اعتراض :
قرآن کئی مقامات پر بیان کرتا ھے کہ زمین و آسمان چھ دن میں پیدا کئے گے لیکن سورۃ فصّلَت میں کہا گیا ھے کی زمین و اسمان 8 دنوں میں بناے گے کیا یہ تضاد نہیں؟
جواب: قرآن کے مطابق آسمان و زمین چھ دنوں یعنی چھ ادوار میں پیدا کیے گے ھیں اسکا ذکران سورتوں میں آیا ھے.سورۃ اعراف کی آیت54، سورۃ یونس آیت 3،سورۃ ہود آیت 7،سورۃ فرقان 59،سورۃ حدید کی آیت 4 ۔
قرآن کریم کی جتنی بھی آیات میں زمین و آسمان کو تخلیق کرنے کی کل مدت للہ تعالیٰ نے بیان کی ہے وہ چھ دن ہی ہے ۔ مگر سورہ فصلت میں للہ نے زمین و آسمان کی پیدائش کے دو ایام اور ان میں موجود باقی تمام چیزوں کی پیدائش کے چار ایام اور زمین و آسمان کے دوبارہ دو ایام بیان کیے ہیں جس پر ملحدین کا اعتراض یہ ہے کہ اگر ان کو ٹوٹل کیا جائے تو آٹھ دن بنتے ہیں ۔ حالانکہ یہ محض ایک غلط فہمی ہے۔سورت فصلت آیت 9 تا 12 پیش ہے:
قُلْ أَئِنَّکُمْ لَتَکْفُرُونَ بِالَّذِي خَلَقَ الْأَرْضَ فِي يَوْمَيْنِ وَتَجْعَلُونَ لَهُ أَندَادًا ۚ ذَٰلِکَ رَبُّ الْعَالَمِينَ ﴿٩﴾ وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَکَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ ﴿١٠﴾ ثُمَّ اسْتَوَىٰ إِلَى السَّمَاءِ وَهِيَ دُخَانٌ فَقَالَ لَهَا وَلِلْأَرْضِ ائْتِيَا طَوْعًا أَوْ کَرْهًا قَالَتَا أَتَيْنَا طَائِعِينَ ﴿١١﴾ فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي کُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِکَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ ﴿١٢﴾
ترجمہ:کہہ دو کہ کیا تم واقعی اس ذات کے ساتھ کفر کا معاملہ کرتے ہو جس نے زمین کو دو دن میں پیدا کیا اور اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہو ؟ وہ ذات تو سارے جہانوں کی پرورش کرنے والی ہے۔(9)اور اس نے زمین میں جمے ہوئے پہاڑ پیدا کیے جو اس کے اوپر ابھرے ہوئے ہیں اور اس میں برکت ڈال دی اور اس میں توازن کے ساتھ اس کی غذائیں پیدا کیں۔ سب کچھ چار دن میں تمام سوال کرنے والوں کے لیے برابر ۔(10)پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا اور اس سے اور زمین سے کہا : چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا : ہم خوشی خوشی آتے ہیں (11)
آیت نو میں ذکر آیا کہ دو دن میں زمین بنائی ، آیت دس میں اس موجود لوازمات کا ذکر آیا کہ یہ سب چار دن میں بنے، آیت گیارہ میں زمین اور آسمان دونوں کو وجود میں لانے کا ذکر ہوا ۔ یعنی جو دو دن آیت نمبر 9میں بیان کئے گئے آیت نمبر 11میں انہی کا اعادہ کیا گیا ۔ چنا چہ حم سجدہ کی آیت 11 میں واضح بیان پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا اور اس سے اور زمین سے کہا : چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا : ہم خوشی خوشی آتے ہیں (11)
آیت میں واضح آسمان کی تخلیق کیساتھ زمین کا ذکر آیا ہے ، یعنی زمین اور آسمان کی تخلیق اکھٹی ہوئی ، چنانچہ یہ وہی دن ہیں جنکاذکر آیت نو میں ہے۔ خلق ارض (آیت نو)اور تسویہ سماء(آیت گیارہ) کے مابین (آیت دس ) میں متعلقات ارض کا ذکر جملہ معترضہ کے طور پر لایا گیا ہے کیونکہ سیاق کا تقاضا یہی تھا، اور ایک بلیغ کلام میں صرف ظاہری وقوعی ترتیب کی نہیں بلکہ معنوی اور بلاغی ترتیب ہی اہم ہوتی ہے!
