حیات طیبہ کی جمال وجلال آفریں روشنی اور ضیاء بار کرنیں انسانی زندگی کے ہر شعبہ پر یکساں پڑتی ہے۔ سیاسی زندگی ہو یا معاشی زندگی، انفرادی زندگی ہو یا اجتماعی زندگی، سماجی زندگی ہو یا زندگی کا کوئی اورایسا پہلو، اور پھر زندگی کے کسی بھی شعبہ کا کوئی بھی مرحلہ درپیش ہو، سیرت طیبہ کے بحر بیکراں میں اس کی ہدایت و رہنمائی کی درنایاب موجود ملتے ہیں،اس لیے کہنے والے نے درست کہا ہے: انسانی زندگی اپنے حقیقی روپ میں سماج کے اندر ہی جلوہ فگن ہوتی ہے۔ رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی پاکیزہ زندگی انسانی سماج کے لیے بیش بہا متاع گراں مایہ ہے، بہتر انسانی سماج کی تشکیل اور ہر فرد سماج کی فلاح و بہبود حیات طیبہ کی وہ عطر بیزی ہے جس کی خوشگوار بھینی بھینی خوشبوؤں سے انسانی چمن بارہا معطر ہوتا رہتا ہے۔
سماج افراد سے وجود میں آتا ہے اور افراد کی جان عزت اور مال و آبرو کا تحفظ اس کے وجود و بقاء کے لیے لازم ہوتا ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ نے انسانی جان کو اتنا محترم اور قیمتی بنایا کہ ناحق کسی انسان کی جان لینے کو نہ صرف بہت بڑا گناہ بتایا، بلکہ ایک انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا، اوراس دروازے کو سختی سے بند کرنے کا مضبوط نظام قائم فرمایا۔ عزت و آبرو اور دوسرے کے مال پر کسی قسم کی دست درازی کو سخت تعزیری جرم قرار دے کر ہر فرد کی عزت اور مال کے تحفظ کی ضمانت فراہم فرمائی۔
رسول کریم صلى الله عليه وسلم کی سماجی زندگی ایک بہترین اور مکمل انسان کی زندگی ہے، جس کے اخلاق فاضلہ کی روشنی سے ہر دور کے انسانی سماج کو منور کیا جاسکتاہے، رسول صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں کامل ایمان اس کاہے جس کے اخلاق سب سے اچھے ہوں۔“ آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ ”انسان حسن اخلاق سے وہ درجہ پاسکتا ہے جو دن بھر روزہ رکھنے اور رات بھر نماز پڑھنے سے ملتا ہے“ اخلاق کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی کہ انسانی سماج کی بہتر تشکیل اخلاقی خوبیوں کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے، خود آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ اخلاق کے بلند مقام پر تھی، قرآن نے کہا: ”اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ“ بے شک آپ اخلاق کے بڑے درجے پر ہیں۔
مساوات و برابری اور عدل وانصاف بہتر انسانی سماج کی تشکیل کیلئے ضروری ہیں۔رسول صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں مساوات اور انصاف کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ ایک مرتبہ قریش کی ایک خاتون چوری کے جرم میں پکڑی گئی، بعض عزیز ترین صحابہ نے اس کی سفارش کرنا چاہی تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کی نہ سنی، اور فرمایا: ”تم سے پہلے کی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں معمولی لوگ گناہ کرتے تھے تو ان کو سزا دی جاتی تھی اور جب بڑے لوگ کرتے تو ان کا جرم نظر انداز کردیاجاتا تھا۔“
