۔کیا وجہ ہے کہ مستشرقین یہودونصاری اسلام سے اتنی نفرت اور انتہاپسندی کا شکار ہوئے؟ کیا حضورﷺ یا خلفائے راشدین نے انکے ساتھ ظلم کا معاملہ کیا ؟ کہیں اس کے پیچھے یہ وجہ تو نہیں کہ انہیں لوٹا گیا، انکے ساتھ ظلم کیا گیا؟
بہت سی وجوہات اس سلسلے کی ابتدائی تحریر میں پیش کی جاچکی ہیں جہاں تک مسلمانوں کے رویے کا تعلق ہے تو تاریخ گواہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور بعد کے خلفاء کا یہودو نصاری کے ساتھ معاملہ انتہائی برداشت کا رہا ۔چند مثالیں پیش خدمت ہیں۔
ہجرت سے قبل یثرب (مدینہ) میں اوس و خزرج کے دو دشمن قبیلوں کے علاوہ یہود کے مختلف قبائل اور دیگرمشرکین آباد تھے گویا مدینہ مختلف عقائد، قبائل اور نسلوں کی آماج گاہ تھا۔ ہجرت کے بعدآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان تمام کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اوراس اتحاد واتفاق کو قائم رکھنے کیلئے دنیا کا پہلا تحریری دستور وجود میں آیا۔
ڈاکٹر محمد حمید اللہ کی کتاب ”عہد نبوی میں نظامِ حکمرانی“ کے مطابق میثاق مدینہ دنیا کاسب سے پہلا تحریری دستور ہے۔ یہ تاریخ ساز میثاق دو حصوں میں تقسیم ہے۔ پہلے حصہ میں ۲۳ اور دوسرے میں ۲۴ دفعات شامل ہیں۔ پہلاحصہ مسلمانوں کے باہمی تعلقات اور حقوق و فرائض کی نشاندہی کرتا ہے۔ جبکہ دوسرا حصہ اہل اسلام اور دیگر اہل مدینہ کے باہمی تعلقات، حقوق و فرائض اور دیگر امور کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک دفعہ کے الفاظ یہ ہیں ”مسلمانوں کیلئے مسلمانوں کا دین اور یہودیوں کیلئے یہودیوں کا دین ہے“ یعنی مدینہ میں جتنے بھی لوگ بستے تھے ان کو دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کا اختیار دلایاگیا تھا۔ تاریخ کے اوراق کی ورق گردانی کرلیجئے۔ اس سے بڑھ کر مفاہمت بین المذاہب کا وسیع عملی مظاہرہ دیکھنا کہاں نصیب ہوگا؟!( ڈاکٹر محمد حمید اللہ: عہد نبوی میں نظام حکمرانی، ص: ۷۶۔)
عرب محقق اور سیرت نگار محمد حسین ہیکل ”حیاتِ محمد“ میں میثاقِ مدینہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ یہ وہ تحریری معاہدہ ہے جس کی بدولت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال قبل ایک ایسا ضابطہ، انسانی معاشرہ میں قائم کیا جس سے شرکاء معاہدہ میں ہرگروہ اور ہرفرد کو اپنے اپنے عقیدہ و مذہب کی آزادی کا حق حاصل ہوا، انسانی زندگی کی حرمت قائم ہوئی،اموال کو تحفظ ملا اور شہر امن کا گہوارہ بنا۔( محمد حسین ہیکل: حیات محمد،مطبعہ النہضہ المصریہ ۱۹۴۷/، ص: ۲۲۷۔)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غیرمسلموں کو مسجد میں ٹھہراتے۔ ان کو ان کے طریقہ پر مسجد میں عبادت کرنے کی اجازت دیتے۔ ایک مرتبہ نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسجد میں حاضر ہوا۔ اس وقت ان کی نماز کاوقت آگیا تھا۔ اس لئے انھوں نے مسجد ہی میں نماز شروع کردی۔ بعض مسلمانوں نے روکنا چاہا مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کردیا اور فرمایا نماز پڑھ لینے دو۔ چنانچہ عیسائیوں نے مسجد نبوی کے اندر اپنے طرز پر نماز پڑھی۔ (ابن قیم الجوزی: زاد المعاد،ج:۱، ص: ۱۵۔ )
