عقائد و دینی حقائق کا صحیح ماخذ
اسلام کا دوسرے نظام ہائے فکر کے مقابلہ میں امتیاز یہ ہے کہ اس کی بنیاد وحی نبوتِ محمدی پر ہے اس کے عقائد و حقائق قیاس،تجربے، ظن و تخمین اور انسانی ذہانت اور بحث و جدال پر مبنی نہیں بلکہ اللہ تعالٰی کے تعلیم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تبلیغ پر مبنی ہیں۔ پیغمبر نے خدا کی ذات و صفات و افعال عالم کی ابتداء و انتہاء اور دنیا کے آغاز و انجام، معاد اور اعمال کے خواص و نتائج اور دوسرے مابعد الطبعیاتی مسائل کے متعلق جن کا دین سے تعلق ہے جو کچھ اور جتنا کچھ کہہ دیا وہی عقائد ہیں اور وہی حقائق ہیں اور وحی نبوت کے سوا اور حقیقت ان کے معلوم کرنے کا پھر ان پر یقین کرنے کا کوئی اور ذریعہ ہی نہیں۔ اس لئے کہ تمام معلومات اور حقائق کا ذریعۂ تعلیم مبادی اولیہ ہی ہوتے ہیں اور ان حقائق دینیہ و غیبیہ کے مبادی اولیہ ہی کسی کو حاصل نہیں۔ کسی نئی چیز کے علم کا ذریعہ ہی یہ ہے کہ معلومات کو اس طرح ترتیب دیا جائے کہ مجہول تک رسائی ہو جائےلیکن جس طرح ہم کو طبعیات و مادّیات کے معلومات اولیہ حاصل ہیں ان غیبی و دینی حقائق کے ابتدائی معلومات و مقدمات حاصل نہیں، اللہ کی ذات و صفات حواس و عقل دونوں سے ماوراء ہیں۔ اور اس کے بارے میں انسان کو کوئی تجربہ و مشاہدہ حاصل نہیں اور نہ یہاں قیاس کے لئے کوئی بنیاد ہے”لَی٘سَ کَمِث٘لِہ شَئ٘ی” اس لئے اس بارہ میں سوائے اس کے کہ انسانوں کے اس گروہ پر اعتماد کیا جائے جس کو اللہ تعالٰے نے اپنی ذات و صفات کا علم و یقین خود بخشا ہے اور روشنی و ہدیات عطا کی ہےکوئی اور ذریعہ نہیں ہے۔ اور ہمیں اس کے مقابلہ میں انکار و بحث کا کوئی حق نہیں۔ اسی حقیقت کو قرآن مجید میں ایک پیغمبر کی زبان سے اس طرح بیان کیا گیا ہے ” قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّهِ وَقَدْ هَدَانِ” ( کیا تم مجھ سے اللہ کے بارے میں بحث و جدال کرتے ہو۔ حالانکہ اللہ تعالٰے مجھے اس بارے میں راستہ پر لگا چکا ہے)۔
فلسفہ کی سعی لا حاصل:
یہ ایک ایسی واضح اور روشن حقیقت تھی کہ جس کی موجودگی میں فلسفہ کو ذات و صفاتِ الٰہی کے بارے میں کسی دوسری کی ضرورت نہ تھی لیکن یہ علم انسانی تاریخ کا ایک عجیب واقعہ ہے کہ کئی ہزار برس تک فلسفہ نے اس شغل لا حاصل کو جاری رکھا اور اپنی بہترین ذہانتیں اور قوتیں ایک ایسے موضوع پر صرف کیں جس کے متعلق خود اس کو اعتراف ہے کہ اس کو اس کے مبادی و مقدمات بھی حاصل نہیں ھے اور اس بارے میں اس کے پاس یقین حاصل کرنے اور قطعی رائے قائم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ پھر اس نے اس بارے میں ایسی تدقیق و تفصیل اور ایسی بے تکلفی سے کام لیا جو علمائے لغت و اشتقاق کسی لفظ کے بارے میں اور علمائے صرف و نحو تصریف و ترکیب میں برتتے ہیں بلکہ ماہرین علم الکیمیا ادویہ و نباتات کے بارے میں کرتے ہیں۔ اور مباحث و تفصیلات کا اتنا انبار اکٹھا کر دیا اور ایسی بال کی کھال نکالی کہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری بحث کسی ایسی محسوس و مرئی ہستی کے بارے میں ہورہی ہے جو بالکل ان کے تصُّرف اور دسترس میں ہے۔
قرونِ متاخرہ کے مسلم فلاسفہ :
پچھلی صدیوں میں تو اسلامی فکرکے انحطاط کا یہ عالم تھا کہ خدا کی ہستی، عالم کے حدوث، توحید،معاد تمام بنیادی عقائد کے ثبوت کے لئے ان ہی دلائل اور ترتیب مقدمات کو اصل قرار دے دیا گیا تھا جو متکلمین نے ترتیب دیئے تھےاور جن کی بنیاد فلسفہ پر تھی۔ محدثین و فقہاء کے ایک چھوٹے سے گروہ کو چھوڑ کر عام طور پر متکلمین و نُظّار عقل کو معیار قرار دیتے تھے اور کتاب و سنت کو عقائد و احکام کا ماخذ بنانے کے بجائے متکلمین کی کتابوں کو عقائد کا ماخذ بناتے تھےاور فلسفہ کے اعتراضات سے بچنے کے لئے یا فلسفہ کے بعض ثابت کئے ہوئے اصول کو قائم رکھنے کے لئے اور دین کو ان کے مطابق ثابت کرنے کے لئے وہ آیات واحادیث میں تاویل سے کام لیتے تھے۔ باوجود فلسفہ کی تردید کے ان پر فلسفہ کا اتنا رعب طاری تھا کہ وہ بجائے فلسفہ کے انکار اور اپنے علم کلام میں تبدیلی کر دینے کے آیات و احادیث کی تفسیر و تشریح میں تاویل و توجیہ سے کام لیتے۔ امام ابن تیمیہ اسی ذہنیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
“حالت یہ ہے کہ ہر فریق نے اپنے اپنے انبیاء علہیم السلام کی لائی ہوئی تعلیم کے بارے میں ایک قانون بنا رکھا ہے جس چیز کو ان کی عقول نے تسلیم کر لیا اس کو وہ اصل قرار دیتے ہیں۔ جس پر ان کو اعتقاد و اعتماد ہے اور جس کو انبیاء علیہم السلام لائے اس کو تابع قرار دیتے ہیں بس جتنا حصہ ان کے قانون کے مطابق ہوتا ہےاس کو قبول کرتے ہیں اور جو اس کے مخالف ہوتا ہے اس کو قبول نہیں کرتے۔”( بیان موافقۃصریح المعقول الصحیح المنقول حصہ اول ص۳)
