ڈاکٹر روتھ صاحبہ کی وفات کے بعد ہمارے یہاں عجیب و غریب بحث چل نکلی ہے۔ ایک گروہ انہیں لازما جنت میں پہنچانے پر مصر ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ملحد ہونے کے سبب جنت کو مانتے ہی نہیں مگر پھر بھی وہ انہیں خدا کی جنت میں ضرور دیکھنا چاہتے ہیں اور وہ بھی جو کسی بڑے سے بڑے نیک مسلمان کے لئے بھی جنت کی امید رکھے جانے پر ٹھہرجانے کا سبق دینے والے ہوتے ہیں کہ “تم کون ہوتے ہو کسی کو جنتی کہنے والے”۔ دوسرے گروہ کا حال یہ ہے گویا وہ انہیں لازما جہنم میں دھکا دے کر ہی دم لے گا۔
ہندوستان میں جب گاندھی کا ایک ہندو کے ہاتھوں قتل ہوا تو کچھ مسلمانوں نے انہیں شہید لکھنا شروع کر دیا. دارالعلوم دیوبند کے فاضل مفتی ظفیر احمد مفتاحی رح کے نام مولانا عبد الماجد دریابادی رح نے خط میں لکھا : گاندھی جی سے متعلق پہلے سوء ظن میں افراط تھی. اب حسن ظن میں ہو گئی ہے. بے اعتدالی اور عدم توازن سے تو ہماری قوم کو گویا عشق ہے. (علمی مراسلے : ص 308) اسی طرح کا معاملہ ہمارے یہاں اس طرح کے مواقع پر پیدا ہوتا ہے. مذکورہ بالا خاتون کی وفات پر بھی اس طرح کے دو طرز سامنے آئے. بعض نے اگر بتیاں جلا کر خوشبو کا ماحول پیدا کیا، پلاؤ تقسیم ہوا ، فاتحہ ہوئی اور’ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ’ کی نوید جانفزا سنائی جب کہ بعض نے مرگھٹ میں چتا روشن کی اور میت سوختہ ہونے کے بعد ڈاکٹر پفاؤ کی ارتھی کی خاک کو دریاے چندرا بھاگا کی شوریدہ سر موجوں کی نذر کرتے ہوئے’ وامتازوا الیوم ایھا المجرمون’ کی وعید سنائی. معدودے چند اہل علم نے متوازن اپروچ اپنائی۔۔
یہ دونوں انتہائیں ہیں، مرحومہ کا فیصلہ خدا کے یہاں ہونا ہے وہ خود کرلے گا۔ ہمیں البتہ “میرٹ” اور “اپنے انجام” کی طرف توجہ کرنا چاہئے۔
جنت میں جانے کا ایک ہے “میرٹ کا معیار” اور ایک ہے “رعایتی معیار”۔
٭ میرٹ کا معیار یہی ہے کہ رسول اللہﷺ کی آمد کے بعد اب سب کے لئے انہیں ماننا لازم ہے(اس کے بغیر آخرت میں نجات نہیں)۔ دنیا کے سب انسانوں کو اسی میرٹ کو حاصل کرنے کی طرف دعوت دی جائے گی، اسی کو پھیلانا امت محمدیہ کا منصب ہے۔
٭ “رعایتی معیار” یہ ہے کہ جس شخص تک اسلام کی دعوت نہ پہنچی یا اسے کسی وجہ سے اس پر غور و فکر کا موقع نہ مل سکا یا وہ اسے کسی سبب سمجھ ہی نہ آئی ، ذھنی صلاحیت کے اعتبار سے کند ذھن ہو،- ایسے حالات میں پیدا ہوجانا کہ مخصوص فرد کو اسلام کی درست تصویر سمجھانے والا میسر نہ ہو وغیرہ تو ایسے شخص کو اللہ تعالی اپنے لامحدود علم کی بنیاد پر خود جانچ کر اس کا فیصلہ کردے گا کہ آیا اس کے پاس اسے نہ ماننے کا کوئی قابل قبول عذر موجود تھا یا نہیں۔ پس جس کے پاس کوئی ویلڈ عذر ہوگا خدا اسی حساب سے اس کا فیصلہ کردے گا۔ مگر دنیا میں کبھی بھی رعایتی معیار کو پروموٹ نہیں کیا جاتا، پروموٹ میرٹ ہی کو کیا جاتا ہے۔ کسے رعایت ملنے والی ہے یہ کوئی نہیں جانتا لہذا اس پر تکیہ خلاف عقل ہے۔!
