قدیم زمانہ میں ساری دنیا میں شرک اور توہم پرستی کا غلبہ تھا اور یہی شرک اور توہم پرستی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی تھی ۔ اسلام کے ذریعہ توحید کا جو انقلاب آیا اس نے تاریخ میں پہلی بار شرک اور توہم پرستی کے غلبہ کو عملاْ ختم کیا۔ اس کے بعد عین اس کے فطری نتیجہ کے طور پر انسانی تاریخ ترقی کے راستہ پر چل پڑی۔ قدیم زمانہ میں بعض ملکوں میں کچھ تخلیقی ذہن پیدا ہوئے۔ انھوں نے ماحول سے الگ ہو کر سوچا۔ مگر ماحول کی عدم مساعدت بلکہ مخالفت کی وجہ سے ان کی کوشش آگے نہ بڑھ سکی۔ ان کے علم کی کلی پھول بننے سے پہلے اپنی شاخ پر مرجھا کر رہ گئی۔ اسلامی انقلاب نے جب اس کے موفق ماحول پیدا کیا تو علم کا وہ سیلاب پوری تیزی سے بہہ پڑا جو ہزاروں سال سے توہمات کے بند کے پیچھے رکا ہوا تھا۔
٭اسلام سے پہلے ترقی کے راستے میں موجود سب سے بڑی رکاوٹ:
مذاہب کا بنیادی تخیل تقدس (Holiness) کا عقیدہ ہے۔ تقدس کا یہ جذبہ بجائے خود فطری جذبہ ہے مگر جب ایک اللہ کے سوا کسی اور کو مقدس مانا جائے تو یہ اصل فطری جذبہ کا غلط استعمال ہوتا ہے۔ یہی ہر قسم کی برائیوں کی اصل جڑ ہے۔ انسان جب غیر مقدس کو مقدس مانتا ہے تو وہ ہر قسم کی ترقی کا دروازہ اپنے اوپر بند کر لیتا ہے۔ غیر مقدس کو مقدس ماننے کی دو صورتیں ہیں۔ ایک ہے فطرت کو مقدس ماننا اور دوسرا ہے انسانوں میں سے کسی کو بلاوجہ مقدس ماننا۔ یہ دونوں ہی برائیاں قدیم تاریخ میں ساری دنیا میں کسی نہ کسی شکل میں پائی جا رہی تھیں اور یہی سب سے بڑا سبب ہے جس نے انسان کو سوچ کو غیر علمی سوچ بنا رکھا تھا۔
تقدس کا معاملہ انسان کی گہری نفسیات سے تعلق رکھتا ہے اور اس قسم کی نفسیات کو کسی ایک لفظ میں بیان کرنا انتہائی دشوار ہے۔ گہری انسانی کیفیات کے لئے جو الفاط بولے جاتے ہیں وہ ہمیشہ علامتی ہوتے ہیں نہ کہ حقیقی ۔ اصولاً میں اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تقدس کا عقیدہ مذہب کا خلاصہ ہے البتہ یہ تقدس حقیقی ہے نہ کہ موجودہ علماء مذاہب کے خیال کے مطابق محض فرضی۔ اصل یہ ہے کہ یہ ایک فطری جذبہ ہے جو ہر آدمی کے اندر پیدائشی طور پر موجود ہوتا ہے۔ آدمی عین اپنے اندرونی جذبہ کے تحت چاہتا ہے کہ کسی کو مقدس مان کر اس کے آگے جھک جائے۔ اس جذبہ کے اظہار کی دو صورتیں ہیں۔ ایک موحدانہ اظہار اور دوسرا مشرکانہ اظہار۔ آدمی اگر ایک خدا کو مقدس مانے اور اس کو اپنا معبود بنا کر اس کی پرستش کرے تو اس نے ایک صحیح جذبہ کو صحیح مقام پر استعمال کیا۔ یہ دراصل خدا ہی ہے جو فی الواقع تقدس کی صفت رکھتا ہے۔ اس لئے خدا کو مقدس ماننا ایک حقیقت واقعہ کا اعتراف کرنا ہے۔ اگر انسان ایسا کرتا ہے کہ دنیا میں جو چیز بھی اس کو بظاہر نمایاں دکھائی دے یا اپنے سے مختلف نظر آئے اس کو وہ مقدس فرض کر لیتا ہے۔ اور اس کی پرستش اور احترام میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ یہ ایک صحیح جذبہ کا غلط استعمال ہے۔ یہ گویا جو کچھ خدا کو دینا چاہیے وہ غیر خدا کو دینا ہے۔ مذہب کی زبان میں اسی کانام شرک ہے۔ دوسرے لفظوں میں ہم اس کو توہم پرستی (Superstition) کہہ سکتے ہیں۔