ان متکلمانہ عقائد و مباحث کو اصل و معیار قرار دینے کے بعد اور یہ سمجھ لینے کے بعد کہ ان مباحث میں بڑے بلند اور عمیق علوم اور بڑے حکم و معارف ہیں’ ایک کشمکش یہ پیش آتی تھی کہ اگر یہ اصلی علوم و معارف ہیں تو آنحضرت صلے اللہ علیہ وسلم و صحابہ کرام کا کلام ان سے کیوں خالی ہے اور ان کے یہاں تفصیلات و تدقیقات کیوں نہیں ہیں؟ جو لوگ فلسفہ و علم کلام پر پورا ایمان رکھتے تھے اور ان کا دماغ اس سے پورے طور پر مرعوب و مسحور تھا وہ کبھی صاف صاف اور کبھی دبی زبان سے یہ کہ دیتےکہ وہ زمانہ ابتدائی زمانہ تھا، اس زمانہ کے لوگ سیدھے سادھے لوگ تھے ان کو ان حقائق اور ان گہرے علوم کی خبر نہیں تھی۔ جو لوگ فلسفہ کی عظمت کے بھی قائل تھے اور صحابہ کرام کی عظمت کے بھی معترف تھےوہ ایک تحّیر اور کشمکش کی حالت میں تھے اور ان سےا س بارے میں کوئی فیصلہ نہیں بن پڑتا تھا۔ امام ابن تیمیہ ان مختلف گروہوں کی ذہنی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
“جن لوگوں کا یہ عقیدہ ہے کہ علم کلام کی یہ بحثیں اصول دین پر مشتمل ہیں اور ان کے اندر علوم کلّیہ، معارفِ الٰہیہ، حقیقی حکمت اور بنیادی فلسفہ ہے’ ان میں سے بہت سے لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم اصولِ دین سے واقف نہیں تھے۔ جنہوں نے بہت رعایت کی انھوں نے یہ کہا کہ آپ واقف تو تھے لیکن آپ نے ان اصول کو بیان نہیں کیا۔ جن کے دل میں نبی ص کا احترام ہے وہ یہ کہتے ہیں کہ صحابہ و تابعین ان اصول سے واقف نہیں تھے۔ جن کے دلوں میں صحابہ و تابعین کی بھی عظمت ہے اور ان متکلمین و فلاسفہ کے اقوال کی بھی وہ ایک تحیر و کشمکش کی حالت میں ہیں اور ان کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں کہ ان بزرگواروں نے ان امور و مسائل میں کیوں کلام نہیں کیا جو افضل العلوم ہیں۔ اور جو رسول اللہ (صلے اللہ علیہ وسلم) پر ایمان رکھتے ہیں اور آپ کی عظمت بھی انکے دل میں ہے ان کو یہ بڑا اشکال معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے دین کے ان اصولی مسائل کی تشریح و تفصیل کیوں نہیں فرمائی حالانکہ دوسرے مسائل کے مقابلہ میں لوگوں کو ان کی ضرورت زیادہ ہے۔”( بیان موافقۃصریح المعقول الصحیح المنقول حصہ اول ص۱۲)
امام ابن تیمیہ لکھتے ہیں کہ فلسفہ و علم کلام کے ان پرستاروں نے اللہ اور اس کے رسول کے قول کو مجمل قرار دیا جس سے کوئی علم و ہدایت حاصل نہیں ہو سکتی اور اپنے متشابہ کلام کو محکم اور اللہ اور اس کے رسول کے محکم کلام کو متشابہ قرار دیا۔( ایضاًص۱۶۴)
عقل کی تعظیم و تقدیس میں مبالغہ:
فلاسفہ اور متکلّمین دونوں نے مل کر صدیوں عقل کا ایسا آوازہ بلند کیا اور ذات و صفات کے مسائل میں اس کو اس طرح حکم و میزان قرار دیا کہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ ان مسائل میں اسی طرح فیصلہ کرنے کی مجاز ہے جیسے محسوسات میں ہمارے حواس خمسہ اور عملیات میں تجربہ و استقراء۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ تھا کہ عقل ‘شریعت کے ثبوت کے لئے خواہ شرعیات ہوں،خواہ فقہیات بنیاد بن گئی۔ اسلام کی ان چھ صدیوں میں کسی مفکر اور عالم نے عقل کی اس غیر محدود فرمانروائی کےخلاف علم بغاوت بلند کرنے کی جرات نہیں کی۔ حجۃ الاسلام امام غزالی رحمۃاللہ علیہ نے فلسفہ کے حصئہ الٰہیات کے خلاف قلم اٹھایااور اس کو اپنے طنز و تحقیر کا نشانہ بنایا لیکن عقل کی اس مطلق العنان سلطنت اور اس کے دخل در معقولات کے خلاف انھوں نے بھی کوئی موثر آواز بلند نہیں کی۔ امام ابن تیمیہ( ہمارے علم میں) پہلے شخص ہیں جنھوں نے اس صورتِ حال کے خلاف بلند آہنگی کے ساتھ صدائے احتجاج بلند کی اور پوری جرات کے ساتھ یہ ثابت کیا کہ عقائد و حقائق کا اصل ماخذ وحی و نبوت اور کتاب و سنت ہے۔ عقل ان کی موید اور مصدّق تو ہے لیکن ان کے ثبوت کی بنیاد نہیں وہ ایک جگہ صاف لکھتےہیں:-
” عقل فی نفسہ شریعت کے ثبوت کے لئے اصل کی حیثیت نہیں رکھتی اور نہ اس کو کوئی ایسی صفت بخشتی ہے۔ جو اس کو پہلے سے حاصل نہ تھی۔ اور نہ اس کو کمال کی صفت عطا کرتی ہے۔”۔( بیان موافقۃ صریح المعقول الصحیح المنقول-حصہ اول ص۴۶)