جب اسی اگلی آیات میں یہ بات واضح ہو چکی کہ زمین و آسمان ایک ساتھ تخلیق ہوئے تو پھر یہ دو دن پچھلی آیات میں زمین کے لئے بیان کردہ دو دنوں سے الگ کیسے ہو سکتے تھے؟
بنیادی بات یہ ہے کہ زمین و آسمان کی چھ دن میں تخلیق کا بیان اتنے زیادہ تواتر سے قران میں آیا ہے کہ اس کے بعد سورہ فصلت کی ان آیات سے یہ بات اخذ کی ہی نہیں جا سکتی کہ یہاں چھ دن آٹھ دنوں میں بدل گئے ہوں گے ۔ قرآن پر چودہ سو سال سے تحقیقات ہورہی اگر یہ غلطی ہوتی تو فوراً عیاں ہو جاتی کہ پہلے چھ فرماتے رہے اب تعداد گن رہے ہیں تو آٹھ آرہی ہے ۔ جی نہیں ۔ اس کو کسی بھی دور میں غلطی سمجھا ہی نہیں گیا ۔ نہ ہی یہ غلطی ہے ۔ یہ غلطی صرف اس ملحد کی ہے جس نے قران کی گزشتہ سات آیات کو بھی نظر انداز کر دیا اوراس آیت میں بھی زمین کے دو دن الگ گنے اور آسمان کے دو دن الگ ۔ جبکہ اسی آیت میں زمین اور آسمان کی اکٹھی پیدائش کا ذکر کیا گیا ہے ۔
نوٹ: چار دن میں جو کام ہوا یعنی تزین و آرائش ، خوراک و باقی ضروریات وغیرہ کا بندوبست ‘ ان آیات میں اس کا ذکر آسمان کی پیدائش کے تذکرے سے پہلے کیا گیا ۔ حم سجدہ میں رد شرک کے سیاق میں بندوں پر احسانات کا ذکر چل رہا ہے، لہذا وہاں زمین کے متعلقات کو پہلے یکجا کردیا گیا ہے،کہ انسان جن نعمتوں سے بہرہ اندوز ہوتا ہے، ان کا براہ راست تعلق اسی زمین سے ہے ، لہذا اس کو زمین کی تخلیق کے ساتھ بیان کرنا مناسب حال ہوا، اور اس میں موجود واؤ ایسا کوئی تقاضہ نہیں کرتا کہ ماقبل مستقل اور الگ آیت میں مذکور مرحلے اور اس مرحلے میں کوئی فاصلہ نہ ہو، نہ اسے ماقبل سے جوڑ کر مرتب کرنا اس سے سمجھ میں آتا ہے.. ایسی صورت میں مذکورہ آیت جملہ معترضہ شمار ہوگی ۔ مگر اسلوب بیان میں پھر بھی اس بات کی بھر پور رعایت کی گئی کہ جملہ معترضہ جملہ معترضہ ہی رہے اور سمجھا جا سکے، اور اصل سلسلہ کلام بھی نہ ٹوٹنے پائے، اس طرح کہ آسمان کے تسویہ کوزمین کے پیدا کرنے پر عطف کیا گیا، جب کہ متعلقات ارض کو ایسے پیرایے میں لایا گیا کہ اس کی ترتیب ہی لازم نہیں آتی، اور وہ پوری بیانی وبلاغی وسعت کے ساتھ جملہ معترضہ ہی رہتا ہے! یہ قرآن کا اعجاز ہے! کہ ہر مقام اور سیاق کے اعتبار سے بہترین اور مناسب ترین ترتیب کے باوجود کہیں پر بھی تناقض نہیں ہوتا۔
چنانچہ اگلی آیت “ثم استوى الی السماء…” میں ثم کا عطف، مذکورہ آیت سے پہلے والی آیت “قل ائنکم لتکفرون بالذی خلق الأرض فی یومین” میں “خلق الأرض” پر ہوگا.. یہ چیز لغت کے کسی قاعدے سے متعارض نہیں ہے۔یہ وضاحت اعتراض کے جواب میں وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ نقل ہوتی ہوئی آئی ہے، چنانچہ بطور مثال صحیح بخاری کتاب التفسیر باب سورة حم السجدة کے اندر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے.
استفادہ تحریر محمد سلیم ،وسیم بیگ