” ہی ہیں اور اجماع وقیاس میں بھی بالواسطہ کتاب وسنت ہی کی اطاعت وفرماں برداری ہے، اس کے علاوہ فقہ کے جن دوسرے مصادر آثارِ صحابہؓ، استحسان، مصالحِ مرسلہ، استصحاب، عرف وعدات، شرائع ماقبل، سدذرائع کا ذکر کیا جاتا ہے، وہ سب بالواسطہ کتاب اللہ، سنت رسولﷺ اور قیاس ہی میں داخل ہیں اور اصولِ فقہ میں اس نکتہ کوبار بار واضح کردیا گیا ہے کہ ان کی حیثیت کتاب وسنت کی طرح مستقل نہیں ہے اور نہ یہ نصوص سے آزاد ہیں۔
جہاں تک اجنبی ذریعہ سے قانون سازی کی بات ہے توان میں سے صرف امم سابقہ کی شریعت ہے، جس کوکسی درجہ میں اس زمرہ میں رکھا جاسکتا ہے لیکن شرائع ماقبل سے مراد پہلی آسمانی کتابوں کے وہ احکام ہیں جن کوقرآن مجید نے منسوخ نہیں کیا ہے، یہ احکام کسی دوسری قوم کے عرف ورواج اور سماجی اطوار پرمبنی نہیں ہیں بلکہ وحی الہٰی پرمبنی ہیں اور اس طرح کتاب اللہ کا ایک حصہ ہے، تاہم فقہائے اسلام نے مجرد ان کتابوں پراعتماد کرکے کسی مسئلہ میں کوئی رائے قائم نہیں کی ہے؛ بلکہ کتاب وسنت میں اممِ سابقہ جن احکام کی تصدیق کی گئی ہے اور امتِ محمدیہ میں ان کے باقی رہنے کا اشارہ کیا گیا ہے انہیں کوقابل عمل تسلیم کیا گیا ہے، اس سلسلہ میں ایک اجماعی حکم “قانونِ قصاص” کا ہے جس کا خود قرآنِ پاک نے ذکر کیا ہے، ممکن ہے اس طرح کا ایک آدھ حکم اور بھی مل جائے، ظاہر ہے اس کواسلامی فقہ میں اجنبی اثرقرار نہیں دیاجاسکتا۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چونکہ پیغمبر اسلامﷺ نے مسلمانوں کے دوسری اقوام سے تشبیہ کوناپسند فرمایا ہے اور اعتقادات وعبادات کے علاوہ تہذیب ومعاشرت میں بھی ان کی مشابہت کوناپسندیدگی کی نظر سے دیکھا ہے، اس لیے فقہائے اسلام نے بھی قدم قدم پراس کوملحوظ رکھا ہے اور ان احکام کوبھی جن کے بارے میں کتاب وسنت کی ہدایات واضح نہیں ہیں، اجنبی اثر سے آزاد رکھا ہے، شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہؒ (۷۲۸ھ) نے اس موضوع پرایک مستقل کتاب “اقتضاء الصراط المستقیم” تالیف فرمائی ہے ۔ فقہ حنفی اس باب میں زیادہ حساس ہے، غالباً اس لیے کہ ایران اور مشرق کے علاہ میں اس فقہ کی نشرواشاعت کی وجہ سے فقہائے احناف غیرمسلموں کے شعار اور ان کی تہذیب واطوار سے زیادہ واقف تھے۔
*رومی قانون کے مآخذ سے تقابل:
اب ایک موازنہ فقہ اسلامی کے ان مآخذ اوررومن لا کے مآخذ (Sourcees) کے درمیان کرنا چاہئے کہ اس سے مسئلہ زیربحث کوسمجھنے میں آسانی ہوگی۔ بنیادی طور پررومی قوانین دوطرح کے ہیں، ایک مکتوبی اور دوسرے غیرمکتوبی، مکتوبی سے مراد سرکاری قوانین ہیں اور غیرمکتوبی سے مراد وہ قوانین ہیں جوعوام کے رسم ورواج کی وجہ سے ازخود قانون کا درجہ حاصل کرگئے ہیں، گیس (Gaius) کے بقول مکتوبی قانون کے چھ مآخذ ہیں:
(۱)قانون موضوعہ اعلیٰ ترین (Leges) یعنی شاہان قدیم شرفاء روما کی مجلسِ عشریہ، غیررومی باشندوں کی مجلسِ مأۃ وغیرہ کے طئے کئے ہوئے قوانین۔
(۲)قانون موضوعہ مجلس عوام
(۳)سینٹ کی تجاویز
(۴)فرامینِ شاہی
(۵)مجسٹریٹ کے اعلانات۔
(۶)مذہبی راہبوں کے فتاویٰ اور دوسرے قانون دانوں کی توضیحات۔
(ملاحظہ ہو، احمدعبداللہ المسدوسی کی کتاب، قانونِ روما برائے ایل، ایل، بی:۱۲۔۱۷)