خدا کے سوا دوسری چیزوں کو مقدس ماننے کی یہی غلطی تھی جو قدیم زمانہ میں سائنس کے ظہور کو ہزاروں برس تک روکے رہی۔ صرف خدا کو مقدس مانا جائے تو اس سے کوئی علمی اور فکری مسئلہ پیدا نہیں ہوتا کیونکہ خدا ہمارے دائرہ اختیار سے باہر کی چیز ہے ۔ مگر دوسری چیزیں جن کو مقدس مان لیا جاتا ہے وہ ہمارے دائرہ اختیار کی چیزیں ہیں۔ یہ وہی چیزیں ہیں جن کی تسخیر سے حقیقتہً سائنس کا آغاز ہوتا ہے۔ مگر جب ان کو مقدس مان لیا جائے تو وہ قابل تسخیر چیز کے خانہ سے نکل کر قابل عبادت چیز کے خانہ میں چلی جاتی ہیں۔ خدا کے سوا اس دنیا میں جو چیزیں ہیں وہ سب کی سب مخلوقات ہیں۔ وہ وہی ہیں جن کو عام طور پر مظاہر فطرت کہا جاتاہے۔ یہی مظاہر فطرت سائنسی عمل کی زمین ہیں۔ ان مظاہر فطرت کا مطالعہ کرنا اور ان پر کنٹرول حاصل کرنا، اسی کا دوسرا نام سائنس ہے۔
اب چونکہ قدیم زمانہ میں تمام قوموں نے مظاہر فطرت کو مقدس سمجھ لیا تھا اس لئے وہ ان کے لئے پرستش کا موضوع بن گیا وہ ان کے لئے تسخیر کا موضوع نہ بن سکا۔ یہی وہ فکری گمراہی ہے جو قدیم زمانہ میں سائنسی تحقیق کے عمل کو ہزاروں سال تک روکے رہی ۔ ترقی کا یہ دروازہ صرف اس وقت کھلا جب کہ توحید کے انقلاب نے انسانی ذہن کو بدلا اور مظاہر فطرت کو تقدس کے مقام سے ہٹا دیا۔
اس کی ایک مثال نظام شمسی کی گردش کا معاملہ ہے۔ اس معاملہ میں صحیح نقطہ نظر کی حوصلہ افزائی پہلی بار اسلامی انقلاب کے بعد ہوئی۔ اور پھر مزید ترقی کرتے ہوئے وہ جدید دریافت تک پہنچی۔ قدیم یونان میں ایک عالم فلکیات گزرا ہے جس کو ارسٹارکس (Aristarchus of Samos) کہا جاتا ہے۔ اس کا انتقال 270 ق م میں ہوا۔ اس نے شمسی نظام کا مطالعہ کیا اور غالباً پہلی بار آفتاب مرکزی (Heliocentric) نظریہ پیش کیا ۔ یعنی یہ کہ سورج مرکز میں ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ تاہم اس کے نظریہ کو لوگوں کے درمیان مقبولیت حاصل نہ ہو سکی۔ اس کے بعد بطلیموس (Ptolemy) پیدا ہوا۔ اس کا زمانہ دوسری صدی عیسوی ہے۔ بطلیموس نے اس کے برعکس زمین مرکزی (Geocentric) نظریہ پیش کیا۔ یعنی یہ کہ زمین مرکز میں ہے اور سورج اس کے گرد گھوم رہا ہے۔ زمینی مرکزی نظریہ مسیحی حضرات کو اپنے اس عقیدہ کے عین مطابق محسوس ہوا جو انھوں نے حضرت مسیح کے بعد بنایا تھا کہ حضرت میسح چونکہ زمین پر آئے ہیں اس لیے زمین مقدس اور مرکز کائنات ہے اور جس کی تصدیق آخری طور پر 325ء میں نیقیا (Nicaea) کی کونسل میں ہوئی۔ قسطنطین اعظم (280-337) کے مسیحیت قبول کرنے کے بعد عیسائیت سارے رومی علاقہ میں پھیل گئی اور اس کو زبردست اقتدار حاصل ہو گیا۔ اب مسیحی حضرات نے بطلیموس کے نظریہ کی خصوصی سر پرستی کی اور ارسٹارکس کے نظریہ کو مکمل طور پر تاریکی میں ڈال دیا۔ انسائیکلوپیڈیا برٹانیکا(1984) کے الفاظ میں اس کے بعد اس نقشہ کائنات میں مزید غورو فکر کا موقع باقی نہ رہا۔ 17 ویں صدی عیسوی کے آخر تک عیسائی دنیا میں تقریباً ہر جگہ یہی نظریہ پڑھایا جاتا رہا:
There was no further scope for cosmology in the model, which continued to be taught and used almost everywhere until the 17th century (18/1013).
