مستشرقین کا فقہی کتابوں کے مسائل اور رومی قوانین کے کچھ مسائل میں یکسانیت ثابت کرنا اسی طرح مسائل کی ترتیب میں مماثلت قرار دینا اور اس کی وجہ سے فقہ اسلامی کورومی قانون سے ماخوذ قرار دینا علمی اعتبار سے نہایت غلط ہےکیونکہ دومختلف قوانین کے اندر اگرتھوڑی سی مشابہت پائی جائے توکیا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ایک قانون دوسرے قانون کی محرف اور بگڑی ہوئی شکل ہے، قوانین عالم میں چند اصول ایسے لازماً ہوتے ہیں جوہرقانون کا جزوہوتے ہیں، ان لازمی اجزاء پر یہ دعویٰ کرنا کہ اس قانون کوسامنے رکھ کر بنایا گیا ہے، نری جہالت اور عناد محض ہے اور مستشرقین کا فقہ اسلامی اور رومی قوانین کی ترتیب میں مشابہت کا دعویٰ تو یہ ان کا دعویٰ ہی دعویٰ ہے، جس کے حقائق پرزور تردید کررہے ہیں۔
فقہ اسلامی اور رومن لاز-ایک موازنہ:
٭عرف و عادت:
پیغمبراسلامﷺ کی ولادت باسعادت سے تقریباً نصف صدی پہلے ۵۲۷ء میں روم کے شہنشاہ جسٹینین نے جو روم کے منتشر، مروج اور منسوخ ومعطل، باضابطہ موضوعہ قوانین اور عوام میں جاریہ اور مروجہ افعال کو “مجموعہ قوانین ملک” کے نام سے مرتب کیا اور “رسم ورواج” کوبھی قانون کے ساتویں مآخذ کی حیثیت سے قبول کیا۔ ممکن ہے بعض حضرات کوقانون کے اس ماخذ میں اور فقہ اسلامی میں عرف وعادت کا اعتبار کئے جانے میں یکسانیت نظر آئے لیکن اپنی روح کے اعتبار سے ان دونوں میں زمین وآسمان کا فرق ہے ۔”رومن لا” چونکہ انسانی مرضیات وخواہشات پرہی مبنی ہے، اس لیے اس قانون میں رسم ورواج کوخاصی اہمیت حاصل ہونا بلکہ بعض اوقات موضوعہ قانون پرفائق ہوجانا عین مطابقِ فطرت ہے۔
اسلام کا تصور یہ ہے کہ مسلمان جوزندگی کے تمام مسائل میں کتاب وسنت کی ہدایات پرعمل پیرا ہوں گے ان میں جوکچھ رواج پائے گا، ضروری ہے کےکہ وہ کتاب وسنت کے مغائر نہ ہو، اس لیے مسلمانوں کے ایسے رواجات جن کے متعلق کوئی ممانعت یاایجابی حکم موجود نہ ہو، مشروع اور جائز تصور کئے جائیں گے اور غالباً ایسا اس لیے ہے کہ خود رسول اللہﷺ نے ایسے امور کومباح بتایا ہے اور “عفو” کا نام دیا ہے۔”ومامسکت عنہ فھو مماعفا عنہ”۔
اسی طرح قرآن مجید نے بھی عرف کے معتبر ہونے کی طرف اشارہ کیا ہے، قرآن میں ایک سے زیادہ مقامات پر “معروف” پرعمل اور معروف کی دعوت کی طرف متوجہ کیا گیا ہے، امام رازیؒ کے بقول جوباتیں عقل کوبہتر محسوس ہوں اور اصحاب عقل کی نگاہ میں ناپسندیدہ نہ ہوں وہ سب معروف ہیں(شرح السیرالکبیر:۱/۱۹۸)
پس عرف کا اعتبار رومی قانون سے تاثر کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ کتاب وسنت کے مقرر کئے ہوئے اصول کی روشنی میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگرکوئی مروج عمل کتاب وسنت کے خلاف ہوتوفقہاء کے یہاں قابل قبول نہیں:ترجمہ:عادت حکم ہوگی، جب کہ اس کے خلاف صراحت موجود نہ ہو اگراس کے خلاف نص کی صراحت موجود ہوتواس کا اعتبار نہ ہوگا۔ (قانونِ روما:۲۲۔۲۵)
٭ابوابِ قانون کی تعیین وترتیب:
ماخذ قانون کے بعد ایک قانون دوسرے قانون کا اثرابواب قانون کی تعیین وترتیب میں قبول کرتا ہے اس پہلو سے جب کوئی شخص فقہ اسلامی اور رومن لا کا جائزہ لے گا تودونوں میں اسی درجہ تفاوت نظر آئے گا جتنا کہ خودمآخذ ومصادر میں، رومن لا میں قوانین کے چار حصے کئے گئے ہیں، اوّل قانون جورومی نسل کے شہریوں کے لیے مخصوص تھا، دوسرے قانونِ اقوام، جوبین ملکی اور بین قومی تعلقات سے متعلق تھے، تیسرے قانونِ قدرت، یہ عام اصولِ انصاف تھے، جس کے تحت روم کے غیررومی نسل کے باشندوں کے معاملات طے کئے جاتے تھے، چوتھے قانونِ حکام عدالتی، یہ قاضیوں کے وہ عدالتی تشریحات تھیں، جن سے بعض نئے قوانین کی تشکیل عمل میں آئی تھی۔ (قانونِ روما:۲۲۔۲۵)
فقہ اسلامی کے ابواب اس سے یکسر مختلف ہیں اور اس سے بہت زیادہ جامع، ہمارے یہاں ابواب فقہیہ کی ترتیب اس طرح ہے:
(۱)عبادات: یعنی وہ افعال جوبراہِ راست بندے اور خداکے درمیان ہیں، مثلاً ارکانِ اربعہ۔
(۲)مناکحات:وہ احکام جوشخصی زندگی سے متعلق ہیں، نکاح، طلاق، رضاعت، نفقہ، میراث وغیرہ۔
(۳)معاملات:وہ احکام جودوآدمیوں کے درمیان مالی لین دین وغیرہ سے متعلق ہیں، خریدوفروحت، اجارہ، شرکت وغیرہ۔
(۴)اجتماعی احکام:اس میں امارت وقضا، جہاد، بین ملکی اور بین قومی تعلقات وغیرہ کی بحثیں آتی ہیں اور عام طور پر ان کوذکر کیا جاتا ہے۔
(۵)عقوبات:جرائم اور سزاؤں کا ذکر خواہ یہ سزائیں شریعت کی طرف سے مقرر ہوں یانہ ہوں، کوئی بھی صاحب انصاف معمولی غوروفکر سے اندازہ کرسکتا ہے کہ ان دونوں قوانین کے مزاج میں کس قدر فرق اور بون بعید ہے۔
٭مختلف احکام کا تقابل:
اب ایک سرسری نظر فقہ اسلامی اور رومی قانون پرڈال کراس امر کا اندازہ کرنا چاہئے کہ احکام کی تفصیلات میں یہ کس حد تک ایک دوسرے سے قریب ہیں؟ اس پہلو سے بھی ان دونوں مکاتب قانون میں خاصا فرق نظر آتا ہے۔ مثلا :
٭غلامی :
اسلام نے بھی ابتداً غلامی کوایک قانونی عمل تسلیم کیا تھا لیکن پیدائشی طور پر آزاد شخص کے غلام ہونے کی صورت اس کے علاوہ کوئی نہ تھی کہ وہ جنگ میں گرفتار کیا جائے اور یہ غلامی کوتسلیم کرنا بھی کچھ اس وجہ سے نہ تھا کہ رومی قانون اس کا قائل تھابلکہ اس وقت اقوامِ عالم کے نظامِ جنگ کی اساس اسی پرتھی ، اس لیے عملی طور پراس کوماننے اور بعض اصلاحات کے ساتھ جاری رکھنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ لیکن رومی قانون میں جنگ میں گرفتاری کے علاوہ مزید سات اسباب ہیں جن کی وجہ سے آزاد انسان کوغلام بنایا جاسکتا ہے۔
(۱)کوئی شخص سازشی طور پر اپنے آپ کو غلام ظاہر کرکے فروخت کردے (۲)آزاد شدہ غلام آقاء سابق سے احسان فراموشی کا سلوک کرے۔ (۳)مردم شماری یافوجی خدمت سے گریز کرے۔(۴)مقروض ہو اور قرض ادا نہ کرے۔(۵)چور چوری کرتا ہوا پکڑا جائے۔(۶)آزاد عورت کسی غلام سے اس کے آقا کی رضامندی کے بغیر مباشرت کرے۔ (قانون روما:۲۲۔۲۵)
٭بنیادی حقوق:
اسلام نے شہری اور بنیادی حقوق میں نسل وخاندان کی کوئی تفریق نہیں کی ہے لیکن رومی قانون حق رائے دہی، حدماتِ عامہ کے حصول کے حق، حقِ تجارت، یہاں تک کہ حقِ ازدواج، جس سے بچوں پراختیارِ پدری حاصل ہوتا ہے ‘سے بھی غیررومی نسل کے لوگوں کومحروم رکھتا ہے (قانونِ روما:۴۸) بعد میں شاہ جسٹینن کے زمانہ سے مملکت روما کے تمام باشندوں کو “رومی” تسلیم کرلیا گیا ۔
٭آزادی و خودمختاری:
اسلامی فقہ ہربالغ شخص کوسوائے اس کے کہ وہ عقل کے اعتبار سے متوازن نہ ہو اپنے بارے میں مکمل خود اختیاری قرار دیتا ہے لیکن رومی قانون میں “مورثِ اکبر” کا تصور ہے، مثلاً اگردادا زندہ ہے تووہ اپنے صاحب اولاد فرزندوں پربھی اسی طرح ولایت رکھتا ہے جس طرح کہ کسی نابالغ بچہ پر۔ (قانونِ روما:۵۰)
اسلام میں باپ دادا کوبھی ولایت حاصل ہے مگروہ ایک بہت محدود نوعیت کی ہے اور اس کے لیے کسی تصرف کی اجازت نہیں جوزیرولایت بچوں کے مفاد میں نہ ہو ، حتی کہ ولی کو ان کے مال پرمالکانہ حقوق بھی حاصل نہیں ہیں، اس کے برخلاف قانون روما میں باپ کے اختیارات بہت وسیع ہیں یہاں تک کہ اسے اپنی اولاد کوبیچنے اور قتل کرنے تک کی اجازت تھی اور جس طرح آقا اپنےغلام کوآزاد کرسکتا تھا اسی طرح باپ کے اپنی اولاد کوآزاد کرنے کا تصور تھا۔ (قانونِ روما:۵۴۔۵۶)
متفرق:
1. اسلام میں ثبوتِ نسب نکاح، یااپنی باندی سے وطی یاوطی بالشبہ، انہیں تین ذرائع سے ہوسکتا ہے، زنا کی وجہ سے نسب کا ثبوت نہیں ہوتا لیکن رومی قانون میں ازواج، ماں باپ کے ذریعہ بھی نسب کوصحیح تسلیم کیا جاتا ہے (قانونِ روما:۵۰) اسلام میں رشتۂ ولدیت ایک فطری اور طبعی رشتہ ہے، یہ کوئی عقد اور معاملہ نہیں ہے، جوزبان کے بول کے ذریعہ پیدا ہوجائے، رومی قانون “تبنیت” کو تسلیم کرتا ہے “تبنیت” کے ذریعہ مصنوعی طور پر جس شحص سے اس کا رشتہ فرزندی قائم ہوا ہے وہ اس کے خاندان میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کا اپنے اصل خاندان سے رشتہ ختم ہوجاتا ہے۔(قانونِ روما:۵۱۔۵۳)
2. قانون ازدواج میں بھی ان دونوں کے درمیان خاصا تفاوت پایا جاتا ہے، قانون روما میں اصولی طور پرعورت شادی کے بعد اپنے خاندان سے کٹ جاتی ہے اور شوہر کے خاندان میں ضم ہوجاتی ہے اور شوہر کے بزرگ خاندان کے لیے وہ محض ایک شے کے درجہ میں ہوتی ہے (قانونِ روما:۵۷) اسلام کا تصور یہ ہے کہ نکاح محض ایک معاہدہ ہے، نکاح کے بعد بھی عورت کا اپنے خاندان سے تعلق باقی ہے، وہ اپنے خاندان سے میراث اور مختلف حقوق پانے کی حقدار ہوتی ہے اور شادی کے بعد بھی تمام انسانی اور بنیادی حقوق اسے حاصل ہوتے ہیں وہ شے اور سامان کے درجہ میں نہیں ہوتی۔
3. قانونِ روما شادی شدہ شخص اور غلام کے لیے نکاح کوجائز نہیں رکھتا، نہ صغرِسنی کے نکاح کوجائز قرار دیتا ہے (قانونِ روما:۵۷،۵۸) اسلام نے ان تمام صورتوں میں نکاح کی اجازت دی ہے۔
4. نکاح کے سلسلے میں قانون روما میں مذہبی رسوم کے ساتھ نکاح کے علاوہ ایک عرصہ تک ناجائز طریقہ پرمردوعورت ایک دوسرے کے ساتھ رہیں اور میاں بیوی کا ساسلوک کریں تواس سے بھی نکاح منعقد ہوجاتا ہے (قانونِ روما:۵۸،۵۹) اسلام اس طرح کے بے ضابطہ نکاح اور بے شرمی پرمبنی نکاح کا تصور موجود نہیں۔
