سلاطین ہند اور انہدام منادر – اعتراض کی حقیقت

11059373_1696086900627935_2322880906214801707_n

قرآن نے کسی قوم کے مذہبی مقامات پر بے وجہ حملہ کرنے کی سختی سے ممانعت کی ہے اور اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اہل ایمان کواس کام سے روکاہے۔صحابہ کرام اور بعد کے خلفاء نے بھی انہی اصولوں پر عمل کیا ۔ محض تعصب کی بناء پر غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کومسمار کرنے کا ثبوت نہیں ملتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کچھ عبادت گاہیں خلفائے اسلام کے حکم سے منہدم کی گئیں،مگر ان کے پیچھے کسی نہ کسی اہم عوامل کار فرماتھے۔چنانچہ ہندوستان میں بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی قباحت نہیں کہ سلاطین ہند گوکہ پوری طرح سیاسی معاملات میں شریعت پر عمل نہیں کرتے تھے ،تاہم جب دو قوموں کے درمیان تصادم وامتیازکا مسئلہ آتاتواس سلسلے میں علماء وفقہاسے رائے طلب ضرور کرتے تھے،وہاں سے جوجوابات ملتے ان پر بادشاہ عمل کرتا یانہ بھی کرتا ۔اگر سیاسی معاملات میں علما ء کی رائے سے حکومت کے کام میں خلل واقع ہوتا تو وہ اسے پس پشت ڈال دیتے تھے، اس لیے یہ کہاجا سکتا ہے کہ اس باب میں سلاطین ہند نے شرعی اصول پر عمل کیا،کیوں کہ ایسا نہ کرتے تو ملک میں خلفشاری ہوتی اور خود بادشاہ کی دیانت داری نہ ہوتی،اور وہ اتنے طویل عرصہ تک ہندوستان میں اس شاندار طریقے سے حکومت کرنے میں ہرگزکامیاب نہ ہوتے۔
فقہانے کسی مقام پر مسجد بنانے کے جو حدود وقیود متعین کیے ہیں اس کی تفصیل یہاں بیان کردینا دلچسپی سے خالی نہیں ۔ فقہائے اسلام نے صراحت کی ہے کہ:
”اگر کوئی شخص مسجد بنائے جس میں دوسرے کا حق ہو اور اس کی رضا مندی حاصل نہیں کی گئی ہوتو اس حق والے کو اختیار ہے کہ ایسی مسجد کو باطل قرار دے اور اپنا حق لے لے۔اس کو اس طرح سمجھا جاسکتاہے کہ ایک زمین پر کسی کو جواریا حق شفعہ حاصل ہے تو اس پر مسجد نہیں بنائی جاسکتی ۔اسی طرح ایک شخص بیمار ہے یا اس کی خواہش ہے کہ وہ اپنا گھر بار مسجد میں تبدیل کردے یااس نے مرتے وقت اس کی وصیت بھی کر دی ،مگر اس کے جائز ورثاء وصیت کو تسلیم نہ کریں تو اس کی وصیت جائز نہیں سمجھی جائے گی ۔ اسی طرح بیع فاسد سے خریدی ہوئی زمین پر مسجد بنانے کی اجازت نہیں۔ناجائزطریقے سے حاصل کی ہوئی زمین پر بھی مسجد بنانادرست نہیں ہے۔ ناجائزحصول کی جو بھی شکل ہو،مثلاًکسی کا گھر زبردستی کچھ لوگ حاصل کرکے وہاں مسجد یاجامع مسجدبنالیں تو ایسی مسجد میں نماز پڑھنا جائز نہ ہوگا۔اسی طرح کوئی راستہ ایسا ہو کہ ایک مسجد کے بننے سے چلنے والوں کو نقصان یا تکلیف ہو تو بلاشبہ ایسی مسجد بنانا درست نہیں۔مسجد کی تعمیر کے لیے زمین کو حلال طریقے سے حاصل کیاجانااس کی صحت کی شرط ہے اور اس حلال طریقہ کی وضاحت اس طرح کی جاتی ہے کہ اس زمین پر کسی بھی شخص کاکوئی حق نہ ہو ۔“( علامہ یوسف القرضاوی،اسلام مسلمان اور غیر مسلم،ص:۴۸-۴۹،یونیورسل بک فاوٴنڈیشن،نئی دہلی،۱۹۹۲ء)
اسی طرح امام ابو یوسف لکھتے ہیں