مگر مسلمان جو غیر مقدس کو مقدس سمجھنے کی غلطی میں مبتلا نہیں تھے انھوں نے اس معاملہ پر کھلے ذہن کے ساتھ خالص علمی انداز میں غور کیا۔ انھوں نے پایا کہ آفتاب مرکزی نظریہ زیادہ قرین عقل ہے۔ چنانچہ انھوں نے اس کو اختیار کر لیا۔
اسلام سے پہلے پوری معلوم تاریخ میں اس علمی آزادی کا وجود نہ تھا۔ علم کی ترقی کے لئے آزادانہ تحقیق کا ماحول انتہائی ضروری ہوتا ہے۔ قدیم زمانہ میں مختلف قسم کے خود ساختہ عقائد کی وجہ سے آزادانہ تحقیق کا ماحول باقی نہیں رہا تھا۔ بار بار ایسا ہوا کہ ایک ذہین اور صاحب علم آدمی غوروفکر کرتے ہوئے حقیقت تک پہنچا مگر جب اس نے اپنا خیال لوگوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اس کو اپنے توہماتی عقائد کے غیر موافق پا کر اس کے مخالف بلکہ دشمن بن گئے نتیجہ یہ ہوا کہ اس کی فکر مزید آگے نہ بڑھ سکی ۔چنانچہ قدیم مشرکانہ دور میں ساری دنیا میں جو ماحول تھا وہ توہماتی خیالات کے پھیلنے کے لئے موزوں تھا مگر وہ علمی اور سائنسی خیالات کی ترقی کے لئے بالکل ناموافق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ قدیم زمانہ میں کسی بھی ملک میں علم اور سائنس کی ترقی نہ ہوسکی۔اس زمانہ میں سائنسی غوروفکر کی بعض انفرادی مثالیں ملتی ہیں مگر یہ غور و فکر وقتی یا انفرادی واقعہ سے آگے نہ بڑھ سکا۔ ذہنی آزادی نہ ملنے کی وجہ سے ایسی ہر سوچ پیدا ہو کر ختم ہوتی رہی۔ یہ کام موثر طور پر صرف اس وقت شروع ہوا جب کہ اسلامی انقلاب نے قدیم مشرکانہ غلبہ کو ختم کر کے نیا موافق ماحول بنادیا۔
٭قدیم یونان
یونان یورپ کا ایک ملک ہے۔ قدیم زمانہ میں یہاں کئی اعلی سائنسی ذہن پیدا ہوئے۔ اس سلسلہ میں ایک نام ارشمیدس کا ہے۔ کہا جاتا ہیکہ اس نے ابتدائی سادہ
مشین مثلا چرخی ایجاد کیا۔ مگر عجیب بات ہے کہ یونان کے یہ سائنسی ذہن بجلی کی طرح وقتی طور پر چمکے اور پھر جلد ہی ختم ہوئے۔ وہ یونان کو وسیع تر یورپ کو سائنس اور صنعت کے دور میں داخل نہ کر سکے۔قدیم یونانی علم اور جدید سائنسی یورپ کے درمیان نہایت طویل علمی وقفہ پایا جاتا ہے ارشمیدس نے اپنی مشینی چرخی ۲۶۰ ق م میں ایجاد کی تھی اور جرمنی کے گوٹن برگ نے پہلا مشینی پریس ۱۴۵۰ میں ایجاد کیا۔ دونوں کے درمیان ڈیڑھ ہزار سال سے ذیادہ مدت کا فاصلہ ہے۔ایسا کیوں ہوا۔ کیا وجہ ہے کہ قدیم یونانی سائنس کا تسلسل یونان میں اور یورپ میں جاری نہ رہ سکا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اسلامی انقلاب سے پہلے وہ فضا موجود نہ تھی جس میں علمی تحقیق کا کام آزاد انہ طور پر جاری رہ سکے۔
قدیم یونانی ذہن پر سب سے ذیادہ غلبہ دیو مالا کا تھا۔ یونانی دیو مالا یا گریک مائتھا لوجی ایک مفصل موضوع ہے جس پر بڑی بڑی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ حتی کہ
