ہمارے یہاں کے ‘عقل پرست’ اتنے عقلمند واقع ہوئے ہیں کہ عقل کی حدود (یعنی یہ کہ مابعدالطبعیاتی مسائل تک عقل کی رسائ ممکن نہیں) سے متعلق خود مغربی فلسفے میں بھی جو باتیں تقریبا دو سو سال قبل طے ہوچکیں (اور اسکے بعد کسی نے انہین چیلنج نہیں کیا) یہ حضرات آج ان طے شدہ علمی حدود سے باہر عقل استعمال کرنے کو عقلمندی سمجھے بیٹھے ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ عقل مابعدالطبعیاتی حقائق کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی بھی حکم لگانے سے قاصر ہے، چاہے اثبات میں ہو یا نفی میں۔ یعنی جس طرح خدا آخرت وغیرہ کو عقلی دلائل کی مدد سے قطعیت کے ساتھ ثابت نہیں کیا جاسکتا اسی طرح عقلی دلائل سے انہیں رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اس میدان تک رسائی صرف “وحی” ہے۔ عقل نبی کے کردار و معجزات کی بنا پر نبی کی صداقت کی گواہی دیتی ہے، اسکے بعد نبی ان امور کے بارے میں جو کہتا چلا جاتا ہے اس پر مہر تصدیق ثبت کرتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ یعنی نبی کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے نفس کے اندر ظنی عقلی شواہد کی بنا پر نبی کے بتائے ہوئے حقائق کی تصدیق کرتی ہے۔ اس بات کو امام غزالی (رح) نے المستصفی میں کچھ یوں بیان کیا:
“عقل نبی کی صداقت کی طرف راھنمائی کرتی ہے، اسکے بعد الگ ہوکر بیٹھ جاتی ہے اور یہ اعتراف کرتی ہے کہ اللہ اور آخرت کے بارے میں نبی جو کچھ کہے گا اسے قبول ہے کیونکہ وہ از خود انکا ادراک کرنے سے قاصر ہے اور نہ ہی انکے محال ہونے کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ عقل اپنے طور پر اس کا ادراک نہیں کرسکتی کہ اطاعت آخرت میں سعادت کا باعث ہے اور گناہ شقاوت کا لیکن وہ اسکے خلاف حکم لگانے کی اہل بھی نہیں۔ البتہ معجزہ جس کی صداقت پر دلالت کرتا ہے اسے سچا ماننے کا فیصلہ دے سکتی ہے اور مخبر صادق جب ان امور کی خبر دے تو انکی تصدیق کرتی ہے”
امام (رح) ‘التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ’ میں علم الکلام پر فخر کرنے والے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں (دھیان رھے امام بذات خود ایک نہایت بلند مرتبہ متکلم تھے):
”جو شخص یہ گمان کرتا ھے کہ ایمان کا ماخذ علم کلام، مجرد دلیلیں اور وہ منطقی تقسیمات ہیں جو علم کلام میں مرتب ہیں تو وہ شخص راہ راست سے دور ھے۔ ایمان ایک ایسا نور ھے کہ اللہ اس کو اپنے بندے کے دل میں بطور عطیہ اور ھدیہ کے کبھی تو ایک ایسی باطنی تنبیہہ کے ذریعے القا کرتا ھے کہ جسکی تعبیر ممکن نہیں، اور کبھی بذریعہ خواب کے دیکھنے کے اور کبھی کسی نیک آدمی کے حال کے مشاھدے اور اسکی صحبت کے ذریعے سے اسکی طرف نور ایمان کی سرایت ھوتی ھے اور کبھی قرینہ حال کے ذریعے ….. اس امر کا انکار نہیں کہ متکلمین کی طرف سے عقلی دلیلوں کا ذکر کرنا بعض انسانوں کے حق میں ایمان کیلئے ایک سبب ھے مگر ایمان کا حصول محض انہی ادلہ متکلمین پر موقوف نہیں۔ سب سے نفع آور کلام وہ ھے جو طریقہ وعظ پر جاری ھو جیسے کہ قرآن، مگر جو کلام طریقہ متکلمین پر تحریر کیا گیا ھے وہ طریقہ وعظ نہیں بلکہ طریقہ جدال پر ھے تاکہ مخالفین اس سے عاجز آجائیں نہ اس لئے کہ وہ نفسہہ حق ھے۔ اور بعض اوقات علم کلام عام آدمی کیلئے عناد قلبی کے استحکام کا ذریعہ بن جاتا ھے اور یہی وجہ ھے کہ تو کبھی متکلمین یا فقہاء کے مناظروں میں کسی شخص کو اعتزال یا بدعت سے تائب ھوتا نہیں دیکھتا …… وہ ایمان جو کلامی دلیلوں سے حاصل ھوتا ھے ضعیف اور ہر نئے شبہ سے تزلزل کے کنارے پر واقع ھوتا ھے۔ ایمان محکم وہ ھے جو عوام الناس کو زمانہ طفولیت میں تواتر سماع یا بعد از بلوغ ایسے قرآئن سے حاصل ھوتا ھے جنکی تعبیر ممکن نہیں۔ اور ایمان کا پورا پورا محکم ھونا عبادت اور ذکر الہی سے ھوتا ھے ….. ور اسکی نشانی (بحوالہ حدیث) دار غرور سے کنارہ کشی اور دار خلود کی طرف مائل ھونا ھے”(التفرقۃ بین الاسلام و الزندقۃ)