اب غور کیجیے کہ “قانونِ مکتوبی” کے ان تمام مآخذ میں انسان کواصل واضح قانون اور اس کے فہم واختیار اور حکم وفیصلہ کوقانون کی اساس مانا گیا ہے۔ کہیں یہ حیثیت بادشاہ کوحاصل ہے، کہیں قاضی کو، کبھی شرفاء روم کی جماعت دہگانہ کو، کبھی اہلِ روم کے ساتھ دوسری اقوام کے صدرایوان کو، کہیں مجلس عوام اور مذہبی یاقانونی علماء کوــــــ مگراسلامی قانون کا تصور اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہاں قانون کا سرچشمہ ذاتِ خداوندی ہے “أَلَالَهُ الْحُكْمُ” (الأنعام:۶۲) اور اسی کے ہاتھ فیصلوں کی زمام ہے۔ “إِنِ الْحُكْمُ إِلَّالِلَّهِ” (یوسف:۴۰) ہی مسلمانوں کے تمام مکاتب فقہ کا مزاج ومذاق ہے، رومی نظامِ قانون میں رائے ایک قابلِ تحسین بات اور مفخرہ ہے اور فقہاء اسلام کے ہاں خودرائی ایک تہمت اور عیب ہے جس کی طرف اس کی صحیح یاغلط نسبت کردی جاتی ہے، وہ اس سے بصد تاکید انکار ومعذرت کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ ہمیں فقہاء کے ہاں کثرت سے کتاب وسنت پرانحصار، اس کی بالادستی اور اس کے مقابلہ “رائے” کی مذمت اور اس کی بے اعتباری کے اقوال ملتے ہیں۔ (المیزان الکبریٰ کا ابتدائی حصہ دیکھا جائے)
خلاصہ یہ کہ فقہ اسلامی کی اپنی مستقل بنیادیں ہیں اور اس کا غالب حصہ کتاب وسنت سے ماخوذ ہے، جوتھوڑے سے احکام نصوص سے صراحۃ یااشارۃ ثابت نہیں وہ بھی ایسے قیاس پرمبنی ہیں کہ جن کی جڑیں کتاب وسنت میں پیوست ہیں۔
فقہ اسلامی اور رومن لاء کا تعلق- تاریخی قرائن:
تاریخ اسلام وتاریخ فقہ کا ادنی طالب علم بھی اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ جب تک پیغمبرِ اسلامﷺ اس دنیا میں جلوہ افروز رہے اس وقت تک ہرمسئلہ کا فیصلہ وحی الہٰی کی روشنی میں دربارِ رسالت سے ہوتا تھا، جب آپﷺ کی ذات بابرکت سے دنیا محروم ہوگئی اور یکے بعد دیگرے مسلسل فتوحات کے نتیجے میں مسلمانوں کو بیشمار نئے مسائل کا سامنا ہوا توخلفاءراشدینؓ نے ان مسائل کے حل کے لیے مدینۃ المنورہ میں جہاں رومن لاء کے اثرات کی پرچھائیاں بھی نہیں تھیں’ اہلِ فقہ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت تشکیل دی، جب بھی کوئی نیا مسئلہ کسی ملک میں پیش آتا اور قرآن وحدیث میں اس کا صریح حکم نہ ملتا تووہ دربارِ خلافت مدینہ منورہ لکھ کر بھیج دیا جاتا خلفاء راشدین کے انفرادی اجتہاد یافقہاء کی اجتماعی رائے سے اس مسئلہ کا فیصلہ کیا جاتا۔اس طرح فقہ اسلامی کے چار ماخذ وسرچشمے قرار پائے۔(۱)کتاب اللہ (۲)سنت رسول اللہ (۳)اجماع (۴)قیاس واجتہاد۔جن میں سے تین کی طرف نبی کریمﷺ نے اپنی حیاتِ طیبہ ہی میں صراحت کے ساتھ رہنمائی فرمادی تھی جیسا کہ حضرت معاذرضی اللہ عنہ کی حدیث سے ثابت ہے، خلفاء راشدینؓ نے اپنے عہد زرین میں قانون سازی کے معاملہ میں انہی چاروں اصول کی پیروی کی اور فقہ اسلامی کا ایک بڑا حصہ اسی عہد کے فیصلوں پر مشتمل ہے، عہدِ صحابہؓ کے اختتام پر مدینہ منورہ ہی میں تابعین میں سے فقہاء سبعہ کی ایک جماعت موجود تھی جوقرآن وحدیث اور اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں اپنے اجتہاد سے پیش آمدہ مسائل کوحل کرتی تھی اور ان کے فیصلوں کا فقہ اسلامی میں اعتبار کیا جاتا تھا، ان فقہاء سبعہ میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے رومی قانون کی تعلیم حاصل کی یاکسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا تھا، جب دوسری صدی میں مذاہب اربعہ کا ظہور ہوا توکتاب وسنت کے بعد ان کا سب سے بڑا ماخذ یہی فیصلے تھے۔
