ذہنی غلامی کا مرض اوراس سے نجات

۔

[سلیم احمد مرحوم مشہور مفکر و شاعر گزرے ہیں، موجودہ تحریری سلسلے کی مناسبت سے انکی ایک تقریر جو انہوں نے تنظیم اساتذہ پاکستان کے کُل پاکستان اجتماع میں کی ‘ کی تلخیص پیش کی جارہی ہے۔ایڈمن]
ذہنی غلامی سے نجات از سلیم احمد
انگریز جب برعظیم میں آئے تو اپنے ساتھ دھواں گاڑی اور بھاپ جہاز بھی لائے۔ برعظیم پاک و ہند کے لوگوں کے لیے یہ اتنی نئی چیزیں تھیں کہ غالب نے جو کلکتے میں اُن کی جھلک دیکھی تو دیوانے ہوگئے۔ سرسیّد جو بعد میں انگریزوں کی حمایت کی علامت بنے، اُس وقت آئینِ اکبری لکھ رہے تھے۔انھوں نے غالب سے اس کی تقریظ لکھنے کی فرمایش کی تو غالب نے یک بیک پکی روشنائی سے لکھ کر دیا کہ: ’’میاں آئینِ اکبری کو کیا روتے ہو، اہلِ انگلستان کا آئین دیکھو اور ان چیزوں پر نظر ڈالو، جو وہ اپنے ساتھ لائے ہیں‘‘۔
اس معاملے میں غالب تنہا نہیں تھے۔ جہاں تک انگریزوں کی دھواں گاڑی کا تعلق ہے اس سے کون انکار کرسکتا تھا، لیکن جب انگریزوں کی دھواں گاڑی کے ساتھ ان کی کوٹ پتلون اور چھری کانٹے بھی چلنے لگے، تو اکبر الٰہ آبادی جیسے بزرگ بُرا مان گئے۔ ان کا اعتراض انگریزوں کی برتری پر نہیں تھا۔ اگر ہوتا بھی تو حالات اس کی تردید کر رہے تھے۔ انگریز اپنی فوجی اور سیاسی برتری ثابت کرچکے تھے۔ علمی برتری کا ثبوت، ان کی دھواں گاڑی کی صورت میں موجود تھا، لیکن اکبر کا کہنا یہ تھا کہ: ’’فوجی اور سیاسی برتری کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انگریز تہذیبی طور پر برتر ہیں‘‘۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان اپنی تہذیب کے بارے میں کسی احساسِ مرعوبیت کا شکار نہ ہوں اور [اسے] قربان نہ کریں۔ اکبر الٰہ آبادی کے مقابلے پر دوسرا گروہ سرسیّد احمد اور ان کے ساتھیوں کا تھا۔ سرسیّد، انگریزوں کی ہمہ جہت برتری کے اتنے قائل ہوگئے تھے کہ تقریباً ہرمعاملے میں انگریز کی تقلید ضروری سمجھتے تھے۔ وہ انگریزی تہذیب سے اتنے مرعوب تھے کہ ایک بار انھوں نے میزکرسی کی حمایت اور دسترخوان کی مخالفت میں لکھ ڈالا۔
مولانا الطاف حسین حالی نے اس پر حاشیہ لگایا کہ: ’’میزکرسی انگریزوں کی چیزیں تھوڑی ہیں، یہ تو اندلس کے مسلمانوں کی ایجاد ہیں‘‘۔ اس رویے کو یاد رکھیے۔ پتا نہیں ہم سرسیّد کو ’ذہنی غلام‘ کہیں گے یا نہیں، لیکن اُن پر اکبر کا اعتراض یہ تھا کہ وہ مسلمانوں پر مغربی تہذیب کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایک بات مسلمانوں کی تہذیب کے بارے میں۔ لباس، نشست و برخواست کے طریقے، دسترخوان اور کھانے پینے کے آداب، تہوار اور نکاح اور شادی کے معاملات، اور بچے کے کان میں اذان دینے سے میت کی نماز تک کے تمام اوضاع [طورطریقے] کسی نہ کسی طرح اسلام سے وابستہ ہیں۔ یہ تہذیب اُوپر سے نیچے تک ایک کُل ہے، جس کے تمام اجزا ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ اس کے کسی جزو کو اس کے کُل سے، کُل کو نقصان پہنچائے بغیر الگ نہیں کیا جاسکتا۔ چنانچہ اس زمانے کی بحثوں میں یہ حدیث مسلسل بیان کی جاتی تھی کہ: جو کسی دوسری قوم سے مشابہت اختیار کرے گا اُس کا حشر اسی قوم کے ساتھ ہوگا۔
اس لیے عام مسلمان سرسیّد پر صرف یہی اعتراض نہیں کرتے تھے کہ وہ مذہب میں ’نیچریت‘ پھیلا رہے ہیں، بلکہ ان کا اعتراض یہ بھی تھا کہ وہ انگریزوں کی تہذیب کی تقلید کے ذریعے مسلمانوں کو کرسٹان [عیسائی]بنا رہے ہیں۔ سرسیّد ان اعتراضات کا بُرا مانتے اور انھیں قل اعوذیوں کے اعتراضات کہتے تھے۔ اکبر کچھ ہوں بہرحال جج تھے اور سرسیّد انھیں قل اعوذیا نہیں کہہ سکتے تھے، اس لیے ہمیں اکبر الٰہ آبادی کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔ اکبر کا کہنا تھا کہ انگریزوں سے آگ پانی کا انجن بنانا ضرور سیکھو، لیکن اپنے دین اور اپنے بزرگوں کی تہذیب کو نہ چھوڑو۔ چنانچہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی یہ نہیں تھے کہ انگریزوں سے کچھ حاصل ہی نہ کیا جائے۔ اُن کا کلام غور سے پڑھیے تو وہ انگریزوں سے ہرمفید چیز حاصل کرنے کے حق میں ہیں، لیکن انگریزوں کی اندھی تقلید کے خلاف ہیں کہ ان کے چکّر میں اپنی اس تہذیب ہی کو چھوڑ دیا جائے جس کی برتری کے اکبر بہرحال قائل تھے۔ اس کے معنی یہ ہوئے کہ اکبر کے نزدیک ذہنی غلامی کے معنی انگریزوں یا مغرب کی اندھی تقلید ہے، اور ذہنی غلامی کی یہ تعریف درست ہے۔
ذہنی غلام اندھے مقلد ہی کو کہتے ہیں۔ اب یہ بات ماننے کی ہے کہ اندھی تقلید شدید احساسِ مرعوبیت اور احساسِ کمتری سے پیدا ہوتی ہے۔ جب کوئی فرد کسی فرد سے اتنا مرعوب ہوجاتا ہے، کہ اس کے آگے اپنے آپ کو صفرِ محض سمجھنے لگتا ہے، تو اس فرد کی نقالی اس کا مقدر ہوجاتی ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے۔ میں سرسیّد پر اس کا الزام نہیں لگاؤں گا، لیکن برعظیم پر انگریزوں کے غلبے کے بعد مسلمانوں میں ایک طبقہ ایسا ضرور پیدا ہوگیا تھا، جو انگریزوں کی ہر چیز کو مثالی سمجھنے لگا تھا اور اس کے سامنے اتنے شدید احساسِ کمتری میں مبتلا تھا کہ اسے اپنی کسی چیز میں کوئی اچھائی نظر نہیں آتی تھی۔ اکبر نے دراصل اسی طبقے کے خلاف اپنا قلمی جہاد کیا تھا۔

