دورِ نزول قرآن سے لے کر اب تک عیدالاضحیٰ پر جانوروں کی قربانی، اُمت مسلمہ میں ایک مجمع علیہ اور متفق علیہ عبادت کی حیثیت سے تواتر کے ساتھ قائم رہی ہے۔ معتزلہ، جو ابتدائی زمانہ میں حدیث اور سنت نبوی سے گریزاں رہے ہیں، بھی قربانی کاانکار نہ کرپائے۔ لیکن ہمارے زمانے میں غلام احمد پرویز نے عیدالاضحیٰ کے مواقع پر کی جانے والی قربانی کی شدید مخالفت کی او راسے خلاف قرآن عمل قرار دیاہے، البتہ حج کے موقع پر وہ قربانی کے قائل تھے۔ اپنی تفسیر مطالب الفرقان میں وہ لکھتے ہیں کہ:
”عیدالاضحٰے کی تقریب پر جس طرح قربانیاں دی جاتی ہیں۔ ان کا دین سے کیا تعلق ہے؟ مروجہ مذہب میں ان قربانیوں کی سند میں کچھ روایات پیش کی جاتی ہیں۔ چونکہ میرے پیش نظر صرف قرآن مجید کی تشریح و تفسیر ہے اس لیے ان روایات کے متعلق بحث کرنا میرے مقصد سے خارج ہے۔ ویسے بھی روایات کے متعلق میرا مسلک یہ ہے کہ ان کے صحیح اور غلط ہونے کا معیار قرآن کریم ہے۔”( تفسیر مطالب الفرقان، ج3 ص247)
علماء اُمت ، حج کے علاوہ، دیگر مقامات پر (عیدالاضحیٰ) کی قربانیوں کا ثبوت درج ذیل آیت سے فراہم کرتے ہیں:
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ۔ ترجمہ :”(اے پیغمبرؐ) آپ فرما دیجئے کہ میری نماز او رمیری قربانی، میرا جینا اور میرا مرنا اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔”﴿ سورۃ الانعام ، ١٦٢﴾…
پرویز صاحب ، اس آیت کے متعلق فرماتے ہیں:
”اس آیت میں لفظ نسک کے معنی قربانی کئے جاتے ہیں۔ لغت میں اس مادہ (ن ۔ س ۔ ک) کے معنی پاک اور صاف کرنا ہیں۔نسک الثوب۔ اس نے کپڑے کو دھو کر پاک او رصاف کیا۔ ارض ناسکۃ سرسبز و شاداب زمین، جس پر حال ہی میں بارش ہوئی۔ ان بنیادی معانی کی رو سے، اس کامفہوم کسی معاملے کو درست اور ٹھیک کرلینا ہوتا ہے نسک السبخۃ کے معنی ہیں۔ اس نے زمین شور کو درست کیا، اسے جھاڑ جھنکاڑ سے صاف کیا۔ نسک الیٰ طریقۃ جمیلۃ اس نے اچھا طریقہ اختیار کیا او رپھر اس پر مداومت کی۔ راستہ اختیار کرلینے کی جہت سے کلام عرب میں نسک ہر اس مقام کو کہتے ہیں جس پر عام طور پر آمدورفت جاری ہو۔ یہیں سے اس کے معنی روشن او ررسم کےہوگئے او رامور و مراسم حج کوبھی مناسک حج کہتے ہیں۔”( تفسیر مطالب الفرقان ، ج3 ص348)
لفظ نسک کی تحقیق
پرویز صاحب نے لغات کی ورق گردانی کرتے ہوئے اس بات کی پوری کوشش فرمائی ہے کہ ”نسک” بمعنی ”ذبیحہ” قربانی ” اور ”راہ خدا میں بہائے جانے والے خون” کے معانی کو مکمل طور پر نظر انداز کردیں اور ان معانی کے علاوہ باقی دیگر معانی کو بیان کرکے یہ تاثر اچھال دیا جائے کہ کتب لغت میں”نسک” بمعنی ”قربانی” موجود ہی نہیں ہے۔ یہ ہے وہ مطلب جو یا نہ ذہنیت، جسے اگر قربانی کے حق میں پہاڑ کے سے دلائل بھی مل جائیں، تو اس سے نظری چرالی جائیں۔ لیکن اگر قربانی کے علاوہ دیگر معانی مل جائیں تو ان پر عبارت آرائی او رسخن سازی کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جائے کہ ان کے علاوہ لغت میں کوئی اور مفہوم پایا ہی نہیں جاتا۔
قرآنی تحقیق کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہےکہ اگر کسی لفظ کے ایک سے زیادہ معانی ہوں تو ان میں اپنے مزعومہ مطلب کے خلاف معانی کو نظر انداز کردیا جائے اور مفید مطلب معانی کو بیان کرکے یہ تاثر ابھارا جائے کہ عربی لغات ، ہمارے بیان کردہ معانی کے علاوہ دیگر معانی سے خالی ہیں۔ بلکہ قرآنی تحقیق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ جملہ لغوی معانی کو دیکھتے ہوئے ، جو مفہوم و مراد قرآن کے کسی مقام پر فٹ بیٹھتا ہے، اسے دلائل کے ساتھ دیگر مفاہیم پر ترجیح دی جائے گی۔ لیکن ”مفکر قرآن” صاحب نے ”نسک” کی لغوی تحقیق کے دوران ”نسک” بمعنی ”قربانی و ذبیحہ” کا ذکر تک نہیں کیا۔ حالانکہ کوئی عربی لغت اس معنی سے خالی نہیں ہے۔ چند لغات کے اقتباسات ملاحظہ فرمائیے۔
1۔مشہور عربی لغت لسان العرب میں ہے ”النسك اور النسیکة” ذبیحہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”نسک” خون کو کہتے ہیں۔ مثلاً آپ کہتے ہیں کہ ”جس نے یہ کام کیا اس پر”نسک” لازم ہے” یعنی مکہ میں خون بہانا لازم ہے اور اس ذبیحہ کا نام ”نسیکة” ہے، اس کی جمع ”نسک” بھی ہے اور ”نسائک” بھی۔آگے چل کر یہ الفاظ بھی موجود ہیں:
