اعتراض : اکثر مومنین ان آیات کو استعمال کر کے بگ بینگ کو قران سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں، مگر مومنین یہ بھول جاتے ہیں کہ زمین کو وجود میں آنے کے سائنسی شواہد بالکل مختلف ہیں، بگ بینگ آج سے 13.7 ارب سال پہلے ہوا، جبکہ زمین 4.6 ارب سال پہلے وجود میں آئی اس لئے زمین اور آسمان کو جڑے ہوئے کہنا ہی غلط ہے۔” أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا [3] ترجمہ : اور کیا کافر لوگوں نے نہیں دیکھا کہ جملہ آسمانی کائنات اور زمین (سب) ایک اکائی کی شکل میں جڑے ہوئے تھے پس ہم نے ان کو پھاڑ کر جدا کر دیا۔“ثُمَّ اسْتَوٰی اِلَی السَّمَآ ئِ وَ ھِیَ دُخَا نُ فَقَا لَ لَھَا وَ لِلْاَ رْ ضِ ائْتِیَا طَوْ عًا اَوْ کَرْ ھًا ط قَا لَتَآ اَ تَیْنَا طَآ ئِعِیْنَ ہ[6] ترجمہ : پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہو ا جو اس وقت محض دھواں تھا، اس نے آسمان اور زمین سے کہا: وجود میں آجا ئو ، خواہ تم چاہو ، یا نہ چاہو دونوں نے کہا : ہم آ گئے فرماں برداروں کی طرح۔
(غالب کمال)
جواب:
قرآن میں بیان کردہ وہ باتیں جو کہ کسی نہ کسی طرح سائنس سے متعلق ہیں اس کا انداز سائنسی نہیں ہے۔موجودہ دور کی سائنسی دریافتوں کو قرآن کے ساتھ map کرنے کا کام انسان کا اپنا تحقیقی کام ہے۔ اگر کوئی بلیک ہول یا بگ بینگ تھیوری کو قرآن کی کسی آیت کے ساتھ ملادیتا ہے تو وہ اس کی اپنی تحقیق ہے۔ کوئی اس سے متاثر ہوتا ہے اور کوئی نہیں۔ کوئی اس طرح کی تحقیق پر فوکس کرتا ہے اور کوئی اس کو غیر ضروری جانتا ہے۔کل کو یہ ثابت ہوجائے کہ بگ بینگ تھیوری غلط ہے تو بھی ایسا کوئی مسئلہ نہیں ہے کیوں کہ یہ بالکل One is to one mapping کا معاملہ نہیں ہے۔
قرآن اگرچیکہ سائنسی کتاب نہیں ہے لیکن سادہ انداز میں جو بھی اس میں سائنسی حقائق بیان کئے گئے ہیں وہ مبنی بر حقیقت ہیں اور چونکہ قرآن سائنسی کتاب نہیں ہے اس لئے اس کا انداز بھی سائنسی نہیں ہے۔ اس کا طرز بیان ایسا ہے کہ موجود دور کا جدید انسان بھی اس کو سمجھے اور چودہ سو سال پہلے والا ایک عام سے بدو بھی اس کو سمجھے۔ قرآن کا مقصد سائنس سکھانا نہیں اس لئے آپ قرآن سے سائنسی انداز کا مطالبہ نہیں کر سکتے۔ اگر کوئی’ طے شدہ سائنسی تحقیق ‘اور قرآن کی کسی بیان کردہ واضح بات کو ایک دوسرے سے متضاد ثابت کیا جائے تو پھر سچ مچ قرآن کی حقانیت پر سوال اًٹھایا جا سکتا ہے۔اور اگر کوئی شخص اپنی کاوش سے قرآن میں بیان کردہ بات کو موجود سائنسی دریافتوں کے ساتھ مطابقت ثابت کرتا ہے تو پھر یہ دیکھا جائے گا کہ یہ مطابقت کتنی OBjective ہے۔ اور اگر Objective نہیں ہے تو پھر معاملہ ڈھیلا ہی رہتا ہے۔ مؤمنین ان آیات کو دیکھ کر اپنے ایمان کو تازہ کرتے رہیں گے اور جب کوئی نئی تحقیق یہ ثابت کرے کہ پہلے والی مطابقت غلط تھی تو مؤمنین نئی مطابقت پیدا کر کے اپنے ایمان کو مزید تازہ کریں گے۔ اور کچھ ملحدین ان مؤمنین کی عقل کا ماتم کریں گے اور کچھ جلتے کڑھتے رہیں گے۔ رہی یہ بات کہ آیا کلام پاک میں موجود رتق اور فتق کی بات بگ بینگ سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں، تو جناب میرا خیال یہی ہے کہ یہ مطابقت رکھتی ہے۔ لیکن اس کا مطابقت رکھنا اتنا Objective نہیں ہے۔ ہاں اگر کوئی دوسرے مؤمنین اس بارے میں جذباتی ہوں اور اس کو کلام پاک کے بہت بڑے اعجاز کے طور پر پیش کریں تو ان سے نمٹنا ملحدین کا کام ہے۔