اسی کے ساتھ ایک نگاہ اولین مکاتب فقہ پر بھی ڈال لیجئے، عقیدہ اہلِ سنت کے مطابق جن میں حق منحصر ہے:
(۱)فقہ حنفی:
یہ اکثرمسلمانوں کا فقہ ہے امام ابوحنیفہؒ (۸۰۔۱۵۰ھ) کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری زندگی کوفہ، مکہ، بغداد کے ان علاقوں میں گذری جہاں رومی قوانین کوکوئی جانتا بھی نہ تھا اور نہ اس دور میں کسی رومی کتاب کا عربی یافارسی میں ترجمہ ہوا تھا، خود امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ بھی نہ رومی زبان سے واقف تھے، نہ شام وفلسطین کے ایسے علاقوں سے آپ کا تعلق رہا جوپہلے رومی سلطنت کا حصہ تھے اور یہ توبہت قدیم عہد ہے، اس صدی سے پہلے تک عربی زبان میں رومی قوانین کے ترجمہ کا کوئی سراغ نہیں ملتاـ
تدوین فقہ یااسلامی قانون سازی کے بارے میں آپؒ نے کن ماخذ ومصادر سے استفادہ کیا اور اس میں آپ کا طریقۂ کار کیا تھا آپؒ خود بیان فرماتے ہیں:”میں کتاب اللہ کو لیتا ہوں؛ اگراس میں حکم نہیں پاتا توسنتِ رسولؐ کو لیتا ہوں اورجب معاملہ ابراہیم ، شعبی، ابنِ سیرینؒ وغیرہ تک پہنچتا ہے توجیسے انہوں نے اجہتاد کیا میں بھی اجتہاد کرتا ہوں”۔(المیزان الکبری:۱/۲) پھر فقہ حنفی تنہا آپ کی محنتوں کا نتیجہ نہیں بلکہ چالیس ائمہ اسلام کے علم وفہم کا عطر مجموعہ ہے، ان میں بڑے بڑے ائمہ حدیث اورماہرین لغت عربی تھے، ایسے بھی تھے جوتفسیر وفقہ میں امام مانے جاتے تھے لیکن ایسا ایک شخص بھی وہاں نظر نہیں آتا جس نے رومی درسگاہوں میں تعلیم حاصل کی ہو یارومی قوانین سے متاثر ہو۔
پس امام ابوحنیفہؒ رومی زبان سے واقف تھے، نہ رومی قانون کا لٹریچر عربی میں منتقل ہوا تھا اور نہ روم کی سابق ریاستوں سے آپ کا وطنی، تجارتی یاعلمی علاقہ تھا، اس لیے تاریخی اعتبار سے کوئی ایسا قرینہ موجود نہیں جوامام ابوحنیفہؒ اور فقہ حنفی کے رومی قوانین سے تأثر اور استفادہ کوکسی درجہ میں بھی ظاہر کرتا ہو۔
(۲)فقہ مالکی و شافعی وغیرہ
یہ امام دارالھجرت مالک بن انسؒ کی طرف منسوب ہے، آپ کی پوری عمر مدینۃ النبیﷺ ہی میں گذری، اس ڈر سے کہ مبادا مدینہ منورہ سے باہر موت نہ آجائے، آپؒ نے کبھی دوردراز کا سفر نہیں کیا، آپؒ کے نزدیک کتاب وسنت کے بعد اہلِ مدینہ کا عمل بھی حجت ہے، بے ضرورت قیاس کوآپؒ سخت ناپسند فرماتے تھے، اس لیے آپ کے مذہب میں قیاس بہت کم پایا جاتا ہے، تقریباً یہی حال امام شافعیؒ اور امام احمدؒ کے فقہ کا ہے، ان میں سے کسی نے کبھی کسی رومی علاقہ کا سفر کیا نہ کسی رومی کتاب کا مطالعہ کیا بلکہ خالص کتاب وسنت، اجماع وقیاس ابتداء سے انتہا تک ان کا مرجع وماخذ ہے۔لہٰذا یہ کہنا کہ فقہ اسلامی اور خصوصاً فقہ حنفی رومن لاء سے ماخوذہے ،آفتاب کے نور کو چھپانے کی ایک ناکام کوشش ہے۔
٭قانون روما سے فقہاء کی بے اعتنائی:
فقہ اسلامی اور قانون روما کے موازنے پر یہ اشارات جو ذرا طویل ہو گئے، یہ واضع کرنے کے لیئے کافی ہیں کہ فقہ اسلامی ایک مستقل بالذات نظام قانون ہے، جو اپنے توسیع و ارتقاء میں کسی طرح بھی قانون روما کا مرہون منت نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تاریخ و تذکرہ کی کسی بھی قدیم کتاب میں اس امر کا ادنیٰ سا بھی کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ کسی فقیہ یا غیر فقیہ مصنف نے رومی یا بازنطینی قوانین سے دلچسپی لی ہو، ان کا مطالعہ کیا ہو یا ان سے جزوی واقفیت حاصل کی ہو۔مزید براں اکثر فقہی مذاہب و مسالک کا ظہور کوفہ، بصرہ، مکہ مکّرمہ، مدینہ منورہ یا آگے چل کر بغداد میں ہوا جو خالص اسلامی آبادیاں تھیں۔ ان اسلامی بستیوں میں نہ رومی اثرات پائے جا سکتے تھے نہ بازنطینی۔ آخر مدینہ منورہ میں امام مالک اور ان کے اساتذہ امام نافع اور ابو الزناد نے کس طرح اور کن ذرائع سے قانون روما کے تصورات سے واقفیت حاصل کی؟ امام شافعی نے مکہ مکرمہ میں جب ان کی فقہی بصیرت کی تشکیل ہو رہی تھی کیونکر قانون روما تک رسائی حاصل کی؟ یہی سوال بقیہ فقہاء اور مجتہدین کے بارے میں کیا جا سکتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ فقہ حنفیہ کا بیشتر ارتقاء ماوراء النہر اور عراق عجم کے علاقوں میں ہوا جو رومی اثرات سے باہر تھے۔
علاوہ ازیں یہ حقیقت بھی انتہائی اہمیت کی حامل ھے کہ نہ صرف فقہ اسلامی کے تشکیلی دور، یعنی ابتدائی چار ہجری صدیوں میں، بلکہ بعد میں کم و پیش مزید آٹھ سو سال تک مسلمانوں نے قانون کی کسی کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں کیا۔ نہ صرف رومن زبان سے بلکہ مغرب و مشرق کی کسی زبان سے بھی قانون کی کسی کتاب کا عربی میں ترجمہ نہیں کیا گیا۔اگر آپ نے اسلام کی تاریخ میں یونانیوں کے علوم و فنون کے ترجمہ کی تفصیل پڑھی ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ مسلمانوں نے یونانیوں کے علوم و فنون کی بہت سی کتابیں عربی میں ترجمہ کیں۔ افلاطون اور ارسطو کی کتابیں عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ سقراط، بقراط اور حکیم جالینوس کی کتابیں ترجمہ ہوئیں۔ منطق، فلسفہ اور طب پر سینکڑوں بلکہ شاید ہزاروں کتابیں مختلف زبانوں سے عربی میں ترجمہ ہوئیں۔ لیکن ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ قانون یا دستور کے موضوع پر کوئی بھی کتاب عربی میں ترجمہ ہوئی ہو۔ پہلی صدی ہجری سے لے کر گیارہویں بارہویں صدی ہجری تک کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی کہ قانون کی کوئی کتاب عربی میں ترجمہ کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہو۔ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ اسلام کا قانون اور فقہ اتنا منظّم اور اتنا مرتب تھا کہ مسلمانوں نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ ان کو کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے جو قانون کے میدان سے تعلق رکھتی ہو اور دنیا کی کسی دوسری قوم کے پاس موجود ہو۔
اس دعویٰ کی حقیقت کوواشگاف کرتے ہوئے مشہور محقق عالم دین ڈاکٹر حمیداللہ تحریر فرماتے ہیں:
