عصر حاضر میں اس موضوع پر کام کرنے والے اہل علم (الا ما شاء اللہ) بالعموم دو گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں:
ایک گروہ کے خیال میں دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم قرآن و سنت کے نصوص پر مبنی نہیں تھی بلکہ یہ در اصل فقہاء کے دور کے بین الاقوامی نظام کی شرعی تکییف پر مبنی تھی۔ چونکہ اس وقت مسلمانوں کے آس پاس جتنی غیر مسلم اقوام تھیں وہ بالعموم مسلمانوں سے برسر جنگ تھیں اس لیے فقہاء نے ان سب کے علاقوں کو دار الحرب قرار دیا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ایک مستقل اور ابدی جنگ (Perpetual War) ہے جو اس وقت تک جاری رہے گی جب تک پوری دنیا کو دار الاسلام میں تبدیل نہ کیا جائے۔
دوسرا گروہ اس نظریے کا حامی ہے کہ مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان ایک ابدی اور مستقل جنگ جاری ہے جس کے بیچ میں کبھی کبھی امن کا عارضی وقفہ آسکتا ہے۔ اس گروہ کے خیال کے مطابق اس مستقل جنگ کی وجہ سے ہی فقہاء نے ان تمام علاقوں کو دار الحرب قرار دیا تھا جو مسلمانوں کے تسلط سے باہر تھے۔
دار کے تصور پر اس بنیادی اختلاف کے باوجود ان دونوں گروہوں کا اس مفروضے پر اتفاق ہے کہ اس تصور کا براہ راست تعلق ابدی جنگ کے تصور سے ہے۔ چنانچہ جو لوگ ابدی جنگ کے تصور کو مسترد کرتے ہیں وہ دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم کو بھی مسترد کرتے ہیں اور جو لوگ اس تقسیم کو مانتے ہیں وہ اس کے ایک لازمی نتیجے کے طور پر ابدی جنگ کے تصور کو بھی قبول کرتے ہیں۔
فقہاء کے نصوص کا بہ نظر غائر جائزہ لینے اور ان کا قانونی تجزیہ کرنے کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ اس تقسیم کا ابدی جنگ کے تصور سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ درحقیقت یہ تقسیم اس اصول پر مبنی تھا کہ مسلمانوں کی حکومت پر لوگوں کے حقوق کے تحفظ کی ذمہ داری کس حد تک ہے؟ بہ الفاظِ دیگر، یہ تقسیم ”علاقائی اختیار سماعت“ (Territorial Jurisdiction) کے اصول پر مبنی تھی۔
بین الاقوامی قانون کے اصولوں کے مطابق کسی بھی ریاست کی عدالتوں کا اختیار سماعت اس ریاست کے اختیار (State Jurisdiction) سے ماخوذ ہوتا ہے۔ ریاست کے اختیار کو تین عنوانات کے تحت دیکھا جاتا ہے:
۱۔ کسی بھی موضوع پر قانون سازی کا اختیار (Legislative Jurisdiction)؛
۲۔ اس موضوع پر قانون کی تعبیر کا اختیار (Judicial Jurisdiction)؛ اور
۳۔ اس قانونی تعبیر کے نفاذ کا اختیار (Enforcement Jurisdiction)۔
اختیار کی باقی قسموں سے قطع نظر کرتے ہوئے اگر عدالتوں کے اختیار پر توجہ مرکوز کی جائے تو اس کے لیے مختلف نظام ہائے قوانین نے مختلف اصول وضع کیے ہیں جن کو کسی نہ کسی حد تک معاصر بین الاقوامی قانون نے بھی تسلیم کیا ہوا ہے۔ ان اصولوں کے وضع کرنے کی ضرورت اس بات کا تعین کرنے کے لیے پیش آتی ہے کہ کس مقدمے کی سماعت عدالت کرسکتی ہے اور کس مقدمے کی نہیں کرسکتی؟ کیا مقدمے کا موضوع عدالت کے اختیار سماعت میں آتا ہے؟ کیا مقدمے کا کوئی فریق عدالت کے اختیار سماعت سے باہر ہے؟ کیا تنازعہ ایسی جگہ پیدا ہوا جہاں پیدا ہونے والے تنازعات پر عدالت کو اختیار سماعت حاصل ہے؟ وغیرہ۔ عدالت کا اختیار متعین کرنے کرنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ان سوالات اور اس نوعیت کے دیگر سوالات کا جواب دیا جائے۔ اسی مقصد کے لیے ہر نظام قانون نے چند اصول وضع کیے ہیں۔ ان میں چار اصول نہایت اہم ہیں:
