۱- غزوہ بدر ۲۲ / ہجری میں ہوا۔ اس غزوہ میں جو صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) شریک تھے ان کے منافق اور مرتد نہ ہونے کی شہادت اللہ تعالی نے خود دی ہے :- قد کان لکم آیة فی فئتین التقتا۔ فئة تقاتل فی سبیل الله و اخری کافرة یرونھم مثلیھم رای العین ۔ والله یوید بنصره من یشآء۔ان فی ذالک لعبرة لاولی الابصار۔ ” بلاشبہ تمہارے لئے دو جماعتوں میں نشانی موجود ہے، جن کی باہم مڈبھیڑ ہوئی۔ ایک جماعت اللہ کی راہ میں لڑتی تھی اور دوسری جماعت کفار کی تھی جو ( مسلمانوں کو ) اپنی کھلی آنکھوں سے اپنے سے دوگنا دیکھ رہے تھے ( اور مرعوب ہوئے جارہے تھے) ۔ اور اللہ اپنی مدد سے جسے چاہے سرفراز فرماتا ہے، بےشک اس ( غزوہ بدر ) میں آنکھوں والوں کے لئے ( سامان ) عبرت ہے۔”
آیت میں صرف مومنین اور ان کے مدمقابل کفار کا ذکر ہے۔ منافق بھی اگرچہ کافر ہوتا ہے لیکن وہ اپنے کفر کو چھپاتا ہے۔ پس اگر منافقین کھلم کھلا کافروں کے گروہ میں جا ملتے تو وہ منافق یعنی چھپے کافر نہ رہتے،بلکہ کھلے کافر شمار ہوتے ، اگر غزوہ بدر میں وہ مسلمانوں میں شامل ہوتے تو مسلمانوں کو اللہ تعالی ایک گروہ قرار نہ دیتا ، بلکہ اس غزوہ میں مسلمانوں اور کھلے کافروں کے علاوہ وہ منافقین کو بھی الگ گروہ قرار دیتا ، یوں یہ دو گروہ نہ رہتے ، پس آیت سے روز روشن کی طرح واضح ہے کہ شرکائے بدر میں کوئی منافق تھا ہی نہیں۔ نیز منافق کے قتال کو ہرگز قتال فی سبیل اللہ کا نام نہیں دیا جاتا۔ اللہ تعالی نے غزوہ بدر میں شریک مسلمانوں کی مدح فرمائی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں لڑ رہے تھے اور یہ کہ اللہ کی خاص نصرت انہیں حاصل تھی۔ اللہ تعالی عالم الغیب والشھادة ہےوہ ہرگز ان لوگوں کی مدح نہیں کرتا جو فی الحال منافق ہوں یا مستقبل میں مرتد ہونے والے ہوں۔ یہاں روافض کی یہ فاسد تاویل ہرگز نہیں چل سکتی کہ پہلے تین خلفاء اور ان کے ساتھی مومن نہیں بلکہ صرف مسلم تھے ، جبکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی مومن تھے۔ یہ بیہودہ قول بوجوہ باطل ہے۔
اولا غزوہ بدر میں مشرکین مکہ طاقتور ، پوری طرح مسلح اور تعداد میں مسلمانوں سے تین گنا زیادہ تھے۔ جبکہ غزوہ میں شریک صحابہ کرام بے سروسامان اور تعداد میں کم تھے۔ اس لئے مشرکین کے خلاف جنگ سے کچھ لوگ گھبرا رہے تھے۔ سورہ انفال میں ہے :- کما اخرجک ربک من بیتک بالحق و ان فریقا من المومنین لکارھون۔(الانفال۔۵)۔ ” جیسا کہ ( اے پیغمبر ) تیرے رب نے تجھے گھر سے حق کے ساتھ ( غزوہ بدر کے لئے) روانہ کیا اور مومنین کی ایک جماعت ( مشرکین مکہ سے جنگ کو ) نا پسند کرتی تھی”۔ دیکھیئے یہاں جنگ سے گھبرانے والے جن صحابہ کرام کا بغرض اصلاح و تنبیھ ذکر کیا جارہا ہے ، اللہ تعالی نے انہیں بھی مومنین ہی قرار دیا ہے۔ تو جو حضرات جنگ سے گھبراتے نہیں تھے وہ بطریق اولی مومنین میں شامل ہوئے۔ بالفاظ دیگر غزوہ بدر میں شریک سبھی صحابہ کرام مومنین تھے۔
