ایک صاحب نے مشہور فلسفی کانٹ کے حضرت ابراھیم علیہ السلام پر اعتراض کے حوالے سے پوسٹ لگائی ہے کہ کانٹ کے مطابق حضرت ابراھیم نے بیٹے کو قربان کرتے وقت خدا کی طرف اپنی اخلاقی ذمہ داری تو نبھائی مگر انسان کی طرف اپنی اخلاقی ذمہ داری نبھانے میں ان سے چوک ھوگئی، یعنی وہ توازن برقرار نہ رکھ سکے. صاحب پوسٹ کے خیال میں یہ نہایت عقلی اور باوزن اعتراض ھے.
صاحب پوسٹ تو خیر فلسفی ھیں لہذا انکا ایسی باتیں کرنا سمجھ آتا ھے مگر حیرت تو ان مذھب پسند اذھان پر ھے جو کانٹ کے اس اعتراض کا جواب دیتے ھوئے یہ کہتے دکھائی دئیے کہ اللہ نے بیٹا ذبح کرنے کا حکم نہیں دیا تھا بلکہ ابراھیم علیہ السلام خواب کو خود ہی حقیقت بنانے کا ارادہ کرکے لغزش کے مرتکب ھوئے. لاحول ولاقوہ. یہ احباب کانٹ کے اخلاقی فلسفے کے مفروضات پر سوال اٹھانے کے بجائے اس کے فریم ورک میں کھڑے ہوکر جواب دینا شروع ہوجاتے ہیں. خیر اس پوسٹ میں ان حضرات کے خیالات کو مخاطب کرنا مقصود نہیں یہاں صرف کانٹ کے اعتراض کا جائزہ مقصود ھے.کانٹ کے اعتراض کا داخلی و خارجی جہات سے جائزہ لینا ممکن ھے مگر یہاں صرف اصولی و خارجی جائزہ لیا جائے گا۔
کانٹ کا مسئلہ یہ ھے کہ وہ ھیومنسٹ ھے اور انسان کی اٹانومی کو سب چیزوں سے مقدم سمجھتا ھے. کسی عمل کی قدر متعین کرنے کا کانٹ کا مجوزہ آفاقی قضیے کا اصول انسان کی اٹانومی کو مفروضے کے طور پر قبول کرتا ھے. چنانچہ یہاں بھی وہ یہی کرتا ھے کہ فرد کو مرکز میں رکھ کر پھر ترازو کے دو پلڑوں میں خدا اور دیگر انسانوں کو بٹھا کر جب وہ توازن تلاش کرنے کی کوشش میں ناکام ھوجاتا ھے تو جھٹ سے نبی کے عمل پر سوال اٹھا دیتا ھے. مگر بنیادی سوال یہ ھے کہ ھم کانٹ کے انسان کے بارے میں اس مفروضے کو کیونکر ماں لیں نیز یہ کیوں درست سمجھا جائے کہ اخلاقی عمل وہی ھے جو انسانی خواھشات کو آفاقی بنانے والے اسکے آفاقی قضئے کے اصول پر پورا اترے؟
بات بالکل صاف ھے کہ مذھب کے اخلاقی نکتہ نگاہ سے انسان کی دوسرے انسان کی طرف خدا کے حکم کے ماسواء کوئی کمٹمنٹ و ذمہ داری سرے سے ھے ہی نہیں. ایسے میں یہ فرض کرنا کہ انسان کی طرف اسکی کوئی ایسی ذمہ داری بھی ھے جو خدا کے قطعی حکم کے مقابلے میں آکھڑی ھوسکتی ھے ایک لغو خیال ھے. کانٹ کا خدا محض فلسفیانہ خدا ھے جو انسان کی اٹانومی کے خلاف اسے حکم دینے کا اختیار نہیں رکھتا. اس کے یہاں قدر کا تعین خودمختار نفس کی خواھشات سے ہوتا ہے جسے وہ نادانی میں عقل سمجھتا رہا. کانٹ یہ سب اپنے فریم ورک میں فرض کررھا ھے مگر ھمیں یہ فرض کرنے کی کوئی ضرورت نہیں. ایک دفعہ کانٹ کے انسان کے بارے میں مفروضے کو رد کردیجئے یہ اعتراض خود بخود لغو دکھائی دے گا.
