ملاحدہ کااعتراض:
اسلام خوف کا مذہب ہے۔ مثلاً سورج اور چاند گرہن عام واقعات ہیں جن کی سائنس نے قابلِ فہم توجیہ پیش کی ہے جس کو پانچ سال کا بچہ بھی سمجھ سکتا ہے۔ سائنس نہ ہونے کی وجہ سے نبی اکرم ﷺ مسلمانوں کو ڈرا کر سورج اور چاند گرہن کی نماز پڑھانے پر اکساتے تھے، جبکہ یہ کوئی خوفناک واقعہ نہیں ہے۔
الجواب:
ہمارے لئے تو وہی بات قابلِ قبول ہے جو کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا دی۔۔ تفصیل اس بابت یہ ہے کہ دورِ جہالت میں گرہن سے متعلق فضول توہمات موجود تھے۔۔ مثلاً یہ سمجھا جاتا تھا کہ آسمان میں ایک اژدھا ہے، وہ جب غصے میں چاند کو نگل لیتا ہے تو چاند گرہن ہوتا ہے۔۔ اسی طرح زمین پر جب کسی اہم شخصیت کی موت ہوتی ہے توسورج پر اندھیرا چھا جاتا ہے تو سورج گرہن ہوتا ہے، وغیرہ۔۔ اسلام حقائق کا دین ہے اور توہمات کا مخالف ہے۔۔ ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریم ﷺ کے صاحبزادہ ابراہیمؓ مدینہ میں پیدا ہوئے اور ڈیڑھ سال کی عمر (شوال-10 ہجری) میں انکا انتقال ہوگیا۔۔ اتفاق سے اسی دن سورج کو گرہن پڑگیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ پیغمبر ﷺ کے بیٹے کی وفات کی وجہ سے ہے۔۔ آپ ﷺ کو یہ بات ناپسند ہوئی تو آپ نے لوگوں کو جمع کرکےفرمایا: “سورج اور چاند میں کسی انسان کی موت کی وجہ سے گرہن نہیں لگتا بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں۔ جب تم ایسا دیکھو تو نماز پڑھو”- (صحیح البخاری- کتاب الکسوف)۔۔ یہ تو تھا ہم مومنین کیلئے جواب۔۔ اب ‘عقلمند’ ملحدین کیلئے سائنسی جواب ملاحظہ ہو۔۔
کائنات میں واضح طور پر ایک ذہین منصوبہ بندی (Intelligent Planning) پائی جاتی ہے جس کا دوٹوک مطلب ہے کہ ذہین ترین منصوبہ ساز(Intelligent Planner ) موجود ہے۔۔ اس منصوبہ ساز (خدا) نے آپکی اب تک دریافت شدہ 125 بلین کہکشائیں تخلیق کیں جس میں سے ہر ایک کے اندر تقریباً 200 بلین ستارے ہیں۔۔ ان عظیم کہکشاؤں میں صرف ایک ہمارے مِلکی وے گلیکسی (Milky Way Galaxy) کا نظامِ شمسی (Solar System) ایسا ہےجو ایک استثنائی مثال (Unique Case)ہے۔۔ مِلکی وے کا درمیانہ حصہ ناقابلِ برداشت حد تک گرم ہے۔۔ اسکا صرف ایک کنارہ اُس پُر خطر درمیانی ماحول کے اثر سے بچا ہوا ہےجہاں ہمارا سولر سسٹم موجود ہے۔۔ اور پھر اس میں سے صرف سیارہ زمین پر ہی Life Supporting System موجود ہے۔۔ مزید برآں، گرہن (Eclipse) ایک فلکیاتی مظاہرہ ہےجو باقی کائنات کی نسبت ایک عجیب طور پر ہمارے نظامِ شمسی کا حصہ ہے۔۔گرہن دراصل سایہ پڑجانے کو کہتے ہیں جو کہ دو اجسام کے درمیان ایک تیسرا جسم آجانے کی وجہ سے ہوتا ہے۔۔ سورج اور چاند گرہن ایک انوکھا تخلیقی معجزہ ہےجو کہ صرف زمین پر رونما ہوتا ہے۔۔ وہ ایسے کہ ان تینوں جسموں (سورج، زمین، چاند) کے سائز میں بہت زیادہ فرق ہے۔۔ چاند کو اگر مکئی کے دانے کے برابر سمجھا جائے تو اسکے مقابلے میں زمین فٹ بال کے برابر اور سورج کوہ ہمالیہ سے بھی زیادہ بڑا ہوگا۔۔ یہ تین مختلف سائز کے اجسام حرکت کرتے ہوئے ایسے خوبصورت تناسب سے ایک سیدھ میں آجاتے ہیں کہ زمین سے دیکھنے والے کو یہ یکساں سائز کے نظر آتے ہیں۔۔جب تینوں کے درمیان چاند ہو توسورج گرہن ہوتا ہے اور جب تینوں کے درمیان زمین ہو تو چاند گرہن ہوتا ہے۔۔ یہ اِس وسیع ترین خلاء میں ایک انتہائی انوکھی پوزیشننگ ہے۔۔ کیا اتنی بڑی کائنات میں صرف زمین پر یہ انوکھا واقعہ ہونا محض اتفاق ہے یا کسی عزیز اور علیم خدا کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے؟ (ذالک تقدیر العزیز العلیم)۔۔ ایسا خوبصورت اندازہ کہ آپ گرہنوں (Eclipses) سے پہلے ہی انکی قطعی پیشن گوئی کرلیتے ہیں۔۔ان گرہنوں کے زمین پر کیا اثرات ہیں، اور یہ کیسے افزائشِ حیات کیلئے مفید ثابت ہوتے ہیں، اسکی تفصیل پر سائنسدانوں کی تحقیقات اور حیرانیاں آپ گوگل سے ڈاؤنلوڈ کرسکتے ہیں۔۔کیا یہ نادر اتفاق خودبخود ہونا ممکن ہے؟ کون ہے جسے اس بے ارادہ کائنات پر کامل کنٹرول حاصل ہے؟
” بلکہ یہ دونوں اللہ کی نشانیوں میں سے نشانیاں ہیں”۔۔ یہ کوئی سادہ سی بات نہیں ہے، بلکہ ہمیں دعوتِ فکر دی جارہی ہے کہ اس معجزانہ صناعی پر غور کرو تاکہ تمہیں خدا کی معرفت نصیب ہو۔۔ یہ معرفت ہمیں خدا کے سامنے جھکنے پر مجبور کردیتی ہے جس کا ایک اظہار’ نماز’ ہے۔۔ صلاۃِ کسوف وخسوف اس بات کا اعتراف ہے کہ گرہن ایک زبردست حکمت والے کا ایک خدائی مظاہرہ ہے، نہ کہ محض ایک فلکیاتی ظاہرہ۔۔ جس بات کو آپ ‘خوف’ سے تشبیہ دے رہے ہیں اسے ہم مسلمان وہ کیفیت کہتے ہیں کہ اپنی بےبسی محسوس کرتے ہوئے خدا کی عظمتوں کو دیکھ کر رونگٹے کھڑے ہوجانا۔۔ لیکن یہ اُسکے لئے ہے جس کے دل میں ایمان ہو۔۔(بےشک ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب لرز جاتے ہیں، اور جب اللہ کی آیات/نشانیاں ان پر تلاوت /بیان کی جاتی ہیں تو انکا ایمان بڑھ جاتا ہے، اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں– الانفال-2)۔۔!
اب آخری بات سمجھ لیں،، شاید آپکو فائدہ ہوجائے۔۔سائنس خدا کے وجود یا مذہب کو درست ثابت کرنے کیلئے کوئی علم نہیں،، بلکہ مادہ اور مظاہرِ فطرت کی پہچان کیلئے تحقیق کا علم ہے۔۔ عجیب بات ہے کہ آپ مادی علم کے ذریعے غیرمادی حقائق پرکھنے کیلئے سائنس کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔۔ حالانکہ سائنس (مادہ کا علم) جب بےبس ہوجاتی ہے تو کسی سپریم پاور کی موجودگی کا اعتراف کرتے ہوئے کہتی ہے ۔۔
The most in-comprehensive fact about the nature is that it is comprehensible which means a very intelligent and mathematical planner that created zero defect universe.
“فطرت کے بارے میں سب سے ناقابلِ فہم حقیقت یہ ہے کہ وہ قابلِ فہم ہے۔۔ جس کا مطلب ہے کہ ضرور کوئی ذہین ترین ریاضیاتی منصوبہ ساز ہے جس نے بےنقص کائنات تخلیق کی”
پس اسلام امن، عقل اور تقویٰ کا مذہب ہے،، بےعقلی والی باتوں کا نہیں۔۔!!
(خیر اندیش: محمد نعمان بخاری)