انسائیکلوپیڈیا آف گریگ مانتھالوجی کے نام سے اس موضوع پر ایک مستقل انسائیکلوپیڈیا بھی موجود ہے۔قدیم یونان میں دیوتاوٗں اور ہیروٗوں کے نام پر بے شمار عجیب وغریب قسم کی کہانیاں مشہور تھیں جن کو یونانی لوگ بالکل حقیقت کی طرح مانتے ہیں۔ ایسے ماحول میں یہ ممکن نہ تھا کہ کوئی حقیقی سائنس ترقی کر سکے۔ شاعروں اور آرٹسٹوں کی خیال سازی کے لئے یہ ماحول موزوں تھا۔ چنانچہ ان کے درمیان کثرت سے شاعر اور آرٹسٹ پیدا ہوئے ۔چناچہ یونان میں اور یونان کے باہر دوسرے یورپی ملکوں میں ایسے بہت سے فن کار پیدا ہوٰے جن کو یونانی دیومالا سے ذہنی تحریک ملی ۔ حتی کہ مغربی ادب پر یونانی دیومالا کا اثر آج تک پایا جاتا ہے۔ (۴۰۶ ۴۰۵ ۸ )مگر وہاں کا ماحول علمی تحقیق کے لئے موزوں نہ تھا۔ چنانچہ محققین یا آج کل کی زبان میں سائنٹسٹ وہاں پیدا بھی نہیں ہوئے۔
مستشرق منٹگمری واٹ نے لکھا کہ عربوں میں سائنسی خیالات پیدا ہونے کا محرک یونان تھا، عربوں نے یونانی ترجمے پڑھے، اس کے بعد ان کے اندر سائنسی طرز فکر آیا۔ اسی طرح بیرون کاراڈی واکس (Baron Carra de Vaux) کی مشہور کتاب اسلام کا ورثہ (The Legacy of Islam) 1931 میں شائع ہوئی۔ اس کتاب کا مصنف اگرچہ عربوں کے کارنامہ کا اعتراف کرتا ہے۔ مگر اس کے نزدیک ان کی حیثیت اس کے سوا کچھ نہ تھی کہ وہ یونانیوں کے شاگرد (Pupils of the Greeks) تھے۔ برٹرینڈرسل نے اپنی کتاب “ہسٹری آف ویسٹرن فلاسفی میں عربوں کو صرف ناقل (Transmitter) کا درجہ دیا ہے جنہوں نے یونان کے علوم کو لے کر اسکو بذریعہ تراجم یورپ کی طرف منتقل کر دیا۔ اوپر کی تفصیل سے ظاہر ہے کہ علمی اور تاریخی اعتبار سے یہ بات درست اور اتنی سادہ نہیں ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ ان کے اندر قرآن اور موحدانہ عقیدہ کے ذریعہ سائنسی طرز فکر آیا اس کے بعد انھوں نے یونان اور دوسرے ملکوں کی کتابوں کے ترجمے کئے نیز خود اپنی تحقیق سے سائنس اور فلسفہ میں اضافہ کیا۔
یہ صحیح ہے کہ عربوں نے یونانی علوم کو پڑھا اور ان سے فائدہ اٹھایا مگر اس کے بعد جو چیز انھوں نے یورپ کی طرف منتقل کی وہ اس سے بہت مختلف اور زیادہ تھی جو انھیں یونان سے ملی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ یونان کے پاس وہ چیز موجود ہی نہ تھی جو عربوں کے ذریعہ یورپ کو پہنچی اور جو یورپ میں نشاۃ ثانیہ پیدا کرنے کا سبب بنی۔ اگر فی الواقع یونان کے پاس وہ چیز موجود ہوتی تو وہ بہت پہلے یورپ کو مل چکی ہوتی۔ ایسی حالت میں یورپ کو اپنی حیات نو کے لئے ایک ہزار سال کا انتظار نہ کرنا پڑتا۔ قدیم یونان نے جو کچھ ترقی کی تھی وہ آرٹ اور فلسفہ میں کی تھی۔ سائنس کے میدان میں ان کی ترقی اتنی کم ہے کہ وہ کسی شمار میں نہیں آتی۔ جیسا کہ ہم نے اوپر لکھا سائنسی غورو فکر اور سائنسی ترقی کے لئے ذہنی آزادی کا ماحول انتہائی ضروری ہے یہ ماحول قدیم زمانہ کے دوسرے ملکوں کی طرح یونان میں بھی موجود نہ تھا۔خود ارشمیدس (Archimedes) کو616ق م میں ایک رومی سپاہی نے عین اس وقت قتل کر دیا جب کہ وہ شہر کے باہر ریت پر جیومیٹری کے سوالات حل کر رہا تھا۔ J.M.Roberts, History of the World, p. 238 ۔
پلوٹارک کے بیان کے مطابق، اسپارٹا کے لوگ صرف عملی ضرورتوں کے لئے لکھنا اور پڑھنا سیکھتے تھے۔ ان کے یہاں دوسری تمام کتابوں اور اہل علم پر پابندی لگی ہوئی تھی۔ ایتنھز میں آرٹ اور فلسفہ کو ترقی حاصل ہوئی ۔ مگر بہت سے آرٹسٹ اور فلسفی جلاوطن کر دئے گئے۔ قیدخانہ میں ڈال دئے گئے، پھانسی پر چڑھا دئے گئے، یا وہ خوف سے بھاگ گئے۔ ان میں اسکائی لس، ایوریفائڈس، فدیاس، سقراط اور ارسطو جیسے لوگ بھی شامل تھے۔
ایسکائی لس (Aeschylas) کو اس لئے قتل کیا گیا کہ اس نے ایسوسی نین رازوں (Eleusinian Mysteries) کو ظاہر کر دیا تھا۔ یہ “راز” ان بے شمار پر عجوبہ کہانیوں میں سے ہے جن کا کوئی وجود نہیں۔ مگر وہ یونانی فکرو خیال کا لازمی حصہ بنے ہوئے تھے (EB-3/1084)
فلسفی سقراط (Socrates) کو زبردستی زہر کا پیالہ پلا کر ہلاک کر دیا گیا اس کا جرم یہ تھا کہ وہ ان دیوتاؤں کو نظر انداز کرتا ہے جس کو شہر ایتھنز کے لوگ پوجتے ہیں۔ وہ مذہب میں نئے نئے طریقے نکالتا ہے۔ وہ یونان کے نوجوانوں کے ذہن کو خراب کر رہا ہے۔ سقراط کو ہلاک کرنے کا یہ واقعہ 399 قبل مسیح میں پیش آیا۔
مختصر یہ کہ یونانی تہذیب یورپ میں سائنسی ماحول و مزاج دینے میں بالکل ناکام رہی ۔ یہ سائنسی طرز فکر ، مزاج اور ماحول مسلمانوں کی دین تھی جسکو یورپ نے اپنے ہاں مذہب کی قربانی دے کر حاصل کیا ۔
٭رومی تہذیب
یونانی تہذیب کے بعد رومی تہذیب بے حد طاقت ور تہذیب تھی ، جنگی فنون میں اس نے بہت ترقیاں کیں۔ نیز یونان کےعلمی ورثہ تک اس کی بر ا ہ ر است پہنچ تھی۔ اس کے باوجود وہ اپنے ہزار سالہ دور میں ایک بھی سائنسدان پیدا نہ کر سکا۔ انسائیکلوپیڈیا بر ٹائیکا (۱۹۸۴ ) کے مقالہ نگار نے لکھا ہے کہ مسیحی دور سے پہلے رومی سلطنت نے پوری میڈیٹرینین دنیا پر غلبہ حاصل کر لیا تھا۔ مگر علوم کے موٗرخین کے لئے روم ایک معما بنا ہوا ہے۔ عام مورخین اس سوال کے کسی یقینی جواب تک نہ پہنچ سکے کہ وہ سائنسی میدا ن میں آگے کیوں نہیں بڑھ سکے ؟اس کا واضح جواب یہ ہے کہ رومی لوگ بت پرستی میں مبتلا تھے۔ یہ دراصل شرک اور بت پرستی تھی جو رومیوں کے لئے سائنس کے میدان میں تحقیق و تفتیش میں رکاوٹ بن گئی ۔ اشیاء کے تقدس کے عقیدے نے انہیں اشیاء کی تسخیر کرنے سے روک دیا۔ رومیوں کا سماجی ڈھانچہ جولمبے عرصے سے جادو کی نہایت بھونڈی شکلوں پر مبنی تھا،اس نے فطرت کی دنیا کے بارے میں منظم علمی کے راستہ پر چلنا ان کے لئے مشکل بنادیا۔