جہاں تک اس اعتراض کی بات ہے یہ کوئی خاص وزن نہیں رکھتا ہے۔ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ زمین اور آسمان باہم ملے ہوئے تھے تو آپ اس کا ایک لازمی مطلب یہ لیتے ہیں کہ جب زمین اس شکل میں بن چکی تھی تو وہ آسمان سے ملی ہوئی تھی۔ انسانی زبان میں اس بات کا احتمال پایا جاتا ہے کہ ہم اس کا یہ مطلب نکالیں کہ جس مادے سے زمین اور آسمان بنے ہیں وہ کبھی ایک ہی اکائی کی شکل میں تھے۔اگر ہم یہ کہیں تو کیسے غلط ہے کہ جس مادے سے زمین بنی ہے وہ اسی parent مادے کا حصہ ہے جو دھویں ، گردوغبار کی شکل میں تھا ، بگ بینگ کی وجہ سے سکیٹر ہوا لیکن ایک ٹھوس سیارے کی شکل میں وہ 4.7 ارب سال پہلے آئی وہ تخلیق کا آخری مرحلہ تھا ۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں آسمان و زمین دونوں کی خلقت کا آغاز تو ایک ہی ساتھ ہوا ہے لیکن جس طرح ایک وسیع الاطراف عمارت کے مختلف حصوں میں تعمیر کے مصالح کے تحت کبھی اس کے کسی گوشہ میں کام ہوتا ہے کبھی کسی گوشہ میں اسی طرح آسمان و زمین کی تعمیر کا کام بھی ہوا ہے اس وجہ سے یہ سوال غیر ضروری ہے کہ پہلے زمین پیدا ہوئی ہے یا آسمان ؟ ایک مکان کی پلاننگ لازماً ایک ہی وقت میں ہوتی ہے۔ آیت یہی بیان کررہی ہے: کیا وہ لوگ جنہوں نے ﴿ نبی کی بات ماننے سے﴾ انکار کردیا ہے غور نہیں کرتے کہ یہ سب آسمان اور زمین باہم ملے ہوئے تھے، پھر ہم نے انہیں جدا کیا، 28 اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی۔ 29 کیا وہ ﴿ ہماری اس خلاقی کو ﴾ نہیں مانتے ؟
یہاں پر دیکھنے کا معنی غور وفکر کرنا اور جاننا ہے۔ کیا ان لوگوں نے جنہوں نے اپنے رب سے کفر کیا ان نشانیوں کو نہیں دیکھا جو عیاں طور پر دلالت کرتی ہیں کہ آسمان اور زمین جیسے قوی الجثہ مخلوقات تک میں یہ قدرت کب تھی کہ اپنے ارادہ واختیار سے وہ کچھ کرنے لگیں ؟ کیا ان لوگوں نے اس بات میں غور وفکر نہیں کیا ؟ اگلی آیات سے بظاہر جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ابتدائی شکل ایک ہی تھی بعد میں اس کو الگ الگ حصوں میں تقسیم کر کے زمین اور دوسرے اجرام فلکی جدا جدا دنیاؤں کی شکل میں بنائے گئے۔ فلکیات کے شعبے میں انسانی علم جس قدر آگے بڑھتا ہے وہ قرآن کے اس فرمان کی توثیق کرتا ہے جو قرآن نے آج سے چودہ سو سال پہلے کہی۔ آج تک انسانوں نے جو نظریات قائم کیے ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے کہ سورج کی کہکشاں جس میں سورج ‘ چاند ‘ زمین اور ان کے تابع دوسرے سیارے ہیں وہ پہلے ایک “ سدیم “ تھے بعد میں جدا ہو کر ان اجرام نے موجودہ شکل اختیار کرلی۔
اسی طرح اگلی مذکور آیت میں ہے : پھر وہ آسمان کی طرف متوجہ ہوا جبکہ وہ اس وقت دھویں کی شکل میں تھا (5) اور اس سے اور زمین سے کہا : چلے آؤ چاہے خوشی سے یا زبردستی۔ دونوں نے کہا : ہم خوشی خوشی آتے ہیں (سورة حٰمٓ السَّجْدَة آیت 5،6 )اسکی تفہیم میں تین باتوں کی وضاحت ضروری ہے :