”ابواسحاق نے کہا کہ آیت کو یوں بھی پڑھا گیا: ”لکل أمة جعلنا منسکا و منسکا” (یعنی منسک میں سین کی زبر اور زیر کے ساتھ) اُس نے کہا کہ ”نسک” یہاں ”نحر” (قربانی کرنا) کے معنی میں ہے۔ گویا یوں کہا کہ ”ہم نے ہر اُمت کے لیے طے کردیا ہے کہ وہ اللہ کے لیے ذبیحوں کو ذبح کرے۔” پس جس نے ”منسک” (سین کے کسرہ کے ساتھ) کہا تو معنی یہ ہوا کہ قربانی کی جگہ جیسے مجلس ، ”جلوس (بیٹھنے) کی جگہ” اور جس نے ”منسک” (سین پر فتحہ کے ساتھ)کہا تو اس کا معنی مصدر کا معنی ہوا (یعنی قربانی کرنا) جیسے ”نسك” اور ”نسوك” اور ”منسك” اور ”منسك” (سین کی زبر اور زیر دونوں کے ساتھ) اس مقام کو بھی کہتے ہیں کہ جس میں قربانی ذبح کی جائے۔ یعنی اللہ کا یہ فرمان یوں پڑھا گیا کہ ”جعلنا منسکا ھم ناسکوہ”………….. اور ”منسك” اور ”منسك ” (سین کی زبر او رزیر دونوں کے ساتھ ) ”مذبح” (ذبح کرنے کی جگہ) کو کہتے ہیں۔ ”قد نسك ینسك نسکا” کا معنی یہ ہے کہ ”اس نے ذبح کیا’۔( لسان العربی ، ج10 ص498۔ 499)
2۔ ””نسک ” نون، سین او رکاف اس کے حروف اصلیہ ہیں۔ یہ عبادت او ر تقرب الی اللہ پر دلالت کرتا ہے۔ (اسی سے ہے: ) ”رجل ناسک” (عبادت گزار مرد) اور وہ ذبیحہ جو ”تقربا إلی اللہ” ذبح کیا جائے۔ ”نسیکة” (کہلاتا ہے) اور ”منسک” وہ جگہ ہے جس میں ”نسائك” (قربانیاں) ذبح کی جائیں۔ او ریہ سب کچھ قربانی ہی میں ہوتا ہے۔”( معجم مقابیس اللغۃ)
3۔ ””النسک” ( ایک ضمہ کے ساتھ) اور ”النسک” (دو ضموں کے ساتھ) ذبیحہ کو کہتے ہیں اور ”نسک” خون کو اور ”نسیکۃ” ذبح کیے جانے والے جانور کوکہا جاتا ہے۔”( القاموس المحیط :ص332)
4۔ ”نسک ( ینسک کے مصادر ہیں) نسکا، نسکا، نسکا، نسوکا، نسکۃ اور منسکا (ہیں) ………. ”نسک للہ”۔ ”اس نے اللہ کے قرب کی رغبت کی اور اس کی رضا کے لیے جانور ذبح کیا” …….. ”النسک”۔ ”جو کچھ عبادت او رزہد اختیار کرتے ہوئے اللہ کے حضور پیش کیا گیا ” ۔ ”قربان کیا جانے والا جانور۔””النسیکة” ”ذبیحہ” ( کو کہتے ہیں) ”المنسك” اس کی جمع ”مناسک” ہے۔ (یعنی) ”مانوس جگہ” ”المنسك” اس کی جمع ”مناسک” ہے۔( یعنی ) ”رسم قربانی” ”وہ جگہ جہاں قربانیاں ذبح کی جائیں۔”( المنجد ص 806)
5۔ امام راغب اصفہانی رقم طراز ہیں:”النسیکة مختصة بالذبیحة : قال مفدیة من صیام أو صدقة أونسك” ترجمہ:”النسیکة” ”ذبیحہ” کے لیے خا ص ہے (اور دلیل اس کی یہ قرآنی آیت ہے) فرمایا: ”پھر فدیہ ہے روزوں میں سے یا صدقہ میں سے یا قربانیوں میں سے۔( المفردات امام راغب)
6۔ صرف یہی نہیں بلکہ عام عربی اُردو لغات بھی ”نسک، بمعنی ”قربانی” کی وضاحت سے خالی نہیں ہیں:
”نسک للہ: نفلی عبادت کرنا، خدا کے نام پر ذبح کرنا۔النسک والنسک : نذر جو اللہ کے لیے پیش کی جائے، ذبیحہ۔النسیکة: ذبیحہ ، سونے چاندی وغیرہ کا ٹکڑا۔المنسک : قربانی کی رسم، قربانی کی جگہ ، قربانی۔'(مصباح اللغات ص 872)
”نسک” بمعنی ”قربانی” کے ان اقتباسات کو دیکھئے او رپھر داد دیجئے ”مفکر قرآن” صاحب کو ، جنہوں نے تفسیر مطالب الفرقان (جلد سوم) میں اس لفظ کی لغوی تحقیق پیش کرتے ہوئے کس قدر شدید التزام برتا ہے کہ”قربانی” کے معنوں میں یہ لفظ ان کی عبادت میں نہ آنے پائے۔ حالانکہ اس معنی و مفہوم سے کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ کتاب لغت بھی خالی نہیں۔ لفظ ”نسک” کے لغوی مفہوم سے ”قربانی” اور ذبیحہ” کونکال باہر کرنے کے لیے ”مفکر قرآن” صاحب نے جو پاپڑ بیلے ہیں اسے بھی ایک نظر ملاحظہ فرما لیجئےلکھتے ہیں:
”قرآن کریم میں احکام حج کے ضمن میں آیا ہے فَإِذَا قَضَيْتُم مَّنَـٰسِكَكُمْ (200؍2)جب تم حج کے واجبات سے فارغ ہوچکو…….. اس سے ذرا پہلے ہے ۔ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ (196؍2) ابن قتیبہ نے کہا ہےکہ یہاں نسک سے مراد ذبیحے کے لکھے ہیں۔ لیکن ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے معنی ذبیحہ کے کیوں مختص کرلیے جائیں اس سے مراد کوئی عمل خیر ہوسکتا ہے، جسے وہ اپنے اوپر واجب قرار دے لے۔”( لغات القرآن ص1615)
حالانکہ ‘جس عمل کو کوئی شخص خود اپنے اوپر واجب قرار دے لے، لغت میں اسے ”نسک” نہیں بلکہ ”نذر” کہتے ہیں۔ ”نذر” کا مفہوم خود انہوں نے بھی یوں بیان کیا :”نذر ۔ (نقصان سے بچنے کے لیے) جو کچھ اپنے اوپر واجب قرار دے لیا جائے، نیز کسی شرط پر کوئی وعدہ کرنا بھی نذر کے معنوں میں داخل ہے۔( لغات القرآن ص1598)
پھرزیر بحث آیت (البقرہ :196) میں ، جس فدیہ کا ذکر ہے، اسے انسان نے اپنے اوپر خود واجب نہیں کیا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیا ہے۔ اس لیے ”نسک” کے معنی کوئی سا عمل خیر” کو ڈالنے کے بعد بھی (جو لغۃً عرفاً، شرعاً ہر لحاظ سے غلط ہے) پرویز صاحب کی بات بنتی نظر نہیں آتی۔
رہا پرویز صاحب کا یہ فرمان کہ ”نسک” کے معنی کو کیوں ذبیحہ کے لیے مخصوص کرلیا جائے او رکیوں نہ اس سے مراد ”کوئی سا عمل خیر ” لیا جائے۔ تو یہ بوجوہ غلط ہے:
اوّلاً ……….. اس لیے کہ قرآن یہاں فدیہ کے طور پر ”نسک” کے ساتھ دو مخصوص اعمال ……صیام اور صدقہ……… کا ذکر کررہا ہے۔ مطلق اعمال خیر میں سے صیام اور صدقہ کو خاص کرلینے کے بعد ”نسک” کو اگر ”کوئی سے عمل خیر ” کے معنوں میں لیا جائے، تو یہ پہلے دونوں اعمال کی خصوصیت کو باطل کردینے کے مترادف ہوگا۔ اب اگر ”صیام” سے مراد ”مطلق کار خیر” اور ”صدقہ” سے مراد ”مطلق نیک عمل” نہیں ہے تو ”نسک” سے بھی ہرگز ”کوئی سا عمل خیر” مراد نہیں لیا جاسکتا۔
ثانیاً…….اسی لیے کہ ”صیام” یہاں ”صام، یصوم” کا مصدر نہیں ہے، بلکہ ”صوم” کی جمع ہے۔ بالکل اسی طرح ”نسک” یہاں مصدر نہیں ہے بلکہ ”نسیکۃ” کی جمع ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پرویز صاحب نے بھی اس آیت کا ترجمہ یوں کیا ہے:”فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ” (196؍2) اس کا فدیہ روزے یا صدقہ یا ذبیحے ہوں گے۔”( لغات القرآن ص 1615)
اور اب جبکہ یہ بات طے ہوگئی کہ ”نسک” جمع ہے، تو اس کی واحد ”نسیکۃ” کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتی اور ”نسیکۃ” کے متعلق علماء لغت کا متفقہ فیصلہ ہے کہ یہ خاص طور پر ”ذبیحہ” یا ”خون” ہی کو کہا جاتا ہے۔ لہٰذا عبادت کے دیگر طور طریقے اس کے مفہوم سے خارج ہیں۔خود پرویز صاحب کی تحقیق بھی یہی ہے:”راستہ اختیار کرلینے کی جہت سے کلام عرب میں منسک ہر اس مقام کو کہتے ہیں جس کی طرف آنے جانے کے لوگ عادی ہوں خواہ یہ خیر میں ہو یا شر میں، اس کے بعد امور و مراسم حج کو مناسک کہنے لگے اور نسک اور نسیکۃ ذبیحہ کو یا خون کو۔( لغات القرآن ص1614)
اب جبکہ لغوی تحقیق سے یہ واضح ہوچکا ہے کہ ”نسک” کا معنی ”قربانی” ہے، تو سورۃ الانعام کی اس آیت کا ترجمہ قطعی واضح ہوجاتا ہے۔
قُلْ إِنَّ صَلَاتِى وَنُسُكِى وَمَحْيَاىَ وَمَمَاتِى لِلَّهِ رَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ ﴿١٦٢﴾…سورۃ الانعام ”آپ فرما دیجئے ، میری نماز اور میری قربانیاں ، میرا جینا او رمیرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔”
پرویز صاحب ، ”قربانی” کی شدید مخالفت میں مبتلا ہوکر لفظ ”نسک” سے اس معنی کو خارج کرنے پر تل گئے او راس آیت کا مفہوم یہ بیان کیا کہ:
”اے رسولؐ! ان سے کہہ دو کہ میرے فرائض زندگی او ران کے ادا کرنے کے طور طریقے مختصراً یہ کہ میری ساری زندگی حتیٰ کہ میری موت بھی خدا کے تجویز کردہ پروگرام کے لیے وقف ہے۔”( تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص248)
یہ بات قارئین کرام کے لیے سخت موجب حیرت ہوگی کہ آیت کے جس ترجمے کی مخالفت میں پرویز صاحب بعد میں اس قدر سرگرم ہوئے، اس سے پہلے وہی ترجمہ وہ خود بھی پیش کرتے رہے ہیں۔ چنانچہ ایک مقام پر وہ یہی آیت درج کرکے یوں رقم طراز ہیں:
”(اے پیغمبر اسلام!) تم کہہ دو، میری نماز، میری قربانیاں، میرا جینا، میرا مرنا، سب کچھ اللہ ہی کے لیے جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے۔”( معارف القرآن ج2 ص430)
لفظ ”نسک” سے ”قربانی” کا مفہوم خارج کرڈالنے کے جنون میں سورۃ الحج کی اس آیت ، جس میں ”منسکا” کا لفظ استعمال ہوا ہے’ کا بعد میں ترجمہ یہ کیا :
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِ… ترجمہ : ”ہم نے ہر قوم کے لیے یہ طریق مقرر کردیا تھا کہ وہ جانور کو ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا کریں۔(﴿٣٤﴾…سورۃ الحج)
حالانکہ پہلے وہ اسی آیت کا ترجمہ یوں لکھا کرتے تھے:”ہم نے ہر قوم کے لیے قربانی (یا طریق عبادت و قربانی) کا ایک طور طریقہ ٹھہرایا تاکہ وہ ان چوپایوں پر ، اللہ کا نام لے کر ذبح کریں، جو اس نے ان کو عطا فرمائیے ہیں۔”( معارف القرآن ج1 ص 16)
الغرض سورۃ الانعام کی آیت 163 کا وہ ترجمہ شک و شبہ سے بالاتر ہے جو نہ صرف علماء امت ہمیشہ سے بیان کرتے چلے آرہے ہیں، بلکہ خود پرویز صاحب نے بھی اس کا یہی ترجمہ پیش کیا۔
سورۃ الکوثر کی آیت :
قربانی کا ثبوت سورہ کوثر کی دوسری آیت سے بھی ملتا ہے ۔ پرویز صاحب اس کی تردید میں فرماتے ہیں :’’مروجہ قربانی کی تائید میں سورۃ الکوثر کی آیت………… فصل لربک وانحر۔ بھی پیش کی جاتی ہے ۔ اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے ۔’’نماز پڑھ اپنے رب کے آگے اور قربانی کر‘‘……….. ’’قربانی کر‘‘ ترجمہ کیا جاتا ہے وانحر کا۔‘‘لغت کی رُو سے نحر سینے کے اوپر کے حصے کوکہا جاتا ہے ۔ صاحب تاج العروس نے مختلف تفاسیر کی سند سے وانحر کو کہا کے متعدد معانی لکھے ہیں۔ مثلاً (1 نماز میں کھڑے ہوکر سینے کو باہر کی طرف نکالنا (2) نماز میں دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھنا (3) نماز میں سینے پر ہاتھ باندھنا (4) نماز میں نحر تک ہاتھ اٹھانا (5) اپنے سینے کو قبلہ رُخ کرکے کھڑے ہونا (6) خواہشات کا قلع قمع کرنا۔اونٹ کے ذبح کرنےکا طریقہ یہ ہے کہ کھڑے کھڑے اس کے نحر (سینے کے اُوپر کے حصے) کے قریب، حلق کی رگ پر نیزہ مارتے ہیں، اس سے نحر البعیر کے معنی آتے ہیں، اس نے اونٹ کو اس طرح ذبح کیا، لیکن لغت میں النحر اور النحریر کے معنی ہیں، ماہر ، عقلمند، تجربہ کار، ہر بات کو سمجھ کر اختیار کرنے والا او راس پر مضبوطی سے عمل کرنے والا، چنانچہ کہتے ہیں نحرت الشئ علما۔ میں علم کی رُو سے اس معاملہ پر حاوی ہوگیا۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص248)
