مشاجرات صحابہ اسلامی تاریخ کا ایک حصہ ھیں۔ ان واقعات کی نوعیت اور اس میں ملوث فریقین کے بارے میں اھل سنت کا عمومی موقف “حد الامکان خاموشی اختیار” کرنے کا رھا ھے، یعنی کسی بھی فریق کو برا بھلا کھنے کے بجائے اس مسئلے پر گفتگو سے احتراز کیا جائے۔ یھاں اختصار کے ساتھ اس موقف کی معقولیت پر چند گزارشات پیش کی جاتی ھیں۔
1. پھلی بات یہ کہ تاریخ محض ماضی کے واقعات کا مجموعہ نھیں ھوا کرتی بلکہ ایک مخصوص نکتہ نگاہ سے واقعات کو ترتیب و معنی دینے کا نام ھے۔ چنانچہ نکتہ نگاہ بدلنے سے نہ صرف یہ کہ حقائق کی ماھیت و معنویت بدل جایا کرتی ھے بلکہ بذات خود حقائق ھی تبدیل ھوجاتے ھیں۔ لھذا “ماضی میں کیا ھوا” نیز “جو ھوا انکا معنی کیا تھا”، آج اس کے بارے میں جو بھی خبر ھم تک پھنچے گی وہ لازما چند افراد کا نکتہ نظر ھوگا۔ لھذا کچھ لازم نھیں کہ حقائق جوں کے توں ھم تک پھنچے ھوں۔
2. اس ضمن میں دوسری بات یہ کہ گزرے ھوئے وقتوں کے بارے میں موصول ھونے والی خبر سے آج ھم جو بھی رائے قائم کرتے ھیں وہ واقعات کی “مابعد تجزیہ کاری” (post-analysis) کھلاتی ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ یعنی واقعات کے نتائج دیکھ لینے کے بعد انھیں مخصوص انداز سے ترتیب دینا۔ چنانچہ مابعد تجزیہ کار کو جھاں یہ موقع (ایڈوانٹیج) حاصل ھوتا ھے کہ وہ تمام تر میسر معلومات کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کرے، ساتھ ھی اسے یہ ڈس ایڈوانٹیج بھی ھوتا ھے کہ نتائج کو مد نظر رکھ کر ان تاریخی واقعات میں شامل لوگوں کی بابت کوئی ایسی رائے قائم کرلے جو خود ان اشخاص کے پیش نظر نہ ھو۔ پھر یہ بات بھی نھایت اھم ھے کہ ایک ایسا معاشرتی نظم جسکا ایک انسان کبھی حصہ نہ رھا ھو وھاں تعلقات پر اثر انداز ھونے والے تمام تر روابط و قوت کے تمام مراکز پر نظر رکھ سکنا اس کے لئے کبھی ممکن نھیں ھوسکتا۔ ایسے معاشروں کے بارے میں چند سادہ حقائق کو مد نظر رکھ کر کوئی رائے تعمیر کرنا غلط فھمیوں کو جنم دیا کرتا ھے (مثلا آج سے پانچ سو سال بعد اگر دنیا میں کوئی نئی معاشرتی و سیاسی ترتیب قائم ھوجائے تو عین ممکن ھے کہ آئندہ آنے والا کوئی تاریخ دان یہ کہہ سکتا ھے کہ کیسے ممکن ھے کہ 2013 میں جب دنیا میں عالمی انصاف کی عدالتیں قائم تھیں پاکستان کا ایک باشندہ (الطاف حسین) جسے تمام پاکستانی غنڈہ تصور کرتے تھے وہ سب لوگ ملکر اسے انگلستان سے اپنے ملک لاکر سزا نہ دلوا سکے ھوں؟)۔
چنانچہ ان پیچیدگیوں کو مد نظر رکھتے ھوئے اھل سنت نے مشاجرات صحابہ کے ضمن میں زبان کھولنے میں احتیاط برتنے کو ترجیح دی ھے کہ:
– ممکن ھے واقعات ھم تک پوری طرح منتقل نہ ھوئے ھوں، یعنی کوئی اھم بات منتقل ھونے سے رہ گئی ھو یا
– ممکن ھے مختلف گروھوں نے اپنے مطلب کے لئے ان واقعات میں رنگ آمیزی کردی ھو، یا
– ممکن ھے جن نتائج کو “دیکھ لینے کے بعد” ھم ایک نتیجہ اخذ کررھے ھیں عین ممکن ھے کہ ان لوگوں کے حیطہ خیال میں بھی نہ ھو کہ یہ سب ھوجائے گا، یا
