ایک روح پرور تبدیلی
ایک دور تھا جب مغربی علمیت سے مرعوبیت کے زیر اثر ہمارے یہاں مسلم ماڈرنزم نے جنم لیا۔ اس فکر نے دعوی کیا کہ آج تک کوئ اسلام کو درست سمجھا ہی نہیں، اصل اسلام وہ ہے جو مغرب برت رہا ہے۔ انہوں نے ‘اسلام کی مغرب کاری’ کا بیڑا اٹھایا۔ اس فکر سے بہت سے ذہن متاثر ہوۓ (سر سید، چراغ علی، پرویز وغیرہم)۔ لیکن علماء اسکے آگے ڈٹ گئے اور اسے شکست فاش سے دوچار کیا (آج جاوید احمد غامدی جیسے مفکرین ایک بار پھر اس مردے میں روح پھونکنے میں مصروف ہیں)۔
لیکن مغربی علمیت پر یہ فتح دیر پا ثابت نہ ہوئ اور اب یہ ‘مسلم ترمیمیت پسندی (revisionism)’ کی صورت میں نمو دار ھوئ۔اس فکر نے دعوی کیا کہ اسلام اور مغرب میں اصولی مماثلت ہیے لہذا مغرب سے ڈائیلاگ (کچھ لو اور دو کی بنیاد پر معاملہ) ہو سکتا ہے۔اس فکر نے کہا کہ مغربی اقدار و ادارے ہماری ہی تاریخ کا تسلسل ہیں (اور یہ ثابت کرنے کیلۓ انہوں نے اسلامی تاریخ کا ایک ایسا revised ورژن تیار کررکھا ہے جو مغرب کو اپنے اندر سمو نے کی کوشش کرتا ہے (اس فکر کی مثالیں اسلامی بینکاری و جمہوریت ہیں)۔اس فکر نے ‘مغرب کی اسلام کاری’ کی۔مسلم روژنزم ان معنی میں زیادہ خطرناک ثابت ہوئ کہ اس میں علما کرام بھی اچھی خاصی تعداد میں شامل ہوگۓ۔
یہ دونوں دھارے مغرب سے مرعوبیت اور نامکمل واقفیت کی بنا پر پیدا ہوئے۔ لیکن آج الحمد للہ امت مسلمہ میں ایسے افراد کا اچھا خاصا جتھا پیدا ہوگیا ہے جو مغرب کی آنگ انگ سے واقف ہے، جو اسکی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس سے بات کرتے جھجھک محسوس نہیں کرتا۔ جو پورے شرح صدر کے ساتھ کہتا ہے کہ ‘مغرب جاہلیت خالصہ ہے’، اس کے ساتھ ہمارا ڈائیلاگ نھیں بلکہ ‘دعوت’ (monologue)کا تعلق ہے۔ قرون اولی کی طرف مراجعت کی دعوت دیتے اسے عار محسوس نہیں ہوتی۔
*ماڈرنسٹ مفکرین سے کون متاثر ہوتا ہے ؟*
ماڈرنسٹ مسلم مفکرین سے لوگ بالعموم تین وجوھات کی بنا پر متاثر ھوتے ہیں:
*1) مولوی بیزاریت:
ایسے لوگ راسخ العقیدہ اسلام کو چند سٹیریو ٹائپ قسم کے نظریات کی بنیاد پر دیکھتے ہیں۔ اسلام کی راسخ العقیدہ تعبیر و تشریح سے یہ نامکمل واقف یا بالکل ناواقف ھوتے ہیں، انہیں جدید مسلم مفکرین کی بات صرف اس لئے اچھی لگتی ھے کہ یہ مولوی نہیں ھوتے (انہیں ان متجددین کی بات بھی پوری طرح معلوم نہیں ھوتی جنکی یہ تقلید کرتے ھیں)۔ اس طبقے کا بنیادی مطمع نظر یہ سوال ھوتا ھے: ”یہ بات کہیں مولوی نے تو نہیں کہی؟” (یعنی مولوی نے کہی تو غلط ھے)۔ انہیں آپ ‘مولوی بیزار’ کہہ لیجئے (اس بیزاری کی بہت سی وجوھات ھوتی ہیں، مثلا ماڈرن و منفرد بننے کا بھوت سوار ھونا، مغرب سے بے انتہا متاثر ھونا، مغربی علوم کا دل و جان میں سرائیت کر جانا وغیرہ)
*2) وصال مغرب بمع مذھب:
ایسے لوگ مغرب سے انتہائ متاثر ھوتے ہیں اور شدید خواھش رکھتے ہیں کہ کسی طرح اسلام انہیں وہ سب فراھم کردے جو مغرب کے پاس ھے۔ چونکہ راسخ العقیدہ اسلام انکی اس طلب کی راہ میں رکاوٹ بنتا ھے لہذا یہ اسے ترک کرکے متجددین کا رخ کرتے ھیں جو ایسی تمام بندشوں کا توڑ کرنا خوب جانتے ہیں۔ یہ لوگ مغربی فکر و فلسفے سے نامکمل واقفیت (یا بالکل ناواقفیت) کا شکار ھوتے ھیں، البتہ چند مغربی علوم کے سند یافتہ ھوتے ھیں۔ یہ طبقہ نفسیاتی و فکری طور پر اسلام سے قطع تعلق بھی نہیں کرنا چاھتا مگر خواھشات نفس کا بھی خوگر ھوتا ھے۔ انہیں متجددین کی بات اس لئے بھاتی ھے کہ ایسے مفکرین انکے یہ دونوں ہی مسئلے حل کردیتے ہیں۔ ایسے لوگ کلامی مذہبی گروھوں کے آپسی متشددانہ رویے سے بھی شاکی ھوتے ہیں۔ متجددین کے پیروکاروں کی غالب اکثریت کا تعلق اسی قسم سے ھے (انکا بنیادی سوال یہ ھوتا ھے: ”جدید تہذیب کے تمام مظاہر تو ہمیں چاہئیں، بتائیے اسلام کا کیا کریں؟”)
*3) اسلام اور مغرب کے درمیان جاری کشمکش کا حل نکالنے کی خواہش و کوشش:
یہ لوگ بالعموم سنجیدہ اور پڑھے لکھے ھوتے ہیں (بلکہ کئی ایک دینی تعلیم یافتہ بھی ھوتے ہیں)۔ یہ اسلام اور مغرب کے درمیان ایک ‘فکری پل’ تعمیر کرنے کے خوہشمند ھوتے ہیں، مگر چونکہ بالعموم یہ مغربی فکر سے گہری واقفیت نہیں رکھتے لہذا اس شوق کو پورا کرتے کرتے اسلام کو مغرب میں یا مغرب کو اسلام میں تلاش کرنے لگتے ھیں اور یوں یا تو خود آزاد محقق نما متجدد بن جاتے ھیں اور یا پھر اپنے سے ذہین کسی متجدد کے ہتھے چڑھ جاتے ھیں۔ ان کا بنیادی سوال یہ ھوتا ھے: ”موجودہ حالات میں اسلام کی ایسی تفہیم کیا ھوگی جو حاضروموجود تناظر میں قابل قبول و عمل ھو؟” نتائج کے اعتبار سے یہ تیسرے قسم کے لوگ سب سے زیادہ خطرناک ھوتے ہیں۔
تحریر : زاہد مغل