ان کا کہنا یہ ہے کہ عقل صرف معرّف و رہنما ہےاس کا کام یہ ہے کہ رسول کی صداقت و عصمت کے اقرار و اعتراف تک پہنچا دےپھر سبکدوش ہو جائے۔ عقل یہ ثابت کر دیتی ہے کہ رسول جو کچھ اطلاع دے اس کی تصدیق اور جو کچھ حکم دے اس میں اس کی اطاعت واجب ہے۔ وہ رسول کی صداقت پر عمومی اور مطلق حیثیت سے دلالت کرتی ہے۔ ان کے نزدیک اس کی حیثیت بالکل ایسی ہے جیسے کوئی عامی شخص کسی ناواقف کو شہر کے مفتی کے پاس پہنچا دے اور بتلا دے کی یہ عالم و مفتی ہے پھر اگر اس عامی رہنما اور اس مفتی کے درمیان کسی مسئلہ میں اختلاف ہو تو مستفتی کا بھی فرض ہو گا کہ وہ مفتی کے قول کو ترجیح دے اور اس عامی کویہ کہنے کا حق نہیں ہو گا کہ میں نے ہی تو رہنمائی کی ہے اگر میں رہنمائی نہ کرتا تو تم کو اس مفتی تک رسائی کیسے ہوتی؟ (ایضاًص۷۰) رسالت کے علم کے بعد عقل کا کام ہے کہ وہ رسول پر اعتماد اور اس کی اطاعت کرےجس طرح ہر فن میں صاحبِ فن کی تقلید کی جاتی ہے اور بے چوں و چرا اس کے مشورہ پر عمل کیا جاتا ہے اور اس کے قول کو قولِ فیصل سمجھا جاتا ہے۔ اسی طرح سے امور غیبیہ احکام و شرائع اور مابعد الطبعیات میں رسول سند کی حیثیت رکھتے ہیں اور ان کا قول قولِ فیصل ہے۔ لکھتے ہیں:-
” جب کسی شخص کو عقل سے یہ معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص رسول ہے اور اس کے نزدیک یہ ثابت ہو جائے کہ اس نے کسی چیز کی خبر دی ہے اور اس کی عقل اس میں کوئی اشکال پیش کرے تو اس کی عقل ہی کا یہ تقاضا ہے کہ وہ یہ مختلف فیہ چیز ایسی ہستی پر محّول کرے جو اس کے مقابلہ میں اس کا زیادہ علم رکھتی ہے اور اپنی رائے کو اس کے قول پر مقدم نہ رکھے اور یہ سمجھے کہ اس کی عقل اس کے مقابلہ میں قاصر اور ضعیف ہے اور اس ہستی کو اللہ تعالٰے کا اور اس کےاسماء و صفات کا اور یوم آخرت کا علم زیادہ ہے۔ جو فرق اس عامی شخص اور ایک پیغمبر میں ہے وہ فرق اس سے کہیں زیادہ بڑا ہےجو عوام اور علمائے طب میں ہے۔ پس جب وہ اپنی عقل کے بموجب ایک یہودی طبیب کی بھی اطاعت کرتاہےاور غذا، شربت،ضماد ( لیپ) اور مسہلات وغیرہ کی جو مقدار اور ترکیب تجویز کر دیتا ہے تو باوجود تکلیف اور مشقت کے وہ اس کی تعمیل کرتا ہےمحض یہ سمجھ کر کہ یہ طبیب اپنےفن کا مجھ سے زیادہ واقف ہے۔ اگر میں اس پر اعتماد کروں گا اور اس کے مشورہ کی تعمیل کروں گا تو صحت کی امیدہے۔ باوجود اس کے کہ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اطبّاء سے غلطیاں بھی ہوتی ہیں اور بہت سے لوگوں کی تجویز اور معالجہ سےصحت بھی نہیں ہوتی بلکہ بعض اوقات یہی علاج موت کا سبب بن جاتا ہے۔ اس کے باوجود اس کا قول قبول کرتا ہے اور اس کی تقلید کرتا ہے خواہ اس کا گمان اور اجتہاد طبیب کی تجویز کے مخالف ہو۔ اس سے سمجھنا چاہئے کہ پیغمبروں کے مقابلہ میں مخلوق کی حیثیت کیا ہےپھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ خدا کے پیغمبر صادق القول ہوتے ہیں اور ان کو بھی صحیح اطلاع دی جاتی ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ ان کی اطلاع خلاف واقعہ ہو اور جو لوگ محض اپنی عقل کی بناء پر ان کے اقوال کامقابلہ کرتے ہیں ان کی جہالت اور ضلالت کا کوئی ٹھکانا نہیں۔” (بیان موافقۃ صریح المعقول الصحیح المنقول۔حصہ اول ص۸۰)
جو لوگ عقلیات اور فلسفہ سے متاثر تھے ان کی ذہنی ساخت کچھ ایسی ہوگئی تھی کہ شریعت کی جو بات عقل اور اصولِ فلسفہ کے مطابق ہوتی اس کو ان کاذہن قبول کرتا اور جو ان کے اِن اصول مسلمات کے خلاف ہوتی اس کو قبول کرنے اسے ان کا ذہن قاصر رہتا اور اس میں ہزاروں الجھنیں محسوس کرتے ان میں سے جو لوگ بیباک اور جری ہوتےوہ صاف انکار کر دیتے اور کہتے کہ شریعت کا مطابقِ عقل ہونا ضروری ہے۔ یہ بات چونکہ عقل خلاف ہے اس لئے قابلِ قبول نہیں۔ جو لوگ اس درجہ جری نہ ہوتے وہ اس کی توجیہ کرتے اور بعید سے بعید تاویل سے ان کو باک نہ ہوتا۔ امام ابن تیمیہ نے جا بجا یہ ثابت کیا ہے کہ رسول پر بلا شرط ایمان ضروری ہے اور رسول کی صحیح حیثیت و منصب یہی ہے کہ اس پر غیر مشروط طریقہ پر ایمان لایا جائےاور در حقیقت اسی کا نام ایمان ہے۔ مشروط تصدیق کا نام شریعت کی اصطلاح میں ایمان ہی نہیں ہے۔ وہ لکھتے ہیں:-
“خلاصہ یہ ہے کہ انسان اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ رسول پر ایسا قطعی ایمان نہ لائے جس کے ساتھ کسی معارض کے نہ ہونے کی بھی شرط نہ ہو۔ جب وہ شخص یہ کہے گا کہ میں رسول کی اطلاع پر اس وقت تک ایمان لاتا ہوں جب تک کہ کوئی ایسا معارض ظاہر نہ ہو جو اس کی اطلاع کی تردید کر دے تو وہ شخص مومن نہیں ہو گا یہ ایک بہت بڑا اصول ہے جس کا جاننا ضروری ہے”۔( بیان موافقۃ صریح المعقول الصحیح المنقول۔حصہ اول ص۱۰۱)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:-
