متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا زاویہٴ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ: مسلم حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی پوری بے حرمتی کی ہے، اور مذہبی آزادی سلب کرلی گئی تھی؛ لیکن انسان لاکھ اپنی آنکھ بند کرکے روشن سورج کو جھٹلائے پھر بھی سورج روشن ہی رہے گا اس کی چمک دمک پر اس نادان کی آنکھ مچولی سے ہرگز تاریکی طاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ ذیل کے سطور میں انھی واقعات وحقائق پر روشنی ڈالی جائے گی اور اس نقطے کو نکھارا جائے گا کہ ہمارے جتنے بھی دعوے ہیں بغیر دلیل کے نہیں؛ بلکہ مکمل ثبوت کے ساتھ ہیں۔
ورود اسلام سے قبل ہندوستان کا مذہب
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسلام سے پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے، اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات پایہٴ ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین لائن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند ۱/۱۱۷-۱۱۸، از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے تھے۔ مورخ اسلام اکبرشاہ خاں رحمہ اللہ کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی سیاحت میں پندرہ سال ۶۳۰-۶۴۵/) تک گزارے ہیں، اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی، اور ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا ذکر بھی کرتا ہے، اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حالانکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۴)
اسلام سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت
ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخلاق کی بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو ۹/سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریباً ۱۲/سو برس ہوچکے تھے، (آئینہ حقیقت نما،ص:۸۵-۸۶) چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ : ”یہاں (سندھ) میں عام طور پر بت پرستی رائج تھی، مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا، اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“
پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ: جادو کا عام طور پر رواج تھا، غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے والوں کی بڑی گرم بازاری تھی، محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا، چناں چہ راجا داہر نے اپنی حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی، راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا، ذات باری تعالیٰ کا تصور معدوم ہوکر اعلیٰ و ادنیٰ پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما،ص:۱۷۴-۱۷۵)
اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ اللہ ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ: ”اس وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ آلہٴ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا (اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے، لاحول ولا قوة الا باللہ)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم ”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر،ص:۶ پر ہے: ”اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے، اگر اس کا دعویٰ کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو کھولتا ہوا تیل اس کو پلایا جائے، کتے، بلی، مینڈک، چھپکلی، کوے، الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان کے لالے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ادنیٰ جھلک۔
عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر
بعثتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل: زط (جاٹ)، مید، سیابچہ یا سیابجہ، احامرہ، اساورہ، بیاسرہ اور تکرّی (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین، بصرہ، مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ ۱۰ ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا: ”یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری ۳/۱۵۶، بحوالہ برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)
مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں: ”کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بلاد و قصبات میںآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے کئی علاقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً،ص:۱۸) نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔ بزمانہٴ خلافت شیخین (حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما ) حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ (ایضاً،ص:۲۵) خلاصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے رشتہ دار تھانہ، بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔
بالآخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا، اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے، یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ: ناریل، لونگ، صندل، روئی کے مخملی کپڑے، سندھی مرغی، تلواریں، چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً،ص:۲۹) اس واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے: جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ مکرمہ تھا، یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے، اثنائے سفر میں یہ لوگ مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ الادب العربی،ص:۲۷)
ہند میں طلوع اسلام
یوں تو مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسلام کی روشنی راجہ داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی کی وجہ سے مسلم سلاطین اس طرف اس طرف متوجہ ہوئے لیکن یہ واقعہ ۹۳ ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ۱۵ھ ہی میں مالا بار، اور سراندیپ کے علاقوں میں اسلام کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خلافت امیہ تک یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں لالاکر اس علاقے کے گوشہ گوشہ کو روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے، اور اسلام کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛
یہی وجہ ہے کہ مالابار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ شقِ قمر کا چشم دید مشاہدہ کیا.اور.تحقیق کے بعد اسلام قبول کیا
(آئینہ حقیقت نما،ص:۷۱-۷۲، از مورخ اسلام اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)
سرزمین ہند پر مسلم حکمراں کے قدم اور ان کے اثرات ونتائج
ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کی تہذیب وتمدن کے اثرات کے پیش نظر علامہ شبلی رحمہ اللہ کا نظریہ انھی کے الفاظ میں تحریر کیا جائے گا تاکہ آئندہ سطور کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ فرماتے ہیں:
”کسی غیر قوم کا کسی غیرملک پر قبضہ کرنا کوئی جرم نہیں ورنہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح سب سے بڑے مجرم ہوں گے لیکن یہ دیکھنا چاہیے کہ فاتح قوم نے ملک کی تہذیب و تمدن پر کیا اثر پیدا کیا، ”چنگیز خاں“ فتوحات کے لحاظ سے دنیا کا فاتح اعظم ہے؛ لیکن اس کی داستان کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے، مرہٹے ایک زمانے میں تمام ہندوستان پر چھاگئے؛ لیکن اس طرح کہ آندھی کی طرح اٹھے، لوٹا مارا، چوتھ (آمدنی کا چوتھائی) وصول کیا اور نگل گئے، بخلاف اس کے متمدن قوم جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو وہاں کی تہذیب و تمدن دفعتہ بدل جاتی ہے، سفر کے وسائل، رہنے سہنے کا طور، کھانے پینے کے طریقے، وضع و لباس کا اندازہ، مکانوں کی سجاوٹ، گھروں کی صفائی، تجارت کے سامان، صنعت و حرفت کی حالت، ہر چیز پر ایک نیا عالم نظر آتا ہے۔ اور گو مفتوح قوم ضد سے احسان نہ مانے لیکن درودیوار سے شکرگذاری کی صدائیں آتی ہیں۔
“ (اسلامی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص:۱-۲)