جن علاقوں کو مسلمانوں نے آباد کیا اور وہاں ہندو پہلے سے موجودنہ ہوں اور بعد میں آکر بسے ہوں توان علاقوں میں غیر مسلم سلطان وقت کی اجازت کے بغیر اپنے لیے کوئی عبادت خانہ تعمیر کرتاہے تو بادشاہ کو اختیار ہے کہ وہ اسے چاہے تو رہنے دے یامنہدم کردے۔( امام ابو یوسف،کتاب الخراج،ص:۸۸،مطبع سلفیہ قاہرہ،۱۳۵۲ھ)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں سوال کیاگیا تو انھوں نے کہا کہ جو شہر مسلمانوں کے خاص آباد کردہ ہیں وہاں غیرمذہب والوں کو یہ حق حاصل نہیں کہ گرجا اور بت خانہ بنائیں، یا سنکھ بجائیں۔ باقی جو قدیم شہر ہیں وہاں ذمیوں سے جومعاہدہ ہے مسلمانوں کو اس کا پورا کرنا ضروری ہوگا.
باوجود اس حکم کے مسلمانوں کے عہد میں بالخصوص ان شہروں میں جن کو مسلمانوں نے بسایا اور آباد کیا کثرت سے گرجا تعمیر ہوئے۔ اس کی واضح مثال عراق ہے جس کو مسلمانوں نے بسایا تھا۔ قاہرہ میں جو گرجے ہیں وہ مسلمانوں ہی کے عہد میں بنے۔ اس کے علاوہ بہت سے پرانے معبد کی مرمت اور جدیدکاری ہوئی۔ یہاں پھر اس بات کو دہرایا جاتاہے کہ جزیہ کی وصولی کے ساتھ ہی انہیں ہر قسم کی آزادی حاصل ہوجاتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں کافی شہادتیں ملتی ہیں کہ جب دونوں قوموں میں صلح اورمعاہدہ، یا مسلمانوں نے کسی ملک پر فتح حاصل کی تو معاہدہ اور جزیہ کے تعین کے وقت یہ باتیں منظور کیں کہ:
”مسلمانوں اور ذمیوں سے جزیہ کی بنا پر جو صلح ہوئی ، اس شرط پر ہوئی تھی کہ ان کی خانقاہیں اور گرجے شہر کے اندر ہوں یا باہر برباد نہ کیے جائیں گے اور یہ کہ ان کا کوئی دشمن ان پر چڑھ آئے تو ان کی طرف سے مقابلہ کیا جائے گا اور یہ کہ وہ تیوہاروں میں صلیب نکالنے کے مجاز ہیں، چنانچہ تمام شام اورحیرہ (باستثنا بعض مواضع کے) ان ہی شرائط پر فتح ہوا اور یہی وجہ ہے کہ خانقاہیں اور گرجے اسی طرح چھوڑ دئیے گئے اور برباد نہیں کیے گئے۔“
حضرت خالد نے ایک صلح اس شرط پر کیا کہ ان کے گرجے برباد نہ کیے جائیں، وہ نماز کے وقتوں کے سوا، رات دن میں جس وقت چاہیں ناقوس بجائیں اور تمام تیوہاروں میں صلیب نکالیں۔
بدائع صنائع میں ذمیوں کے شخصی و مذہبی معاملات میں جو توسیع ملتی ہے اس سے بھی اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ اسلام نے ذمیوں کو کس فراوانی سے حقوق عطا کیے ہیں۔”جو بستیاں اور مقامات امصار مسلمین میں سے نہیں ہیں، ان میں ذمیوں کو شراب و خنزیر بیچنے اور صلیب نکالنے اور ناقوس بجانے سے نہیں روکا جائے گا خواہ وہاں مسلمان کتنی ہی کثیر تعداد میں آباد ہوں۔ البتہ یہ افعال امصار مسلمین میں مکروہ ہیں جہاں جمعہ وعیدین اور حدود قائم کی جاتی ہوں․․․ رہا وہ فسق جس کی حرمت کے وہ بھی قائل ہیں، مثلاً زنا اور دوسرے تمام فواحش جو ان کے دین میں بھی حرام ہیں تواس کے اظہار سے ان کو ہر حال میں روکا جائے گا خواہ امصار مسلمین میں ہوں یا خود ان کے اپنے امصار ہوں۔“
مسلم ممالک میں مقیم غیرمسلموں کے متعلق جو چند شرعی ممانعت کے احکام ملتے ہیں وہ کسی عصبیت یا اور کسی اور وجہ سے نہیں ہیں بلکہ اس ممانعت کا منشا یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کے جذبات اور ان کی دینی حمیت کا تھوڑا سا خیال رکھیں، ان کے مذہب کی حرمت کو پامال نہ کریں، وہ کسی مسلم آبادی میں اس طرح کا مظاہر نہ کریں جس سے مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوں اور فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھے۔

