مارکیٹ پر مبنی معاشرتی نظم یا سول سوسائٹی چونکہ ہر فرد کو ”ذاتی اغراض (آزادی) کا متلاشی اکیلا” انسان تصور کرتی ھے لہذا یہ اسی انفرادیت کے پنپنے کے امکانات ممکن بناتی ھے، سول سوسائٹی اسکے سواء کسی دوسری انفرادیت کے عمومی فروغ کاذریعہ نہیں بن سکتی (جو ایسا سمجھتے ہیں وہ اسکی حقیقت سے واقف ہی نہیں)۔ ذاتی آزادی کے رسیا شخص کیلئے ہر دوسرا شخص اسکی آزادی کو محدود کرنے کی علامت ھے (سارت کے الفاظ میں hell is other people، یعنی میرے علاوہ دوسرے سب لوگ میری جہنم ہیں)۔ لہذا یہاں ایک فرد کے دوسرے فرد کے ساتھ تعلق کی بنیاد ایک عمرانی معاہدہ (سوشل کنٹریکٹ) ھوتا ھے، محبت یا صلہ رحمی نہیں۔ اس کنٹریکٹ کے تحت ذاتی آزادی (حقوق) کے متلاشی یہ افراد ایک دوسرے کو اس بنیاد پر برداشت کرنے کا معاہدہ کرتے ہیں کہ (1) ہر فرد کو اپنی ایسی ذاتی اغراض کی تکمیل کا پورا پورا موقع ملے گا جس سے دوسرے کے ‘حق خود ارادیت’ میں مداخلت نہ ھوتی ھو (2) انکے درمیان تعلق کی بنیاد باہمی اغراض کی تکمیل ھوگی۔ یہاں دو افراد کے درمیان تعلق ”محبت و ملاپ” (union) کا نہیں بلکہ ”معاہدے و ملکیت” ( possession or contract) کا ھوتا ھے۔
جن جدید مسلم مفکرین نے اس سرمایہ دارانہ (سول سوسائٹی) عمرانی معاہدے کو معاہدہ نکاح پر قیاس کرکے اسلامی معاشرتی و ریاستی نظم کی تشکیل کو عمرانی معاھدے کے تناظر میں دیکھا وہ شدید غلط فہمی کا شکار ھوئے۔ بھلا معاہدہ نکاح و عمرانی معاھدے کا کیا موازنہ، ایک محبت و صلہ رحمی کے جذبات کے تحت عمر بھر ساتھ نبھانے کا وعدہ ھے جبکہ دوسرا محض دوسرے کو اپنی اغراض کی تکمیل کیلئے ناگزیر برائی سمجھ کر اسے برداشت کرنے کا معاہدہ۔ یہی وجہ ھے کہ عمرانی معاھدے پر مبنی معاشرت میں خاندان لازما تحلیل ھوجاتا ھے (کہ ذاتی اغراض کی عقلیت پر مبنی عمرانی معاھدہ محبت کی نفی ھے)۔ اس عمرانی معاھدے میں شامل ھونے والا فرد ماں، باپ، بھائی، بہن، بیٹا، بیٹی، ماما، تایا، پھوپھی، خالہ الغرض تعلقات سے ڈیفائن ھونے والی کوئی مخصوص انفرادیت نہیں بلکہ ”ذاتی آزادی (اغراض) کا متلاشی مجرد فرد” ھوتا ھے، اسی طرح مارکیٹ (سول سوسائٹی) فریم ورک ہر فرد کو مسلم، عیسائی، ھندو، سکھ (خدا کا بندہ ھونے کا اقرار کرنے کی مختلف روایتی شکلوں) کے طور پر بھی نہیں دیکھتا بلکہ (غلط طور پر) اسے ان تمام قسم کے تعلقات سے ماوراء و ماقبل متصور کرتا ھے۔
ظاھر ھے ایک ایسا قانونی فریم ورک (ھیومن رائٹس فریم ورک) جو ان تمام تعلقات سے سہو نظر کرکے تعمیر معاشرت کیلئے وضع کیا گیا ھو وہاں روایتی تعلقات اور اس سے تشکیل پانے والی صف بندیاں کیونکر فروغ پا سکتی ہیں؟ نہ صرف اتنا کہ یہاں اسلامی و روایتی انفرادیت پنپ نہیں سکتی بلکہ اس قانونی فریم ورک کے اندر اس انفرادیت کے اظہار کا تقاضا، اسے ممکن بنانے والی ادارتی صف بندی اور اس صف بندی کو ریشنلائز کرنے والا علمی و قانونی (فقہی) فہم سب غیر معتبر معلوم ھونے لگتا ھے۔ یہی ہمارے متجددین کی فکری بنیاد ھے جو فقہ کے تمام ذخیرے کو دریا برد کرکے قرآن و سنت کی روشنی میں ایک ایسا فہم اسلام مرتب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جس کا مقصد اس نئی ادارتی صف بندی اور اسکے تقاضوں کا اسلامی جواز فراھم کرنا ھوتا ھے۔