ایمان کی بے قدری کے اس دور میں اس متاع عظیم کو ہلکا اور خفیف بتانے کیلئے یہ عجیب و غریب دلیل پیش کی جاتی ہے کہ ”مورثی ایمان کی کوئی اہمیت نہیں، تم مسلمان کے گھر پیدا ھوگئے اور بس، اس میں تمہارا کیا کمال، اس میں فخر کی کیا بات؟”گویا اگر خدا اپنے کسی بندے پر کوئی خاص عنایت اور مہربانی کردے تو اس میں شکر کرنے کی بات ہی کیا ہے! خدا نے کسی کو آنکھ و کان اور اس جیسی بہت سی نعمتوں سے نوازا اور کسی کو ان سے محروم رکھا، تو کیا جسے یہ نعمتیں ملیں اس کیلئے یہ بے حدو حساب شکر و سپاس کا مقام نہیں؟ اسی طرح اگر خدا کسی کو اھل ایمان کے گھر پیدا کرکے اس کیلئے قبول ایمان کو سہل بنا کر جنت کا راستہ آسان کردے تو کیا یہ معمولی بات ہے؟ اگر ایمان کی دولت واقعی اس کائنات کی عظیم ترین نعمت ہے، محمد ﷺ کا امتی و غلام کہلانا واقعی فخر کی بات ہے تو کیا خدا کی طرف سے ان نعمتوں کا سہل طریقے سے مل جانا سب سے بڑھ کر شکروسپاس کا مقام نہیں؟ تو اسے ہلکا بتانے کا کیا مطلب؟ یہ تو خوشی منانے (سیلیبریٹ کرنے) کی جاہ ہے۔
آج کچھ “زیادہ کھلے ذھن” کے مفکرین پائے جاتے ہیں جو یہ کہنے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ میں نے اپنے بچے کو مذھب وغیرہ کے معاملے میں آزاد چھوڑ دیا ہے کہ وہ سب کچھ پڑھ لکھ کر اور پرکھ کر آزادانہ طور پر جو چاہے اختیار کرلے، یہ بھلا کوئی بات ہے کہ ہم اس معاملے میں اپنی اولاد پر “جبر” کریں؟ان سے کوئی پوچھے کہ کیا تم نے اپنے بچوں کو کھانے پینے سے متعلق بھی ایسی ہی آزادی دے رکھی ہے کہ ھیروئن و چرس سمیت ہر چیز کھا پی کر پرکھ کر فیصلہ کرلے کہ اسے کیا کھانا اور کیا نہیں؟ اور کیا تم اس کے دنیاوی “کیرئیر” کے بارے میں بھی ایسا ہی “کھلا ذھن” رکھتے ہو کہ سارے سکول، ورکشاپیں اور دکانیں وغیرہ گھوم پھر کر فیصلہ کرلے کہ اسے زندگی میں کیا کرنا ہے؟ آخر تم یہاں کھلے ذھن کا مظاہرہ کیوں نہیں کرتے؟
بات صرف اتنی سی ہے کہ جس چیز کو تم “واقعی” برا سمجھتے ہو اپنی بھرپور کوشش کرتے ہو کہ تمہاری اولاد اس سے محفوظ رہے اور جسے “واقعی” اچھا سمجھتے ہو اسے اپنی اولاد تک پہنچانے کے لئے اپنی ہر توانائی و ذریعہ استعمال کرتے ہو۔ چونکہ “ایمان” نامی متاع عظیم کی تمہاری نظر میں خاص وقعت ہی نہیں رہی اور کفر جیسی قبیح شے تمہارے نفس پر بار گراں نہیں رہی تو تم اس معاملے میں “عدم ترجیح” (indifference) کا “دانش ورانہ” رویہ اختیار کئے پھرتے ہو۔ ذرا سنو کہ وہ خدا جس کی بات پر تم ایمان لائے ہو اس نے تم پر کیا ذمہ داری عائد کی ہے: يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنفُسَکُمْ وَأَهْلِيکُمْ نَارًا۔
الحاد کا فروغ ایک پراسس کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس کے ابتدائی مبلغین مذھب کی روایتی تعبیر سے بغاوت کرنے والے ہوا کرتے ہیں۔ ملحدین کی ابتدائی نسل کنفیوژن کا شکار ہوتی ہے، یعنی فکری طور پر وہ ملحد ہوتے ہوئے بھی خود کو ملحد نہیں سمجھتے کہ ملحد ہونا خود ان کی اپنی نظر میں معیوب ہوتا ہے۔ ان کی پہلی نسل معاشرے کے غالب مذھبی خیالات کے خلاف ڈر کے مارے کھل کر بولنے سے اعراض کرتی ہے، بالکل اسی طرح جیسے آج کل مغربی معاشروں میں لوگ جھاد کے حق میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ مستقبل کے تاریخ دان ان نسلوں کے بارے میں اپنے اپنے انداز میں یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ آیا وہ مذھبی تھے یا ملحد۔