ہندووٴں کے مذہبی مقامات سے متعلق سلاطین ہندکے فرامین:
سلاطین ہند نے غیر مسلموں کے ساتھ جو رواداری برتی اور ان کے مذہبی مقامات کے سلسلے میں جو مثبت رویہ اپنایا وہ کسی بھی طرح مشکوک نہیں ہے ۔اس کے علاوہ مسلم فرماں رواؤں نے اپنی سلطنت میں غیر مذہب والوں کے عبادت خانوں کے لیے بڑی تعداد میں اراضی وقف کردیے، تاکہ اس کی آمدنی سے مذہبی مقامات کانظم ونسق اچھی طرح انجام پاسکے۔ اورنگ زیب نے تو کچھ مندروں کے لیے گھی اور تیل بھی مہیا کرایا، تاکہ شام ہوتے ہی ان جگہوں کو روشن کیاجائے۔( سعید احمد اکبر آبادی،نفسة المصدوراور ہندوستان کی شرعی حیثیت،ص:۵۷،مسلم یونیورسٹی،علی گڑھ،۱۹۶۸)
ایسے فرامین کی تعدادبہت ہے جو ملک کے مختلف مقامات کے مندروں کے پروہت اور ان کے اہل خاندان کے پاس آج بھی پائے جاتے ہیں۔ان میں سے بہت سے فرامین کو بسمبر ناتھ پانڈے نے مختلف جگہوں سے حاصل کرکے اور بڑی چھان بین کے بعداسے اپنی کتاب میں شائع کردیاہے۔( اسلام اور ہندوستانی ثقافت،ص:۲۳-۴۵)
اس سلسلے میں علامہ شبلی نعمانی کی خدمات بھی ناقابل فراموش ہیں۔اسی طرح کتاب ”تاریخ ہند عہدوسطی میں“ بھی ان فرامین کوعہد بعہد بالترتیب جمع کیاگیاہے جو مندروں سے متعلق ہیں۔( تاریخ ہند عہد وسطی میں(مجموعہ مقالات)ص:۲۰۷-۲۷۹،خدابخش اورینٹل پبلک لائبری،پٹنہ،۱۹۹۹ء)
اس کے علاوہ علی گڑھ مسلم یونیور سٹی کی لائبریری کے شعبہ مخطوطات اور خدا بخش اورینٹل لائبریری پٹنہ میں کئی فراہین موجود ہیں۔ان فرامین کے مطالعہ سے متعصب موٴرخوں کاتعصب واضح ہوجاتاہے اور ان برادران وطن کے لیے لمحہ فکریہ ہے جو مسلمان فرمارواؤں کو بدنام کرتے اور انہیں ظالم وجابر کہنے میں ذرہ برابربھی عار محسوس نہیں کرتے۔

انہدام منادر کے اعتراض کی حقیقت:

مسلمان حکمرانوں پر مندر شکنی کا الزام لگایا جاتا ہے اور اس سے متعلق واقعات کو بیان کر نے میں جس مبالغہ آرائی سے کام لیا جاتا ہے اور ایک طویل عر صہ سے خاص اسی مسئلہ کو اچھالنے کی جو مہم چھیڑ ی گئی ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہ گئی ہے۔یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ سلاطین دہلی کے عہد میں غیرمسلموں کو دباکر رکھا گیا۔ انہیں عہدے اور مناصب سے محروم کردیاگیا اور انہیں طرح طرح سے ستایاگیا اور مندروں کو مسمار کیاگیا اور ہندوؤں کے مذہبی میلوں کو بند کردیاگیا۔