اول یہ کہ آسمان سے مراد یہاں پوری کائنات ہے، جیسا کہ بعد کے فقروں سے ظاہر ہے۔ دوسرے الفاظ میں آسمان کی طرف متوجہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تخلیق کائنات کی طرف متوجہ ہوا۔دوم یہ کہ دھوئیں سے مراد مادے کی وہ ابتدائی حالت ہے جس میں وہ کائنات کی صورت گری سے پہلے ایک بےشکل منتشر الاجزاء غبار کی طرح فضا میں پھیلا ہوا تھا۔ موجودہ زمانہ کے سائنسداں اسی چیز کو سحابیے (Nebula) سے تعبیر کرتے ہیں اور آغاز کائنات کے متعلق ان کا تصور بھی یہی ہے کہ تخلیق سے پہلے وہ مادہ جس سے کائنات بنی ہے، اسی دخانی یا سحابی شکل میں منتشر تھا۔ سوم یہ کہ اس آیت اور بعد کی آیات میں ذکر اس وقت کا ہو رہا ہے جب نہ زمین تھی نہ آسمان تھا بلکہ تخلیق کائنات کی ابتدا کی جارہی تھی۔
ان الفاظ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے طریق تخلیق کی کیفیت ایسے انداز سے بیان فرمائی ہے جس طرح ایک انسان کی تخلیق میں سللة من طین، نطفہ، علقه، مضغه، لحم اور خلق آخر کے مراحل آتے ہیں اور آپ ان میں سے کسی کو بھی انسانی تخلیق سے الگ نہیں کر سکتے ،اسی طرح زمین کی تخلیق میں بھی بگ بینگ سے ملکی وے گلیکسی ، پھر سولر سسٹم اور پھر زمین یہ تمام مراحل آتے ہیں ،ایک سادہ سی مثال ہے کہ ایک درخت کی لکڑی سے اگر ایک میز اور کرسی بنائی جائے اور پھر کہا جائے کہ یہ پہلے درخت کی شکل میں اکٹھے تھے اور پھر کاٹ کر ان کو علیحدہ علیحدہ کر دیا گیا ۔ اس بات سے کوئی عقل کا اندھا ہی انکاری ہوگا ۔
اگر تو آپ اس آیت سے یہ مفہوم نکال رہے ہیں کہ زمین اور آسمان جس حالت میں اب موجود ہیں اسی حالت میں جڑے ہوئے تھے اور پھر علیحدہ ہو گئے تو آپ کو دوبارہ سمجھنے کی ضرورت ہے ، آپ تخلیق کا پورا عمل ہی درمیان سے کھا گئے ہیں ۔۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ایک بچہ ماں کے پیٹ میں یا ماں کا حصہ تھا تو انسانی فہم خود سے یہ نتیجہ اخذ کرتا ہے جس مرحلے کی بات ہورہی ہے اس مرحلے میں وہ بچہ حقیقت میں بچہ بنا ہی نہیں تھا۔ یہاں پر آپ ایک خاص معنی لے کہ زبردستی Contradiction پیدا کر رہے ہیں۔ ممکن کہ آپ مؤمنین پر زبردستی کے Concoctattion کا الزام لگائیں۔ لیکن آپ انہیں سے Concoctation اور Contradiction کا کھیل کھیلتے رہیں۔
یہ اس مسئلہ کی موجودہ نظریات کی روشنی میں قابل قبول وضاحت ہے ، اگر خدانخواستہ کسی نظریاتی معاملے میں قرآنی بیان سے سائنسی تضاد بھی سامنے آتا ہوتووہ ویلیو نہیں رکھتا۔ سائنسی فالسفیکشن (اپنے نظریات کی تردید کیے جانا) کے اصول پر ترقی کرتی ہے چنانچہ نظریاتی سائنس میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتا ،ایک چیز کو ایکسپلین کرنے کے لیے بدلتے وقت کے ساتھ تشریحات بھی بدلتی جا رہی ہیں پرانی رد ہوتی جا رہی ہیں اور نئی آتی جا رہی ہیں ۔ ابھی بہت کچھ دریافت ہونا ہے ، انفلیشن، بگ بینگ اور سٹڈی سٹیٹ، ملٹی ورس تھیوریز صرف معلوم کرنے کی انسانی کوششیں ہیں ،اصل میں ہوا کیا تھا کسی کو نہیں معلوم ۔ سٹیفن ہاکنگ نے بھی ایک جگہ لکھا ہے کہ ہم بالکل بھی نہیں جانتے کہ شروعات میں ہوا کیا تھا، اور نہ ہی ہمیں معلوم ہے کہ ہم یہاں کیوں آئے ہیں اور کائنات کا نظام کیوں شروع ہوا : “ہم کائنات کی بارے میں کوئی حتمی رائے قائم نہیں کر سکتے ، عین ممکن ہے کہ کل کو کائنات کے بارے میں ہماری قائم کردہ تھیوریز پانی پر بنی تصویر ثابت ہوں “جب ان تھیوریز کو بنانے والے خود اتنے uncertain ہیں تو ہم کیسے ان کی بنیاد پر کسی کو غلط یا ٹھیک ثابت کر سکتے ہیں ؟ سائنس اگرآج کچھ اور کہہ رہی ہے تو وہ پہلے بھی اور بہت کچھ کہتی آئی ہے، یہ کنفرم بات ہے کہ اگلی چند دہائیوں میں بہت کچھ نیا سامنے آ جائے گا اور آپ اس کو لیکر قرآن کو غلط ثابت کرنے لگ جائیں گے۔ جب آپ خود مانتے ہیں کہ ابھی سائنس کائنات کے بارے میں بہت اندھیرے میں ہے تو اتنے لمٹیڈ علم کے ساتھ آپ باقی چیزوں کا رد کرنے پر کیوں تلے بیٹھے ہیں؟ سائنسی نظریات اور سائنسی حقائق میں فرق ہوتا ہے ۔ کسی ثابت شدہ سائنسی حقیقت سے قرآن کا تضاد آج تک سامنے نہیں آسکا۔
مزید قرآن کریم علمی نظریات کی کتاب نہیں ہے نہ قرآن کریم اس لیے نازل ہوا ہے کہ سائنس کی طرح اس کے تجربے کیے جائیں۔ قرآن کریم کبھی کبھار کائناتی حقائق کی طرف اشارہ کرتا ہے مثلا آسمان و زمین باہم ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان دونوں کو جدا کیا “۔ ہم اس حقیقت پر محض اس لیے یقین کرتے ہیں کہ یہ قرآن میں مذکور ہے ‘ اگرچہ تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے کہ یہ کیونکر ہوا ؟ زمین آسمان سے کیسے جدا ہوئی یا آسمان زمین سے کیسے جدا ہوئے۔ ہم یہ نہیں کرتے کہ فلکیاتی نظریات کو سامنے رکھ کر آیات قرآنیہ کو ان کے پیچھے دوڑائیں اور قرآن کی صداقت کا سرٹیفکیٹ ان نظریات سے لیں کیونکہ یقینی حقیقت قرآن ہے۔ زیادہ سے زیادہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج کے فلکیاتی نظریات اس آیت کے اس مجمل مضمون کے خلاف نہیں ہیں جو آیت میں آج سے صدیوں پہلے بیان کردیا گیا تھا۔ اس میں شک نہیں کہ سائنس دان جب اس حقیقت تک پہنچے تو یہ بہت بڑا انکشاف تھا لیکن قرآن مجید میں جو بات آئی ہے یہ ہمارے لیے کوئی نیا انکشاف نہیں ہے اور نہ سائنس دانوں کے انکشاف اور تجربے سے قرآن پر ایک مسلمان کے عقیدے میں اضافہ ہوتا ہے۔ قرآن پر ہمارے اعتقاد کی بنیاد یہ ہے کہ یہ اللہ کی طرف سے ہے اور ہم اس پر ایمان لاتے ہیں۔ یہ بنیاد نہیں ہے کہ جدید سائنسی نظریات قرآن کریم میں دیئے گئے حقائق کو ثابت کرتے ہیں۔
مذہب اور سائنس دوعلیحدہ علمی پیراڈائم ہیں۔ آپ نیچرل سائنس کی علمیت کے اصول نہ مذہب پر لاگو کرسکتے ہیں، نہ سوشل سائنس پر اور نہ ہی فلسفہ پر۔ مذہب کا اصل واسطہ فلسفہ اور سوشل سائنس سے متعلق ہے۔ لیکن چونکی بہت زیادہ ریسرچ کی وجہ سے نیچرل سائنس اپنا دائرہ کار بڑھا رہا ہے اس لئے یہ تھوڑی بہت Confrontation ہورہی ہے۔ سائنس کی اہمیت کے پیش نظر آپ نے یہ مان لیا ہے کہ علم بس سائنس ہی ہے اور اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ یہ خواہ مخواہ کی سائنس گردی ہے۔ ایک ملک میں کیا قانون ہونا چاہئے اس قسم کی چیزیں طئے کرنے کے لئے فی الحال کوئی سائنسی ماڈل نہیں بنا۔ آپ یہاں پر operational reseacrh کا Transport Model اپلائی نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ابھی یہی طئے نہیں ہوا کہ علم نفسیات سائنس ہے بھی یا نہیں۔ تو جناب سائنس ہے تو زبردست لیکن یہی کل کا کل Epostemology نہیں ہے۔
جواب: عزالدین دکنی، ہمایون ناصر