۱۔ جغرافیائی اصول (Territorial Principle):
اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ کسی ریاست کی عدالتیں صرف ان تنازعات پر اختیار سماعت رکھتی ہیں جو اس ریاست کی جغرافیائی حدود کے اندر پیدا ہوں اور کسی ریاست کی جغرافیائی حدود سے باہر جنم لینے والے تنازعے پر اس ریاست کی عدالتیں اختیار سماعت نہیں رکھتیں۔ بعض اوقات مسئلے کا آغاز ایک ریاست میں ہوتا ہے لیکن اس کا اثر دوسری ریاست کے علاقے میں نمودار ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں اول الذکر ریاست کی عدالتیں بھی اختیار سماعت رکھتی ہیں اور اسے Subjective Territoriality Principle کہا جاتا ہے، اور ثانی الذکر ریاست کی عدالتیں بھی ”نظریۂ اثر“ (Effect Doctrine) کے تحت اختیار سماعت رکھتی ہیں جسے Objective Territoriality Principle کہا جاتا ہے۔
۲۔ قومیت کا اصول (Nationality Principle):
اس اصول کے تحت کسی ریاست کے شہری نے خواہ اس ریاست کے قانون کی خلاف ورزی اس ریاست سے باہر کسی علاقے میں کی ہو اس ریاست کی عدالتیں اس پر اختیار سماعت رکھتی ہیں۔ اسے Active Nationality Principle کہا جاتا ہے۔ اس اصول کا جو دوسرا پہلو ہے اسے چند ریاستوں کے ماسوا بالعموم ریاستوں نے قبول نہیں کیا۔ وہ پہلو یہ ہے کہ اگر کسی ریاست کے شہری کے کسی حق کے خلاف عدوان اس ریاست سے باہر کسی علاقے میں ہوا، تو کیا اس ریاست کی عدالتیں اس عدوان کرنے والے کے خلاف اختیار سماعت رکھتی ہیں؟ اس کو Passive Nationality Principle کہا جاتا ہے۔
۳۔ تحفظ کا اصول (Protective Principle):
کئی ریاستوں نے ہر اس معاملے میں اختیار سماعت کا دعوی کیا ہے جس سے اس ریاست کے اہم مفادات پر زد پڑنے کا اندیشہ ہو خواہ اس معاملے نے اس ریاست کے علاقے سے باہر جنم لیا ہو اور خواہ اس میں اس کا کوئی شہری ملوث نہ ہو۔ بہ الفاظ دیگر، ریاستیں اس اختیار کو اپنے اہم مفادات کے تحفظ کے حق کے تحت لاتی ہیں۔
۴۔ عالمگیر اختیار سماعت (Universal Jurisdiction):
اس اصول کے تحت بعض سنگین نوعیت کے جرائم پر دنیا کی تمام ریاستیں اختیار سماعت رکھتی ہیں خواہ وہ جرم کہیں بھی وقوع پذیر ہوا ہو۔ روایتی طور پر اس کی مثال میں بحری قزاقی (Piracy) کا ذکر کیا جاتا ہے۔ عصر حاضر میں بعض جنگی جرائم، بالخصوص انسانیت کے خلاف جرائم (Crimes against Humanity)، میں بھی ریاستوں کے لیے عالمگیر اختیار سماعت کے اصول کو تسلیم کیا گیا ہے۔