 ازالے کی کوششیں:

اب اگر ہم نے مسئلے کی صحیح تفہیم کرلی ہے تو آیئے یہ دیکھیں کہ مسلمانوں نے ذہنی غلامی کے مرض کا دفیعہ کرنے کے لیے کون کون سے طریقے اختیار کیے؟ حالی کا ذکر کرچکا ہوں۔ وہ گلی گلی سرسیّد تحریک کے ساتھ تھے، مگر ان میں مسلمانوں کی عظمت کا احساس سرسیّد سے زیادہ تھا۔ وہ جانتے تھے کہ مسلمان اس وقت پست حالت میں ہیں۔ اور بے شک ان کا یہ خیال بھی تھا کہ وہ اس پستی کو انگریزوں کی تقلید کے ذریعے دُور کرسکتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ہی انھیں مسلمانوں کے ماضی پر فخر بھی تھا۔ اس کے بغیر مسدس حالی جیسی چیز لکھی نہیں جاسکتی تھی۔ اس لیے حالی نے یہ طریقہ اختیار کیا کہ انھیں یہ بتایا جائے کہ انگریزوں میں جو اچھی چیزیں ہیں، وہ انھوں نے مسلمانوں ہی سے لی ہیں اور مسلمانوں کو ان سے جھجکنا نہیں چاہیے اور انھیں خود اپنا مال سمجھ کر اس پر قابض ہوجانا چاہیے۔ حالی کے یہاں تو یہ خیال بالکل ابتدائی شکل میں ہے، لیکن ان کے بعد آنے والے اس بات کو بہت دُور تک پھیلا دیتے ہیں۔حالی کے بہت بعد ڈاکٹر محمد اقبال نے یہ طریقہ اختیار کیا اور مسلمانوں کو سائنس کے حصول کی ترغیب دیتے ہوئے یہی کہا کہ سائنس خود مسلمانوں کی ایجاد ہے اور مسلمانوں کی اپنی چیز ہے، جسے مسلمان سازش کا شکار ہوکر کھوبیٹھے۔ ورنہ وہ خود آج مغرب کی طرح سائنس کی دنیا میں سب سے آگے ہوتے۔
مسلمانوں کے احساسِ کمتری کے ازالے کے لیے کچھ لوگوں نے ایک اور طریقہ نکالا، جو اسی طریقے کی ایک شاخ ہے۔ ان لوگوں نے مسلمانوں کے شان دار ماضی کے نغمے گانے شروع کیے اور مسلمانوں کو یہ بتانا شروع کیا کہ زندگی کے ہر میدان میں مسلمان ماضی میں کتنے آگے تھے۔ جسٹس امیرعلی اور مولانا شبلی نعمانی کی تاریخ نویسی اسی مقصد سے پیدا ہوئی۔ شبلی منطق اور کلام کے آدمی تھے، اس لیے انھوں نے مسلمانوں کو یہ بتایا کہ فلسفہ اور کلام میں مسلمان پہلے کیا کارنامے انجام دے چکے ہیں۔ المامون اور الغزالی کی طرف وہ اسی مقصد سے گئے۔یہ رویّے آپ غور سے دیکھیں تو آپ کو اقبال میں بھی مل جائیں گے۔