“میں نے یہ معلوم کرنے کی کوشش کی کہ کم ازکم ابتدائی فقہی کتابوں کی ترتیب ہی قانون روما کے مماثل ہو، قانون روما زمانہ قبل مسیح ہی سے عبادات کومعاملات سے الگ کرچکا تھا اور دنیوی معاملات کا قانون، اشخاص، اشیاء اور ضابطہ کے تین حصوں میں تقسیم ہوتا تھا، جب کہ فقہ حنفی کی ترتیب عبادات، معاملات اور جنایات کے تین حصوں میں بٹی ہوئی تھی، جس میں قواعدِ عمومی یعنی دستور اور احکامِ مملکت بھی شامل تھے اور ان کی یہ ترتیب رومی قانون کی ترتیب سے بنیادی اختلاف رکھتی ہے، فقہ حنفی کا زمانہ بنوامیہ کے آخری اوربنوعباس کے ابتدائی دور پر مشتمل تھا اور ابھی یونانی علوم وفنون کا زیادہ ترجمہ اور رواج نہیں ہوا تھا؛ پھرجوکچھ بھی اس وقت ترجمہ ہوا تھا اس سے چند فنی اصطلاحیں منطق، فلسفہ، طب ونجوم، کلام وجغرافیہ وغیرہ میں اگرچہ مدد لی گئی تھی؛ لیکن اصولِ فقہ میں کوئی معرب اصطلاح نہیں ملتی، اس کے جتنے بھی الفاظ ہیں وہ قدیم عربی ہی کے مروج الفاظ ہیں اوراکثرقرآنی الفاظ ہیں، امام مالکؒ نے مؤطا کے ابواب کی جوترتیب رکھی ہے وہ امام ابوحنیفہؒ کی ترتیب سے مختلف ہے اور عبادات ومعاملات سب خلط ملط ہیں، ان دوہمعصر فقہاء کی تالیفوں میں ابواب کی ترتیب میں بے انتہاء اختلاف بتاتا ہے کہ ترتیب میں بھی ان کے سامنے کوئی بیرونی نمونہ نہ تھا اور ہرکوئی اپنی ذہنی جولانی سے اپنے لیے کوئی خاکہ پسند کررہا تھا، امام شافعیؒ اور امام حنبلؒ کا زمانہ نسبتاً بعد کا ہے (لیکن ان کی کتابیں بھی بیرونی نمونہ سے بالکل آزاد ہیں) اس کے علاوہ فقہ اسلام اور قانونِ روما میں مسائل کے لحاظ سے بھی غیرمعمولی فرق ہے، عبادات، تعزیرات، مالیات، قرض وسود، وراثت، نکاح وطلاق، نسب، خلع، غلاموں کی آزادی، عدل گستری، قانون بین الممالک وغیرہ میں دونوں کے درمیان کوئی مماثلت ہی نہیں ہے”۔(خلاصہ چراغِ راہ:۱/۲۲۸،۲۲۹)
رہامستشرقین کا یہ مفروضہ کہ عربی اسلامی فتوحات کے بعد بھی ایک صدی تک رومی علاقوں میں قدیم رومی نظام ہی جاری رہا اور اس کے مطابق رعایا کے فیصلے ہوتے رہے، کیا عجب ہے کہ فاتحینِ اسلام نے قانون سازی کے معاملہ میں اس سے استفادہ کیا ہوگا یاکم ازکم اسکندریہ وبیروت کے قانون کی تعلیم کے مشہور مدارس ہی کی روایات جاری رہی ہوں گی تویہ ان کا خیال ہی خیال ہے، جس میں سچائی اور حقیقت کی کچھ بھی آمیزش نہیں ہے۔ بفرض محال اگر اس بات کو تسلیم بھی کرلیں کہ عربی فتوحات کے بعد بھی وہاں ایک صدی تک سابقہ قوانین نافذ رہے، تب بھی اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ مسلمانوں نے اس سے علمی استفادہ کیا ہوگا، مسلمان تو خود ایسے زرین اصول وقوانین اور جامع شریعت مدینۃ المنورہ سے ساتھ لیکر ہرجگہ بانٹتے ہوئے روم کی سرحدوں تک آئے تھے جس کی فضیلت وبرتری کا کھلا اعتراف ایک مستشرق کے قلم نے ان الفاظ میں کیا ہے:”اسلامی قانون کا نظام اپنی داخلی خصوصیات کے لحاظ سے ہی ہے، ماہرین کی نظروں میں وہ تعریف وتحسین کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہے، اپنے ہم عصر ابتدائی جاگیری قوانین کے بے ڈھنگ رسوم اور وحشیانہ رواجوں پر وہ بے حد فضیلت رکھتا ہے”۔ (چراغِ راہ:۱/۱۹۰)