سائنس اور جدید تہذیب پر تنقید کے جواب میں ایک عجیب و غریب استدلال
جب کبھی جدید سائنس و ٹیکنالوجی اور جدید تہذیب کے مظاھر پر یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ سرمایہ دارانہ نظم کے تانے بانے ہیں نیز یہ کہا جائے کہ ھم قرون اولی کی طرف مراجعت (احیائے اسلام) چاھتے ھیں تو جھٹ سے اعتراض جڑ دیا جاتا ھے: ”تم لوگ ھمیں گھوڑے اور گدھے پر بٹھانا چاھتے ھو”۔ ایسے لوگوں سے جب پوچھا جائے کہ اچھا یہ بتاؤ کہ گاڑی میں بیٹھنے میں ایسی کونسی اخلاقی برتری ھے جو گھوڑے گدھے پر بیٹھنے میں نہیں؟ تو کہتے ہیں ‘یہ جلدی سفر کراتی ھے’۔ مگر یہ ایک لایعنی دلیل ھے، سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ کیا جلدی جلدی سفر کرنا کوئی شرعی تقاضا ھے کہ اس بنا پر کار گھوڑے پر اخلاقی برتری حاصل کرلے گی؟
درحقیقت سائنس و ٹیکنالوجی کے خلاف کوئی علمی دلیل سن کر گھوڑے اور گدھے کی پیٹھ دکھائی دینے لگنا اور اس تصور سے وحشت ھونا بذات خود ایک افسوس ناک رویہ ھے۔ اس تصور کی ذہنیت سے صاف ظاھر ھورھا ھے کہ یہ حضرات اپنے تئیں سائنس اور اسکےمظاھر کو بذات خود مطلوب و مقصود سمجھ کر عین شریعت کے تحت زندگی بسر کررھےہیں اور گویا سائنس کا ناقد انکی اس ”شرعی زندگی” میں خلل پیدا کرنے کی کوشش کررھا ھے۔ مزے کی بات یہ ھے کہ ایسے لوگ قرآن، شتم رسالت، خدا الغرض دین کی ہر واضح بات پر اعتراض سننے کو وسعت نظری کہتے ہیں مگر سائنس پر اعتراض سے انہیں یوں ناگواری ھوتی ھے جیسے قرآن اور پیغمبر سے بھی بڑھ کر کسی بات پر اعتراض کردیا گیا ھے۔
سوال یہ ھے کہ کیا سائنس و ٹیکنالوجی پر اعتراض نہ کرنا یا سننا ایمانیات کا حصہ ھے؟ کیا کسی آیت قرآنی، سنت رسول (ص) یا اجماع امت سے ثابت ھے کہ ‘پتھروں کے دور کی طرف مراجعت کبھی ذھن میں مت لانا کہ زمانہ ہمیشہ آگے بڑھتا ھے نیز تہذیب و تمدن کے نتیجےمیں ملنے والی سہولتیں ایمانیات کا حصہ بن جاتی ہیں اور ان پر کسی طور اعتراض نہیں کیا جاسکتا؟’ پس دینی منہاج کے اندر سائنس پر کسی علمی اعتراض کے جواب میں یہ کہنا کہ آپ ہمیں گھوڑوں پر بٹھانا چاھتے ہیں ظاھر کرتا ھے کہ ایسےلوگ یا تو منہاج دین سے نا واقف ھیں اور یا پھر سائنس و جدید علمیت کے غلبے نے انکا تصور دین ہی تبدیل کردیا ھے۔ چنانچہ کسی روایت یا دین کے علمی منہاج میں یہ سوال بے معنی ھوتا ھے کہ ‘کسی شے کو ترک کرنے کے نتیجے میں مزوں میں کمی تو نہیں آجائے گی؟’۔
اصل بات یہ ھے کہ شرع کو اس بات سے بالذات دلچسپی نہیں کہ آپ کار پر سفر کرتے ہیں یا اونٹ پر یا کسی اور قسم کی سواری پر، یہاں وہ اس بات سے بحث کرتی ھے کہ آیا ذریعہ یا آلہ مقاصد شریعت کے حصول میں معاون ھے یا مزاحم، بصورت مزاحمت اسے ترک کردیا جانا چاھئے۔ اگر مادی فوائد کا حصول ایسے نظام زندگی کے تسلط کا باعث بن رھا ھو جو انسانیت کی عظیم اکثریت کو جہنم کی راھوں پر دھکیل دے تو ایسے نام نہاد فائدوں کو ترک کرنا ضروری ھے۔ یہ ھے درست دینی منہاج۔