کیا یہ اعتراض ایک رات میں دس ہزار کے پیزے کھا کر سونے والوں کو سوٹ کرتا ہے.؟؟
وہ جنہیں زکوۃ صدقات دینا تو دور کبھی اک روپیہ کسی غریب یتیم کو دینے کو توفیق نہیں ہوئی.۔۔
اندازہ لگائیے عید پر جانوروں کی قربانی کے غم میں وہ ہلکان ہوئے جارہے ہیں جو سال بهر چھوٹے بڑے پرندے، نباتات اور مرغ و مچھلی کو ایک ڈکار میں ہضم کرجاتے ہیں ۔۔۔
یہ جانوروں کی سواری بهی بڑے شوق سے کرتے ہیں..
جانوروں کی کھال سے بنے جوتے جیکٹس پہنتے ہوئے بهی انہیں زرا بھی رحم نہیں آتا بلکہ فخر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔!!
جانورں کی چربی سے چراغ جلانے پر بهی ان کے سینے میں درد نہیں اٹھتا !!
جانوروں کے بال اور جسمانی اعضاء اور ہڈی وغیرہ سے بنائے جانے والے مختلف پراڈکٹس کے استعمال کا بھی شوق رکھتے ہیں ۔۔۔
جانوروں کے بھوکے پیاسے مرجانے تک ان کی جیبوں سے ایک پھوٹی کوڑی باہر نہیں نکلتی ۔!!
اعتراض ہے تو قربانی عید پر جانوروں کے ذبح ہونے پر..
حد ہے منافقت کی
سارا سال گائے / مرغی کے گوشت کے برگر ، چکن مٹن کڑائیاں، روسٹ مرغے، سالم بکروں کی سجیاں، بروسٹ، چرغے ڈکار جانے والوں کو قربانی عید پر جانوروں پر رحم آنا شروع ہوجاتا ہے اور غریبوں کے لیے مرے جاتے ہیں ۔۔۔
حالانکہ قربانی عید ایک غریب پرور تہوار ہی ہے ۔۔
قربانی کے گوشت کا اک بڑا حصہ انہی غریبوں کو ملتا ہے جنہیں سارا گوشت نصیب نہیں ہوتا .
وہ بهی ایک غریب ہی ہے جو سارا سال بکریاں اس امید پر چراتا ہے کہ عید پر بیچ کر اپنے سال کے خرچے نکالے گا، بچیوں كى شادى كرے گا.۔۔
اسی طرح قصائی بھی کسی وزیر مشیر کے خاندان سے تعلق نہیں رکھتے جو اپنے سال بھر کے قرضے اسی قربانی پر رکھے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ۔
وہ بھی غریبوں کے بچے ہی ہیں ،مدارس والے جانوروں کی کھالیں بیچ کر جن کی رہائش پڑھائی کے خرچے پورے کرتے ہیں،۔۔۔
یہ کھالیں بیچ کر مفت علاج کی سہولت دینے والی ہسپتالوں میں بھی علاج انہی غریبوں کا ہوتا ہے ۔۔۔
اسی طرح ٹرانسپورٹر جو ان مال مویشیوں کو ادھر سے ادھر منڈیوں میں لاتے ہیں،ٹھیلے والے ،ریڑھے والے ،رکشہ والے یہ سارے بهی لوئر مڈل سے تعلق رکھتے ہیں جو اس معاشی حرکت سے فائدہ اٹھاتے ہیں…
فرض کرییے ان سیکولروں کے کہنے پر قربانی پر پابندی لگا دی جاتی ہے ۔۔۔ ۔۔۔
اس عمل سے سب سے ذیادہ نقصان کس کو ہوگا۔۔۔؟؟
غور کرییے ان سیکولروں کے یہ پٹن تماشے غریب دوستی میں ہیں یا غریب دشمنی میں ۔ ۔ ۔؟؟ —