جنگ کے دوران کسی مندر کی بربادی دشمن کا عبادت گاؤں کا سہارا لینا ہوتی تھی اس لیے وہ بھی ہدف بن جاتیں لیکن جب صلح کی صورت پیدا ہوجاتی تو ان عبادت گاہوں کی تخریب سے ہاتھ روک لیا جاتا۔جنگ کے علاو ہ کہیں کسی مندر کو منہدم کیا گیا تو اسکی کئی معقول وجوہات ہوتی تھیں۔لیکن بعد کے دور میں برطانوی موٴرخین اور خود ہندوستانی موٴرخین واہل قلم کے ایک طبقہ نے اس زمانہ کے مزاج یادرباری موٴرخین کے انداز تحریر کو دانستہ یا نادانستہ اس باب میں مسلم حکومتوں کے طرز عمل کی جو ترجمانی کی ہے ،یا اس سے متعلق واقعات کو جس طرح بڑھا چڑھاکر پیش کیا ہے وہ نہ صرف علمی بددیانتی اور تاریخ کو مسخ کرنے کی بد ترین مثالیں ہیں ۔ایسے موٴرخین کے بیانات کو پڑھ کر کوئی نتیجہ اخذ کرے توغلط نہ ہوگا کہ یہی اس زمانہ کی حکومت کا یک نکاتی پروگرام تھا۔جب کہ صحیح بات یہ ہے کہ اگر ان منادر کو منہدم نہ کیا جاتا تو ملک میں مزید بے حیائی اور بدامنی وخلفشاری پھیلنے کا اندیشہ تھا۔کیوں کہ اس عہد میں ایسے کئی مندر تھے جو بے حیائی کا اڈہ بن گئے تھے اور مفسد لوگ یہاں جمع ہوکر حکومت کے خلاف سازشیں کرتے تھے۔جیساکہ ڈاکٹر ایشورٹوپاکے اس اظہار میں صداقت نظر آتی ہے:
”اسلامی اصولوں کے نقطہ نظر سے غیر مسلم ذمی کو یہ اختیار حاصل نہ تھا کہ وہ نئے مندر نو آباد مسلمانی علاقوں میں تعمیرکرتے۔ فیروزشاہ نے تغلق پور،صالح پوراور کوہانہ نئے شہر آباد کیے تھے ،یہاں ہندووٴں نے مندر بنائے ۔ یہ مندر فیروز شاہ کے حکم سے توڑے گئے۔ان مندر وں کے متعلق فتوحات فیروزشاہی میں تفصیلی حالات ملتے ہیں ،اس میں لکھا ہے کہ ہندواور مسلمان تیوہاروں کے موقعہ پر جو ان مندروں کے سلسلے میں ہواکرتے تھے ، جاتے تھے اور عورتوں کابھی کثرت سے ان جگہوں میں آناجانا ہوتا تھا۔مرداور عورت کے ملنے جلنے کی وجہ سے پبلک میں عام رسوائی کے چرچے ہواکرتے تھے اور بد اخلاقی پھیلی جاتی تھی۔یہ مندر دراصل عقیدت اور مذہبیت کے گھر نہ بن سکے بلکہ شیطان کا وہاں راج تھا۔فیروزشاہ نے ایک طرف اسلامی قانون کے تحت اور دوسرے پبلک کی بھلائی کے پیش نظر ان مندروں کوتوڑا۔فیروزشاہ نے عام طور سے بحیثیت سرکاری پالیسی کے مندرتوڑے۔“( ایشور ٹوپا،ہندی مسلمان حکمرانوں کے سیاسی اصول،ص:۸۹،انجمن ترقی اردو ہند ،علی گڑھ،۱۹۶۲ء)
اس طرح کے واقعات دوسرے عہد میں بھی ہوئے جس کے خلاف بادشاہ کوسخت کاروائی کرنی پڑی۔ پروفیسر خلیق احمد نظامی کا یہ کہنا بھی درست ہے کہ : سلطان بھی مذہبی معاملات میں سخت واقع ہوا ہے،مگر اس نے تعصب سے کام نہیں لیا۔اگر اس نے کسی قدر غیرمسلموں کے ساتھ سخت رویہ اپنایا تو اس کے عوامل پر بھی غور کرناچاہیے۔اس عہد میں ہندووٴں کی بعض ایسی تبلیغی جماعتیں سرگرم ہو گئی تھیں جن کا مقصد مسلمانوں کو مرتد بنانا تھا۔( خلیق احمد نظامی،سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،ص:۴۴۹ندوة المصنّفین،دہلی،۱۹۵۸ء)
