یہ بات درست ہے کہ تمام تر جذباتی کیفیات جسم میں موجود رطوبتوں کے نظام کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں۔ خوشی، غم، غصہ، خوف، یہ سب کیمیائی تعاملات ہیں۔ لیکن کیا ’’سرشاری‘‘ ، ’’استغنأ‘‘ ، ’’اُنس‘‘، ’’بے نیازی‘‘ ، “سخاوت ” بھی کیمیائی تعامل کے ذریعے پیدا ہونے والی کیفیات ہیں؟ کیا غریب کی مدد کرنے ، دیانتداری سے کام کرنے کے بعد جو سکون ملتاہے وہ بھی خون میں پیداہونے والا کیمیکل ری ایکشن ہے؟ یقیناً نہیں۔ ہم انسانی کیفیات کی بعض منفرد شکلوں کو فقط کیمیائی تعامل ، مادے کا ایک شکل سے دوسری شکل میں ارتقأ کہہ کر جان نہیں چھڑا سکتے۔ ایک دفعہ ایک بحث میں ایک دوست نے یہ سوال پوچھا تھا کہ کیا انسانی ذہن اور شعور حیاتیاتی دماغ ہی ہے یا حیاتیاتی دماغ سے خارج میں کوئی چیز ہے؟ اگر حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی چیز کو تسلیم کرلیں تو پھر یہ بھی ماننا پڑے گا کہ انسان میں کوئی غیر مادی چیز ضرور ہے جس کی بنیاد پر آپ کو کہیں نہ کہیں جاکر انسانوں کے خالق کو ماننا ہی پڑے گا۔
اگر کوئی یہ مانے کہ انسانی شعور اور ذہن حیاتیاتی دماغ ہی ہے تو پھر یہاں پر ایک الجھن پیدا ہوجاتی ہے۔ اس طرح تو یہ ماننا پڑے گا کہ عقل، منطق، حسن، قبح، گنتی، حساب، استخراج، احساس، معانی، جذبے، صحیح، غلط، اخلاقیات سب کچھ غیر معروضی اور ضمنی ظاہرے(فنامنا) ہیں۔ اور یہ سب کچھ ارتقاء کے نتیجے میں ہی وجود میں آئے۔ ہم کو اس کائنات میں جو نظم اور پیٹرن نظر آتا ہے دراصل وہ ہے نہیں بلکہ ہمارا دماغ کچھ اس طرح سے ارتقاء پذیر ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمیں وہ پیٹرن لگ رہا ہے۔ تمام سائنسی نظریات اور نتائج ہمارے حیاتیاتی دماغ کی اختراع ہے جو کہ کسی مجبوری کے نتیجے میں پیدا ہوئے۔ہمیں جو چیز صحیح لگ رہی ہے وہ اس لئے لگ رہی ہے کیوں کہ ہمارے دماغ نے نشؤنما ہی ایسی پائی کہ وہ ہمیں صحیح لگے۔ ہمیں دو اور دو چار اس لئے لگ رہے ہیں کیوں کہ ہمارے دماغ کا ارتقاء اس طرح سے ہوا ہے کہ ہمیں ایسا لگے۔ ہمیں جو چیزیں منطقی اور معقول لگ رہی ہیں اس کا عقل اور منطق سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ عقل اور منطق سرے سے کوئی چیز نہیں ہے۔ نیچرل سیلیکشن اور تنازع للبقا کی نتیجے میں ہمارے دماغ نے ایسا محسوس کرنا شروع کیا۔اگر ہمارا دماغ کسی اور طریقے سے ارتقاء پذیر ہوا ہوتا تو ہم یہ سب کچھ محسوس نہ کرتے بلکہ ہوسکتا ہے کہ ہم اس کا بالکل الٹا محسوس کر رہے ہوتے اور منطقی طور پر سوچنا ہی ناقابل قبول قرار دیا جاتا۔ہوسکتا ہے کہ کائنات میں کہیں دور کوئی مخلوق کسی اور پیٹرن پر ارتقاء پذیر ہوئی ہو جس کی ذہانت، عقل، حسن، صحت سب کچھ یہاں سے مختلف ہو۔اس صور ت میں اگر کوئی یہ کہے کہ سچ کہنا اچھا ہے، حیات وجودیت کے اعتبار سے موت سے اعلی ہے، بقا کی کوشش فطری ہے، باتوں میں تناقض نہیں ہونا چاہئے تو یہ سب باتیں اتفاقیات کے نتیجے میں آنے والی کوئی چیز ہے۔ ورنہ ان باتوں کی کوئی معروضی حقیقت نہیں ہونی چاہئے۔
اگر ایسا ہے تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اس عقل سے جو کہ قطعی طور پر غیر معروضی ہے خدا کا اثبات یا انکار کرنے پر کیوں مصر ہیں؟ جو انسانی حیاتیاتی دماغ سے باہر کسی انٹیلی جنس کو نہیں مانتا وہ یہ کیوں اس حیاتیاتی عقل سے ایک غیر بایولوجیکل وجود کی تصدیق کرنے یا تردید کرنے کا کی استعداد کا دعوی کرسکتا ہے؟!!!
