ایک صاحب فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے عرفہ کو رؤیتِ ہلال پر منحصر نہیں رکھا، اور اس لیے جب ہمیں معلوم ہے کہ ”آج“ حجاج عرفات میں جمع ہو رہے ہیں تو ہمارے لیے بھی عرفہ آج ہی کا دن ہے۔ان صاحب سے پوچھنا چاہیے کہ عرفہ کے لیے رسول اللہ ﷺ نے کون سی تاریخ مقرر کی تھی؟ کیا وہ 9 ذوالحجہ ہے؟ تو کیا 9 ذوالحجہ یکم ذوالحجہ کے 8 دن بعد نہیں آتا؟ اور پھر کیا یکم ذو الحجہ کا مدار رؤیتِ ہلال پر نہیں ہے؟
ان سے مختلف لیکن اسی نتیجے تک پہنچنے کے لیے ایک استدلال ان اصحاب کا ہے جو فرماتے ہیں کہ جب ہم نمازوں کے اوقات کے لیے تقویم پر اعتماد کرسکتے ہیں تو مہینوں کے آغاز کے لیے کیوں نہیں کرتے؟ان اصحاب کو معلوم ہونا چاہیے کہ نمازوں کے اوقات کی ”رؤیت“ شریعت نے ضروری نہیں ٹھہرائی لیکن مہینے کے آغاز کے لیے رویت ضروری ٹھہرائی ہے اور رسول اللہ ﷺ نے ایجابی)صوموا لرویتہ و افطروا لرویتہ ۔ یعنی چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند کو دیکھ کر روزوں کا اختتام کرو ) اور سلبی (لا تصوموا حتی تروا الھلال و لا تفطروا حتی تروہ۔ یعنی چاند دیکھے بغیر نہ روزہ رکھو، نہ عید کرو(دونوں پہلووں سے اس کی تاکید کی ہے۔ جس طرح قربانی ہرملک والا اپنے یہاں کے قمری مہینے کے حساب سے دس ذی الحجہ کو کرے گا۔ اسی طرح عرفہ کا روزہ بھی اپنے دن کے حساب سے رکھا جائے گا۔ روزہ عرفات میں وقوف سے متعلق نہیں کیونکہ عرفہ کا ایک وقت متعین ہے جو کہ تقریبا زوال کے بعد سے مغرب کے وقت تک ہے جو ظاہر ہے روزے کا ٹائم نہیں ہے۔ اسی لیے حاجی بھی روزہ رکھتے ہوئے عرفہ کے وقوف کو مدنظر نہیں رکھتے بلکہ قمری تاریخ کے حساب سے نوذی الحجہ کو رکھتے ہیں ۔ خلاصہ یہ کہ عرفہ کا روزہ بھی قربانی کی طرح دن کی نسبت سے ہے نا حج اور حاجیوں کے عمل کی نسبت سے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ممالک لیبیا ، تیونس اور مراکش وغیرہ میں سعودی سے پہلے عید ہوجاتی ہے ، اس صورت میں وقوف عرفہ ان کے یہاں عید کا دن ہوتا ہے وہ کیسے روزہ رکھیں ؟ عید کے دن روزہ منع ہے ۔ نیوزی لینڈ اور سعودی میں گیارہ گھنٹے کا فرق ہے، جب سعودی میں نوذی الحجہ کا سورج نکلتا ہے تو نیوزی لینڈ میں آٹھ ذی الحجہ کا سورج غروب ہوتاہے۔تو کیا نیوزی لینڈ والے رات کو روزہ رکھیں گے؟ اور اگر رات گزار کر روزہ رکھیں تو ان کے یہاں تو ذی الحجہ کی نو تاریخ ہوگی مگر سعودی میں دس تاریخ یعنی عید کا دن ہوگا، تو کیا نیوزی لینڈ والے عید کے دن روزہ رکھیں گے ؟
اس سے آگے کچھ اور اصحاب ہیں جو کہتے ہیں کہ رؤیت تو اس لیے ضروری قرار دی گئی تھی کہ مہینے کے آغاز کا یقینی علم ہو اور چونکہ آج یقینی علم سائنسی حسابات سے ہوتا ہے ، اس لیے اب رویت کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ان اصحاب کو بتایا جائے کہ رؤیتِ ہلال ایک امر تعبدی (matter of ritual obligation) ہے اور اس کا مدار آپ کی مزعومہ علت پر نہیں ہے، بالکل اسی طرح جیسے نماز کی اوقات، رکعتوں، ایک رکعت میں ایک رکوع اور دو سجدوں اور اسی طرح کے دیگر معاملات ہیں۔ علت کسی منصوص امر میں آئے ہوئے حکم کو غیر منصوص امر تک وسعت دینے کے لیے ہوتی ہے، نہ کہ منصوص حکم کو معطل کرنے کے لیے۔پھر اسلامی سسٹم غیر مستقل اور ناپائیدار چیزوں پر انحصار نہیں کرتا بلکہ ایسا طریقہ پیش کرتا ہے جو ہر جگہ اور ہر دور کے لوگوں کے لیے قابل عمل ہوسکے۔ مزید انٹرنیٹ، میڈیا ، سائنسی آلات کی ڈسٹربنس سے جو تعطل آسکتا ہے وہ سب کے علم میں ہے اس لیے ایسی کسی چیز کےبجائے فطری طریقوں پر انحصار کیا گیا ، سائنسی آلات سے مدد ضرور لی جاتی رہے گی لیکن انحصار فطری طریقوں پر ہی کیا جائے گا اور یہی ہمیشہ رائج رہیں گے ۔ انشاء اللہ
استفاد تحریر ڈاکٹر مشتاق ، محمد مقبول