یہودونصاری کو برداشت کرنے کی اعلیٰ ترین مثال یہود کے مقدس مقام کوہِ سینا (مصر) کے ساتھ عیسائیوں کا کلیساء ”سینٹ کیتھرائن“ کی حفاظت اور عیسائیوں کے حقوق کے بارے میں ایک نامہٴ مبارک تحریر فرمانا ہے۔ حسن اتفاق سے آج تک یہ کلیساء موجود ہے اوراس کے ساتھ ہی تاریخ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نامہٴ مبارک بھی اصل حالت میں موجود ہے۔ڈاکٹر حافظ محمد ثانی اپنی کتاب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور رواداری میں رقمطراز ہیں:
”۶۲۷/ میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سینٹ کیتھرائن متصل کوہِ سینا کے راہبوں اور تمام عیسائیوں کو پوری آزادی اور وسیع حقوق عطا کئے اور مسلمانوں کو تاکید کی کہ وہ
(۱) عیسائیوں کے گرجاؤں، راہبوں کے مکانوں اور نیز زیارت گاہوں کو ان کے دشمن سے بچائیں۔
(۲) تمام مضر اور تکلیف رساں چیزوں سے پوری طور پر ان کی حفاظت کریں۔
(۳) ان پر بے جا ٹیکس نہ لگایا جائے۔
(۴) کسی کو اپنی حدود سے خارج نہ کیاجائے۔
(۵) کوئی عیسائی اپنا مذہب چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے۔
(۶) کسی راہب کو اپنی خانقاہ سے نہ نکالا جائے۔
(۷) کسی زائر کو اپنی زیارت سے نہ روکا جائے۔
(۸) مسلمانوں کے مکان اورمسجد بنانے کی غرض سے عیسائیوں کے گرجے مسمار نہ کئے جائیں“
(ڈاکٹر حافظ محمد ثانی: رسول اکرم اور رواداری، فضلی سنز لمیٹڈ کراچی، اشاعت مارچ ۱۹۹۸/ ، ص : ۱۹۲، ۱۹۳۔)
مدینہ کے یہودیوں کے ساتھ کیا گیا بعد میں کیا گیا سخت معاملہ انکے مسلمانوں کے خلاف کیے گئے انتہائی اقدامات کے ردعمل میں تھا۔ یہ مسلمانو ں کی مجبوری تھی ۔ لیکن اس کے بعد بھی حالت امن ہو یا میدان جنگ میں بھی اسلام کا طریقہ کار باقی قوموں سے مختلف اور انتہائی برداشت کا تھا،اسلام نے تلوار کی زد کو میدانِ جنگ میں محض برسرپیکار افراد تک محدود رکھااور دوسرے لوگوں سے تعرض نہ کرنے کی تاکید کی ہے۔ ڈاکٹر خالد علوی ”انسانِ کامل“ میں لکھتے ہیں:
”محاربین (Belligerents) کو دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ ایک اہل قتال (Combatants) اور دوسرے غیر اہل قتال (Non- Combatants) اہل قتال وہ ہیں جو عملاً جنگ میں حصہ لیتے ہیں یا عقلاً و عرفاً حصہ لینے کی قدرت رکھتے ہیں یعنی جوان مرد۔ اور غیر اہل قتال وہ ہیں جو عقلاً و عرفاً جنگ میں حصہ نہیں لے سکتے یا عموماً نہیں لیاکرتے مثلاً عورتیں، بچے، بوڑھے، بیمار، زخمی، اندھے، مقطوع الاعضاء، مجنون، سیاح، خانقاہ نشین، زاہد، معبدوں اور مندروں کے مجاور اور ایسے ہی دوسرے بے ضرر لوگ۔ اسلام نے (دورانِ جنگ) طبقہٴ اول کے لوگوں کو قتل کرنے کی اجازت دی ہے۔ اور طبقہٴ دوم کے لوگوں کو قتل کرنے سے منع کیا ہے۔“
وہ مزید لکھتے ہیں:
”خلیفہٴ اول حضرت ابوبکر صدیق نے جب فوجیں شام کی طرف روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دیں۔ وہ ہدایات اسلامی تعلیماتِ جنگ کا ملخص ہیں۔ وہ ہدایات یہ ہیں: (۱) عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کئے جائیں۔ (۲) مُثلہ (اعضاء کا کاٹنا) نہ کیا جائے (۳) راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کی عبادت گاہیں مسمار کی جائیں۔ (۴) کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اورنہ کھیتیاں جلائی جائیں۔ (۵) آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔ (۶) جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے۔ (۷) بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیاجائے۔ (۸) جو لوگ اطاعت کریں ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان و مال کاکیا جاتا ہے۔ (۹) اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔ (۱۰) جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔
( ڈاکٹر خالد علوی: انسانِ کامل،الفیصل ناشرانِ کتب لاہور، طبع چہارم ۲۰۰۲/، ص: ۳۰۰ و ۳۱۰۔)
۱۶/ھ = ۶۳۷/ میں جب مسلمانوں نے پہلی مرتبہ بیت المقدس کو فتح کیا تو حضرت عمر نے انتہائی رواداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے عیسائیوں کو مندرجہ ذیل امان نامہ لکھ کر دیا تھا۔
”یہ وہ امان ہے جو اللہ کے بندے امیرالمومنین عمر نے ایلیاء کے لوگوں کو دیا۔ یہ امان ان کی جان، مال، گرجے، صلیب، تندرست، بیمار اور ان کے تمام اہل مذاہب کیلئے ہے۔ ان کے گرجوں میں نہ سکونت اختیار کی جائے گی نہ وہ گرائے جائیں گے۔ اور نہ ان کو اور ان کے احاطوں کو نقصان پہنچایا جائے گا۔ ان کی صلیبوں اور ان کے مال میں کچھ کمی نہ کی جائے گی۔ نہ مذہب کے معاملہ میں ان پر جبر کیا جائے گا۔ نہ ان میں سے کسی کو نقصان پہنچایا جائے گا۔“( ابن جریر طبری: تاریخ الامم والملوک، المعارف بیروت، ج۵، ص: ۲۴۰۵۔)
اسلام میں ہرمذہب کے ماننے والوں کو پرسنل لاء اور کلچر میں آزادی دی گئی ہے۔ امام ابوعبیدہ کتاب الاموال میں تحریر فرماتے ہیں:”یعنی یہ لوگ اپنی شہادت کے احکام، نکاح کے معاملات، وراثت کے قوانین اور دوسرے تمام مذہبی احکام میں آ زاد ہوں گے۔“( ابوعبیدہ، کتاب الاموال، ص: ۱۴۰۔)
اسلام میں دوسرے مذاہب، ان کے مذہبی پیشواؤں اور عبادت خانوں کی حفاظت کاحکم دیاگیا ہے۔ امام ابویوسف کتاب الخراج میں فرماتے ہیں:”یہودیوں اور عیسائیوں کے عبادت خانے نہ گرائے جائیں یہ لوگ ناقوس بجانے سے نہ روکے جائیں البتہ نماز کے اوقات مستثنیٰ رہیں گے۔ اور ان کو ان کی عید کے دن صلیب نکالنے سے نہ روکا جائے۔“( امام ابویوسف: کتاب الخراج، ص: ۱۴۳۔)
خنزیر اور شراب کے اسلام میں سخت حرمت کے باوجود یہ حکم رکھاگیا کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیرمسلم کے خنزیر یا شراب کو ضائع کرے گا تو وہ اس کا تاوان بھرے گا۔
( رد المحتار، ج:۳، ص: ۲۷۳ بحوالہ اسلامی ریاست میں ذمیوں کے حقوق،از مولانا مودودی، ص: ۱۶۔)