اب اس سے بھی ایک اوربڑی الجھن ہے۔ ہم نے ارتقاء کو بھی اسی غیر معروضی عقل سے سمجھا ہے۔ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جس کو یہ ارتقاء اتنا منطقی لگتا ہے وہ سچ مچ ہے بھی یا ایسے ہی ہمارا دماغ محسوس کر رہا ہے۔ !!!!
انسانی حیاتیات سے باہر کسی انٹیلی جنس سے انکار کرنے کی صورت میں سب کچھ بے معنی ہوجاتاہے۔ ہمارے مشاہدات، ہماری سوچ ، ہمارے احساسات ، ہماری منطق ہر چیز کی عمارت ڈہ جاتی ہے۔۔ارتقاء کو ماننے کی صورت میں ارتقاء کا غلط ہونا لازمی ہوجاتا ہے۔۔میں اپنے ذہن کو استعمال کر کے کہہ سکتا ہوں کہ عقیدہ ارتقاء میں ایک عقلی تناقض موجود ہے۔ اس لئے کسی بیرونی انٹیلی جنس کے بغیر ارتقاء کا عقیدہ سو فیصد غلط ہے
اگر یہ سب انسانی ، ارادہ ، روح ، شعور کچھ بھی نہیں سب طبعی قوانین و کیمیائی تعاملا ت ہی ہیں تو پھر سوال یہ ہے کہ ہم اپنے عمل میں کتنا آزاد ہیں؟ اسٹیون ہاکنگ نے دی گرینڈ ڈیزائن میں لکھا : “یہ تصّور بہت دشوار ہے کہ ہماری مرضی کس طرح آزادنہ طور پر کام کرسکتی ہے جبکہ ہمارے رویّے طبعی قانون سے ہی متعین ہیں۔ گویا بظاہر ہم سب حیاتی روبوٹ سے زیادہ کچھ نہیں، اور آزاد مرضی محض ایک دھوکہ ہے۔“دوسری جگہ اسکی مزید وضاحت بھی کردی:” یہ نتیجہ اخذ کرنے کے باوجود کہ انسانی رویّے فطری قوانین کے طابع ہوتے ہیں، یہ بات بھی معقول لگتی ہے کہ اس کو سمجھنے کا عمل اتنا پیچیدہ اور اتنی زیادہ جہتوں پر مشتمل ہوگا کہ کوئی بھی پیشگوئی تقریباً ناممکن ہوگی، اس کے لیے انسانی جسم میں موجود ہزار کھرب کھرب خلیات thousand-trillion-trillion-molecules میں ہر ایک کی ابتدائی کیفیت کی معلومات درکار ہوں گی، پھر اتنی بڑی تعداد کی مساوات equations کو حل کرنے کے لیے چند ارب سال درکار ہوں گے!“
انسانی رویّے کے متعلق یہ پیشگوئی انسانی علم و طاقت کی کمزوری کا اعتراف ہے ۔کیا اس ادھورے علم کی بناء پر ہم الہامی توجیہات روح وغیرہ کا انکار کیا جاسکتا ہے ۔؟ یہ بیان ایک عظیم تر اور ہمارے شعور کی پہنچ سے ماورا سپر سائنس کا بالواسطہ اعتراف بھی ہے ۔
روح کی حقیقت کو ایک تمثیل سے واضح کرتا ہوں :
اگر میں تم سے پوچھوں اپنے آپ کو دکھاؤ تو پہلے تو تم کہو گے یہ کیا سوال ہے ، تم جسم کے کسی حصے کی طرف اشارہ کروگے ۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ تو تمہارا سینہ، چہرہ یا ہاتھ ہے، تم کہاں ہو؟ تو یقینا تم اپنے آپ کو دکھانے سے قاصر رہو گے ۔ انسان درحقیقت اپنی ”شخصیت“ کے حوالے سے پوشیدہ یا غیبی Unseen ہے۔ ایک کار کی مثال لو فرض کرو اس کا برانڈ نام ”ج“ ہے ۔ اگر ہم برانڈ ”ج“ کے تمام پارٹس کھول کر علیحدہ کردیں تو ”ج“ غائب ہو جائے گی لیکن سارے پرزے موجود ہوں گے یعنی ”ج“ ایک غیبی تصوّر ہے، بالکل اُسی طرح جس طرح ہر انسان خود ایک غیبی تصوّر کی طرح ہے۔میں ایک شخص ہوں اور ایک نام رکھتا ہوں جب میں کہتا ہوں کہ ”میں“ تو درحقیقت ایک غیبی وجود کی حیثیت سے بات کرتا ہوں جو کہ ایک جسم کے ذریعے اپنے آپ کو ظاہر کر رہا ہے۔ یعنی میرا وجود جو ایک Abstract ہے، وہ غیبی وجود ”روح“ بھی کہلاتا ہے ۔گویا روح ایک سوفٹ وئیر ہے اور جسم ایک ہارڈ وئیر ، دونوں مل کر ایک جیتا جا گتا ”انسان“ بناتے ہیں، روح کے سافٹ وئیر کے بغیر جسم کا کوئی حصہ کام کا نہیں رہتا۔ سائنس جسم کے اندر موجود ایک ہستی یا self کو نہیں مانتی مگر زندگی کے اس اسرار سے پردہ بھی نہیں اُٹھاتی نا اٹھا سکتی ہے۔ سائنس یہ تو بتاتی ہے کہ انسان ایٹم سے بنا لیکن ابھی تک سائنس یہ نہیں بتا پائی ہے کہ ایٹم میں زندگی کیسے آتی ہے؟ اور زندگی میں شعور، جذبات اور حواس کیسے عیاں ہوتے ہیں؟ ایٹم میں ایسا کیا ہے کہ زندگی، شعور اور جذبات ابھر آتے ہیں؟