اب ذرا تصور کیجئے کہ ایک ایسا معاشرتی نظم جہاں خدا کا بندہ ھونے کی شناخت مہمل اور نکاح ہی معدود ھوگئے ھوں؛ وہاں:
- – صلہ رحمی کس قدر بے معنی بات معلوم ھوگی (اس معاشرت کا فرد مروت و لحاظ کے جذبات کے تحت ان بیکار کے رشتوں میں کیونکر الجھتا پھرے گا)
- – صدقہ خیرات و اموال باطنہ پر زکوت کیلئے قریبی رشتہ داروں کو ترجیح دینے کی بات کس قدر غیر عقلی بن جائے گی (ظاھر ھے ایسے معاشرتی نظم میں لوگ افراد کے بجائے اداروں کو ہی زکوت و صدقات کیلئے ترجیح دیں گے کہ یہی انکے ‘خیرخواہ’ ھوتے ہیں اور نتیجتا زکوت کیلئے ‘تملیک’ کی شرط بارگراں معلوم ھوگی کہ کسی نہ کسی طرح اسے غیرضروری ثابت کردیا جائے، جیسا کہ جدید مفکرین نے اسکی کوششیں کیں)
- – مرد کی قوامیت پر مبنی نظم معاشرت بھلا کیسے قلوب میں جاگزیں ھوگا
- – قانون میراث اور اسکی باریکیاں کس قدر لغو شے بن کررہ جائیں گی (فرد آخر کیونکر ایسے افراد میں اپنی دولت تقسیم ھونے پر راضی ھوگا جنکا یا تو غالب معاشرتی وجود ہی نہ ھو اور یا پھر وہ اس سے غیر متعلق ھوچکے ھوں)
- – نکاح کیلئے ھم مذھب ھونے کی حدود کیوں نا غیر فطری معلوم ھونگی
- – گستاخی رسول و ارتداد کی سزائیں بھلا کیسے ھضم ھوسکیں گی
- – کفر سے بیزاری کا تصور فکر و نظر پر کیوں نہ بوجھل معلوم ھوگا
- – اور جو ذھنیت تاریخی معتبر دین اور قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دے رہی ھوگی وہ بھلا کیوں نہ دقیانوسی و غیر متعلق معلوم ھوگی
یہ مقام ھمارے ‘اجتہاد مطلق’ کے شوقین حضرات کیلئے لمحہ فکریہ ھے کہ اجتہاد کا یہ شوق وہ کس تناظر میں بیٹھ کر پورا کررھے ہیں۔ چنانچہ یہ لوگ جدید معاشرتی و ریاستی تناظر کا تجزیہ کرکے اسے وحی کی روشنی میں نبی اور اسکے اصحاب کی قائم کردہ معاشرت و ریاست پر جانچنے کے بجائے الٹی گنگا بہانے چل نکلے۔ یہ اس جدید تناظر کے اندر بیٹھ کر اس سے نکلنے والی عقلیت و ادارتی صف بندی کو معیار بناکر پوری اسلامی تاریخ کو ہی جانچنے بیٹھ گئے اور نتیجتا چن چن کر ہر ایسی شے کو وحی کا غلط فہم قرار دیتے گئے جو اس جدید تناظر میں فٹ ھونے کی صلاحیت نہ رکھتی ھو۔ اس فکری روش کا نام انہوں نے ”اجتہاد مطلق” سمجھ لیا۔ ان ”جدید عقلمندوں” کے خیال میں اسلاف بھی شاید اجتہاد کے نام پر اسلام کے ساتھ یہی سلوک کرتے آئے ہیں، تب ہی تو یہ ”انکی طرح” اپنے اجتہاد کا حق منواتے رھتے ہیں۔
پس آئمہ سلف کا فہم اسلام صرف اس لئے ہی معتبر نہیں کہ وہ رسول اللہ (ص) کے سکھائے ھووں (رض) کے سکھائے ھوئے لوگوں کا تسلسل ہیں (یقینا یہ بہت بڑی وجہ ھے کہ رہتی دنیا تک کسی کو یہ حظ عظیم نصیب نہیں ھوسکتا) بلکہ اس لئے بھی لائق التفات ھے کہ وہ تناظر جس میں یہ فہم تعمیر ھوا بذات خود وہ تناظر بھی موجودہ تناظر کے مقابلے میں معتبر ھے۔ ہر جمعہ کے خطبے میں سرکار (ص) کا دھرایا جانے والا فرمان ‘خیرالقرون قرنی، ثم الذین یلونھم ثم الذین یلونھم’ محض کوئی اخلاقی قضیہ ہی نہیں بلکہ ایک معاشرتی و ریاستی حقیقت کا بیان ھے۔