5. اسلام میں نکاح میں عورتو ں کی طرف سے جہیز کا کوئی تصور نہیں بلکہ مرد کومہر ادا کرنا ہے لیکن رومی قانون اس کے برعکس جہیز کا تصور پیش کرتا ہے اور اکثراوقات شوہر کواس کا حقدار قرار دیتا ہے، مہر کا کوئی تصور قانونِ روما میں نہیں(قانونِ روما:۹۱)
6. قانونِ روما کی رو سے عورتیں کبھی بھی اپنے نفس کی مالک نہیں ہوتیں بلکہ ولی کی ولایت اس پردائمی رہتی ہے(قانونِ روما:۹۱) اسلام میں بالغ ہونے کے بعد عورت کواپنے نفس اور مال پرخود ولایت حاصل ہوتی ہے۔
7. اسلام کا تصور یہ ہے کہ مالِ مرہون سے استفادہ جائز نہیں لیکن قانونِ روما کے تحت مالِ مرہون سے نہ صرف استفادہ جائز ہے بلکہ مالِ مرہون میں قرض خواہ کوحقِ تصرف بھی حاصل ہے (قانونِ روما:۹۸)
8. قانونِ روما میں وصیت کے لیے کوئی حدمقرر نہیں، جب کہ اسلام میں تہائی کی تحدید کرتا ہے، قانونِ روما کے تحت متبنی، آزاد کردہ فرزند، لڑکی وراثت کی حقدار نہیں۔ (دیکھئے،قانونِ روما:۱۲۶۔۱۳۳)
9. قانونِ روما سود کوجائز قرار دیتا ہے یہاں تک کہ امین امانت کی ادائیگی میں تاخیر کرے تواس سے بھی سود لیا جاسکتا ہے (قانونِ روما:۱۴۱) اسلام میں سود شدید ترین خبائث میں سے ہے۔
یہ محض چند مثالیں بطورِ نمونہ کے ذکر کی گئی ہیں؛ ورنہ اگرمختلف شعبہ حیات کا تفصیل کے ساتھ تقابلی مطالعہ کیا جائے تواندازہ ہوگا کہ فقہ اسلامی اور قانونِ روما کے درمیان اس قدر جوہری اختلاف ہیں کہ کوئی صاحب بصیرت اس طرح کا دعویٰ نہیں کرسکتا کہ فقہ اسلامی “رومن لا” سے ماخوذ یامستفاد ہے، ممکن ہے بعض قوانین میں مطابقت پائی جائے؛ لیکن یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ دنیا کا ہرقانون انسانی ضروریات کی تکمیل اور مقتضیات فطرت کوپورا کرنے کےلیے ہے، انسان کی ضرورت اور اس کے کچھ تقاضے بالکل یکساں ہوا کرتے ہیں، اس لیے کچھ احکام ایسے ہیں کہ دنیا کے ہرقانون میں ایک طرح سے تسلیم کئے جاتے ہیں، یاان میں معمولی تفاوت پایا جاتا ہے، مثلاً نکاح کی اجازت، خریدوفروخت، اجارہ، ہبہ، عاریت، وصیت، قرض وغیرہ کی گنجائش، انسانی قتل اور ہتک عزت، سرقہ وغصب، خیانت وغیرہ کی ممانعت، اس طرح کی چیزوں میں مختلف قوانین کے درمیان یکسانیت ایک دوسرےسے استفادہ کی دلیل نہیں بلکہ انسانی ضروریات اور تقاضوں میں ایک حد تک یکسانیت کا ثبوت ہے، یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ قانونِ معاملات کا بڑا تعلق انسانی تجربات سے ہے اور یہ مصلحت انسان کے دوش بدوش چلتا ہے، ایسے احکام میں مطابقت کا پایا جانا ایک بالکل فطری اور طبعی امر ہے۔
خلاصہ :