جدید سائنسی دور سے پہلے سائنس کے معاملہ میں یورپ کا کیا حال تھا، اس کی ایک مثال پوپ سلوسٹر (Pope Sylvester II) کا قصہ ہے جو عام طور پرگربرٹ کے نام سے مشہور ہے۔ وہ 945ء میں فرانس میں پیدا ہوا، اور 1003ء میں اس کی وفات ہوئی۔ وہ یونانی اور لاطینی دونوں زبانیں بخوبی جانتا تھا اور نہایت قابل آدمی تھا۔ اس نے اسپین کا سفر کیا اور وہاں بار سلونہ (Barcelona) میں تین سال تک رہا۔ اس نے عربوں کے علوم سیکھے اور ان سے بہت متاثر ہوا۔ وہ اسپین سے واپس ہوا تو اس کے ساتھ کئی عرب کتابوں کے ترجمے تھے۔ وہ ایک اصطرلاب بھی اسپین سے لایا تھا۔ اس نے عربوں کے علوم منطق، ریاضی اور فلکیات وغیرہ کی تعلیم شروع کی۔ مگر اس کو سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ کچھ مسیحی حضرات نے کہا کہ یہ اسپین سے جادو سیکھ کر آیا ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ اس پر شیطان مسلط ہو گیا ہے۔ وہ اسی قسم کے سخت حالات میں رہا، یہاں تک کہ 12 مئی 1003ء کو روم میں اس کا انتقال ہو گیا۔ (EB-17/899)
گلیلیو نے زمین کی گردش کے نظریہ کی تائید کی تو رومی کلیسا اس کا سخت دشمن ہو گیا۔ اس پر مذہبی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا۔ اس کو اندیشہ ہوا کہ اس کو موت سے کم کوئی سزا نہیں دی جائے گی۔ چنانچہ اس نے فلکیاتی نظریہ سے توبہ کر لی۔ اس نے رومی کلیسا کی عدالت کے سامنے ان الفاظ میں اپنے رجوع کا اعلان کیا:
“میں گلیلیو عمر 70 سال آپ لوگوں کے سامنے گھٹنے ٹیک کر انجیل مقدس کو گواہ بنا کر اس پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی غلطی کا اعتراف کرتا ہوں۔ اور زمین کی حرکت کے بعید از حقیقت دعوے سے دست بردار ہوتا ہوں۔ اس سے انکار کرتا ہوں اور اس نظریہ کو قابل نفرت خیال کرتا ہوں۔”
یہ کوئی ایک واقعہ نہ تھا۔ اس زمانہ میں مسیحی علماء کا یہی عام طریقہ تھا۔ نئی حقیقتوں کی کھوج اور فطرت کے رازوں کی تلاش جس کا نام سائنس ہے ان کو انھوں نے صدیوں تک ممنوع بنائے رکھا۔ ایسی چیزوں کو کالا علم، جادو، اور شیطانی تعلیم بتایا جاتا تھا۔ ان حالات میں ناممکن تھا کہ تحقیق وتلاش کا عمل مفید طور پر جاری رہ سکے۔ قرون وسطی میں یہ کام پہلی بار مسلمانوں کے ذریعہ شروع ہوا کیونکہ قرآن نے انہیں کائنات میں غوروفکر کی دعوت تھی اور اس کی تعلیمات نے ان کے ذہن سے وہ تمام رکاوٹیں ختم کر دیں جو گلیلیو جیسے لوگوں کی راہ میں حائل تھیں۔