چنانچہ اپنی کتاب لغات القرآن میں یہ معانی بیان کرنے کے بعد، آیت کا معنی و مفہوم یوں بیان کیا:’’اس لیےوانحر (2؍108) کے معنی ہوں گے، اس پروگرام کےمتعلق تمام امور پر علم و عقل اور تجربہ و بصیرت سے پوری پوری طرح حاوی ہوکر ان پر نہایت مضبوطی سے عمل پیرا رہو۔‘‘ (لغات القرآن ص1592)
پرویز صاحب شاید یہ سمجھتے تھے کہ کسی قرآنی لفظ کے عربی لغت میں سے دس پندرہ معانی سے لاٹری کے ذریعے ایک معنی کو چنتے ہوئے، اسے اپنے خود ساختہ جملوں میں استعمال کرڈالنے سے قرآنی آیات کامفہوم واضح ہوجاتاہے۔حالانکہ ’’وانحر‘‘ کا معنی ’’علمی طور پر کسی معاملے پر حاوی ہوجانا‘‘ صرف اسی صورت میں درست ہوسکتا ہے جبکہ اس کا کوئی قرینہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کہا جائے کہ ’’نحر الامور علما‘‘ تو لفظ ’’علما‘‘ کا قرینہ اس معنی کا مؤید ہوگا کہ ’’اُس نے معاملات کو مضبوط طریقے سے کیا‘‘ جو مثال پرویز صاحب نے دی ہے اس میں فی الواقعہ ایسا قرینہ موجود ہے جو یہ معنی مراد لینے کے حق میں ہے۔ لیکن سورۃ الکوثر میں سرے سے ایسا قرینہ موجود ہی نہیں ہے۔ لہٰذا یہاں یہ معانی کسی طرح بھی مراد نہیں لیے جاسکتے ’’نحر‘‘ کومطلق رکھتے ہوئے اگر ’’نحر فُلان‘‘ کہا جائے تو ہر عرب اس سے یہی سمجھے گا کہ ’’فلاں نے (اونٹ کی )قربانی کی ہے۔‘‘ نہ یہ کہ وہ عقل و تجربہ اور بصیرت و مشاہدہ سے کسی معاملے میں حاوی ہوگیا ہے۔ بہرحال پرویز صاحب ’’مروجہ ترجمہ‘‘ کے بعد اپنا خود ساختہ ’’ماڈرن ترجمہ‘‘ پیش کرنے کے بعد فرماتے ہیں کہ:
’’یہ ہے ہماری بصیرت کی رُو سے اس سورہ میں وانحر کا مفہوم اس سے مروجہ قربانی کی سند لینا بعید از کار سی بات ہے۔‘‘ (مطالب الفرقان ج3ص249)
لیکن ہم کہتے ہیں کہ پرویز صاحب ، جنہوں نے قربانی کی مخالفت کے جوش میں (بعد میں ) ’’وانحر‘‘ کے اس ترجمہ کو ’’بعدازکار‘‘ قرار دیا، اس سے قبل وہ خود بھی اس کا یہی ’’بعد ازکار‘‘ ترجمہ کرتے رہے ہیں۔ ملاحظہ ہو:’’فصل لربک وانحر (2؍108) ’’لہٰذا اپنے رب کے لیےنماز قائم کرو اور قربانی کرو۔‘‘ (معارف القرآن ج4 ص369)
٭قربانی اور پرویز صاحب کی شروط ثلاثہ:
قربانی کی بحث کو جاری رکھتے ہوئے پرویز صاحب لکھتے ہیں:’’اگر وانحر سےمراد بالضرور’’ قربانی‘‘ لینا ہے تو قرآن کریم کی رُو سے ان شرطوں کا پورا کرنا ضروری ہوگا۔‘‘ (مطالب الفرقان ج3 ص249)
اس کے بعد پرویز صاحب نے تین شرطیں بیان کی ہیں۔ ہم ان میں سے ہر شرط کا جائز ہ لے رہے ہیں۔
٭پہلی شرط:پرویز صاحب کی پہلی شرط ان الفاظ میں مذکور ہے۔’’ایک تو یہ کہ نحر صرف اونٹ ذبح کرنے کو کہتے ہیں، کسی اور جانور کے ذبح کرنے کو نہیں اس لیے قربانی صرف اونٹوں کی دی جائے گی۔‘‘(ایضاً)
جائزہ:
یہ درست ہے کہ ’’نحر‘‘ صرف اونٹ ذبح کرنے کو کہتے ہیں، لیکن ذبح اونٹ کا بطور خاص حکم دینے سے دوسرے جانور کو ذبح کرنے کی نفی کیسے ہوگئی؟ اگر آپ کسی مہمان سے یہ فرمائیں کہ ’’دودھ نوش فرمائیے‘‘ تو کیا اس پر دودھ کی تخصیص سے پانی اور چائے وغیرہ پینے کی نفی لازم آئے گی؟ اب اگر ’’نحر‘‘ میں اونٹ کی قربانی، دیگر جانوروں کی قربانیوں کے لیے عدم جواز کی دلیل ٹھہرتی ہے تو اسی بناء پر قرآن میں ممانعت خمر کے حکم کو،دیگر اشیاء کی عدم ممانعت کی دلیل ہونا چاہیے۔ لیکن خود پرویز صاحب ، ممانعت خمر اور حرمت شراب کے حکم میں وہ اشیاء بھی داخل کرتے ہیں جس پر سرے سے ’’پینے کے فعل‘‘ کا اطلاق ہی نہیں ہوتا۔ چنانچہ حریت خمر کے حکم میں یہ مضحکہ خیز تشریحات بھی ملاحظہ فرمائیے:’’خمر وہ ہے جس سے انسان کی عقل و فکر، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت مسلوب یا مضمحل ہوجائے، آپ سوچئے کہ اس میں کیا کیا باتیں نہیں آجاتیں؟ سب سے پہلے تو ’’مذہب‘‘ ہے جس میں سوچنے سمجھنے کو گناہ اور ابلیس کی روش قرار دیا جاتا ہے۔‘‘ (مطالب الفرقان ج3 ص321)
لیکن کسی نے ’’مفکر قرآن‘‘ سے یہ استفسار نہ کیا کہ ’’جناب ! جب نحر کی قربانی میں اونٹ کے سوا کوئی اور قربانی شامل نہیں ہے ، تو ممانعت شراب میں ’’مذہب پینے‘‘ کی ممانعت کیسے داخل ہوگئی؟‘‘ او رجس طرح آپ شراب پینے کی حرمت کے حکم میں ’’مذہب پینے‘‘ کی حرمت کو داخل کرتے ہیں اُسی طرح اگر کوئی شخص، اونٹ کی قربانی کو ’’نحر‘‘ کی بناء پر اور دیگر جانوروں کی قربانی کو ’’نسک‘‘ کی بناء پراختیار کرتا ہے تو وہ مورد الزام کیوں ہو۔؟
