یَکفِیہِ شَعب ٌ مِنَ الَجدَاثِ اَحیَاہُ!
اِس برگزیدہ ہستی سے معجزہ مانگتے ہو! یہ کم تو نہیں کہ پوری کی پوری ایک قوم اُس نے قبروں سے اٹھا نکالی اور اُس کی رگوں میں زندگی دوڑا دی!
مَن وَحَّدَ العَرَبَ حَتّیٰ کَانَ وَاتِرُہُم
اِذَا رَ اَیٰ وَلَدَ المَوتُورِ آخَاہُ
کیا یقین کرنے کی بات ہے کہ کسی نے ’عرب‘ کو شیروشکر کر ڈالا؟! یہاں تک کہ قاتل اور مقتول کی اولاد اپنا انتقام بھول کر بھائی بھائی بن گئے!
وَکَیفَ سَاسَ رُعَۃ ال اِبِلِ مَملَکَۃ
مَا سَاسَہَا قَیصِر ٌ مِن قَبلُ اَو شَاہُ
صحرا کے شتربان کیونکر جہاں بانی کرنے لگے، اور جہانبانی ایسی جو کسی ’سیزر‘ کے بس میں رہی ہو اور نہ کسی ’شاہ‘ کے!
سَنّوا المُسَاوَۃ لا عَرَبَ وَلا عَجَمَ
مَا لِامرِیئٍ شَرَف ٌ اِلّا بِتَقوَاہُ
شتر بانوں نے وہ مساوات قائم کر دکھائی کہ عرب عرب رہے اور نہ عجم عجم! آدمی کے پاس دکھانے کو کوئی رتبہ ہی باقی نہ رہا، سوائے یہ کہ وہ خدا سے کتنا ڈر کر رہتا ہے!
وَقرَرتُ مبدَ اَ الشوّریٰ حکومتہم
فَلَیسَ لِلمَرءِ ما تمناہُ
اور بقیہ زمانے کیلئے اصول ٹھہرا دیا کہ ان کی حکومت کی اساس شوریٰ ہے، یہ نہیں کہ ہر شخص کی جو مرضی آئے وہ کرتا پھرے!
وَرَحَّبَ الَّناسُ بِال اِسلامِ حِینَ رَ اَوا
اَنَّ السَّلامَ وَ اَنَّ العَدلَ مَغزَاہُ
اِس اسلام کو لوگ خوش آمدید نہ کہتے تو اور کیا کہتے!!!؟ کیا دیکھ نہیں رہے تھے کہ سلامتی اور عدل ہی تو اِس دین کا لب لباب ہے؟!
یَا مَن رَ اَیٰ عُمَراً تَکسُوہُ بُردَتَہُ
وَالزَّیتُ اَدُم ٌ لَہُ وَالکُوخُ مَ اَوَاہُ
ارے اے مورخ جس نے پیوند پوش عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھ رکھا ہے، وہ عمر جس کا سالن روغن کے سوا کچھ نہیں اور جس کی آرام گاہ کٹیا سے زیادہ نہیں!
یَہتَزُّ کِسریٰ عَلیٰ کُرسِیّہ فَرقاً
مِن بَ اَسِہ مُلُوکُ الرُّومِ تَخشَاہُ
مگر یہی عمر ہے جس کے ڈر سے کسریٰ اپنے تخت پہ بیٹھا تھر تھر کانپتا ہے اور جس کی شدتِ گرفت سے رومن شہنشاہوں پر لرزہ طاری ہے!
(مصر کے شاعر محمود غنیم کے مشہور قصیدہ ”رُعاۃُ الاِبل“ سے چند اشعار)