اللہ کی وحدانیت اور رسالت کی گواہی دینے والوں کے شرق و غرب میں بہتے لہو کی دلدوز خبروں اور مسلمانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کی دل کھینچنے والی اطلاعات کے بین جب کبھی مختلف ممالک اور قومیتوں میں اسلام قبول کرنے والوں کے بارے سننے کو ملتا ہے تو سینوں میں سکون ہوتا ہے کہ دولتہ اسلامیہ کا ظہور حقیقت ہے۔
مسلمان ہونے والوں میں ایک بڑی تعداد امریکا، جرمن،اطالوی، پرتگالی، برطانوی، سری لنکن، چینی، فلپائینی، ویتنام، نیپالی، ہندی، اتھوپین،یوگنڈی، گھانا، مڈغاسکر اور کینیائی باشندوں کی ہے۔.
ایک اندازے کے مطابق فقط جرمنی میں ہر دوگھنٹے کے اندر ایک شخص اسلام کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے۔ یعنی ہر سال چار ہزار آدمی، 350 آدمی ہر مہینے مسلمان ہوتے ہیں۔
فرانسیسی وزارت داخلہ کے کئے گئے سروے کے مطابق فرانس میں ہر سال 3600 لوگ مسلمان ہوتے ہیں۔ لا لبرا نامی اخبار کی اس خبر کی توثیق کی گئی ہے کہ بروسکل کی ایک تہائی آبادی اب مسلمان ہے۔ اور سرکاری اندازوں کے مطابق بیلجئم میں 2025 تک اسلام غالب اکثریت کا مذہب ہو گا۔
امریکا، روس اور دوسرے ممالک میں اسلام کے پھیلاؤ کو بیان کرنے کی ضرورت ہی کیا!
جیسا برطانوی اخبار ڈیلی میل میں نوے سیکنڈ کی نشر کردہ فلم “میپ آف وارز” میں ماضی و حال کے نقشوں سے وضاحت کی گئی ہے ، عالم میں کونسا مذہب پچھلے پانچ ہزار سال میں ، کتنا پھیلا ہوا ۔ ویڈیو میں عداد و شمار کی مدد سے تہذیبوں کے درمیان تصادم کو واضح کیا گیا۔ اسلام، عیسائیت، یہودیت، بودھ ازم اور ھندو مت کے مختلف خطوں میں پھیلاؤ کو دکھایا گیا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا میں موجود مختلف مذاہب اپنے ظہور سے لے کر کتنی صدیوں میں چہار عالم میں پھیل سکے ، یہاں تک کہ محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اور اسلام کا پیغام کس سرعت اور تیزی سے دنیا میں پھیلتا چلا گیا۔ .
یہ توقع کی جا رہی کہ 35فیصدبڑھوتری کی شرع کے ساتھ ء2010 میں ڈیڑھ ارب مسلمان ء2030 تک سوا دو ارب کی گنتی عبور کر جائیں گے۔
ڈیلی میل ہی کی رپورٹ کے مطابق تمام مذاہب کے پیروکاروں میں عددی کمی کا رجحان ہے لیکن اسلام کے ماننے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی۔ .
یہ حق ہے اور یہی عظیم راستہ ہے۔ یہی سچائی ہےجو لوگوں کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ جو لوگوں کے قبول اسلام کی بنیاد بنتی ہے۔ جس کی بنا وہ ہر مصیبت اور پریشانی کو جھیلنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ مختلف ممالک میں مقدر قوتوں کا رویہ ان سے معاندانہ ہوتا۔ وہ عقوبت خانوں میں ڈالے جاتے ہیں، صعوبتیں دئیے جاتے ہیں، عدالتوں میں گھسیٹے جاتے ہیں۔ قتل کئے جاتے ہیں لیکن کوئی طریقہ انہیں صراط مستقیم سے ہٹا نہیں سکتا،کوئی حربہ ان کے قدم ڈگمگا نہیں سکتا۔ .
سب سے اہم اور ضروری نکتہ یہ ہے کہ دشمنان اسلام کی تمام تر سعی اور کشش کے باوجود دین کا پیغام پھیل رہا۔ میڈیاکے میدان میں ان کی برتری کے باوجود لوگ اسلام کی طرف راغب ہو رہے اور ان کی پیش کردہ تصویر جو اسلام کو ایک دہشت گرد مذہب کہلوانا چاہتے، اسلام کی حقانیت لوگوں کے دلوں میں بیٹھ رہی۔ یہی میڈیا خود ماننے پر مجبور ہے کہ اسلام کے پیروکاروں کا دائرہ وسیع تر ہو رہا۔ .
گزشتہ سالوں میں یہ بات ماننے پر مجبور ہیں کہ اسلام دنیا کا سب سے بڑھتا ہوا دین ہے۔ 1973 ء میں مسلمانان عالم کی تعداد جو پچاس کروڑ تھی 2011 ءمیں ڈیڑھ ارب تک جا پہنچی۔ اس کی وجہ پیدائشی مسلمانوں کا بڑھنا نہیں بلکہ غیر مسلموں کا بڑی تعداد میں اسلام کی جانب رجحان اور قبول اسلام کی رغبت ہے۔ اور یہ تعداد ان معاشروں میں بھی بڑھوتری کی طرف مائل ہے جہاں پیدائشی مسلمان بہت کم ہیں۔ خاص کر نائن الیون کے بعد اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔
البتہ یہ تمام اعداد و شمار کسی واہمے میں نہ ڈال دیں اور یہ گنتیاں، یہ رپورٹیں ہمیں خوابیدہ نہ کر دیں۔ کہیں ہم مطمئن ہو کر بیٹھ نہ جائیں۔ بلکہ اسے اپنا حوصلہ بنائیں، آگے بڑھنے کا لائحہ عمل طے کریں۔ ہمت اکھٹی کریں۔ اللہ کی حمد بیان کریں اور اس کے دین کا کام کرنا اپنے لئے سعادت سمجھیں۔ بغیر تھکے، بغیر رکے۔ نبی اکرمﷺ کے مبارک فرمان کو اپنا نصب العین بنا لیں :”تمہاری دعوت کی وجہ اسے اگر ایک بھی غیر مسلم ایمان لے آیا تو یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں کے مل جانے سے بھی بہتر ہے”
تحریر: عامر الھوشان .ترجمہ: ابراہیم شاہین