یونانیوں اور رومیوں، دونوں کے لئے سائنس کی راہ میں پیش قدمی کی رکاوٹ صرف ایک تھی، اور وہ ان کا مشرکانہ مزاج تھا۔ ان کے شرک نے ان سے وہ حقیقت پسندانہ ذہن چھین رکھا تھا جو سائنسی تحقیق کے لئے ضروری ہے۔ ایسی حالت میں وہ سائنسی ترقی کرتے تو کس طرح کرتے۔علمی ترقی تو ایک مسلسل عمل کا نام ہے مگر یونانی علماء کاکام ، زمانی عدم موافقت کی بنا پر مسلسل عمل کی صورت میں آگے نہ بڑھ سکا۔ وہ وقتی چمک بن کر رہ گیا۔ ماحول کی اس عدم موافقت کی وجہ سے یونانی علماء کا کام ذیادہ تر ذہنی سوچ کے دائرہ میں محدود رہا وہ خارجی تجربات تک نہیں کیا۔ یونانی علماء کی سرگرمیاں منطق میں تو نظر آتی ہیں مگر وہ تجرباتی سائنس میں بالکل دکھائی نہیں دیتیں۔ سائنس کا حقیقی آغاز اس وقت ہوتا ہے جب کہ انسان کے اندر تفتیش کی روح آزادانہ طور پر پیدا ہو۔ قدیم زمانہ میں یہ روح انفرادی طور پر اور وقتی طور پر کہیں کہیں ابھری۔ مگر وہ، ماحول کی عدم موافقت کی وجہ سے، بڑے پیمانہ پر پیدا نہ ہوسکی۔ انسائیکلوپیڈیا برناٹیکا (۱۹۸۴) کے مقالہ نگار نے ہسٹری آف سائنس کے تحت لکھتا ہے کہ عالم فطرت کو آج جس نظر سے دیکھا جاتا ہے، وہ انسانی تاریخ میں ایک
بہت نئی چیز ہے۔ ماضی میں بڑی بڑی تہذیبوں کے لئے یہ ممکن ہوا کہ وہ علم اور مذہب اور قانون کے میدان میں ترقیاں کریں مگر اس وقت سائنس کا موجودہ تصور بالکل غیر موجود تھا۔ مصر، میسوپوٹامیہ، ہندوستان وغیرہ کا قدیم زمانہ میں یہی حال تھا۔ قدیم قومیں سائنس کے معاملے میں معاند یا کم از کم غیر متعلق بنی ہوئی تھیں۔ اگر چہ تقریبا ڈھائی ہزار سال پہلے یونانیوں نے ایک ایسا نظام فکر پیدا کیا جو سائنٹفک نظام سے مشابہ تھامگر بعد کی صدیوں میں اس میں مزید کوئی ترقی نہ ہو سکتی حتی کہ اس کو سمجھنے والے باقی نہ رہ سکے۔ سائنس کی عظیم طاقت اور زندگی کے تمام پہلووٗں پر اس کا گہرا اثر بالکل ایک نئی چیز ہے۔
یہ آزادانہ تحقیق کے لئے موافقت کا ماحول ہی ہے جو اسلام کے انقلاب توحید کے بعد ظہور میں آیا۔اسلامی انقلاب نے اچانک پورے ماحول کو بدل دیا اور وہ سازگار فضا پیدا کر دی جس میں آزادانہ طور پر فطرت کی تحقیق کا کام ہوسکے۔ اس سائنسی فکر کا آغاز پہلے مکہ میں ہوتا ہےاس کے بعد وہ مدینہ پہنچتاہے۔ پھر وہ دمشق کا سفر کرتا ہے۔ پھر وہ آگے بڑھ کر بغداد کو اپنا مرکز بناتا ہے۔اس کے بعد وہ اسپین اور سسلی اور اٹلی ہوتا ہوا پورے یورپ میں پھیل جاتا ہے۔ وہ پھیلتا ہی رہتا ہے تک کہ وہ پورے عالمی ذہن کو بدل دیتا ہے۔علم کا یہ ارتقائی سفر اسلامی انقلاب سے پہلے ممکن نہ ہوسکا۔اس سے پہلے سائنسی فکر محض انفرادی یا مقامی سطح پر پیدا ہوا اور ماحول کے عدم موافقت کی وجہ سے بہت جلد ختم ہوگیا۔ اسلام نے پہلی بار سائنس ترقی کے لئے موافق ماحول عطا کر دیا اور اسلام کا یہی فطری پن اسکی مقبولیت کا سبب بنا۔