روح کے متعلق جدید تھیوری روح کا کوانٹم نظریہ [Quantum consciousness or quantum soul theory]ہے۔اسکی وضاحت مختلف طریقے سے پیش کی جارہی ہے۔ایک مشہور اانگلش سائیٹ سے اقتباس پیش ہے۔امریکی ڈاکٹر سٹووارٹ ہیمراف اور برطانوی ماہر طبیعیات یا فزکس سر روجر پینروز نے انسانی ہوش و زندگی کی ایک کوانٹم تھیوری پیش کی ہے جس کے مطابق ہماری روح دماغ کے خلیوں یا سیلز میں موجود سیل یا خلیے کے ایک چھوٹے حصے یا آرگنیلی مائیکرو ٹیوبیولز میں ہوتی ہے۔ ڈاکٹر ہیمراف کہتے ہیں: “فرض کریں کہ ہمارا دل دھڑکنا بند کر دیتا ہے،خون کا جسم میں بہاؤ رک جاتا ہے،مائیکرو ٹیوبیولز کی کوانٹم حالت ختم ہوجاتی ہے لیکن ان مائیکرو ٹیوبیولز میں موجود کوانٹم معلومات جو ان دماغی خلیوں یا نیورانز کو چلاتی ہے اور انسان کو زندہ رکھتی ہے،پھر بھی تباہ نہیں ہوتی۔یہ محض تقسیم ہوتی ہے اور کائنات میں چلی جاتی ہے(جیسا کہ مذہب کا تصور ہے کہ مرنے کے بعد روح اللٰہ تعالٰی کی طرف چلی جاتی ہے۔یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ یہ کوانٹم معلومات جو دماغ اور دماغ سے زندگی کو چلاتی ہیں مرنے کے بعد بھی فنا نہیں ہوتی۔اس کے اندر انسان کی ساری زندگی کا ریکارڈ موجود ہوتا ہے کہ انسان نے زندگی میں کیا کیا۔یہ مذہب کے اس تصور کا ثبوت ہے کہ مرنے کے بعد بھی روح زندہ رہتی ہے اور انسان کے اعمال کی گواہ ہے اور اللٰہ کو موت کے بعد حساب دیتی ہے اور عالم برزخ میں اس سے جزا و سزا کا معاملہ ہوتا ہے۔اس طرح موت کے بعد کی زندگی کا وجود ثابت ہوتا ہے)۔اگر انسان مرنے کے قریب ہوجائے لیکن اس کی جان بچ جائے تو زندگی چلانے والی یہ کوانٹم معلومات واپس مائیکرو ٹیوبیولز میں آجاتی ہے اور انسان کہتا ہے کہ میں مرنے کے بہت قریب تھا۔اگر انسان مر جائے تو اس کی موت کے بعد جسم سے الگ یہ کوانٹم معلومات ہمیشہ روح کی صورت میں موجود رہتی ہے۔
اس حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر ہینز پیٹر ڈور ، فرینکفرٹ جرمنی کے میکس ویل پلانک فزکس انسٹٹیوٹ کے سابق سربراہ کا ایک اقتباس ایک انگلش سائیٹ پر موجود ہے۔ انکے مطابق” جو ہم اس دنیا کے بارے میں اس وقت تصور کرتے ہیں وہ صرف مادے کی سطح پر ہے جس کو ہم سمجھ سکتے ہیں۔لیکن اس سے آگے ایک لامحدود حقیقت ہے جو کہ اس مادی تصور سے بھی بڑی ہے۔اس طرح ہمارا وجود اس دنیا کے بعد کی ایک دنیا کی قید میں ہے جس نے اس مادی وجود کو گھیر رکھا ہے۔یہ تصور کرتے ہوئے میرا وجود اس دنیا میں دماغ کی یادداشت یا ہارڈ وئیر پر نقش ہے جس کا پھیلاؤ کوانٹم فیلڈ تک ہے۔اس طرح میں کہہ سکتا ہوں جب میں مروں گا تو میری زندگی کی یہ کوانٹم معلومات یا روح ضائع نہیں ہوگی کیونکہ جسم مرے گا لیکن روحانی کوانٹم فیلڈ جاری رہے گا۔اس طرح میں زندہ جاوید ہوں”۔