“دین اسلام سے یہ بات قطعی اور بدیہی طور پر ثابت ہو چکی ہے کہ مخلوق پر رسول کی ایسی تصدیق و ایمان واجب ہے جو قطعی اور عمومی ہو جس میں کوئی شرط اور قید نہ ہو اور یہ کہ اس کی ہر اطلاع کی تصدیق کی جائے اور اس کے ہر حکم کی اطاعت کی جائے اس کےخلاف جو بات بھی ہو گی وہ باطل ہو گی۔ جو شخص رسول کی اس بات کی تو تصدیق کرتا ہے جس کو اس کی عقل قبول کرتی ہے اور اس کی اس اطلاع کو رد کر دیتا ہے جو اس کی رائے اور عقل کے خلاف ہوتی ہے اور رسول کی اطلاعات پر اپنی عقل کو مقدم رکھتا ہے اور یہ بھی کہے جاتا ہے کہ میں رسول کو سچا جانتا ہوں تو وہ متناقض باتیں کرتا ہے اور فاسد العقل اور ملحد ہے۔ اور جو شخص کہتا ہے کہ میں اس وقت تک رسول کی اطلاع کی تصدیق نہ کروں گا جب تک کہ میں اس کو اپنی عقل سے سمجھ نہ لوں تو اس کا کفر کھلا ہوا ہے۔”( بیان موافقۃصریح المعقول الصحیح المنقول۔حصہ اول ص۱۰۱)
امام ابن تیمیہ اس کے بعد مدّعیانِ عقل کے اس دعوی کا بھی جائزہ لیتے ہیں کہ عقل و نقل میں اکثر تعارض و تضاد ہوتا ہےاور پیغمبروں نے جن چیزوں کو عقائد و حقائق کے طور پر پیش کیا ہے وہ بعض اوقات صریح عقل و ہدایت کے خلاف ہوتے ہیں اور ان حقائق و مسلّمات سے متصادم ہوتے ہیں جو ہزاروں برس کے غور و فکر کا نتیجہ اور فلسفہ کی بنیاد ہیں۔ ابن تیمیہ یہ ثابت کرتے ہیں کہ جن عقلیات کو پیغمبروں کی اطلاعات اور کتاب و سنت کے نصوص کا معارض بتایا جاتا ہے وہ اکثر محض توہمات ہیں اور غور کرنے کے بعد عقل کے ہوائی قلعے ثابت ہوتے ہیں۔ اگر ان کی علمی تنقید اور احتساب کیا جائےاور ان کو قریب سے دیکھا جائے تو معلوم ہو کہ یہ محض لفّاظی او ہوا بندی تھی ان کی کوئی علمی بنیاد نہیں۔ وہ لکھتے ہیں:-
“بہت سی وہ عقلیات جن کا مدعیان عقل دعوی کرتے ہیں اور ان کو نصوص کا مخالف بتلاتے ہیں’ تنقید اور امتحان کے بعد ثابت ہوتا ہے کہ ان میں کوئی حقیقت نہیں تھی۔ یہ ایسا ہی ہے جیسےکوئی بچوں کو یا بچوں کی طرح ناواقف آدمی کو خالی سوکھی ہوئی مشکیں ہلا ہلا کر اور بجا بجا کر ڈرائے۔ جب کبھی معقولات پر پورا غور کیا جاتا ہے اور ان پر گہری نظر ڈالی جاتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ خود رسول کی اطاعت کی صداقت کے لئے دلائل و براہین کا کام دیتی ہیں اور یہ کہ اس کی اطلاعات سے جو کچھ لازم آتا ہےوہ سب صحیح ہےاور جس شخص نے اس کی نفی کی ہے وہ محض حقیقت سے ناواقفیت کی بناء پر اور ظاہری اور باطنی طور پر مرعوب ہو کر بالکل جیسے کوئی شخص معبودانِ باطل سے ڈر جائے اور سمجھے کہ وہ اس کو نقصان پہنچا سکتے ہیں یا کوئی شخص اپنےضعفِ ایمان کی وجہ سے دشمنِ اسلام سے جو خود کمزور ہو’ ہراس زدہ اور سراسیمہ ہو جائے۔”( بیان موافقۃصریح المعقول الصحیح المنقول۔حصہ چہارم ص۱۵۳)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:-
“یہ لوگ جو فلسفہ کے مہیب و پر شکوہ الفاظ سے ان کی حقیقت کے جانے بغیر مرغوب ہوگئے ہیں ان کی مثال ایسی ہےجیسے کوئی نامرد دشمن سے محض ان کا لباس اور پاشاک دیکھ کر مرعوب ہو جائے اور اس کو ان کی حقیقت حال دریافت کرنے کی نوبت نہ آئے۔ لیکن جو شخص ان کی حقیقت دریافت کرے گا وہ دیکھے گا کہ وہ خود انتہائی ضعیف وعاجز ہیں۔ اللہ تعالٰے فرماتا ہے:-
“سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَکُوا بِاللَّـهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا” ۔ ترجمہ:ہم جلدی ڈال دیں گے کافروں کے دلوں میں ہیبت کیونکہ انھوں نے شریک جانا اللہ کا جن کی اللہ نے کوئی سند نہیں اتاری۔ (آلِ عمران۔۱۵۱)
ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ ان اقوال و تدقیقات پر غور کیا جائے جن پر ان کو بڑا ناز ہےاور جن کو انھوں نے الٰہیات کا نام دیا ہے اور جن کو ان کے پیرو انبیاء علیہم السلام کے کلام کے مقابلہ میں پیش کرتے ہیں، نظر انصاف سے دیکھا جائے کیا اس میں اور دیوانوں کی بے سروپا باتوں میں کچھ فرق معلوم ہوتا ہے:-
“صاحبِ عقل ان لوگوں کے کلام کو غور سے دیکھے جو بڑی مہارت اور تحقیق کے مدعی ہیں اور اپنی عقل و دانش سے انبیاء علیہم السلام کے کلام کو رد کرتے ہیں، فلسفہ کی چوٹی پر پہنچ کر اور عقل و حکمت کے بلند ترین مقام سے ایسی باتیں کہتے ہیں جو دیوانوں کی باتوں سے بالکل ملتی جلتی ہیں۔ جو صحیح و حق بات بداہتہً ثابت ہے اس کو رد کرتے ہیں اور جو بے بنیاد اور بے اصل بات جس کا بطلان بالکل بدیہی اور ظاہر ہے اس کو اپنے تلبیس آمیز کلام سے مقبول بناتے ہیں۔”( ایضاً۔حصہ سوم ص۲۷۲)
صریح عقل اور صحیح نقل میں کبھی تعارض نہیں ہوتا
