بات کرنا سب سے مشکل فن ہے اورتمام عمر سیکھتے رہنا پڑتا ہے۔مبالغے اور مغالطے سے پاک گفتگو کا صرف تصور ہی موجود ہے۔عقل کا کام ہے آپ کی مرضی کے حق میں جواز ڈھونڈ ڈھونڈ کرلانا، جو استدلال کی بنیاد بنتے ہیں۔سیدھے سیدھے الفاظ میں کی گئی بات کو لہجے کے نشیب و فرازبگاڑ دیتے ہیں۔ وہ بات جسے قرانِ حکیم “قولِ سدید” کہتاہے، اُس کا عملی اطلاق ماسوائے منطق کے کہیں دیکھنا قریب قریب ناممکن ہے۔منطق کسی بات کی صداقت کو پرکھنے کے نہایت معیاری آلات فراہم کرتی ہے۔ مباحث میں قولِ سدید یعنی سٹریٹ سٹیٹمنٹ سے ہی نتائج تک پہنچا جاسکتاہے۔ بحث ہمیشہ اُسی وقت جنم لیتی ہے جب کسی ایک تصور پر دو متضاد یا کم ازکم قدرے مختلف آرا سامنے آتی ہیں۔ بایں صورت کم ازکم دو فریقین کا وجود ناگزیر ہے۔ دونوں فریقین جو دو گروہوں کی صورت بھی ہوسکتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اگر انسان ہیں تو پھر اُن کے جذبات (Emotions) کا اُن کے دلائل میں شامل ہوجانا بھی لازمی اَمر ہے۔ اور یوں قضیۂ زیر ِ بحث کا کوئی نتیجہ برآمد ہونا اور بھی مشکل ہوجاتاہے۔
اسی لیے ارسطو نے منطق کا وجود لازمی سمجھا۔ یہ ایک ٹُول ہے جو سٹیٹمنٹس کی جانچ پڑتال کرتا اور ان میں موجود جذباتیت یا گمراہ تفکر کا اِبطال کرتاہے۔ بحث کے فریقین جب ذاتی کیفیات کی زد میں ہوتے ہیں تو انہیں عام طور پر مقصدِ بحث یکسر بھول جاتاہے اور بحث جیت جانے کی تمنّا انہیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مقصد یعنی حتمی نتیجہ کے حصول سے بہت دور لے جاتی ہے۔ منطق کو اگر بطور ِ خاص علمی گفتگوؤں اور مباحث میں بطور ایک “ریفری” کے جگہ دی جائے تو سطحی قسم کی تفاصیل اور الجھنوں سے بچا جاسکتاہے۔ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ منطق کے بنیادی اصول آتے ہوں۔ خاص طور پر منطقی مغالطوں سے بہت اچھی واقفیت ضروری ہے۔
منطقی مغالطے دو طرح کے ہوتے ہیں۔
۱۔ رسمی (فارمل) مغالطے
۲۔ غیر رسمی (انفارمل) مغالطے
رسمی مغالطوں کی بعض مثالیں میں نے اس سے قبل ایک مضمون “منطقی استدلال کی اہمیت” میں دی ہیں۔ لیکن انفارمل فلاسیز یعنی غیر رسمی مغالطوں کی ضرورت مجھے گزشتہ چند دن سے بڑی شدت کے ساتھ محسوس ہورہی تھی۔ چنانچہ ایک مختصر فہرست اس ضمن میں پیش ِ خدمت ہے۔
۱۔ ایڈ ہامی نِم (Ad hominem)
اس مغالطے کی پہچان یہ ہے کہ اس میں، مقدمہ میں موجود قضیہ کی بجائے براہِ راست مقدمہ پیش کرنے والے کے کردار پر حملہ کردیا جاتاہے۔ ایڈ ہامی نِم مغالطے کی درج ذیل اقسام ہیں۔
الف: ایبیوزو (Abusive)
ایبیوزو ایڈہامی نِم میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مقدمہ پیش کرنے والے کے رویّے اور کردار کو براہِ راست ملعون ٹھہرایا جاتاہے۔
مثال: “شاہد مسجد میں تو کبھی نظر نہیں آیا اور بات کرتاہے خدا کے وجود اور تخلیق ِ آدم جیسے موضوعات پر؟” اس سٹیٹمنٹ میں شاہد کا مسجد میں نہ جانا ایک الگ عمل ہے اور خدا کے وجودو عدم پر اس کی رائےایک اور عمل ہے۔ ان دونوں کو آپس میں جوڑ کر نتیجہ اخذ کرنا مغالطہ ہے۔
ب: ٹُو کیو کیو (Tu quoque)