– ممکن ھے کہ اپنے مخصوص حالات کی بنا پر انکی نظر چند ایسی باتوں کی طرف ھو جنھیں بعد میں ھمارے لئے سمجھنا ممکن نہ رھا ھو وغیرھم
پس یہ تو ھمارے سامنے کی بات ھے کہ جو واقعات ھماری زندگیوں میں رونما ھورھے ھیں انکے بارے میں لوگ طرح طرح کے اختلافات کرتے ھیں۔ مثلا تحریک پاکستان سیکولر نظام کے لئے تھی یا اسلام کے لئے؟ حالانکہ وہ لوگ بھی ابھی زندہ ھیں جو اس تحریک میں شامل تھے۔ اسی طرح بنگلہ دیش کیونکر بنا؟ لال مسجد کیا تھی؟ تحریک طالبان کی حقیقت کیا ھے؟ عمران و قادری دھرنا کیا ھے؟ الغرض برقی میڈیا کے ھوتے ھوئے بھی ایک ھی واقعے کے بارے میں متضاد خبریں آن آئیر ھورھی ھوتی ھیں۔ ھمارا عام مشاھدہ ھے کہ خاندان میں دو بھائی یا کزن یا دو گھرے دوست بعض اوقات غلط فھمیوں کی بنا پر آپس میں لڑ پڑتے ھیں مگر خبر اڑانے والے رنگ آمیزی سے کام لیکر بات کا بتنگڑ بنا دیتے ھیں۔
تو جب تاریخ کا یہ حال ھو (خصوصا کہ جب روایت کرنے والوں کے احوال بھی معلوم نہ ھوں اور راویوں کی جانبداری بھی واضح ہو ) تو ان حالات میں ماضی کے لوگوں کے بارے میں قطعیت کے ساتھ کوئی حکم لگانا ممکن نھیں ھوتا۔ اب ایک طرف وہ شخصیات ھیں جو دین میں اھم تر مدار ھیں، جن کے حق میں نصوص کے اندر تعریف وارد ھوئی ھے؛ ایسے لوگوں کے درمیان جو باھمی رنجشیں ھوئیں انکی بنا پر ھم انکے بارے میں برے کلمات ادا نھیں کریں گے، بوجوہ ان امکانات کے جنکا اوپر ذکر ھوا۔
خیر القرون میں مشاجرات صحابہ اور بعض دیگر متعلقات کے سلسلے میں ایک مناسب وضاحت :
کیا جو قاضی عدل وانصاف کے تقاضوں کو سختی سے ملحوظ رکھتاہو تو اسکا یہ طرز عمل اور رویہ مظلوم کو انصاف مھیا کرنے اور اسکی داد رسی کا یقینی اور فوری ضامن بھی ہے ,تواس سوال کا جواب نفی میں ہے کیونکہ ایسا قاضی شھادتوں کی سرسری تکمیل نہیں بلکہ شرعی تکمیل کا اور معمولی سے معمولی شک اور شبہے کا بھی ملزم کو فائیدہ پہنچانے کا پابند ہوگا –اس سے عین ممکن یے بلکہ خارجی حقائق بھی اس امکان کے وقوع پذیر ہونیکی تائید کرتے ہیں کہ مجرم اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچے –کتنے ہی مجرم ایسے بھی ہوتے ہیں جو اسلئے بری ہوجاتے ہیں کہ اسے مجرم ثابت کرنے کے شرعی تقاضے پورے نہیں ہو سکے تھے –اور یہ تو سبھی جانتے ہیں کہ کسی چیز کے عدم ثبوت سے اس کا عدم وجود تو لازم نہیں آتا –ادھر مشتبہ مجرموں پر حقیقی مجرموں کی شناخت کیلئے جسمانی یا ذہنی تشدد کا خلیفہ راشد ہر گز متحمل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس تشدد سے حقیقی مجرموں کی شناخت ہو بھی جائے تو بھی جو بے قصور ثابت ہوئے ہوں ان پر جو تشدد ہو چکا بلک تشدد نہ بھی ہوا ہوتو انہیں حبس بیجا میں کئی کئی دنوں تک رکھنے کی وجہ سے انکی عزت اور انکے معاشی مفادات کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کون کرے گا -؟