لیکن امام ابن تیمیہ عقل کا پورا احترام کرتے ہیں ان کے نزدیک قرآن مجید میں جابجا عقل سے کام لینے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کے نزدیک صحیح عقل اور صحیح نقل میں کبھی تعارض نہیں ہو سکتا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے وسیع مطالعہ و طویل غور و فکر میں کبھی عقل و نقل میں تعارض و تضاد نہیں دیکھا۔ لیکن شرط یہ ہے کہ عقلِ سلیم ہو اور نقل صحیح و محفوظ ہو۔ اس موضوع پر انھوں نے ایک مستقل ضخیم کتاب “بیان موافقۃ صریح المعقول” تصنیف کی ہے۔ ( یہ کتاب”منہاج السنۃ”کے حاشیہ پر چاروں جلدوں میں شائع ہوئی ہے)جس میں انھوں نے مفصّل و مدلل طریقہ پر ثابت کیا ہے کہ معقول و منقول میں پوری موافقت ہےاور جو باتیں وحی و نبوت، کتاب و سنت سے ثابت ہو چکی ہیں صحیح و کامل عقل ان سب کی تصدیق کرتی ہے۔ عقل ہمیشہ ان نصوص و منقولات کی تائید و تصدیق کرتی رہی اور جب بالغ نظری اور دقّتِ نظر سے کام لیا جائے گا’ عقل کو ان منقولات کی تائید و تصدیق ہی میں دیکھا جائے گا۔ وہ لکھتے ہیں:-
“صحیح و واضح عقلی دلائل جن میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ یقینی فطری علوم سب کے سب انبیاء علیہم السلام کی اطلاعات کے موافق ہیں مخالف نہیں اور صحیح عقلی دلائل تمام تر نقل و روایت (سمع) کے مطابق ہیں ذرا بھی اس کے خلاف نہیں۔ الحمدللہ میں نے مختلف فرقوں کا کلام اور ان کےمسائل پر غور کیا ہے اور اسی بات کو صحیح پایا ہے۔” (حصہ اول ص۷۴)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:-
” منقول صحیح کا کبھی معقول صریح معارض نہیں ہوتا۔ میں نے اختلافی مسائل میں بھی اس اصول کی تحقیق کی اور میں نے یہی دیکھا کہ صحیح و صریح نصوص کے خلاف جو کچھ بھی پیش کیا جاتا ہے وہ محض فاسد شبہات ہوتے ہیں جن کا بطلان عقل سے ثابت ہوتا ہے بلکہ عقل سے ان شبہات کے بالکل خلاف اور شرع کے بالکل موافق ثابت ہوتا ہے۔ میں نے برے بڑے اصولی مسائل توحید و صفات، مسائل قدر و نبوات وغیرہ کو بھی اس نظر سے دیکھا اور یہی پایا کہ جو صراحۃً عقل سے ثابت ہوتا ہے کبھی سمعیات و منقولات ان کے مخالف نہین ہوتے بلکہ وہ نقل و روایت جس کےمتعلق کہا جاتا ہےکہ وہ صریح عقل کےخلاف ہے’تحقیق سے یا تو موضوع حدیث ثابت ہوتی ہےیا اس کی روایت ضعیف ہوتی ہےاس لئےوہ دلیل بنانے کے قابل نہیں ہوتی۔ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اُن چیزوں کی اطلاع نہیں دیتےجو عقلاً محالات میں سے ہیں بلکہ ان چیزوں کی اطلاع دیتے ہیں جن میں عقل حیران و سر گشتہ ہوتی ہے۔ وہ اس چیز کی اطلاع نہیں دیتےجس کی عقل نفی کرتی ہے بلکہ اس چیز کی اطلاع دیتے ہیں جس کی حقیقت سمجھنے سے عقل عاجر رہتی ہے۔”( حصہ اول ص۸۳)
وہ دعویٰ سے کہتے ہیں ( اور ان کا دعویٰ بڑا وزن رکھتا ہے) کہ ایک حدیث یا نقل بھی عقل کےمخالف نہیں۔ اور اگر ایسی کوئی حدیث ہے تو وہ اہلِ فن کے نزدیک ضعیف یا موضوع ہے۔
ان کو متکلمین و فلاسفہ کے اس دعویٰ کے تسلیم کرنے سے انکار ہے کہ قرآن مجید ایک ایسا صحیفہ ہے جس کی بنیاد محض نقلیات و سمعیات پر ہے انھوں نے جا بجا ثابت کیا ہے کہ قرآن مجید میں بہترین عقلی دلائل ہیں اور دلائل ایسے محکم، مدلّل اور واضح الثبوت ہیں جن کو فلاسفہ اور متکلمین کے دلائل جو بحث و تنقید کے بعد تارِ عنکبوت ثابت ہوتے ہیں پہنچ نہیں سکتے۔ وہ فرماتے ہیں:-
” اللہ تعالٰی نے قرآن مجید میں ایسے عقلی دلائل بیان فرمائے ہیں جن کی اس علم میں ضرورت ہےاور یہ فلاسفہ و متکلّمین ان کا پورا اندازہ بھی نہیں کرسکتے یہ جب دلائل و تنائج کو پیش کرتے ہیں۔ قرآن مجید نے ان کا خلاصہ بہترین طریقہ پر پیش کردیاہے۔”( حصہ اول ص۱۴ )
دوسری جگہ لکھے ہیں:-
“رسول اللہ صلے اللہ علیہ وسلم نے اثبات صانع اور اس کی صفات و افعال کی معرفت کےسلسلہ میں دنیا کے سامنے جو کچھ پیش کیا وہ صریح عقل کے مطابق ہے اور عقلاء کی بڑی سے بڑی عقلی بلند پروازیوں سےبلند ہے۔ ان اگلے پچھلے فلاسفہ و متکلمین کو جن دلائل پر بڑا ناز ہے وہ قرآن مجید میں کہیں ضمناً آجاتے ہیں لیکن یہ فلاسفہ حق و باطل کی تلبیس کے عادی ہیں اس لئے اس کو سیدھے سیدھے طریقہ پر بیان نہیں کرتے۔”( حصہ سوم ص۶۸)
فلاسفہ و متکلمین اور ان کے ہمنواوں کے گروہ میں بہت سے لوگ اس بات کےقائل تھےکہ رسول نے ذات و صفات کے بارے میں پوری تفصیل و تشریح سے کام نہیں لیا بلکہ ان چیزوں کو مجمل و مبہم طریقہ پر بیان کیا گیاہے، قرآن مجید کا بہت سا حصہ شرح کا محتاج ہے اور خدا نے پچھلے دورمیں متکلمین کو یہ توفیق دی کہ وہ اس کی شرح و تفصیل کریں اور عقائد و حقائق دینی کو مفصل و مدلل طریقہ پر امت کا سامنے پیش کریں۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کو بلاغِ مبین کا حکم تھا آپ نے ہر اس چیز کی تفصیل و تشریح کی جس کی تفصیل و تشریح دین کے لئے ضروری تھی۔ عقائد و اصولِ دین کی بنیادیں اور خدا کی ذات و صفات جس کے بغیر معرفت اور انسان کی سعادت و نجات ممکن نہیں’ کیسےمجمل و مبہم چھوڑے جا سکتے تھے۔ جس کتاب کےسمجھنے اور سمجھ کر پڑھنے اور اس پر غور و تدبّر کی جابجا دعوت دی گئی ہے وہ اس اجمال و ابہام کی حالت میں کیسے چھوڑی جا سکتی تھی؟ وہ لکھتے ہیں:-