اس میں کوئی شبہہ نہیں کہ مذکورہ طریقے کے مثبت نتائج برآمد ہوئے اور مسلمانوں کے احساسِ کمتری کا بڑی حد تک ازالہ ہوگیا۔ وہ اپنے ماضی پر فخر کرنے لگے اور ان میں یہ احساس پیدا ہوا کہ وہ بھی کوئی چیز ہیں، لیکن اس طریقے میں بھی خرابی کی ایک صورت مضمر ہے۔ احساسِ کمتری کی طرح احساسِ برتری بھی صحت مندی کی علامت نہیں ہے۔ احساسِ کمتری سے تقلید پیدا ہوتی ہے اور احساسِ برتری سے خوداطمینانی۔ احساسِ کمتری کا شکار اپنے آپ سے اتنا غیرمطمئن ہوجاتا ہے کہ اپنے سوا ہر چیز بن جانا چاہتا ہے۔ احساسِ برتری کا شکار اپنے سوا کسی کو دیکھتا ہی نہیں اور اس طرح مقابلہ اور موازنہ اور مسابقت کے جذبے سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک کا نتیجہ نقالی، اندھی تقلید اور ذہنی غلامی ہے، تو دوسرے کا فطری نتیجہ جمود۔ مسلمانوں کے لیے یہ دونوں صورتیں خطرناک ہیں۔ ہم دنیا میں رہتے ہیں اور دنیا کی دوسری قوموں اور انسانوں کے درمیان ہیں۔ ہمیں ان کے درمیان عزت اور وقار سے رہنا ہے اور دنیا کی تعمیر میں اپنی بساط کے مطابق حصہ لینا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے سامنے زندگی کا ایک صحت مند معیار ہو، جس کے مطابق ہم خود باقی بھی رہیں اور اپنی استعداد کے مطابق ترقی بھی کریں۔ اس کے لیے ہمیں دوسروں سے جہاں بہت کچھ سیکھنا ہے، وہاں انھیں کچھ سکھانا بھی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ: حکمت تمھاری گم شدہ دولت ہے، جہاں پاؤ لے لو۔ اسی طرح حضوؐر نے علم حاصل کرنے کا حکم دیا ہے ۔ مسلمان جب اپنی ترقی کے عروج پر تھے تو ان کا رویّہ یہی تھا۔ انھوں نے دنیا کے بہترین علوم سے کسبِ فیض کیا اور انھیں ترقی دی۔ ہمیں بھی اپنے زمانے میں یہی کرنا ہے اور اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے۔ ہم یہ کام صرف اُس وقت کرسکتے ہیں، جب ہم ذہنی طور پر آزاد ہوں، غلام نہ ہوں۔ ہمیں معلوم ہو کہ ہماری کیا کیا چیز اچھی ہے؟ کس کس چیز میں ہم کمزور ہیں؟ کون کون سی چیزیں ہیں، جنھیں ہمیں بدلنا ہے؟ اور اسی طرح ہمیں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں میں کون کون سی چیزیں اچھی ہیں، کون کون سی چیزیں بُری، کون کون سی چیزیں قابلِ قبول ہیں اور کون کون سی چیزیں قابلِ ترک۔