دوسری طرف یہی بادشاہ یہ بھی چاہتا تھاکہ دونوں قومیں ایک دوسرے کے علوم کو سیکھیں تاکہ اس ایک دوسرے کو قریب سے سمجھ سکیں۔( ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات،ص:۱۳) اس نے اگر تعصب سے کام لیا ہوتا تو کرو کیشتر کے کنڈ کو تباہ کردیتا ،مگر مولانا عبداللہ اجودھنی نے انہیں اس کام سے روکا تو وہ آگے کوئی اقدام نہ کرسکا۔( سلاطین دہلی کے مذہبی رجحانات،ص:۴۵۲-۴۵۳)
حضرت مجددالف ثانی نے جہاں گیرسے یہ وعدہ وعید کرایا تھا کہ وہ ہندووٴں کے زور کو توڑے اور اس کی تذلیل و تحقیر کرے، جس کی وجہ سے بادشاہ نے کچھ سخت اقدام کیا ،اس سے مجدد کی مراد ہرگز یہ نہ تھی کہ عام حالات میں ایسا کیاجائے، بلکہ کفار کے زورکو توڑنے کے لیے ایسا کرنے کو کہاتھا،کیوں کہ کفار دن بدن نڈر ہورہے تھے۔( شیخ محمد اکرام،رود کوثر،ص:۳۲۱-۳۲۴،ادبی دنیا مٹیا محل،دہلی،۱۹۹۸ء)
بعض وجوہ کے بناپر جہاں گیر نے نئے مندر کی تعمیرپر پابندی لگادی تھی ،اس لیے شاہ جہاں نے اپنے زمانہ میں نوتعمیر شدہ مندروں کومسمارکروادیاتھا ۔اورنگ زیب نے بھی کئی مندرگروائے ۔مسلمان حکمرانوں نے ہنگامی حالات میں مندروں کومسمار کیاتوانہوں نے اپنی مسجدوں کوبھی نہیں چھوڑااور درگاہوں کو بھی تہس نہس کیا۔اگر وہ تعصب کو جگہ دیتے تو ملک میں ایک بھی مندر بچانہ رہتا۔
محمد بن قاسم نے جس فراخ دلی سے مندروں کی تعمیراور اسکی مرمت کی اجازت دی، اورعطیات بھی عطاکیے،وہ اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان حکمرانوں نے اسلام کی اس اصول پر عمل کیا کہ کسی کے مذہبی مقامات کو محض نفرت اور عناد کی وجہ سے ہرگز ہرگز مسمار نہ کیاجائے۔البتہ جو مقامات سازش اور گمراہی کے اڈے ہوں اسے برباد کردیا جائے۔
جب دونوں قوموں کے ذریعہ انہدام معابدکے واقعات کا موازنہ کرتے ہیں تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ غیر مسلموں نے ہی جو ذمی کی حیثیت سے مسلمانوں کی عمل داری میں رہتے ہیں،بیشتر مساجد کو مسمار کیا ہے ۔چنانچہ ایک انگریز موٴرخ کا تبصرہ بجا معلوم ہوتا ہے :
”عرب فاتح جو رویہ ماتحت قوموں کے ساتھ برتتے تھے ہندوستان میں آکر بالکل پلٹ گیا ،ہندووٴں کے مندروں کو جیوں کاتیوں چھوڑ دیا گیا اور بت پرستی پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ہندوستان کی لڑائی دھرم یدھ یاجہاد نہیں رہ گئی کیوں کہ مذہب بدلنے کاوہاں سوال ہی نہیں اٹھایا گیا ۔سندھ میں اللہ کی عبادت کے ساتھ ساتھ بتوں کی بھی پوجا کی جاتی تھی اور اس طرح باوجود اسلامی حکومت کے بھارت ایک بت پرست ملک بنارہ گیا۔“ (ہندوستان میں قومی یکجہتی کی روایات،ص:۵)

Leave Your Comment

Your email address will not be published.*

Forgot Password