مصلحت ذبح اونٹ:
یہاں یہ سوال پیداہوتا ہے کہ سابقہ بحث کی روشنی میں اگر ’’نسک‘‘ سے مراد مطلق قربانی ہے ، تو آخر سورہ کوثر میں خاص طور پر ’’نحر‘‘ کے لفظ سے ’’اونٹ‘‘ کی قربانی کاذکر کیوں کیا گیا ؟ تو اس کا جواب ہم اپنی طرف سے دینے کی بجائے خود پرویز صاحب ہی کی ایک تحریر سے پیش کرنا مناسب سمجھتے ہیں:’’ہجرت کے بعد، جب رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو حالت یہ تھی کہ مسلمانوں کی جماعت (انصار او رمہاجرین دونوں) غریب اور کمزور تھی او رمدینہ میں یہود کا بڑا زور تھا۔ ایسے حالات میں کمزور جماعتیں ہمیشہ طاقتور جماعتوں کے سہارے ڈھونڈتی ہیں اور اس کے لیے اپنے اصولوں تک کو قربان کردیتی ہیں۔ یہودیوں کے ہاں اونٹ حرام تھا اور مسلمان کے ہاں حلال۔ وہ اونٹ کے ذبیحہ کو قابل اعتراض سمجھتے تھے۔ وہ مدینہ میں اپنی قوت کی بناء پر سمجھتے تھے کہ مسلمان ان سے دب کر رہیں گے اور اونٹ کو ذبح کرنے سے محتاط رہیں گے، قرآن کریم نے عین اس مقام پر حکم دیا کہ مدینہ میں ’’اونٹ ذبح کرو‘‘ یعنی دین کے معاملہ میں یہودیوں سے مفاہمت کا خیال نہ کرو۔‘‘ (لغات القرآن ص1592)
یہ تھی وہ مصلحت، جس کے پیش نظر، قرآن نے ’’نحر‘‘ کالفظ بول کر خاص طور پر ’’اونٹ کی قربانی‘‘ کا حکم دیاہے، ورنہ ’’نسک‘‘ کے لفظ میں دیگر جانوروں کی قربانی کا حکم پہلے ہی شامل ہے۔
٭دوسری شرط:
پرویز صاحب نے قربانی کے جواز کو جس دوسری شرط سے مشروط کیا ہے، وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے :’’قرآن کریم نے ان جانوروں کے ذبح کرنے کا مقام، خانہ کعبہ کو قرار دیا ہے اس لیے یہ قربانی حج کے مقام پر کی جائے گی۔‘‘ (تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص250)
جائزہ:
ہدی،نسک اور نحر کا باہمی فرق:
افسوس ہے کہ پرویز صاحب ، بزعم خویش، عمربھر قرآن کے تحقیقی مطالعہ میں مستغرق رہنےکے بعد بھی یہ نہ جان پائے کہ قرآن نے کعبہ میں کی جانے والی قربانیوں اور خارج از کعبہ دیگر مقامات پر کی جانے والی قربانیوں میں فرق کیاہے۔ اوّل الذکر قربانیوں کے لیے قرآن ’’ہدی‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ خواہ یہ کسی جنایت کی پاداش کے طور پر ہو یا حج کے لازمی عمل کی حیثیت سے ہو جبکہ ثانی الذکر قربانیوں کے لیے وہ ’’نسک‘‘ اور ’’نحر‘‘ کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ البتہ ’’نسک‘‘ کے لفظ کا اطلاق خارج از حرم قربانیوں کے علاوہ اُس ’’خون‘‘ پر بھی کیا جاتا ہے جو کسی مجبوری کے باعث ، سرمنڈوا دینے پر بطور شکرانہ کے واجب قرار پائے۔ اگر کوئی قربانی ، مرض یا تکلیف رأس کے باعث مجبوراً سرمنڈوا دینے کے باعث لازم قرار نہیں پائی تواس کا مقام خارج از کعبہ ہے جبکہ ’’ہدی‘‘ خاص طور پر اس قربانی کوکہا گیا ہے ، جس کامقام و محل بیت العتیق ہے۔ قرآن پاک کی درج ذیل آیات اس پر شاہد ہیں:
1۔ ’’فان احصرتم فما استیسر من الھدی ولا تحلفوا رءوسکم حتیٰ یبلغ الھدی محلہ‘‘ترجمہ:’’اور اگر تم گھر جاؤ تو جو ’’ہدی‘‘ (حرم میں کی جانے والی قربانی) میسر آئے، اسے اللہ کے حضور پیش کردو اور سرنہ منڈواؤ یہاں تک کہ ’’ہدی‘‘ اپنے ٹھکانے پہنچ جائے۔‘‘(البقرہ:196)
2۔ ’’ھم الذین کفروا وصدوکم عن المسجد الحرام والھدی معکوفا ان یبلغ محلہ‘‘۔ ترجمہ : ’’وہی لوگ تو ہیں جنہوں نے کفر کیا اور تم کو مسجد حرام سے روکا اور ’’ہدی‘‘ کے جانوروں کو قربانی کی جگہ نہ پہنچنے دیا۔‘‘ (الفتح :25)
3۔ ’’ھدیا بٰلغ الکعبۃ‘‘ ترجمہ :’’یہ قربانی کعبہ میں پہنچنے والی ہو۔‘‘(المائدۃ :95)
ان آیات میں ا س امر کی تصریح ہےکہ ’’ہدی‘‘ سے مراد وہ ’’قربانیاں ‘‘ ہیں، جن کا مقام و محل حرم کعبہ ہے۔ ان آیات کے علاوہ یہ لفظ جہاں بھی استعمال ہوا ہے ’’حرم کی قربانیوں‘‘ ہی کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔الغرض قرآن کریم نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ ’’ہدی‘‘ کا اطلاق صرف ان قربانیوں پر ہوتا ہے جو حدود حرم میں کی جائیں اور ’’نسک ‘‘ و نحر‘‘ مطلق قربانی کوکہتے ہیں ’’نسک‘‘ کے کعبہ میں کئے جانے کی صورت صرف ایک ہے اور وہ یہ کہ یہ قربانی اس رعایت کے شکریے کے نتیجہ میں واجب ہو جبکہ حالت مرض یا تکلیف رأس کے باعث وہ سرنہ منڈوانے کی پابندی پر قائم نہ رہ پائے (یہ بہرحال ایسی مجبوری ہے جو اس کے ارادہ و اختیار سے اس پر وارد نہیں ہوئی)