 خود شناسی:
ہم یہ باتیں اس وقت تک معلوم نہیں کرسکتے، جب تک ہم میں وہ چیز نہ پیدا ہو جسے ’خودشناسی‘ کہتے ہیں۔ ’خودشناسی‘ اور ’جہاں شناسی‘ خود کو پہچاننا اور دوسروں کو پہچاننا، یہ ہماری پہلی ضرورت ہے، جو ظاہر ہے کہ علم صحیح کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتی۔ ہمارے اندر کون کون سی چیزیں اچھی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ ہمارا مذہب دنیا کا بہترین مذہب ہے۔ وہ اخلاق جو ہمارا مذہب سکھاتا ہے، دنیا کا بہترین اخلاق ہے۔ وہ تہذیب جو ہمارے مذہب سے پیدا ہوئی ہے، دنیا کی بہترین تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ ہمیں ان سب چیزوں کو قائم رکھنا ہے۔ انھیں اپنے باطن اور ظاہر کی پوری قوت سے اختیار کرنا ہے۔ نہ صرف خود اختیار کرنا ہے، بلکہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دینی ہے۔
لیکن، اس کے ساتھ ہی ہماری کچھ کمزوریاں بھی ہیں۔ ہمیں ان کا احساس پیدا کرنا ہے۔ خود اپنی تاریخ کی روشنی میں اور پھر دوسری قو موں کی مثالوں کے ذریعے، پہلے انھیں سمجھنے اور پھر دُور کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح اپنی اچھائیوں اور بُرائیوں، اپنی صلاحیتوں اور کوتاہیوں ، اپنی قوتوں اور کمزوریوں کو جان کر ہی ہم ان کے بارے میں صحیح رویّہ اختیار کرسکتے ہیں اور اس کی مدد سے اپنے اور دوسروں کے بارے میں صحیح فیصلہ کرسکتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دوسروں کی خوبیوں کا احساس و اعتراف بُری بات نہیں ہے، نہ اپنی خامیوں پر مطمئن رہنا کوئی اچھی بات ہے۔ اسی طرح نہ دوسروں کی بُرائیوں کو مرعوبیت کے سبب اچھا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے، نہ اپنی خوبیوں کو احساسِ کمتری کے سبب بُرا سمجھنا کوئی اچھی بات ہے۔
دوسرے لفظوں میں ہمیں پہلے اچھائی اور بُرائی کی صحیح تمیز حاصل کرنا ہے اور یہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا، جب تک ہم چیزوں کو دیکھنے کے لیے صحیح داخلی رویّہ نہ پیدا کریں۔ یہ صحیح داخلی رویّہ احساسِ کمتری اور احساسِ برتری دونوں سے آزاد ہوجاتا ہے۔ اس آزادی کے ذریعے ہم اندھی تقلید اور جمود دونوں کمزوریوں پر فتح حاصل کرسکتے ہیں۔ ذہنی غلامی جو کہ ذہن سے تعلق رکھتی ہے، اس لیے اس سے آزادی بھی ذہن کے ہی ذریعے ممکن ہے، اور ذہن کو بدلنے کے لیے صحیح خیال کی دولت، کی ضرورت ہوتی ہے۔ صحیح خیال کی دولت، صحیح علم سے پیدا ہوتی ہے اور صحیح عمل کے ذریعے ہم اچھائی بُرائی میں تمیز کرنا سیکھ سکتے ہیں۔ خود آگاہی کی اس منزل سے گزرنے کے بعد ہمیں کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھنا پڑے گا اور ایک صحت مند قوم کی حیثیت سے اچھائی کو حاصل کرنا اور بُرائی کو ترک کرنا پڑے گا۔
معزز حضرات! آپ کا تعلق علم کے پیشے سے ہے۔ یاد رکھیے یہ صرف آپ ہیں جو صحیح علم کے ذریعے صحیح خیال، صحیح خیال کے ذریعے صحیح داخلی رویّے اور صحیح داخلی رویّے کے ذریعے صحیح عمل، اور صحیح کردار پیدا کرسکتے ہیں۔ نوجوان نسل اب کئی حالتوں میں کچی مٹی کی طرح ہے۔ آپ اسے کچھ بھی بنا سکتے ہیں۔ اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ آپ کی آیندہ نسلیں ذہنی غلامی کے اس خطرناک مرض سے آزاد ہوں، جو دورِ غلامی کی ابتدا سے ہمارے وجود کو گھُن کی طرح کھا رہا ہے، تو آپ کو ان نوجوانوں میں دو چیزیں پیدا کرنی اور انھیں ترقی دینی پڑے گی۔