” رسول نے تبلیغ کا حق ادا کیا اور مکمل و واضح طریقہ پر خدا کی بات پہنچائی اور اس کے مراد و منشاء کو واضح کیا۔ قرآن و حدیث میں اگر کوئی لفظ ایسا ہے جس کے ظاہری معنی نہیں لئے جا سکتے تو یہ ضروری بات ہے کہ رسول نے دوسرے لفظوں سے اس کے معنی و مراد کی تعیین کی۔ یہ ممکن نہیں کی آپ ایسے لفظ بولیں جس کا ظاہری مفہوم ومدلول باطل ہواورآپ اُس کی صحیح مراد بیان نہ کریں اور یہ بات بھی کسی طرح عقل میں نہیں آتی کہ آپ لوگوں سے کلام کے اس مطلب کے سمجھنے کا مطالبہ کریں جس کی آپ نے ان سے تشریح نہ کی ہو اور جس کی رہنمائی نہ فرمائی ہو محض اس وجہ سے کہ لوگ اس کو اپنی عقل سے سمجھ سکتے ہیں۔ یہ حقیقت میں اس رسول پر بہت بڑا اعتراض ہے جس نےخدا کی بات بے کم و کاست پہنچائی۔ “( حصہ سوم ص۱۰)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:-
” اللہ تعالٰے نے رسول کو بلاغ مبین کا حکم دیااور آپ سے بڑھ کر اپنے رب کا کوئی فرمانبردار اور تابعدار نہیں تھا تو یہ ضروری بات ہے کہ آپ نے یہ بلاغ مبین پہنچایا۔ اس بلاغ مبین کے ساتھ آپ کے بیان میں التباس و تلبیس نہیں ہو سکتی۔ باقی جن آیات کے متعلق قرآن مجید میں کیا گیا ہے کہ متشابہات ہیں جن کی تاویل اللہ تعالٰے کے سوا کوئی نہیں جان سکتا تو یہاں تاویل سے مراد تفسیر نہیں بلکہ ان کی حقیقت ان کے وقوع کی شکل اور ان کا مال ہے۔”(حصہ اول ص۱۶۷ )
امام ابن تیمیہ نے اپنی مختلف تصنیفات میں تفصیل کے ساتھ اس بات کو ثابت کیا ہے کہ تاویل کے تین معنی ہیں ایک اصطلاح قرآنی جس سے مراد حقیقت و مآل ہے۔ ایک اصطلاح متقدمین جس سے مراد تفسیر ہے اور ایک اصطلاح متاخرین و متکلمین جس سے مراد کسی لفظ کے وہ معنی مراد لینا جو ظاہری طور پر نہ نکلتے ہوں کسی خاص وجہ سے۔
الہیات کے باب میں منطقی استدلال کی ضرورت اور ابن تیمیہ ؒ
امام ابن تیمیہ کتاب “النبوات” میں ایک جگہ لکھتے ہیں:” امام رازیؒ نے آخر عمر میں کھلے طریقہ پر اعتراف کیا کہ میں نے کلامی طریقوں اور فلسفیانہ مناہج پر بہت غور کیا آخر میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان سے نہ کسی بیمار کی شفا ہوتی ہے نہ کسی پیاسے کی پیاس بجھتی ہے، میں نے سب سے قریب تر راستہ قرآن کے راستہ کو پایا، نفی کے بارے میں ذرا اس آیت کو پڑھو “لَيْسَ کَمِثْلِهِ شَيْءٌ” (اس جیسا کوئی نہیں) ” “ولا یحیطون بہ علما “( لوگوں کا علم اللہ تعالیٰ کا احادہ اور ادراک نہیں کرسکتا) اور اثبات میں ان آیات کو پیشِ نظر رکھو ” الرَّحْمَـٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَىٰ”( وہ بڑی رحمت والا عرش پر استوا فرمائے ہوئے ہے) ” اِلَی٘ہِ یَص٘عُدُ اَل٘کَلِمُ الطَّیِّبُ”( اس کی طرف پاک کلمات بلند ہوتے ہیں) ” أَأَمِنتُم مَّن فِي السَّمَاءِ”( کیا تم آسمان والے کی اس بات سے بےخوف ہو بیٹھے ہو ) آخر میں وہ کہتے ہیں کہ جو میری طرح تجربہ کرے گا وہ میری ہی طرح اس نتیجہ پر پہونچے گا، اسی طرح سے غزالی اور ابنِ عقیل نے بھی اسی سے ملتی جلتی باتیں کہی ہیں، اور یہی حقیقت ہے۔”( النبوات ص۱۴۸)
ابن تیمیہ بعض متکلمین کی اس کمزوری کا بھی اظہار کرتے ہیں کہ بعض اوقات ان کے سوالات و شہبات بڑے طاقتور اورجوابات نسبتاً کمزور ہوتے ہیں، ان کےنزدیک اس سے ان لوگوں کو بعض اوقات بڑا نقصان پہنچتا ہے، جو ان کو اسلام کا وکیل و ترجمان سمجھتے ہیں، اور جن کا مطالعہ انہی کی کتابوں تک محدود ہے، وہ لکھتے ہیں:-
“جب متکلمین نبوت کےبارے میں بحث کرتے ہیں تو اس پرایسے سوالات وارد کرتے ہیں جو بڑے قوی اور عام فہم ہوتے ہیں اور جب جواب دینے پر آتے ہیں تو جوابات کمزور نظر آتے ہیں ہم اس کی مثالیں بھی دے چکے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو شخص ان کتابوں سے علم، ایمان اور ہدایت حاصل کرنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ یہی اسلام کے حامی اور اس کی طرف سے وکیل اور مناظر ہیں اور انہی نے اس کو عقلی دلائل سے ثابت کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے پھر اس کو نبوت کے ثبوت میں ان کی کتابوں میں تشفی بخش دلائل نہیں ملتے تو اس کے عقیدہ میں کچھ تذبذب اور تزلزل ہی پیدا ہوتا ہے اس سے ایمان و علم کا راستہ بند ہوگیا اور نفاق و جہل کا راستہ کھل گیا خصوصاً ان لوگوں کے لئےجن کے معلومات متکلمین ہی کے دلائل تک محدود ہیں۔”( النبوات ص۲۴۰)