جب جبکہ قرآن کریم ، درون حرم او ربیرون حرم کی جانے والی قربانیوں میں واضح فرق و امتیاز قائم کرتا ہے، تو کسی کےلیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ان فروق و امتیازات کو بالائے طاق رکھ کر یہ حکم جاری کرے کہ ہدی کی قربانی ہو یا نسک و نحر کی قربانی، ہر ایک کا مقام کعبہ ہی ہے۔ صرف قرآن ہی نہیں بلکہ لغات عرب بھی ان دونوں قسم کی قربانیوں میں فرق و امتیاز کرتے ہوئے ، صرف ’’ہدی‘‘ کو مقام حرم سے وابستہ کرتی ہیں۔ خود پرویز صاحب لکھتے ہیں:’’ھدی اور ھدی اس جانور کو کہتے تھے جو حج کے موقع پر بیت اللہ پر ذبح کرنے کے لیے لے جاتے تھے۔‘‘ (لغات القرآن ص1756)
اور یہ فرق اتنا واضح فرق ہے کہ عرف عام میں بھی اس کو ملحوظ رکھا جاتاہے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’’للہ علی الھدی‘‘ (مجھ پر اللہ کے لیے ’’ہدی‘‘ لازم ہے ) تو ہر شخص یہی سمجھے گا کہ قائل پر ایسی قربانی لازم ہے جو حرم کعبہ میں کی جائے گی، لیکن اگر کوئی شخص یہ کہے کہ ’’للہ علی النسیکۃ‘‘ (مجھ پر خون لازم ہے) تو ہر شخص یہی سمجھے گاکہ جو خون یا قربانی قائل پر لازم ہے وہ جہاں چاہے کردے، حرم میں ان کا کرنا لازم ہے اور واجب نہیں ہے۔ لہٰذا پرویز صاحب کا ہر قسم کی قربانی کے متعلق یہ شرط عائد کرنا کہ اسے حرم کعبہ ہی میں کیا جائے، نہ صرف یہ کہ خلاف قرآن ہے بلکہ لغات عربیہ کےبھی خلاف ہے۔
پرویز صاحب کے مؤقف کا باطل او ربے بنیاد ہونا اس امر سے بھی واضح ہے کہ اگر ہر قسم کی قربانی کا مقام و محل کعبہ ہی ہو تو مدینہ میں اہل ایمان کےلیے عین یہودیوں کےگڑھ میں’’اونٹ ذبح کرو‘‘ کا حکم بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے۔ کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کا زور تھا اور مدینہ ہی میں اونٹ ذبح کرنے سے ان کی مخالفت لازم آتی تھی۔ مقام حرم میں تو ہر قسم کی قربانی عہد جاہلیت ہی سے ہوتی آئی تھی، اسلیے مسلمان اگر ’’وانحر‘‘ کی اطاعت مدینہ میں نہیں کرتے تھے اور صرف حدود حرم میں ہی کرتے تھے تو ایسی مخالفت قطعی بے فائدہ اور بے اثر ہے ۔ آپ خود سوچئے کہ ہندوؤں کے ہاں گائے کی قربانی ممنوع ہے، جبکہ مسلمانوں کے ہاں حلال و جائز ہے، اب اگر مسلمان ہنود کی مخالفت میں گائے کی قربانی بھارت میں کرنے کی بجائے بیرون ہند کرتے پھریں تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟
قربانی پر پرویز صاحب کی تیسری شرط اور اس کا جائزہ:
قربانی کو پرویز صاحب نے جس تیسری شرط کے ساتھ مشروط کیا ہے، وہ ان کے اپنے الفاظ میں یہ ہے:”قرآن کریم نے بالتصریح کہا ہے کہ اس سے مقصد یہ ہے کہ ان کا گوشت تم خود بھی کھاؤ اور وہاں کے محتاجوں کو بھی کھلاؤ، لہذا صرف اتنے اونٹ ذبح کئے جائیں گے جن کا گوشت کھانے کے کام آ سکے، بنا بریں جس طرح آج کل حج کی تقریب پر لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں ذبح کر کے زمین میں دبا دی جاتی ہیں اور تمام دنیا میں عید الاضحیٰ کی تقریب پر جانور ذبح کئے جاتے ہیں، قرآن کریم سے اس کی تائید کسی طرح بھی نہیں ہوتی۔” (تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص250)
پرویز صاحب کی اس شرط کا جائزہ ہم کئی پہلوؤں سے لے رہے ہیں۔
1۔ سب سے پہلی بات تو یہ غور طلب ہے کہ انہوں نے حج کے عالمگیر اجتماع میں قربانیوں کا مقصد محض “ضیافت خوری” قرار دیا ہے۔ چنانچہ ان کی ساری گفتگو کا مرکزی نقطہ یہی قرار پاتا ہے کہ جب “اجتماعِ حج” ایک “گوشت خوری” کی پارٹی ہے تو اس پارٹی میں اتنے ہی جانور ذبح کئے جانے چاہئیں جو افراد، اجتماع کے پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہوں۔ انہوں نے اپنے اس نقطہ نظر کی کئی جگہ وضاحت کی ہے:”نمائندگان ملت اسلامیہ کے عالمگیر اجتماع میں ہدی کی قربانی اس لیے ہے کہ وہاں وہ لوگ ایک دوسرے کی دعوت کریں۔” (قرآنی فیصلے ج1 ص138)
( یہ عامۃ المسلمین کا اجتماع ہے یا ان کے نمائندگان کا؟ اس پر بحث پھر کسی موقع پر ہو گی۔ ان شاءاللہ) ایک مقام پر “مشعر الحرام” کی تشریح کرتے ہوئے جناب پرویز صاحب رقمطراز ہیں:”مشعر کے معنیٰ ہیں وہ مقام جہاں عقل و شعور کی رو سے معاملات پر بحث و تمحیص کی جائے۔ اور چونکہ ان معاملات کا تعلق نظامِ خداوندی سے ہو گا اس لیے اسے حرام یعنی واجب الاحترام بھی قرار دیا۔ یہاں یہ نمائندگان حسب ضرورت دو یا تین دن قیام کریں گے، اس پروگرام کی عملی جزئیات اور ان کے سلسلہ میں باہمی تعاون و تناصر کے سلسلے میں بحث و تمحیص بھی ہو گی اور ایک دوسرے کی ضیافتیں بھی۔۔۔آج دوپہر کا کھانا نمائندگان پاکستان کی طرف سے، رات کا کھانا اہل افغانستان کی طرف سے (وقس علی ذالک) ان ضیافتوں کے لیے وہ جانور ذبح ہوں گے جنہیں یہ لوگ اسی مقصد کے لیے ساتھ لائے تھے یا جو دوسرے لوگوں نے تحفۃ بھیجے تھے۔۔۔” (تفسیر مطالب الفرقان ج3 ص241)