-ایسے نقصان کومقام فتوی پر فائز کوئی مفتی تو ایک ناگزیر مجبوری قرار دے کر جائز قرار دے سکتا ہے لیکن مقام تقوی پر فائز ایک متقی تو ہرگز گوارا نہیں کرے گا –عدل وانصاف کا لازمی تقاضایہ بھی ہے کہ کسی ملزم پر الزام ثابت نہ ہوسکے تو اسے قضاء مجرم قرار نہیں دیا جاسکتا گو وہ حقیقتا مجرم ہی ہو اور اس کی خوبیوں اور صلاحیتوں سے مستفید ہونےمیں بھی عدالتی تقاضے تو ہرگز مانع نہیں ہو سکتے گو انتظامی تقاضے مانع ہوں –پس قاتلین عثمان سے حضرت علی رض کے لئے مقا م تقوی پر فائز رہتے ہوئے قصاص لینا بظاہر ممکن ہی نہیں تھا –مالک بن اشتر نخعی اور محمد بن ابی بکر کا جرم عدالتی تقاضوں کو شدت سے ملحوظ رکھنے کی وجہ سے حضرت علی رض کے نزدیک ثابت ہی نہیں ہوپایا تھا لھذا انہیں کسی صوبے کا عامل مقرر کرنے میں عدالتی تقاضے مانع نہیں تھے گو انتظامی تقاضوں کے تحت ایسے کسی مشتبہہ شخص کو کسی گھر کا چوکیدار بھی مقرر کرنا سخت نامناسب یے چہ جائیکہ اسے کسی صوبے کا عامل مقرر کردیا جائے–سیدنا حضرت علی رض بہترین قاضی تھےتو دوسری طرف حضرت معاویہ رض بہترین منتظم تھے –کسی معاملے میں اگر عدالتی تقاضے انتظامی تقاضوں سے متصادم ہوں تو کونسے تقاضوں کو ترجیح دی جائے،اس میں اختلاف رائے کی گنجائش ہے –خود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات انتظامی تقاضوں کو ترجیح دی ہے جیسا کہ عین انصاف پر مبنی حضرت عمر رض کے عبد اللہ بن ابی کو قتل کر دینے کے مشورے کے قبول نہ کئے جانے کی مثال ہمارے سامنے ہے اسی طرح عین عدل وانصاف ہر مبنی اپنی اس خواہش کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عملی جامہ نہ پہنایا کہ کعبے کی تعمیر نو اس طرح کر دی جائے جیسے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھما السلام نے اسے تعمیر کیا تھا کیونکہ ایسا کرنے سے نو مسلم قریش مکہ پریشان ہو سکتے تھے –حضرت علی رض کے برعکس حضرت معاویہ رض سراسر انتظامی ذہن کے مالک تھے ان کا بس چلتا تو وہ ہر اس شخص پر ہاتھ ڈالنے میں تامل نہ کرتے جس پر قتل عثمان میں ملوث ہونے کا معمولی شبہہ بھی ہوتا –اللہ نے دونوں اصحاب رسول کی یوں مدد فرمائی کہ دونوں طرف کے شدت پسند مفسدین کے غیر مصالحانہ طرزعمل سے برپا ہونے والی جنگوں مثلا جنگ صفین میں زیادہ تر یہی مفسدین خود اہنے ہاتھوں اپنےانجام کو پہنچ گئے –یہ جو کہا جاتا یے کہ ان جنگوں میں ہزاروں صحابہ رض شہید ہو گئے تھے قطعا غلط ہے ایسا کوئی بھی مدعی صرف ساٹھ ستر مقتول صحابیوں کی فہرست ہی مھیا کردے –الغرض یہ جنگیں بالآخر ایسے ہی مفید ثابت ہوئیں جیسے اللہ نے حضرت عائشہ صدیقہ رض پر بہتان کا متبت اور افادی پہلو بھی یوں بیان فرمایا لا تحسبوہ شرا لکم بل ھو خیر لکم کہ تم اسے اپنے لئے برا خیال نہ کرو بلکہ یہ تمہارے لئے بہتر ہے