ان کے نزدیک متکلمین و فلاسفہ نے ایک ہی طرح کی غلطی کا ارتکاب کیا اور تمام اختلافات کے باوجود ان کا طریقہ کار ایک ہے ان دونوں گروہوں کی غلطی اور کمزوری یہ ہے کہ انھوں نے قیاس سے اس چیز کو حاصل کرنا چاہا جو قیاس سے حاصل نہیں ہو سکتی اور فطرت و نبوت دونوں سے کشمکش اور زور آزمائی کی، اس لئے دونوں کی تحقیقات میں غلطیاں زیادہ اور نفع کم ہے۔( نقض المنطق ص۱۶۲)
متکلمین و فلاسفہ کے طرزِ استدلال اور دلائل کے متعلق ان کی رائے یہ ہے کہ اس میں غیرضروری تطویل اور تکلفات ہیں، جن حقائق اور مقاصد کو ان متکلمین نے ان طول طویل دلائل و مقدمات سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ اس سے زیادہ آسانی سے اختصار اور فطرت کے مطابق ثابت کئے جاسکتے ہیں، فلاسفہ و متکلمین نے ان کے ثابت کرنے کے لئےناحق طول طویل اور پیچدار راستہ اختیار کیا۔وہ اپنے کسی پیشرو کا مقولہ لکھتے ہوئے اس کی مثال دیتے ہیں ” کسی شخص سے پوچھا گیا کہ تمہارے کان کہاں ہیں، اس نے اپنا دایاں ہاتھ سر پر سے اٹھا کر بائیں کان تک بمشکل پہونچایا، اور کہا کہ یہ، حالانکہ سیدھے طریقے پر اپنے دائیں ہاتھ سے دائیں کان یا بائیں کان کی طرف اشارہ کرسکتا تھا” اس موقع پر انھوں نے کسی شاعر کا شعر لکھا ہے؎
اقام یعمل ایماً رویّتہ وشبَّہ ال٘مَاء بعد الجھد بالماء
” بہت دن تک آدمی غور کرتا رہا، اور اپنے دماغ پر زور دیتا رہا، بڑی محنت کے بعد پھر پانی کی تعریف یہ کی کہ وہ پانی ہے۔”
ابن تیمیہ کو متکلمین کی اس بات سے اختلاف ہے کہ ان مقاصد کو ثابت کرنے کے لئے وہی طریقۂ استدلال اور وہی مقدمات ہیں جو ان متکلمین نے اختیار کئے ہیں اور ان کے لئے اور کوئی راستہ نہیں ہے، وہ کہتے ہیں کہ بعض اوقات یہ طریقہ استدلال اور یہ مقدمات تو صحیح ہوتے ہیں لیکن یہ کہنا غلط ہوتا ہے کہ ان کے علاوہ کوئی اور طریقہ استدلال، اور دوسرے مقدمات نہیں ہیں۔اس لئے کہ مطالعہ اور تجربہ سےمعلوم ہوتا ہے کہ جس چیز کا علم انسانوں کے لئے زیادہ ضروری ہوتا ہے، اللہ تعالٰی اس کے دلائل اور اس کی معرفت کو بھی اسی طرح آسان اور عام بنا دیتا ہے۔ اس بنا پر صانع کے اثبات اور اس کی توحید کےدلائل اور نبوت کےعلامات و دلائل بہت کثیر ہیں اور لوگوں کے لئے ان کی معرفت کے ذرائع اور راستے بھی بہت کثیر ہیں، ان متکلمانہ دلائل اور مقدمات کی اکثر لوگوں کو سرے سے ضرورت ہی نہیں اور ضرورت بھی عام طور پر ان ہی لوگوں کو ہوتی ہے جو ان کے علاوہ اور کچھ نہیں جانتے یا دوسرے طریقوں سے اعراض کرتے ہیں۔( الرد علی المنطقیین ص۲۵۵)
اس کے باوجود ان (ابن تیمیہ ؒ) کو اعتراف ہے کہ بعض لوگوں کو ذہنی ساخت اور افتاد طبع ایسی ہوتی ہے کہ ان کو اس طرزِ استدلال اور ان مقدمات کلامیہ اور منطقیہ سے فائدہ پہنچتا ہے، اور اس کے بغیر ان کی تشفی نہیں ہوتی، لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ علم و یقین ان طریقوں پرمنحصر ہے بلکہ یہ ایک دماغی کیفیت ہے جو خاص ماحول و تربیت اور نفسیاتی احوال کی وجہ سے پیدا ہوجاتی ہے، وہ لکھتے ہیں:-
” بعض لوگوں کا حال یہ ہے کہ طریقہ استدلال جس قدردقیق اورخفی ہوتا ہے اور اس کےمقدمات جتنے کثیر اور طویل ہوتے ہیں، اسی قدر اس کے لئے نفع بخش ہوتے ہیں اس لئے کہ اس کو باریک امور میں طویل غور و فکر کی عادت پڑ چکی ہوتی ہے۔جب کوئی دلیل قلیل المقدمات ہوتی ہے یا بہت واضح اور جلی ہوتی ہے تو اس کے نفس کو اس سےخوشی اور تسکین نہیں ہوتی، ایسے لوگوں کےمقابلہ میں کلامی اور منطقی طریقہ استدلال کو استعمال کرنے میں مضائقہ نہیں۔ اس لئے نہیں کہ مطلوب کا علم اس پر موقوف ہے بلکہ اس لئے کہ یہ اس حال کے مناسب ہے کیونکہ اس طرح کے لوگوں کو جب ایسی چیزیں معلوم ہوتی ہیں جو عوام کو معلوم ہیں، اور غیر ذہین لوگ بھی ان کو سمجھ سکتے ہیں تو ان کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی خاص بات نہیں ہوئی اور ان کو کوئی علمی امتیاز حاصل نہیں ہوا۔وہ طبعی طور پر ایسے دقیق اور غامض مسائل کو جاننا چاہتے ہیں جو کثیر المقدمات ہوں، ایسے لوگوں کے ساتھ بیشک یہ راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے۔”( الرد علی المنطقیین ص۲۵۵)
امام اپنی کتابوں میں بڑے شدّ و مد سے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ مقاصدِ شریعت، حقائقِ غیبیہ اور حقائقِ دینیہ کے اثبات کے لئے سب سے بہتر اور طاقتور اور دلنشیں اسلوب و طرزاستدلال قرآن مجید کا ہے، وہ لکھتےہیں:-
” اہل کلام و فلسفہ نے مطالب الٰہیہ پر جو دلائلِ عقلی قائم کئے ہیں، ان کےمقابلہ میں قرآن مجید کےدلائل کہیں زیادہ مکمل اور بلیغ و موثر ہیں، پھر اس کےساتھ وہ ان بڑے بڑے مغالطوں سے بھی پاک و صاف ہیں،جو ان فلاسفہ و متکلمین کے دلائل میں پائے جاتے ہیں۔”( الرد علی المنطقیین ص۳۲۱)