جناب پرویز صاحب کے نزدیک حج کا اجتماع، “گوشت خوری” کی ایک “بین الاقوامی پکنک پارٹی” ہے۔ جبکہ ہمارے نزدیک یہ اجتماع، سراسر ایک تعبدی امر ہے۔ جس میں دنیا بھر کے مسلمان بیت اللہ کا قصد کر کے آتے ہیں۔۔۔اور یہی بات قرآن کریم نے بھی بیان فرمائی ہے:﴿وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا … ٩٧﴾…آل عمران “اور لوگوں پر خدا کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کا مقدور رکھے وہ اس کا حج کرے۔”نیز فرمایا:
﴿وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ ﴿٢٩﴾…ترجمہ :”اور چاہئے کہ وہ اس قدیم گھر (یعنی بیت اللہ) کا طواف کریں۔” الحج
پھر حضرت ابراھیم ؑ کی سنت کی پیروی اہل ایمان کو اسی جگہ قربانی کا بھی حکم دیا گیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ … ٣٤﴾…ترجمہ :اور جب یہ قربانی دے لیں تو پھر اس میں سے وہ خود بھی کھائیں اور تنگ دست فقراء کو بھی کھلائیں۔الحج۔۔
الغرض، قربانیوں کا اصل مقصد، رضائے الہی کی طلب میں خلیل اللہ کی سنت پر عمل کرتے ہوئےخدا کی عطا کردہ حیوانی دولت کو اسی کے نام پر ذبح کرنا ہے۔ کھلانا اور کھانا وہ اولین مقصد نہیں ہے جس کے لیے یہ قربانی لازم کی گئی ہے جیسا کہ پرویز صاحب نے سمجھا ہے۔ یہاں (بیت اللہ میں) آنے کا مقصد ذبیحوں کے ذریعہ اور دیگر مناسک حج کی ادائیگی کے ذریعہ رضائے الہی اور تقرب خداوندی کا حصول ہے۔ لہذا یہاں اصل اور بنیادی حیثیت اس بات کو حاصل نہیں ہے کہ کتنے لوگوں کے کام و دہن کی لذت کا سامان فراہم کیا گیا؟ بلکہ اس بات کو حاصل ہے کہ طلبِ رضاء الہی میں کتنی قربانیاں دی گئیں اور کس خلوص و للہیت سے دی گئیں؟
2۔حج میں ہر شخص قربانی کرتا ہے۔ عام حالات میں اگر ہر شخص ایک ایک قربانی بھی کرے تو بھی گوشت اس قدر ہو جاتا ہے کہ شکم سیری کے بعد بھی بچ جاتا ہے۔ اس بچے ہوئے گوشت کو دیکھ کر خدا کے حکم میں ترمیم کرتےہوہئے بعض لوگوں پر سے اس قربانی کو ساقط نہیں کیا جا سکتا، جسے خدا تعالیٰ نے شعائر اللہ قرار دیا ہے، اور جسے توحید فی العبادت اور توحید فی الاعتقاد کا سبب قرار دیا ہے۔قربانی کے گوشت کو شکم سیری کی روشنی میں، معاشی ترازو میں تول کر نہیں دیکھا جائے گا، بلکہ اعتقاد و عبادت کے اس ترازو میں وزن کر کے دیکھا جائے گا جو توحید ربوبیت اور توحید عبودیت کا سبب و ذریعہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید نے قربانی اور توحید کو مقرون و متحد کر کے پیش کیا ہے:﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّـهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَلَهُ أَسْلِمُوا ..الحج. ٣٤﴾…”ہم نے ہر قوم کے لیے قربانی (یا طریق عبادت و قربانی) کا ایک طور طریقہ ٹھہرایا تاکہ وہ ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر ذبح کریں جو اس نے ان کو عطا فرمائے ہیں۔ سو تمہارا الہ وہی ایک الہ ہے، سو تم اسی کے سامنے جھکو۔”( ترجمہ از غلام احمد پرویز۔ معارف القرآن ج1 ص16)
3۔عین حج کے موقعہ پر حرم پاک میں روئے زمین سے آنے والے حاجیوں کا مشغولِ عبادت ہونا اور ان ہی دنوں میں خارج از ھرم پوری امت کا نسک و نحر کے ذریعہ ان کا شریک حال ہونا، ان میں ایک ہی دین و ملت اور ایک ہی تہذیب و ثقافت کے علمبردار ہونے کا وہ جذبہ و احساس پیدا کرتا ہے، جس کے مقابلے میں ہر مادی نقصان ہیچ ہے، صرف اسلام ہی نہیں، ہر قوم کے قومی تہوار، افراد قوم میں وحدت کا وہ شعور پیدا کرتے ہیں جو ان کے قومی تشخص کو اجاگر کرتا بلکہ نشوونما دیتا رہتا ہے۔ اس قیمتی شعور و احساس کو معاشی اخراجات کے گز سے نہیں ناپا جا سکتا۔ آج مسیحیت پوری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔ مسیحی افراد وطنی، لونی، لسانی، نسلی اور معاشی طور پر کئی ایک طبقوں اور حصوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ شاید ان کے درمیان (مسیحیت کے نام کے علاوہ) کوئی قدر مشترک عملا باقی نہیں ہے، ماسوا اس تہوار جو وہ “کرسمس” کے نام پر مناتے ہیں۔ سال بھر کے بعد، یہ تہوار اگر روئے زمین پر پھیلے ہوئے تمام عیسائیوں میں ایک مذہب و ملت کے افراد ہونے کا احساس پیدا کر دیتا ہے تو ان کے ہاں یہ احساس نایسی نعمت گرانمایہ ہے کہ وہ اس کے مقابلے میں اس پر اٹھنے والے مصارف کو کوئی اہمیت نہیں دیتے۔ اگر آپ کسی مسیحی سے یہ کہیں کہ۔۔۔” جناب آپ اس تہوار پر جس قدر رقم خرچ کرتے ہیں اسے آپ رفاہ عامہ کے کام میں صرف کر کے اپنی قوم کی بہتر خدمت کر سکتے ہیں، لہذا اس تہوار کو منانا چھوڑ دین”۔۔۔تو وہ آپ کی معاشی میزان میں تلی ہوئی اس نصیحت کو آپ کے منہ پر دے مارے گا۔ ہندوؤں سے زیادہ زر پرست اور روپے پیسے پر جان دینے والی قوم کون سی ہو سکتی ہے؟ یہ لوگ بھی اپنے تہواروں پر اٹھنے والی رقوم کو اقتصادیات کے ترازو میں تولنے کے لیے آمادہ نہیں ہیں، کیونکہ یہ تہوار ان میں یکجہتی کا احساس اور وحدت کا شعور پیدا کرتے ہیں، لیکن ہمارے مہربان یہ وعظ فرماتے نہیں تھکتے کہ:”ہر سال جتنے جانور ذبح کئے جاتے ہیں اگر ان کی قیمت حکومت کے حوالہ کر دی جائے تو سینکڑوں رفاہ عامہ کے کام ہو سکتے ہیں۔”