فقہائے اسلام نے بھی ان مسائل پر تفصیلی بحث کی ہے اور ان اصولوں کی وضاحت کی ہے جن کی بنیاد پر مسلمانوں کی عدالتوں کا اختیار سماعت متعین ہوتا ہے۔ اگر کوئی مسلمان دار الاسلام سے باہر ایک درہم کے بدلے میں دو دراہم لے تو کیا اسے ربا کی ممانعت کی خلاف ورزی پر دار الاسلام کی عدالتیں سزا دے سکیں گی؟ اگر دار الاسلام سے باہر کسی علاقے میں کسی مسلمان کا مال غصب کیا گیا اور پھر غاصب دار الاسلام میں آگیا تو کیا دار الاسلام کی عدالتیں اسے سزا دے سکیں گی؟ اگر دار الاسلام کے دو باشندے دار الاسلام سے باہر تجارت کی غرض سے گئے اور وہاں ایک نے دوسرے کو قتل کیا تو کیا قاتل کو سزا دی جاسکے گی؟ اگر ہاں تو کون سی؟ اور کس بنا پر؟ اگر دار الاسلام میں باہر سے آنے والے دو مستامنین کا آپس میں تنازعہ پیدا ہوا تو کیا دار الاسلام کی عدالتیں اس تنازعے کو حل کرنے کا اختیار رکھتی ہیں؟ اگر یہ تنازعہ ان مستامنین کے درمیان اس وقت پیدا ہوا ہو جب ابھی وہ دار الاسلام میں داخل نہ ہوئے ہوں تو پھر اس سوال کا جواب کیا ہوگا؟ اگر مستامن نے دار الاسلام میں کسی ایسے جرم کا ارتکاب کیا جس پر حد کی سزا دی جاتی ہے تو کیا اسے حد کی سزا دی جائے گی؟ اگر کسی مسلمان یا ذمی نے کسی مستامن کو قتل کیا تو قاتل کو قصاص کی سزا دی جاسکے گی؟ وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح کے سیکڑوں، بلکہ شاید ہزاروں، مسائل کا فقہاء نے قرآن و سنت کے نصوص اور اسلامی شریعت کے قواعد عامہ کی روشنی میں تجزیہ کیا ہے اور پھر ان کا حل پیش کیا ہے۔ یہی مسائل ہیں جو ”دار الاسلام اور دار الحرب“ کی تقسیم کا صحیح مفہوم واضح کرتے ہیں۔
کیا دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم منصوص نہیں ہے؟
بعض دوستوں نے اس تقسیم کے منصوص ہونے پر سوال اٹھایا ہے۔ یہ سوال بعض عرب سکالرز نے معذرت خواہی کے دور میں (یعنی بیسویں صدی کے نصف آخر میں) اٹھایا تھا اور پھر اسلام کو گربہ مسکین ثابت کرنے کی کوشش میں اس تقسیم کا ہی انکار کیا۔ اسی معذرت خواہانہ رویے کی کچھ باقیات ابھی موجود ہیں۔ بجائے اس کے کہ اس تقسیم کی بنیاد اور اس کا صحیح مفہوم متعین کیا جائے، اس کا سرے سے انکار خوف کی نفسیات کی علامت ہے اور بس۔
آخر فقہائے کرام کے متعلق یہ بدگمانی کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنی جانب سے کچھ گھڑ کر اسے شریعت کا حصہ بنا دیں گے؟ چند نصوص پر غور کریں اور پھر بتائیے کہ یہ تقسیم منصوص ہے یا نہیں؟
مومن کے قتل خطا کی صورت میں قرآن نے تین الگ احکام ایک ہی آیت میں دیے ہیں: اگر وہ آپ کی قوم کا ہے تو دیت اور کفارہ؛ اگر دشمن قوم کا ہے تو صرف کفارہ؛ اور اگر ایسی قوم کا ہے جس کے ساتھ امن کا معاہدہ ہوا ہو تو پھر دیت اور کفارہ۔ اس اختلافِ حکم کی وجہ کیا ہے؟ قرآن نے کہا کہ وہ مسلمان جو آپ کی طرف ہجرت کرکے نہیں آتے ان پر آپ کو ولایت حاصل نہیں ہے۔ اس حکم کے قانونی نتائج کیا ہیں؟
رسول اللہ ﷺ صحابۂ کرام کو جنگ کے لیے بھیجتے تھے تو ساتھ ہی فرماتے تھے کہ اگر وہ مسلمان ہوجائیں اور “دار المھاجرین” آنے پر آمادہ ہوں تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو دیگر مسلمانوں کے ہوں گے لیکن اسلام قبول کرنے کے باوجود اگر وہ وہیں رہیں تو پھر ان کے حقوق اور فرائض مختلف ہوں گے۔ کیوں؟
کئی مواقع پر رسول اللہ ﷺ نے مالِ غنیمت ایک خاص علاقے تک پہنچنے سے قبل تقسیم نہیں کیا، لیکن بعض مواقع پر مفتوحہ علاقے میں ہی تقسیم کیا۔ کیوں؟
صلحِ حدیبیہ کے بعد مسلمانوں پر لازم تھا کہ قریش کے خلاف کوئی جنگی اقدام نہ کریں۔ ابو بصیر رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی قریش پر حملے کرتے رہے لیکن نہ قریش نے اسے صلحِ حدیبیہ کی خلاف ورزی قرار دیا نہ ہی اس کی ذمہ داری رسول اللہ ﷺ اور مدینہ میں مقیم آپ کے ساتھیوں پر ڈالی۔ کیا وجہ تھی اس کی؟