واقعہ یہ ہے کہ فقہ اسلامی اور قانون روما کے درمیان فرق اور اختلاف اتنا گہرا اور اتنا بڑا ہے کہ ان میں سے ایک کو دوسرے سے ماخوذ یا متاثر قرار دینا بنیادی طور پر اور بالبداھت غلط ہے۔ فقہ اسلامی ہمہ گیر تبدیلی اور انسانی زندگی کی بھرپور تبدیلی کی نقیب ہے۔ اس کے بر عکس قانون روما سابقہ طرز زندگی ہی کی ذرا بہتر تنظیم کا داعی ہے۔ فقہ اسلامی میں آزادانہ قانون سازی کا دائرہ بہت محدود ہے۔ یہاں بنیادی قانونی تصورات قرآن اور سنت رسولﷺ میں طے کر دیئے گئے ہیں۔ اب بقیہ قانون سازی رہتی دنیا تک کے لیے انہی حدود کے اندر رہ کر ہو گی جو قرآن و سنت نے طے کر دی ہیں۔ دوسری طرف قانون روما میں آزادانہ قانون سازی کا دائرہ لا محدود ہے۔ فقہ اسلامی میں قانون سازی تمام تر فقہاء اور مجتہدین کے آزادانہ اجتہاد کے نتیجے میں وجود میں آئی ہے۔ جبکہ قانون روما قریب قریب سارے کا سارا بادشاہ کا عطا کردہ ہے یا بادشاہوں کے مقرر کردہ ماہرین کا طےکردہ ہے۔ مزید براں فقہ اسلامی نے بہت سے ایسے نئے تصورات دنیا کو دیئے جن سے رومن لاء تو کیا معنی، دور جدید کے بہت سے ترقی یافتہ قوانین بھی عرصہ دراز سے ناواقف رہے۔ اصول قانون، قانون ضابطہ، تعبیر قانون کے اصول، قانون بین الاقوام، دستور، قانون وغیرہ وہ شعبہ ہائے قانون ہیں جن سے قانون روما بہت بعد میں متعارف ہوا۔ وہاں نہ کوئی وقف کا تصور تھا نہ شفعہ کا۔ بلکہ آج بھی فقہ اسلامی کے بہت سے ایسے شعبے موجود ہیں جن کا مماثل یا نظیر مغربی قوانین میں موجود نہیں۔ مثال کے طور پر علم فروق اور علم اشباہ و نظائر کا نام لیا جا سکتا ہے۔
پھر اسلامی فقہ اور انسان کے خود ساختہ قوانین کے درمیان دوایسے جوہری فرقہ ہیں، جن کا قدم قدم پرمشاہدہ کیا جاسکتا ہے اور جن سے فقہ اسلامی کا امتیاز اور بہ مقابلہ دوسرے قوانین کے اس کی برتری واضح ہوتی ہے۔
1. یہ کہ فقہ اسلامی میں ایک خاص طرح کی پائیداری اور ثبات ہے، دوام واستحکام اور بقا وقرار ہے انسان کے وضعی قوانین میں ایک مسلسل تغیرات اور بے ثباتی ہے، کسی بھی قانون میں جہاں جمود ایک نقص ہے وہیں بے ثباتی اور استقامت وپائیداری سے محرومی بھی کچھ کم درجہ کا عیب نہیں، اس کی وجہ ظاہر ہے، فقہ اسلامی کا سرچشمہ وہ نصوص ہیں جوقیامت تک ہرطرح کے تغیرات واصلاح سے ماوراء ہیں اور وضعی قوانین کی اساس انسانی خیالات وجذبات ہیں، جوہرآن وزمان تغیروتبدیلی سے دوچار ہیں۔
2. فقہ اسلامی حقیقی نافعیت اور مآل وانجام کی سعادت پرمبنی ہے، وضعی قوانین میں حقیقی نفع وضرر سے زیادہ خواہشات وجذبات کی رعایت ہے، شراب صحتِ انسانی کے لیے مضر ہے، نشہ جنون کا ایک درجہ ہے، خنزیرکا گوشت مختلف طبعی بیماریوں اور اخلاقی مفاسد کی جڑ ہے، برہنگی علاوہ عصمت وعفت کے مذہبی تصور کے اخلاقی اقدار کے بھی منافی اور امن وسکون کا بھی غارت گرہے، اسلام نے ان مضرتوں پرنظر رکھی ہے اور ان امور کے بارے میں اس کی مخالفت ناقابل تبدیل ہے مگروضعی قوانین ان تمام نقصانات کوتسلیم کرنے کے باوجود ہوائے نفسانی اور ہوسِ انسانی کے سامنے سپرانداز ہے۔ اس فکر ومزاج نے اس کواعتدال وتوازن سے دور، عدل وانصاف سے محروم اور اصول فطرت سے نآہنگ بھی کردیا ہے اور موم کی طرح قوت وصلابت سے خالی بھی، جیسے روز توڑا جائے اور نئی نئی صورتیں دی جائیں.