ٹُو کیو کیو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مغالطے میں “تم بھی” کا تاثر پایا جاتاہے۔ یعنی اگر حامد نے علی سے کہا کہ تمہاری بات میں مغالطہ ہے تو علی نے جواباً وہی بات کہہ دی کہ نہیں تمہاری بات میں مغالطہ ہے۔ عام طور پر بچے اس مغالطے سے لبریز جھگڑا کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ “تم جھوٹے ہو!۔۔۔۔۔ نہیں تم جھوٹے ہو”۔ یہ ایک مغالطہ ہے کیونکہ ایسا کہہ دینے سے پہلا دعویٰ غلط ثابت نہیں ہوجاتا۔ اس کی بہترین مثالوں میں یہ آتا ہے کہ جب ہم کسی کو کسی کام سے منع کریں اور وہ جواباً یہ کہہ دے کہ تم خود تو باز نہیں آتے وہی کام کرنے سے اور ہمیں منع کرتے ہو؟ مغالطہ اس لیے ہے کہ منع کرنے کا عمل اپنی جگہ الگ قضیہ ہے اور مقدمہ پیش کرنے والے کا اپنا عمل ایک بالکل الگ معاملہ ہے۔
ج: واقعاتی (Circumstantial)
واقعاتی یا سرکمسٹینشل ایڈہامی نِم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مقدمہ پیش کرنے والے کے حالات و واقعات کی وجہ سے اُسے اِس قابل ہی نہیں سمجھا جاتا کہ وہ مقدمہ پیش کرنے کا اہل ہو۔ حالانکہ اُس کے حالات و واقعات کا موجود مقدمہ کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہونا چاہیے تھا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی یہ کہے کہ “چور نے کبھی تسلیم کیا کہ وہ چور ہے؟”۔۔۔۔۔۔۔۔ یوں کہنا مغالطہ آمیز سٹیٹمنٹ ہے۔ یا یوں کہنا کہ فلاں شخص چونکہ پہلے سے اِس موضوع پر ایک مؤقف اختیار کرچکا ہے لہذا اس سے یہ توقع ہی عبث ہے کہ وہ ہمارے حق میں بات کریگا۔ حالانکہ ضروری تو نہیں کہ وہ اگر پہلے ایک مؤقف کا اظہار کرچکا ہے تو اب بھی اسی پر ڈٹا رہیگا۔ مثلاً الطاف حسین کہتاہے، “پنجابیوں نے ہمیشہ ہمارے حقوق کو غصب کیا”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سٹیٹمنٹ کو دیکھتے ہوئے ہم اگر فوراً کہہ دیتے ہیں کہ”الطاف حسین تو مہاجروں کا لیڈر ہے ۔۔۔ اس نے تو یہی کہناہے چنانچہ اس کا آرگومنٹ غلط ہے”۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سرکمسٹینشل ایڈہامی نِم کہلائے گا۔
د: گلٹ بائی ایسویسی ایشن
ایک شخص جو مقدمہ پیش کررہا ہے اس کے خیال کی مشابہت کسی اور شخص یا گروہ کے ساتھ پائی جائے اور جس کے ساتھ پائی جائے وہ شخص یا گروہ مقدمہ سننے والے کا ناپسندیدہ شخص یا گروہ ہو تو “گلٹ بائی ایسویسی ایشن ایڈہامی نِم مغالطہ” وقوع پذیر ہوجاتاہے۔ مثال کے طور پر علی کا خیال اِس لیے غلط ہے کیونکہ ایسا ہی خیال فُلاں شخص یا گروہ کا تھا اور وہ شخص یا گروہ تو بدکردار ہے۔
۔۔۔
۲۔ اپیل ٹُو فورس (Appeal to force)
یہ مغالطہ اس وقت پیش آتا ہے جب دلیل دینےوالا دفاعی ہتھیار کے طور پر کوئی دھمکی دے دے تو اُس کی دلیل مغالطہ اپیل ٹُو فورس کہلاتی ہے۔ یہ پوشیدہ یا ظاہر ہر دو طرح کی ہوسکتی ہے۔دھمکی، جسمانی، ذہنی، نفسیاتی یا معاشرتی ہوسکتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایک شخص اپنے مقدمے کے دفاع میں کہتاہے کہ میرا مخالف بلاسفیمی کا مرتکب ہورہا ہے، یا کہ وہ اس کی بیوی کو بتادے گا یا یہ کہ وہ فلاں مذہب کا ہے سو فلاں فتنے کا خطرہ ہے۔
۔۔۔۔
۳۔ اپیل ٹُو پِٹی (Appeal to pity)