میوسیولیباں نے اپنی کتاب “تمدن عرب” میں لکھا ہے کہ قدیم زمانہ میں بہت سی قوموں نے اقتدار حاصل کیا۔ ایران، یونان اور روم نے مختلف زمانوں میں مشرقی ملکوں پر حکومت کی۔ مگر ان ملکوں پر ان کا تہذیبی اثر بہت کم پڑا۔ ان قوموں میں وہ نہ اپنا مذہب پھیلا سکے، نہ اپنی زبان اور نہ اپنے علوم اور صنعت کو فروغ دے سکے۔ مصر بطلیموسیوں اور رومیوں کے زمانہ میں نہ صرف اپنے مذہب پر قائم رہا، بلکہ خود فاتحین نے مفتوح قوموں کا مذہب اور طرز تعمیر اختیار کر لیا۔ چنانچہ ان دونوں خاندانوں نے جو عمارتیں تعمیر کیں وہ فراعنہ کے طرز کی تھیں۔ لیکن جو مقصد یونانی، ایرانی اور رومی مصر میں حاصل نہ کر سکے اس مقصد کو عربوں نے بہت جلد اور بغیر کسی جبر کے حاصل کر لیا۔ مصر جس کے لئے کسی غیر قوم کے خیالات کا قبول کرنا بہت دشوار تھا اس نے ایک صدی کے اندر اپنے سات ہزار سالہ پرانے تمدن کو چھوڑ کر ایک نیا مذہب اور نئی زبان اختیار کر لی۔ عربوں نے یہی اثر افریقہ کے ملکوں اور شام اور ایران وغیرہ پر بھی ڈالا۔ ان سب میں تیزی کے ساتھ اسلام پھیل گیا۔ حتی کہ جن ملکوں سے عرب صرف گزر گئے جہاں کبھی ان کی حکومت قائم نہیں ہوئی، جہاں وہ صرف تاجر کی حیثیت سے آئے تھے، وہاں بھی اسلام پھیل گیا۔ جیسے چین وغیرہ۔
تاریخ عالم میں مفتوح قوموں پر کسی فاتح قوم کے اثرات کی ایسی مثال نہیں ملتی۔ ان تمام قوموں نے جن کا عربوں سے صرف چند دن کا واسطہ پڑا۔ انھوں نے بھی ان کا تمدن قبول کر لیا۔ بلکہ بعض فاتح قوموں تک مثلاً ترک اور مغل نے مسلمانوں کو مفتوح کرنے کے بعد نہ صرف ان کا مذہب اور تمدن اختیار کر لیا بلکہ اس کے بہت بڑے حامی بن گئے۔ آج بھی جب کہ صدیوں سے عربی تمدن کی روح مردہ ہو چکی ہے، بحراٹلانٹک سے لیکر دریائے سندھ تک اور بحر متوسط سے لیکر افریقہ کے ریگستان تک ایک مذہب اور ایک زبان رائج ہے۔ اور وہ پیغمبر اسلام کا مذہب اور ان کی زبان ہے۔ ” (تمدن عرب)
موسیولیباں نے مزید لکھا ہے کہ مغربی ملکوں پر بھی عربوں کا اتنا ہی اثر ہوا جتنا اثر مشرقی ملکوں پر ہوا تھا۔ اس کی بدولت مغرب نے تہذیب سیکھی۔ صرف اتنا فرق ہے کہ مشرق میں عربوں کا اثر ان کے مذہب ، زبان، علوم وفنون اور صنعت و حرفت ہر چیز پر پڑا۔ اور مغرب میں یہ ہوا کہ ان کے مذہب پر زیادہ اثر نہیں پڑا صنعت و حرفت پر نسبتاً کم اور علوم وفنون پر بہت زیادہ اثر پڑا۔
عربوں کے ذریعہ مذہب توحید اور اس کے زیر اثر پیدا ہونے والی تہذیب اپنے اسی فطری پن کی وجہ سے ہر طرف پھیلی اس نے قدیم آباد دنیا کے بیشتر حصہ کو متاثر کیا۔ اس طرح وہ ماحول اور وہ فضا تیار ہوئی جس میں علمی تحقیق اور مظاہر فطرت کی تسخیر کا کام آزادانہ طور پر ہو سکے۔
استفادہ تحریر وحید الدین خان