4۔ رہا پرویز صاحب کا یہ فرمان کہ”جس طرح آج کل حج کی تقریب پر لاکھوں کی تعداد میں بھیڑ بکریاں ذبح کر کے زمین میں دبا دی جاتی ہیں۔۔۔” تو یہ بھی ان کی لاعلمی تھی۔ آج ہر شخص حج پر جا کر خود دیکھ سکتا ہے کہ پرویز صاحب کے اس بیان میں صداقت و حقیقت کا کتنا عنصر پایا جاتا ہے۔ تضیعِ لحم کے بارے میں وہاں سرے سے یہ بات ہے ہی نہیں جو “مفکرِ قرآن’ صاحب نے بیان کی ہے۔ ممکن ہے ماضی میں کبھی ایسا ہوا ہو، مگر اب تو دورِ حاضر کے جدید ترین وسائلَ نقل و حمل نے اس گوشت کو آن کی آن میں دنیا بھر کے مستحقین تک پہنچانے کا بندوبست کر ڈالا ہے۔ گزشتہ سال (1986، یہ تحریر 1987 میں لکھی گئی )جو لوگ حج سے فارغ ہو کر آئے ہیں وہ جانتے ہیں کہ حجاج کرام کی ضروریات سے فاضل گوست کو فضائی سروس کے ذریعہ افغان مہاجرین تک پہنچا دیا گیا تھا۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر بالفرض قربانی کا گوشت وہاں واقعی ضائع ہی ہو رہا ہو، تب بھی ایک مسلمان کے لیے۔۔۔بشرطیکہ وہ حقیقتا مسلمان ہو۔۔۔یہ کہاں جائز ہے کہ وہ اس بات کو “قربانی” کے عدمِ جواز کا بہانہ بنا ڈالے جس کو اللہ تعالیٰ نے “شعائر اللہ” قرار دیا ہے، جس کے متعلق قرآن مجید نے “لكم فيها خير”( الحج: 36) کہا ہے اور جس کے کر ڈالنے کا حکم دیا گیا ہے۔
قرآن کریم نے قربانیوں اور ذبیحوں کو کہیں بھی عید الاضحیٰ کے ساتھ نتھی نہیں کیا ہے
“قربانی” پر، پرویز صاحب نے اپنے اس اعتراض کو مختلف انداز میں بہت تکرار کے ساتھ دہرایا ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ:قرآن کریم نے قربانیوں اور ذبیحوں کو کہیں بھی عید الاضحیٰ کے ساتھ نتھی نہیں کیا ہے، پھر آپ ہر گلی کوچے میں عید الاضحیٰ کے موقعہ پر یہ قربانیاں کیوں کرتے ہیں؟ (خلاصہ عبارت قرآنی فیصلے و تفسیر مطالب الفرقان)
اس اعتراض کا جواب تو بہت تفصیل سے دیا جا چکا ہے، مگر یہاں پرویز صاحب کے مزاج کا ایک اور رنگ ملاحظہ فرمائیے اور یہ بھی دیکھئے کہ قربانی کی مخالفت کا جذبہ، ان کے حواس و مشاعر پر کس قدر غلبہ پا چکا ہے؟ ورنہ وہ قرآنی نقطہ نظر سے “قربانی” کو “عید الاضحیٰ” کے ساتھ وابستہ کرنے میں ہم پر کیا اعتراض کرتے، بلکہ خود ہمارے اس اعتراض کی زد میں آ جاتے کہ “آپ” عید الاضحیٰ” کے وجود کو تسلیم کر کے “اضحیٰ” کا انکار کیسے کرتے ہیں؟”
غور فرمائیے! پرویز صاحب “قربانی” کے تو قائل نہیں ہیں۔ مگر نفس “عید الاضحیٰ” کے قائل ہیں۔ جب وہ ہمیں یہ کہتے ہیں کہ ۔۔۔”آپ قربانی کو عید الاضحیٰ کے ساتھ مقرون کیوں کرتے ہیں؟”۔۔۔تو ان کو “عید الاضحیٰ” کے وجود پر تو کوئی اعتراض نہیں ہوتا، مگر “اضحیٰ” پر وہ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسے “قربانی کی عید” کے ساتھ وابستہ کیوں کیا جاتا ہے؟ حالانکہ قرآن کریم میں نہ تو عید الاضحیٰ ہی کا وجود ہے اور نہ ہی عید الفطر کا (ملاحظہ ہو قرآنی فیصلے ج1 ص85 اور ص158) اور نہ ہی نفس “عید الاضحیٰ” کا وہ انکار کرتے ہیں (حالانکہ ان میں سے کسی کا وجود قرآن کریم سے ثابت نہیں ہے) مگر وہ عیدین کے وجود کو تسلیم کر کے ان کے ساتھ وابستہ ایک عمل (قربانی) کا انکار کرتے ہیں جبکہ دوسرے عمل (صدقۃ الفطر) کا اقرار فرماتے ہیں۔۔۔آخر اس ثنویت کی کیا قرآنی دلیل ہے؟
فکرِ پرویز سے وابستہ افراد سے ہماری گزارش یہ ہے کہ اگر آپ قرآن کی بنیاد پر قربانی کا انکار کرتے ہیں تو “قربانی” سے پہلے “عید الاضحیٰ” کا انکار کیجئے، اسی طرح عید الفطر اور صدقۃ الفطر کا انکار کیجئے۔ کیونکہ ان میں سے کوئی چیز بھی ازروئے قرآن ثابت نہیں ہے، لیکن اگر آپ ان کو نومولود کے کان میں اذان دینے،عقیقہ کرنے، ختنہ کرنے اور میت کو غسل دینے اور کفن پہنانے وغیرہ جیسے اعمال کی طرح “معاشرتی امور” قرار دے کر برقرار رکھتے ہیں (جیسا کہ قرآنی فیصلے ج اول ص219 پر لکھا گیا ہے، حالانکہ ان میں سے کسی چیز کا وجود بھی قرآن سے ثابت نہیں ہے) تو اسی طرح “قربانی” کو بھی ایسا “معاشرتی امر” دے کر برقرار رکھا جا سکتا ہے، جسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت میں جاری فرمایا تھا۔۔۔اور باوجود اس کے کہ اس عمل کا اجراء دورِ نزول قرآن میں ہوا تھا، اللہ تعالیٰ نے کہیں اس کی تردید نہیں فرمائی۔
استفادہ تحریر مسئلہ قربانی قرآن کی روشنی میں از پروفیسر محمد دین قاسمی ، ماہنامہ محدث