اس مغالطے میں دلیل دینے والا مقدمہ جیتنے کے لیے آس پاس موجود لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کرتاہے۔مثال کے طور پر ایک شخص کہتاہے کہ، چونکہ میں بیمار بھی ہوں اور دور سے بھی آیا ہوں تو میری بات کو درست مان لیا جائے۔ یا میں اکیلا ہوں اور غریب ہوں اس لیے میری بات کو مان لیاجائے۔ یاجج صاحب فلاں عورت بنک ڈکیتی میں ملوث نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ کمزور، بوڑھی اور بیمار ہے۔ایک عرصہ تک پاکستان پیپلز پارٹی کی انتخابی مہموں میں بھٹو خاندان کے شہدا کو ہر تقریر میں اپیل ٹو پِٹی کے طور پر پیش کرکے ووٹ مانگے جاتے رہے۔
۔۔۔
۴۔اپیل ٹُو پِیپل (Appeal to people)
اس مغالطے میں دلیل دینے والا اپنےآس پاس موجود لوگوں کی خواہشات، پسند ناپسند، عقائد یا مزاج کا استحصال کرتاہے۔ اس مغالطے کی دو اقسام ہیں۔
الف: اپیل ٹو پیپل ڈائریکٹ
اس قسم میں دلیل دینے والا ایک مجمع کی خواہشات یا پسند نا پسند کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے مقدمہ کے بیان کو ترتیب دیتاہے۔ مثال کے طور پر، “سامعین! پورے پاکستان کا ہر شہری آزادی کے ساتھ ہر کہیں سگریٹ پی سکتاہے تو ہم سٹوڈینٹس کالج میں کیوں نہیں پی سکتے؟
ب: بینڈ ویگن
اپیل ٹُو پیپل کی دوسری قسم کو اِن ڈائریکٹ یا بینڈ ویگن کہا جاتاہے۔ اس کے مطابق سب لوگ اگر کررہے ہیں تو میں کیوں نہیں کرسکتا؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔ کی دلیل پر عمارت قائم کی جاتی ہے۔ ہرکوئی قانون توڑ رہا ہےمیں کون سا اکیلا توڑ رہا ہوں۔
۔۔
۵۔ ایکسیڈنٹ
جب کسی عمومی اصول کا اطلاق کسی ایسے انفرادی معاملے (کیس) پر کیا جائے جو اس عمومی اصول کے تحت نہ آتاہو۔ مثال کے طور پر رات کو جلد سونا فطرت کا تقاضا ہے فلہٰذا علی کا دو بجے رات تک پڑھتے رہنا قطعاً درست عمل نہیں۔
۔۔
۶۔ سٹرامین (Straw-man)
یہ مغالطہ اس وقت وقوع پذیر ہوتاہے جب دلیل دینے والا آرگومنٹ کی بنیادیں اکھیڑ کر اسےتباہ کردیتاہے ۔ مثال کے طور پر” وزیر ِ دفاع کا یہ بیان کہ ہمیں نیوکلیئر پروگرام میں پیسہ نہیں لگانا چاہیے صاف بتا رہا ہے کہ وہ ہمیں دفاعی قوت سےمحروم کرنا چاہتے ہیں”۔
۷۔ مسنگ دہ پوائنٹ (Missing the point)
جب کسی قضیہ سے بالکل سیدھا اور سامنے کا نتیجہ برآمد ہورہا ہو لیکن اس سے ملتا جلتا ایک اور نتیجہ جو کہ غلط ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ بھی برآمد ہورہا ہو اور ثانی الذکر نتیجہ اخذ کرلیا جائے۔ مثال کے طور ، “آج کل زیادہ لوگ فیس بک کی طرف آرہے ہیں اسی لیے بدتہذیبی بڑھتی جارہی ہے”۔
۔۔
۸۔ ریڈ ہیرنگ (Red herring)
اس مغالطے میں دلیل دینے والا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مدمقابل کی توجہ مقدمہ سے ملتے جلتے مسائل کی طرف مبذول کرکے اصل مقدمہ سے ہٹا دیتاہے۔مثال کے طور پر، “ماحولیات والے زمین کو جنت بنانےکی بات کرتے ہیں۔ ہمیں کیا کرنی ہے جنت۔ آدم و حوا تک وہاں خوش نہیں تھے۔خوش ہوتے تو نکلتے بھلا؟”
ادریس آزاد
Ammar Hussain
June 28, 2021 at 8:58 amCritical thinking apny jo byan kya hn bht bhtreen mujhy smjhny mn asani hogye pr agr ap. Inki. Misal thode aur dety to aur smjh ata