ایک دوسری جگہ لکھتے ہیں:-
“قرآن مجید میں جو عقلی اور برہانی قیاسات اور ربوبیت، الہٰیت، وحدانیت، خدا کے علم و قدرت، امکان معاد وغیرہ جیسے مطالبِ عالیہ اور معارفِ الہٰیہ کے جو دلائل مذکور ہیں، وہ شریف ترین علوم و معارف ہیں، جس سے نفوس انسانی کی تکمیل ہوتی ہے۔”( ایضاًص۱۵۰ )
٭ذات و صفات الہی کے بارے میں قرآن اور فلسفہ کا بنیادی و اصولی فرق
ایک دوسری جگہ اللہ تعالٰی کےذات و صفات کے بارے میں قرآن مجید اور فلسفہ کا ایک اصولی فرق بیان کرتے ہوئے انھوں نے یہ اہم علمی نکتہ لکھا ہے کہ:
“قرآن محید جہاں صفاتِ الہٰی ثابت کرتا ہے، وہاں تفصیل سے کام لیتا ہے اور صرف تمثیل کی نفی پر اقتصار کرتا ہے (لیس کمثلہ شیُ) اور یہی انبیاء علیہم السلام کا طریقہ ہے کہ ان کے یہاں اثبات مفصّل اور نفی مجمل ہے، اس کے بر خلاف ان کے حریفوں اور مخالفین (فلاسفہ یونان) کے یہاں سارا زور نفی پر صرف ہوتا ہے، اور اثبات سے وہ سرسری طور پر گذر جاتےہیں۔”( النبوات ص۱۵۳)
فلسفہ یونان کا پورا دفتر ابن تیمیہ کے اس نکتہ کی تصدیق کرتا ہے۔فلاسفہ نے نفی میں جس مبالغہ اور اہتمام سےکام لیا ہے اس نےخدا کے وجود کو محض ایک ذہنی تصور اور ایک مفلوج مجہول و مجبور ہستی بنا کر رکھ دیا ہے لیکن خدا کیا ہے؟اور کیسا ہے؟ اس بارے میں ان کے یہاں چند لفظوں اور فلسفیانہ اصطلاحات سے زیادہ کچھ نہیں ملتا، اس کا نتیجہ ہے کہ یونان کے اندر اور ان تمام حلقوں میں جو یونان کے فلسفہ کے زیر اثر رہے’ خدا سے کوئی حقیقی زندہ اور عملی تعلق نہیں رہا ہے ۔ اس لئے کہ اس حقیقی اور علمی، قلبی اور جذباتی تعلق کے لئے اسماء و صفات و افعال کی ضرورت ہے اور فلسفہ کوان کی نفی پر اصرار ہے۔دنیا کی پوری عقلی تاریخ میں کبھی انسان کو کسی ایسی ہستی سے قلبی تعلق اور وابستگی نہیں رہی ہےجس کی صفت و فعل کا اس کو کوئی علم نہ ہو۔ محبت، خوف، امید و رجاء، طلب و سوال سب کے لئے صفات کی ضرورت ہے اور وہ فلسفہ یونان میں بالکل منفی ہیں، اس لئے مورخین اخلاق و ادیان کا بیان ہے کہ اہلِ یونان کا تعلق نہ صرف خدا کے ساتھ بلکہ مذہب کے ساتھ بالکل سطحی اور برائےنام تھا اور اس میں کوئی روح اور گہرائی نہیں تھی۔امام ابن تیمیہ نے ایک جگہ پر صحیح لکھا ہے کہ ” لاکھوں نفی ایک اثبات کے قائم مقام نہیں ہو سکتے” واقعہ یہ ہےکہ نفی محض پر کسی مذہب اور زندگی کی عمارت نہیں کھڑی ہو سکتی اور غالباً مغرب میں فلسفہ یونان اور مشرق میں بودھ مذہب اسی وجہ سے ایک انسانی سوسائٹی پیدا کرنے میں ناکام رہے، جس کی عمارت خدا کے تصور اور عقیدہ پر قائم ہو اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ان دونوں فلسفہ کے حلقہ اثر میں ایک طرف بت پرستی اور دوسری طرف الحاد اور انکارِ خدا کا رجحان بہت جلدی دبے پاوں چلا آیا۔اس لئے کہ عوام کی تشفی ( جن کی فطرت میں عبادت اور خداپرستی کے جذبات ودیعت ہوتے ہیں) ایسے فلسفہ سے نہیں ہو سکتی جس میں سارا زور دماغی ورزش اور فلسفیانہ تصوّرات پر ہو اور قلب و دماغ کے لئے معرفت و محبت کی کوئی غذا فراہم نہ کی جائے۔
ان (ابن تیمیہ ؒ) کے نزدیک اس کا نتیجہ ہے کہ صحابہ کرام کو جو نبوت کے فیض یافتہ تھے،جو معرفت و علوم حاصل ہوئے وہ بڑے مکمل اور گہرے ہیں اور ان میں تکلف کا نام و نشان نہیں ہے۔وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور متاخرین کا جو فلسفہ اور علمِ کلام سے متاثر تھے، موازنہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:-
“صحابہ کرام باوجود اس کے کہ علم نافع اور عمل صالح کے اعتبار سے کامل ترین خلائق تھے، تکلفات سے بالکل پاک و بری تھے۔ کسی صحابی کی زبان سے ایک یا دو لفظ حکمت و معارف کے نکل جاتے ہیں اور ان دو لفظوں کے اثر و برکت سے پوری کی پوری قوم کو ہدایت نصیب ہو جاتی ہے، یہ اس امت پر اللہ تعالٰی کا انعام ہے۔اس کے مقابلہ میں دوسرے لوگ صفحے کے صفحے ان تکلفات و شطحات سے بھر دیتے ہیں جو محض غیر ضروری مباحث اور نوایجاد آراء ونظریات ہیں۔( نقض المنطق ص۱۱۴)
غرض یہ کہ امام ابن تیمیہ نے اس بات پر پورا زور دیا ہے کی عقائد کا ماخذ وحی و نبوت اور کتاب و سنت کو بنایا جائے انہی کے نصوص کو اس بارے میں معیار کا درجہ دیا جائے۔ انھوں نے ساری عمر اس کی دعوت دی او مشکل سے ان کی کوئی تصنیف اس سے خالی نظر آئے گی۔ اس طرح انھوں نے فکر اسلامی کو طاقت و تازگی بخشی جو فلسفہ و علم کلام اور عجمی روح سے بہت کچھ مجروح و مضمحل ہوگئی تھی۔
استفادہ تحریر :تحریک دعوت و عزیمت از مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