مظلوموں کو مدد اور محتاجوں کی اعانت آپ صلى الله عليه وسلم کا شیوہ رہا ہے، مکہ مکرمہ کی زندگی میں جب ایک مظلوم نے مدد کے لیے خانہٴ کعبہ کے پاس فریاد کی تواس کی مدد کے لیے چند دیگر افراد کے ساتھ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم بھی کھڑے ہوئے، عبداللہ بن جدعان کے گھر میں انھوں نے باہم مشورہ کرکے ایک جماعت بنائی اور یہ عہد کیا کہ مکہ میں جس شخص پر بھی ظلم کیا جائے گا ہم سب اس مظلوم کی مدد کریں گے۔ یہ معاہدہ تاریخ میں ”حَلَفُ الْفُضُول“ کے نام سے سنہرے حروف میں لکھا گیا ہے۔ ظلم کے خلاف متحد ہوکر آواز بلند کرنا اورمظلوم کو اس کاحق دلانا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ مدنی زندگی میں بھی ایک بار آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: کہ اگر مجھے آج بھی خلف الفضول میں بلایا جائے تو میں اسے قبول کروں گا۔
سماج کے کمزور افراد کی خبرگیری اور مدد آپ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ کی روشن مثالیں ہیں۔ ایک صحابی حضرت خباب رضي الله تعالى عنه کسی لشکر میں گئے ہوئے تھے، ان کے گھر میں کوئی دوسرا مرد نہ تھا، اور عورتوں کو دودھ دوہنا نہیں آتا تھا، آپ صلى الله عليه وسلم روزانہ ان کے گھر جاکر دودھ دوہ آتے تھے، دوسروں کے کام کردینا آپ صلى الله عليه وسلم کو اس قدر محبوب تھا کہ ایک دفعہ نماز کے لیے جماعت کھڑی ہوچکی تھی، اسی دوران ایک بدو نے آپ صلى الله عليه وسلم کا دامن پکڑ کر کہا میرا تھوڑا ساکام رہ گیا ہے، آپ پہلے اسے کردیجئے۔ آپ صلى الله عليه وسلم چپ چاپ اس کے ساتھ ہولیے، اوراس کا کام پورا کرنے کے بعد نماز کے لیے تشریف لائے۔
مکہ میں ایک بار قحط پڑگیا۔ اہل مکہ جو مسلمانان مدینہ کے جانی دشمن بنے ہوئے تھے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم نے ان کے ساتھ انسانی حسن سلوک کا اعلیٰ نمونہ قائم کرتے ہوئے مسلمانوں کی غربت وتنگدستی کے عالم میں بھی پانچ سو دینار جمع کرکے سرداران مکہ کو بھیجے کہ وہ قحط کے شکار لوگوں کی مدد کرسکیں۔
رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی زندگی پرنظر ڈالی جائے تو وہ ایک عام انسان کی طرح روزمرہ کے کاموں اورہر دکھ درد میں شریک نظر آتے ہیں، کوئی دعوت دیتا تو فوراً قبول کرلیتے تھے۔ سماجی تعاون اور خوشی و غمی میں شرکت کے لیے کوئی مذہبی رکاوٹ آپ کی راہ میں حائل نہیں تھی۔ ایک یہودی خاتون کی دعوت آپ نے قبول فرمائی، اوراس کا کھانا کھایا، اسی طرح ایک یہودی لڑکا بیمارہواتو آپ صلى الله عليه وسلم اس کی مزاج پرسی کے لیے تشریف لے گئے، ایک بار نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے خود مہمانداری کی، اور وفد کے اراکین کو مسجد نبوی میں ٹھہرایا۔ حق و انصاف کے معاملہ میں بلا تفریق مذہب ہر انسان آپ کی نظر میں برابر تھا۔ اگرکبھی اختلاف ہوتاتو ناحق کسی مسلمان کا ساتھ نہیں دیتے تھے۔
آج جب کہ دنیا ایک عالمی گاؤں بن گئی ہے اوراس گاؤں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے پڑوسی کی طرح رہنے لگے ہیں، سماجی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے پڑوسیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ زندگی گذارنے کے آداب انتہائی اہمیت رکھتے ہیں۔ایک سماج کے لوگوں کے درمیان پُرامن بقائے باہم اور خوشگوار زندگی کا سب سے بہتر نمونہ اور اصول ”میثاق مدینہ“ کے نام سے ہمارے سامنے موجود ہے، رسول کریم صلى الله عليه وسلم جب مدینہ آئے تو وہاں کے مختلف قبائل اور اہل مذاہب کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم نے معاہدہ فرمایا، یہی معاہدہ میثاق مدینہ ہے، اس کی دفعات کتنی مدبرانہ اور معقول ہیں، اس کا اندازہ ان کے الفاظ سے کیاجاسکتاہے۔