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ ایسی ہی لاتعداد مثالیں نصوص میں اور بھی آپ کو مل سکتی ہیں جن پر غور و فکر کے بعد ہی دار الاسلام، دار الحرب اور دار الموادعۃ کی اصطلاحات وجود میں آئیں۔
استفادہ کتاب: جہاد، مزاحمت اور بغاوت، اسلامی شریعت اور بین الاقوامی قانون کی روشنی میں ، ڈاکٹر محمد مشتاق احمد
مسلم ممالک میں جہاد کے نام پر تخریب کاری کرنیوالوں کےموقف کاعلمی جائزہ | الحاد جدید کا علمی محاکمہ
March 31, 2018 at 10:17 am[…] 8. پاکستانی دستوراورحکمرانوں کی شرعی حیثیت 9. دار الاسلام اور دار الحرب کی تقسیم کس قانون اصول پر ہے؟ 10. اذنِ امام کی شرط اور جہادی […]
وقار علی
July 8, 2018 at 8:27 pmاس موضوع پر سود کے تیسرے ضمیمے میں سید مودودی کی بحث شاندار ہے جیسا کہ صاحب تحریر بالا جناب مشتاق صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے لیکن اس کو پڑھتے ہوئے ایک الجھن پیدا ہوگئی ہے ۔ اگر اس کا جواب عنایت ہو تو مہربانی ہوگی ۔
مولانا مودودی نے اسلامی قانون کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ اعتقادی ، دستوری اور بین الاقوامی ۔ اعتقادی قانون کے تحت لکھتے ہیں کہ اس قانونن کی اطاعت تمام مسلمانوں پر لازم ہے چاہے وہ دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوں اور اس معاملے میں کسی حال اور مقام کی قید نہیں ۔ یعنی اس سے یہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ اس قانون کے اعتبار سے مسلمان ایک آفاقی اور تصوراتی برادری یا قومیت کے افراد ہیں جبکہ ان کے مقابلے میں کفار بھی ایک آفاقی اور تصوراتی برادری ہے اور ان دونوں قسم کی برادریوں میں زبان ، علاقہ ، رنگ اور نسل کی وجہ سے کوئی تفریق واقع نہیں ہوتی ۔ آگے مولانا لکھتے ہیں کہ اس اختلاف کی بنا پر اصلا ہمارے اور ان کے درمیان جنگ قائم ہے الا یہ کہ صلح یا معاہدہ یا ذمہ کی کوئی حالت اس پر عارض نہ ہو ۔
سوال یہ ہے کہ اگر اعتقادی قانون کے تحت قومیت آفاقی اور تصوراتی ہے اور جنگ بھی جیسا کہ مولانا نے خود وضاحت کی ہے نظریاتی یا تصوراتی ہی ہے تو پھر اس پر صلح یا معاہدہ کس طرح عارض ہوسکتا ہے؟ کیونکہ صلح یا معاہدہ تو حقیقی تنازع یا جنگ ہی کی صورت میں کیا جاسکتا ہے ۔ نظریاتی اختلاف میں صلح کیسے؟ ا
سی طرح مولانا نے قرآن کی جن آیات کا حوالہ دیا ہے وہ اس تصویر میں بالکل فٹ بیٹھ جاتے ہیں کیونکہ ان میں عداوت اور بعض کا ذکر ہے جو کہ دلی کیفیات ہیں اور لیکن جس حدیث (امرت ان اقاتل الناس) کا حوالہ دیا ہے وہ فٹ نہیں ہوتا کیونکہ اس میں مخالفین کے خلاف قتال کی بات کی گئی ہے جو کہ ایک عملی اقدام ہے نہ کوئی نظریاتی یا دلی کیفیت ۔
آپ کی وضاحت اور جواب کے لئے مشکور رہوں گا ۔
ایڈمن
July 9, 2018 at 8:39 amمولانا کی یہ کتاب کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی ، ابھی دوبارہ دیکھنے کے لیے ٹائم نکالنا مشکل ہے، آپ یہ سوال ڈاکٹر مشتاق صاحب کو فیس بک پر میسج کردیجیے۔ امید ہے کچھ تبصرہ فرما دیں گے ۔