بھلا کانٹ کو کیا خبر کہ عدل اور خیروشر کیا ھے کہ وہ منصف بن کر نبی کے عمل پر معترض ھو؟ اسے چاھئے کہ انسان کی اٹانومی کی پوجا سے توبہ کرکے پہلے اپنے اصل مقام “مقام بندگی” پر آئے پھر ابو الانبیاء کے اسوہ حسنہ کو سمجھنے اور اس سے سبق سیکھنے کی پوزیشن میں آئے گا.
اگر اسکے جواب میں کہا جائے کہ یہ تو اخلاقیات کے بارے میں آپ کے نکتہ نگاہ سے جواب ھے تو ان سے کہئے کہ کانٹ بھی تو یہی کررھا ھے کہ اپنے نکتہ نگاہ سے سوال اٹھا رھا ھے، وہ کونسا کسی آفاقی، مجرد و معروضی عقلیت پر قائم ہو کر معترض ھے کہ اسکی پوزیشن فرض کرنا لازم ہے.خدارا فلسفیوں کے لغو اعتراضات کا جواب دینے کے لئے انبیاء کے فہم پر منصف بن کر نہ بیٹھ جایا کریں. یہاں منصفی صرف خدا کو زیب دیتی ہے
کانٹ کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے حکم پر عمل کر رہے تھے تو ضرور ہے کہ انہوں نے خدا کے پیغام کو سمجھنے میں غلطی کی۔ ایسا خدا جو انسانوں کی عبادت کا مستحق ہو وہ انسان کو کبھی دو متضاد حکم نہیں دے سکتا کہ ایک طرف تو اخلاقی اصولوں کی پاسداری اور دوسری طرف اس کی خلاف ورزی۔.. اسکا جواب یہ ہے کہ ایک آزمائش کے طور پر ایسا ممکن ہے ۔ ایک پیغمبر یہ جانتے ہوے کہ واقعی انسان اور کائنات کا ایک خدا ہے اور وہ اسی خدا کے پیغمبر ہیں اور اسے اسی کی جانب سے ایک آزمائش آئی ہے ‘ ایسا سمجھ سکتا ہے ۔بعد کی تفصیلات بھی یہی بتاتی ہیں کہ یہ ایک آزمائش تھی اور بیٹے کو ذبح نہیں ہونے دیا گیا اس لیے کانٹ کا یہ اعتراض غلط ہے ۔
ڈاکٹر شہباز منج پروفیسر سرگودھا یونیورسٹی اپنے ایک مقالے میں لکھتے ہیں:
“مستشرقین اور مغربی اہل فکر کے وحی سے متعلق مباحث کا ایک پہلو انبیا کی صحتِ تحصیل و ابلاغِ وحی سے متعلق اعتراضات اور شکوک و شبہات بھی ہے ۔وحی پر استشراقی و مغربی خیالات کے ذیل میں کانٹ کے حضرت ابراہیم کے خواب میں ذبح اسماعیل سے متعلق واقعہ کو ابراہیم علیہ اسلام کی غلطیِ تعبیر پر محمول کرنے سے متعلق خیالات کا ذکر گزر چکا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ انبیا کا وحی کو وصول کرنے اور لوگوں تک پہنچانے کے سلسلہ میں کسی قسم کی غلطئ تعبیر یا آمیزش شیطانی سے دوچار ہونا ایک نہایت ہی مغالطہ آمیز مفروضہ ہے ،جسے مخالفین وحی کی غلط اندیشی اور مستشرقین کی اسلام دشمنی کے سوا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ اس طرح کے خیالات یا تو بد طینتی و تعصب یا پھر قدرت خداوندیِ وحقیقتِ نبوت سے ناواقفیت کی دلیل ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پیغمبر تک خدا کی وحی نہایت حفاظت و صیانت کے ساتھ پہنچائی جاتی ہے ۔ پیغمبر معصوم عن الخطا ہوتا ہے اور اس کو خدا کی طرف سے عطا ہونے والی اس عصمت کا تقاضا ہے کہ وہ وحی الٰہی کو، اگرلفظی ہو تو لفظی اور معنوی ہو تو معنوی ہر اعتبار سے صحیح صحیح الفاظ و معانی کے ساتھ بغیر کسی خطا اور غلطی تعبیر کے لوگوں تک پہنچا دے۔ خدا تعالیٰ نے اس بات کا خصوسی انتظام کر رکھا ہوتا ہے کہ پیغمبر خدا کی طرف سے ملنے والی وحی کو وصول کرنے کے سلسلہ میں کسی بھی طرح کے ابہام اور خلط معانی سے دو چار نہ ہو۔ انبیاء کو خداکی طرف سے ملنے والی ہدایت کی خصوصی حفاظت سے متعلق قرآن کا ارشاد ہے:
فَاِِنَّہٗ یَسْلُکُ مِنْم بَیْنِ یَدَیْہِ وَمِنْ خَلْفِہٖ رَصَدًا ۔ لِّیَعْلَمَ اَنْ قَداَبْلَغُوْا رِسٰلٰتِ رَبِّہِمْ وَاَحَاطَ بِمَا لَدَیْہِمْ وَاَحْصٰی کُلَّ شَیْءٍ عَدَدًا۔(42)
حضرت ابراہیم کے خواب سے متعلق ہرزہ سرائی کرنے والے ااگر اس واقعہ سے متعلق قرآنی بیانات پر نگاہ ڈالیں تو ان پر حقیقت واضح ہو جائے گی کہ حالت بیداری میں نازل ہونے والی وحی تو ایک طرف خواب میں ملنے والی وحی سے متعلق بھی نہ صرف یہ کہ پیغمبروں کچھ شک نہ ہوتا تھا بلکہ ان کے سعادت مند بیٹے بھی اس کو بغیر کسی الہام کے وحی خداوندی سمجھتے تھے۔ قرآن کیمطابق جب اسماعیل ؑ حضرت ابراہیم ؑ کے ساتھ دوڑنے پھرنے کی عمر کو پہنچتے ہیں تو حضرت ابراہیم ؑ اسماعیل ؑ سے کہتے ہیں: یٰبُنَیَّ اِِنِّیْٓ اَرٰی فِی الْمَنَامِ اَنِّیْ اَذْبَحُکَ فَانْظُرْ مَاذَا تَرٰی قَالَ یٰٓاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِیْٓ اِِنْ شَآءَ اللّٰہُ مِنَ الصّٰبِرِیْنَ(43)اب اس میں غور طلب امر ہے کہ حضرت ابراہیم کے الفاظ میں کہیں وحی خداوندی کا ذکر ہے اور نہ ذبح اسماعیل سے متعلق کسی حکم خداوندی کا ۔ آپ صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہیں ذبح کر رہا ہوں۔ سعادت مند بیٹا جھٹ سمجھ جاتا ہے کہ خواب وحی الٰہی ہے، اور کہتا ہے کہ آپ کو جو حکم ہوا اس میں دیر کیسی ؟ تو جس نبی کا نہایت کم سن بیٹا اس درجہ صاحب بصیرت ہو، اسے وحی الٰہی کو سمجھنے میں کیسے غلطی لگ سکتی ہے۔ (پاکستان جرنل آف اسلامک ریسرچ، بہاو الدین زکریا یونی ورسٹی ،ملتان)
ایمانوعیل کا خدا مذہبی خدا کی طرح فعال نہیں ہے۔ یہ انسانی عقل کا تخلیق کردہ وہ تصور ہے جس تک خود عقل نہیں پہنچ سکتی۔ خدا کے وجود کی تصدیق داخلی مشاہدے (وجدان) سے ہوتی ہے اور عقل داخلی مشاہدے کے تصور کی فقط تصدیق کرتی ہے۔ ہم بآسانی یہ کہہ سکتے ہیں کہ کانٹ کا خدا انسان کی تخلیق ہے جس کے پاس انسان نے کوئی اختیار نہیں چھوڑا۔ کانٹ کے تین تصورات ہیں جو ناگزیر ہیں اور تینوں کی تصدیق داخلی مشاہدے یا وجدان سے ہوتی ہے ۔۔۔۔ خدا روح کی لافانیت ارادے کی آزادی ان میں سے سب سے اہم ارادے کی آزادی ہے جس کے بغیر اخلاقیات کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خدا جب حکم جاری کرتا ہے تو ارادے کی آزادی سلب ہوتی ہے جو کانٹ کو کسی صورت بھی قبول نہیں ہے۔ کانٹ جب یہ کہتا ہے حضرت ابراہیم کو قربانی سے پہلے خدا سے سوال کرنا چاہیے تھا تو اس وقت وہ اپنے تصور آزادی کا دفاع کر رہا ہوتا ہے۔ چونکہ ابراہیم نے سوال نہیں کیا، جو کہ مطلق آزادی کی نفی تھی، اس لیے قربانی کانٹ کے نزدیک ایک “غیر اخلاقی” قدم تھا۔
استفادہ تحریر ڈاکٹر زاہد مغل ، ڈاکٹر شہباز منج، عامر مغل