1۔ تنقیدی شعور:
ایک چیز وہ ہے جسے تنقیدی شعور کہتے ہیں۔ تنقیدی شعور کے ذریعے ہی انسان اپنا اور دوسروں کا احتساب کرتا ہے۔ اپنی اور دوسروں کی اچھائیوں اور بُرائیوں کو سمجھتا ہے اور زندگی کے داخلی اور خارجی انتشار میں اپنے راستے کی تلاش کرتا ہے۔ آپ کو نوجوان نسل میں یہ مادہ پیدا کرنا ہے کہ وہ ہرچمکتی ہوئی چیز کو سونا نہ سمجھیں۔ پروپیگنڈے کے بل پر پھیلائے ہوئے ہرخیال پر ایمان نہ لے آئیں۔ ہر دل کش اور پروان چڑھتی ہوئی چیز کو اپنی راہ نجات نہ سمجھ لیں، بلکہ ہرچیز اور ہرخیال پر سنجیدگی سے نظر ڈالیں۔ اُس پر غوروتامّل کریں اور اُس وقت تک اُسے قبول نہ کریں، جب تک اُس کی حقیقی قدروقیمت انھیں نہ معلوم ہوجائے۔

2۔ تجزیے کی قوت:
دوسری چیز جو ذہنی غلامی سے نجات کے لیے ضروری ہے، وہ تجزیے کی قوت ہے۔ ہمارے چاروں طرف وہ جال پھیلے ہوئے ہیں جو ہمیں ذہنی غلامی میں پھنساتے ہیں۔ تجزیے کی قوت کے ذریعے ہم ان جالوں کے ایک ایک پھندے کو سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں اپنے خیالات، اپنے جذبات اور اپنے محسوسات تک کے تجزیے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس کے ذریعے ہم جان سکتے ہیں کہ ہمارے اندر مرعوبیت، احساسِ کمتری، اندھی تقلید یا خود اطمینانی، احساسِ برتری اور جمود کے رجحانات کیوں پیدا ہوتے ہیں؟ اپنی ذات کا یہ تجزیہ ہمیں اپنے بارے میں صحیح علم دے سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ہر اُس چیز کا تجزیہ کرنا ہے، جوہم پر اثرانداز ہوتی ہے۔ اس کے تجزیے کا مقصد، اس کی صحیح قدروقیمت کو دریافت کرنا ہے۔
یوں داخلی اور خارجی تجزیوں کے ذریعے ہم اپنے ذہن کو آزادی کی تربیت دے سکتے ہیں۔ اکبرالٰہ آبادی مرحوم نے اپنے زمانے میں نوجوان نسل سے کہا تھا کہ: ’’ہوشیار رہ کر پڑھیے۔ اس جال میں نہ آیئے کہ یورپ نے یہ کیا ہے، یورپ نے یہ کہا ہے‘‘۔ آپ کو بھی نوجوان نسل میں ہوشیاری اور چوکناپن پیدا کرنا ہے۔ اس کے بغیر ذہن میں کاہلی اور انفعالیت پیدا ہوتی ہے جو تنقیدی شعور اور قوتِ تجزیہ کی ضد ہے۔ سویا ہوا ذہن آسانی سے شکار ہوتا ہے اور ذہنی غلامی، ذہن کے سو جانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔

 مقصد کا تعین:
نوجوان نسل کو تنقیدی شعور اور تجزیے کے ذہنی ہتھیاروں سے لیس کرنے کے بعد، ان کے داخلی رویّے کو درست کرنے کے لیے ایک تیسری چیز کی ضرورت ہوگی، جو اُن کے جذبات کا ایک رُخ مقرر کردے۔ جذبات قوی ترین محرکِ عمل ہیں اور شخصیت کی تعمیر میں اہم ترین حصہ لیتے ہیں، مگر یہ بات ذہن میں تازہ رکھیے کہ عام طور پر جذبات میں ایک خرابی ہے۔ اور وہ یہ کہ ان میں پایے داری اور استقلال نہیں۔ وہ ایک بے لنگر کی کشتی کی طرح حرکت کرتے ہیں اور ہوا کے ہرنئے جھونکے کے ساتھ اپنا رُخ بدل لیتے ہیں۔ اس لیے جذبات کو ایک تعمیری رُخ پر ڈالنے کے لیے ایک نئی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ قوت مقصدکے ایک گہرے احساس سے پیدا ہوتی ہے۔
مقصد سے وابستہ ہوکر جذبات پایے دار اور مستحکم ہوجاتے ہیں اور ان کے لیے ایک مستقل سمت کا تعین کیا جاسکتا ہے۔ مقصد جتنا اعلیٰ ہو، شخصیت کی تعمیر بھی اتنی ہی اعلیٰ ہوتی ہے۔ ایک مکمل طور پر آزاد شخصیت، ذہنی آزادی اور مقصد کے تابع جذبات کے اشتراک سے پیدا ہوتی ہے، اور اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ زندگی کے نت نئے بدلتے ہوئے حالات میں اپنی آزادی کو برقرار رکھ سکے۔ چنانچہ ایک اعلیٰ مقصد کا تعین بھی ذہنی غلامی سے نجات دلانے کی لازمی شرطوں میں سے ایک ہے۔

    Leave Your Comment

    Your email address will not be published.*

    Forgot Password