اجمالی عقیدہ یہ رکھنا چاہیے کہ ہر شخص کا مواخذہ اس کی تبلیغ کی نوعیت کے ساتھ وابستہ ہے. جسے جس حد تک تبلیغ ہوئی ہے اسی حد تک اس سے مواخذہ بھی ہو گا. یہ بالکل ممکن ہے کہ ایک شخص ہندوستان یا عرب ہی میں رہتا ہو لیکن اپنے خاص حالات کی وجہ سے دین حق کا پیغام اس شخص تک نہ پہنچے جس رنگ میں یورپ یا امریکا کے کسی ایسے شخص تک پہنچا ہو جس نے با ضابطہ اسلام اور اسلامی تعلیمات اسلامی کتابوں کا مطالعہ کیا ہو.
غرض انفرادی طور پر یہ بات کہ تبلیغ کسے کس درجے کی ہوئی ہے؟ حق سبحانہ و تعالی ہی اسے جانتے ہیں اور مواخذہ بھی وہی اپنے علم کے مطابق کریں گے. تفصیلی علم تو اس خدا ہی کو ہے. ہمارے لیے اتنی اجمالی بات کافی ہے کہ جسے جس حد تک تبلیغ ہوئی ہے اسی حد تک اس سے مواخذہ ہو گا. اشخاص متعین کر کے یہ بتانا آدمی کے لیے نا ممکن ہے کہ کسے درجے کی تبلیغ ہوئی ہے؟ اور جب تبلیغ کے مدارج کا تفصیلی علم نہیں ہو سکتا تو مواخذے کی تفصیل بھی ہم کیسے کر سکتے ہیں؟ (ص 230-232 نسخہ مرتبہ حافظ تنویر احمد شریفی)
باقی کفر کی مختلف صورتیں ہیں۔ کفر (حق نہ ماننے) کی صورت صرف یہ نہیں کہ انسان جانتے بوجھتے ضد و عناد کی وجہ سے حق کا انکار کرے، یہ اس کی صرف انتہائی صورت ہے جسے علمائے کلام کی اصطلاح میں “کفر جحود” کہا جاتا ہے۔ کفر کی ایک صورت یہ ہے کہ انسان رسول کی بات کی طرف کان دھرنے کے لئے بھی تیار نہ ہو، یعنی اسکے گرد و پیش میں حق کا وجود تو ہو مگر غفلت کا عالم یہ ہو کہ بات سمجھنا تو درکنار انسان اس کی طرف اپنے قلب کو متوجہ ہی نہ کرے۔ اسے “کفر اعراض” کہتے ہیں اور کفر کی یہ سب سے عام صورت ہے۔ حق جب ارد گرد موجود ہو مگر پھر بھی اس کی طرف توجہ نہ کی جائے تو یہ بذات خود حق کی توہین کرنا ہے جو ایک ایسا جرم ہے جس پر گرفت ہوسکتی ہے۔
٭خلاصہ:
یہ کہ تمام غیر مسلموں یا کافروں کے متعلق یہ کہنا قرین صواب نہیں ہے کہ وہ کسی طور جنت میں نہیں جا سکتے – دنیوی حکم کے اعتبار سے اگرچہ وہ تمام لوگ غیر مسلم اور کافر ہی ہیں جنھوں نے رسالت محمد ﷺ کا اقرار نہیں کیا اور اصولی طور پر یہ بات بھی درست ہے کہ جنت میں داخلے کے لیے رسات محمدیہ پر ایمان لازم ہے تاہم اخروی معاملات میں ہر شخص سے اس کی حقیقی نوعیت کے مطابق برتاؤ کیا جائے گا کہ اللہ عزوجل عادل بھی ہیں اور رحیم بھی ۔ علما کے یہاں مختلف پہلوؤں سے یہ بحث ملتی ہے مثلا ایک وہ لوگ جن تک سرے سے دعوت ہی نہیں پہنچی تو اس کے متعلق قرآن مجید میں ہے کہ : وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا {الإسراء: 15} یعنی ہم عذاب دینے والے نہیں یہاں تک کہ رسول بھیج دیں ۔ اب جن تک رسولوں کی دعوت ہی نہیں پہنچی جیسا کہ آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ایمازون کے جنگلوں میں برہنہ رہتے ہیں اور انھیں اسلام سے متعلق کوئی خبر ہی نہیں تو انھیں دوزخ کا ایندھن کیوں کر بنایا جائے گا ؟ اسی طرح اہل فترت یعنی جو دو پیغمبروں کے درمیانی عرصے میں ہوئے کہ جب پچھلے پیغمبر کی دعوت قریب قریب معدوم ہو چکی تھی ؛ اسی طرح اصحاب اعراف کا بھی معاملہ ہے ۔ الغرض دنیوی حکم اور اخروی انجام میں فرق ناگزیر ہے ۔ واللہ اعلم
استفادہ تحریرزاہد مغل، طاہر اسلام عسکری ، سید متین احمد