۱- سب لوگ ایک ہی قوم کے فرد سمجھے جائیں گے، یہودی مسلمانوں کے ساتھ ایک قوم ہے اور دونوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی ہوگی۔
۲- اگرمعاہدہ کرنے والے کسی قبیلہ پر کوئی دشمن حملہ آوار ہوگا تو تمام قبیلے ملک کر اس کا مقابلہ کریں گے۔
۳- شریک معاہدہ قبیلوں کے تعلقات خیرخواہی، نفع رسانی اور نیک اطواری پر مبنی ہوں گے، تاکہ جبر پر، اور خلاف اخلاق امور میں کوئی اعانت نہیں کی جائے گی۔
۴- یہودیوں اور مسلمانوں کو برابر حقوق حاصل ہوں گے۔
۵- مظلوم کی ہر حال میں مدد کی جائے گی۔ وغیرہ
میثاق مدینہ کی ان دفعات نے مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان ایک مشترک سماج کی تشکیل کا اصول فراہم کیا ہے، اور ان خطوط پر آج کے کثیر مذہبی، کثیر تہذیبی اور کثیرلسانی سماج کی تشکیل کی جاسکتی ہے۔
مسجد نبوی میں ایک جانب ایک بدوی نے آکر پیشاب کردیا، تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ایک بالٹی پانی منگواکراس کو صاف کردیا، دیوار پرکسی نے تھوک دیا تو اسے کھرچ کر اس کی جگہ خوشبولگادی، غذائی سامانوں میں جن چیزوں کو کھانے سے منع کیاگیا اس کی بنیاد اسی بات پر تو رکھی گئی ہے کہ وہ خبیث و گندگی ہیں، اور انسانی جسم و صحت کے لیے مضر ہیں۔ قرآن میں ہے: ”ویحل لہم الطیبات ویحرم علیہم الخبائث“ یعنی لوگوں کے لیے اچھی وطیب چیزوں کو حلال اور گندی اور خراب چیزوں کو حرام قرار دیا۔ شہری زندگی کے نوع بہ نوع سماجی مسائل اور ماحولیات سے متعلق سوالات کا بہترین حل اورجواب ہمیں کہیں مثالوں کی صورت میں اور کبھی اصولوں کی شکل میں رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حیات طیبہ میں جگہ جگہ نظر آتاہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ مسلمان تو وہ ہے جس کے ہاتھ اور جس کی زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں۔
اپنے فرائض کی ادائیگی کے لیے اپنے رب کے سامنے جواب دہی کے احساس کومحرک بنایاگیا ہے۔ ارشاد ہوا کہ تم میں ہر شخص ذمہ دار ہے، اور ہر شخص سے اسکی مفوضہ ذمہ داریوں اوراس کے ماتحتوں کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔ احساس ذمہ داری اور احساس جوابدہی کا یہ تصور رشوت کے دروازے کو بند کردیتاہے، سماجی زندگی میں آج کچھ سماجی لعنتیں گھس گئی ہیں، جس میں خواندگی زندگی سے تعلق رکھنے والے مسائل میں طلاق کی بڑھتی شرح اور جہیز و تلک کی مانگ سرفہرست ہیں۔
سماج میں باہمی اعتماد، تعاون اور باہمی محبت کا فروغ سماج کی بنیادوں کو مضبوط کرتاہے۔ ایسی مضبوطی کے لیے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے خاصا اہتمام فرمایا ہے، بڑی تفصیل کے ساتھ ہدایت دی گئی ہے کہ کسی کے پیٹھ پیچھے اس کی برائی نہ کی جائے، کسی کی ٹوہ اور تجسس میں نہ پڑا جائے، کسی کو مدد کے موقع پر بے یارومددگار نہ چھوڑا جائے، کسی کو برے نام اور برے لقب سے نہ پکارا جائے، کسی کے بارے میں بدگمانی نہ رکھی جائے، ہر انسان سے محبت کی جائے، اس کے تئیں حسن ظن رکھاجائے، باہمی محبت کو بڑھاوا دینے کا بہترین نسخہ ہے آپ صلى الله عليه وسلم نے یہ بتایا کہ ایک دوسرے کو تحفے تحائف دئیے جائیں، سلام کو رواج دیا جائے، اس سے محبت بڑھتی ہے۔ باہمی مدد اور تعاون کا درجہ اتنا اونچا کیاگیا کہ فرمایاگیا جب تک انسان اپنے کسی بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس انسان کی مدد کرتا رہتا ہے
تحریر :محمد عمر گوتم، ڈائریکٹر مرکز المعارف، جامعہ نگر نئی دہلی