مشاجرات صحابہ کے ضمن میں ھم نے اس قرآنی وعدے کے حوالے سے واضح کیا تھا کہ فریقین کا اختلاف حق وباطل کا ہرگز نیں تھا “وانتم الاعلون ان کنتم مومنین”کہ تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو –پس اگر حضرت معاویہ رض معاذ اللہ باطل پر ہوتے تو ان پر حضرت علی رض کا غالب آنا یقینی ہوتا لیکن ایسا نہیں ہوا حالانکہ یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ اس طرح کے وعدوں اور بشارتوں والے قرانی مضامین کے حضرت علی رض جیسے سابقون اولون اور عشرہ مبشرہ میں شامل حضرات تک بھی مصداق نہ ہوں اس پر بعض حضرات نے یہ اشکال پیش کیا یے کہ اسطرح کے قرآنی مضامین میں عموم یے اور ایسے وعدے چند شرائط کے ساتھ مشروط ہوا کرتے ہیں تو جب شرط نہ پائی جائے تو مشروط بھی نہیں پایا جائے گا –یہ اشکال اس لئے صحیح نہیں کہ یوں مضامین کے عموم کے حوالے سے راہ فرار ملتی ہو تو مثلا مرزا غلام احمد قادیانی جیسے جھوٹے مدعیان نبوت کو بھی فرار کا حق ملنا چاہئے اسکی جو ہیشگوئی مثلا محمدی بیگم سے نکاح والی ہیشگوئی سر عام جھوٹی نکلتی تو اس کے پاس یہی عذر ہوا کرتا تھا کہ میری یہ پیشگویاں چند شرائط کے ساتھ مخصوص اور مشروط تھیں تو شرط کے نہ پائے جانے سے پوری نہ ہو سکیں–تو ہمیں ایسا کوئی دعوی کرنے سے پہلے یقینی یا اونچے درجے کے ظن غالب پر مبنی ایسی شرط یا شرائط کو بھی تو پہلے سے متعین کرنا ہوگا –چنانچہ کفار پر نصرت و غلبے کے وعدوں والے ان قرانی مضامین کی شرائط کو بھی متعین کرنا ہوگا –اسی قرآن میں ہے ان الارض یرثھا عبادی الصالحون اور اسی قران میں یے فان اللہ لا یرضی عن القوم الفاسقین ،تو اس سے معلوم ہوا کہ نصرت اور غلبے کے وعدے کیلئے ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کی بھی شرط ہے ،فسق و فجور سے بچنے کی بھی شرط ہے جب اللہ فاسقوں سے راضی نہیں تو وہ ان سے نصرت کا بھلا وعدہ ہی کیوں کرے گا –یہ تو معلوم ہی ہے کہ قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر کے بعد بھی اگر خیر کا امت مسلمہ میں غلبہ برقرار رہتا تو بعد کے زمانوں کو خیر القرون سے الگ اور ممتاز ہی کیوں کیا جاتا–یعنی خیر القرون کے بعد اخیار کے مقابلے میں اشرار اور فساق وفجار کا عددی تںاسب بڑھ گیا خواہ اس تناسب میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کمی بیشی ہوتی رہی ہو اور من حیث المجموع یہ بھی مسلم اور مشہور و معروف ہے کہ حکم الاکثر حکم الکل –پس اس طرح کے شبہات کالعدم ہیں کہ مثلا دور حاضر میں مسلمانوں کا کفار پر غلبہ کیوں نہیں ہے –باقی رہا یہ شبہہ کہ پھر تو خیر القرون کے بعد مسلمانوں کو کبھی بھی کفار پر غلبہ حاصل ہونا ہی نہیں چاہئے تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی کی مخلوق پر اسکی کسی بھی نعمت کا ہر حال اور ہر صورت میں موعودہ بھا ہونا ضروری یے ہی نہیں– اللہ کے ہمارے لئے کسی خاص اور متعین وعدے کے بغیر بھی لاتعداد نعمتیں ہمیں حاصل ہوتی ریتی ہیں بلکہ مانگے بغیر بھی ہمیں ملتی رہتی ہیں
الغرض خیر القرون میں اخیار کے کفار اوراشرار پر غلبےکی بشارتوں کو کسی بھی بہانے اور تاویل سے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا
ڈاکٹر زاہد مغل، پروفیسر ظفر احمد