اعتراض : قربانی پر پیسے ضائع کرنے کے بجائے یہی اگر کسی غریب کو دے دیے جائیں تو کئی لوگوں کا بھلا
ہوجائے.
جواب :
گو کہ میں عبادات کے معاشی فوائد دیکھنے کا قائل نہیں کہ یہ عبادت کی روح ہی ختم کردیتی ہے مگر منكرين حديث , ومنكرين قربانى اور مذہب بيزار دہريہ مخالف ذہنیت کی تسلی کیلئے چند گذارشات پیش خدمت ہیں۔
اگر قربانی کی رسم کو خالصتا معاشی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو اس پر اعتراض صرف وہی شخص کرسکتا ہے جس نے علم معاشیات کبھی نہ پڑھی ہو۔ مثلا
(1) اس کے نتیجے میں آپ کے ملک میں فارمنگ (farming) اور کیٹل انڈسٹری (cattle industry) نمو حاصل کرتی ہے جس سے بالعموم چھوٹا کسان یا غریب طبقہ ہی منسلک ہوتا ہے اور عید قربان پر اسے اپنی محنت کا اچھا مول مل جاتا ہے جو عام مارکیٹ میں نہیں مل پاتا یوں یہ رسم تقسیم دولت پر مثبت اثرات ڈالتی ہے
(2) جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ تمام رقم ویسے ہی غریبوں کو دے دی جائے وہ یہ جانتے ہی نہیں کہ غربت کا علاج پیسے بانٹنا نہیں بلکہ غریب طبقے کیلئے معاشی ایکٹیویٹی (activity) کا پہیہ چلانا ہوتا ہے اور قربانی کا عمل اس کا بہترین ذریعہ ہے
، (3) پھر ان جانوروں کا گوشت دنیا بھر کے غریبوں میں بانٹا جاتا ہے اور معاشرے کا وہ طبقہ بھی گوشت کھاتا ہے جو پورا سال صرف اس کا خواب ہی دیکھتا ہے
(4) پھر ان جانوروں سے جو کھال حاصل ہوتی ہے اس سے لیدر پراڈکٹس (leather products) بنتی ہیں جس سے لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہوتا ہے
، (5) پھر ذرائع نقل و حمل کے ذرائع سے منسلک لوگ بھی ان دنوں کے دوران جانوروں کی ترسیل کے کاروبار کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے ہیں۔ الغرض عید قربان چند دنوں کے دوران اربوں روپے کی خطیرمگربے کار سیونگ (saving) کو سیال مادے (liquid) میں تبدیل کرکے معاشی پہیہ تیز کرنے کا باعث بنتی ہے۔
جو لوگ علم معآشیات میں کینز (Keynes) کے ملٹی پلائیر (multiplier) کے تصور سے واقف ہیں کم از کم وہ تو عید قربان پر معاشی نقطہ نگاہ سے لب کشائی کی جرات نہیں کرسکتے–
اس جدید ذہن کی حالت یہ ہے کہ اسے غریبوں کا خیال صرف عید قربان پر خرچ ہونے والی رقم کے وقت ہی آتا ہے جو کہ ہر لحاظ سے غریب دوست رسم ہے۔ البتہ اسے ان کھربوں روپے کا ضیاع دکھائی نہیں دیتا جو ہر روز امیر لوگ پیزوں اور برگروں پر اڑا دیتے ہیں
، ان کھربوں ڈالرز کے ضیاع پر یہ کبھی انگلی نہیں اٹھاتے جو یورپ اور امریکہ میں پیٹس (pets) کے کھلونے بنانے میں خرچ ہوتے ہیں
، ان کھربوں ڈالر کے ضیاع پر کسی کو تکلیف نہیں ہوتی جو ہر سال کاسمیٹکس انڈسٹری (cosmetics industry) میں جھونک دئیے جاتے ہیں اور جن کا مقصد اس کے سواء اور کچھ نہیں کہ میں زیادہ طویل دنوں تک جوان نظر آؤں۔
الغرض آپ اپنے اردگرد غور کیجیے کہ ٹریلین ڈالرز کے ان بیش قیمت ذرائع کے بے دریغ ضیاع پر تو یہ ملحد کبھی اعتراض نہیں کریں گے جو اپنی نوعیت میں غریب کے جذبات کچل دینے والے اخراجات ہیں مگر عید قربان کے موقع پر یہ غریب کے کچھ ایسے حمایتی بن جاتے ہیں گویا ان سے بڑا غریب پرور آج تک پیدا ہی نہیں ہوا۔ ان لوگوں کا اصل مسئلہ غریب پروری نہیں بلکہ مذہب دشمنی ہے جس کیلیے یہ ہر موقع کے بےموقع استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے—
زاہد مغل