ثانیا کیا روافض خود بھی مسلم ہیں یا غیر مسلم ؟؟ اگر غیر مسلم ہیں تو انہیں اپنے متعلق اس حقیقت کا بھرپور اعتراف و اقرار کرنا چاہئیے۔ اگر وہ مسلم ہیں اور ساتھ ہی وہ مومن بھی کہلاتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان کے نزدیک ہر مومن لازما مسلم بھی ہوتا ہے لیکن ہر مسلم کا مومن ہونا ضروری نہیں۔ روافض کے اس عقیدے کا غلط ہونا ہم ان شاءاللہ ان مباحث کے آخر میں بخوبی واضح کریں گے کیونکہ ہر سچا مسلم لازما مومن بھی ہوتا ہے۔ تاہم سردست ہم غزوہ بدر ہی کو لیتے ہیں۔ اگر اس غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والوں میں کچھ تو مومن ہوں اور کچھ صرف مسلم ہوں تو اس دو طرفہ جنگ میں دو کی بجائے تین جماعتیں مومن ، مسلم اور کافر ماننی ہوں گی۔ حالانکہ زیرنظر مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالی نے صرف دو جماعتوں کا ہی ذکر فرمایا ہے اور ابھی اوپر نکتہ نمبر ۱ میں واضح ہوچکا ہے کہ غزوہ بدر میں شریک سبھی صحابہ کرام مومنین تھے۔ تو جب باعتراف روافض ہر مومن لازما مسلم بھی ہوتا ہے لہذا غزوے میں شریک صحابہ کرام کو مومن کہا جائے یا مسلم ایک ہی بات ہے۔ یہاں مومن و مسلم کی کوئی تفریق نہیں ہوسکتی۔
ثالثا جب غزوہ بدر میں شریک صحابہ کرام کا مومن ہونا ثابت ہوگیا تو قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ یہ حضرات ( معاذاللہ) ضعیف الایمان نہیں تھے، بلکہ پکے اور سچے مومن تھے، کیونکہ غزوے میں شریک یہ حضرات مہاجرین و انصار پر مشتمل تھے ، جن کی مدح اللہ تعالی نے یوں فرمائی کہ وہ اللہ کی راہ میں قتال کر رہے تھے اور اللہ کی خاص الخاص نصرت انہیں حاصل تھی۔ ادہر سورہ انفال میں ایمان لانے والے سبھی مہاجرین و انصار کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے :- والذین آمنوا و ھاجروا و جاھدوا فی سبیل الله والذین آووا و نصروا اولئک ھم المومنون حقا۔ لھم مغفرة و رزق کریم۔( الانفال ۷۴). ” اور جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جنہوں نے ( ان مہاجرین کو ) پناہ دی اور مدد پہنچائی یہ ( مہاجرین و انصار) پکے مومن ہیں۔ان کے لئے مغفرت اور عزت کی روزی ہے”. پس اللہ تعالی نے غزوہ بدر میں شریک مہاجرین و انصار پر مشتمل سبھی صحابہ کرام کو صرف مومن ہی نہیں بلکہ پکے مومن قرار دیا ہے اور باعتراف روافض ہر مومن لازما مسلم بھی ہوتا ہے۔ لہذا یہاں مومن و مسلم کی تفریق قطعا غلط ہے۔ یہ سب مومن بھی تھے اور مسلم بھی۔
جب غزوہ بدر میں شریک سبھی صحابہ کرام کا پکے سچے اور کامل مومن ہونا ثابت ہورہا ہے تو قرآن کریم سے یہ بھی ثابت ہورہا ہے کہ وہ بعد میں ہرگز مرتد نہیں ہوئے ، کیونکہ ان کامل الایمان مہاجرین و انصار کو اللہ تعالی نے مغفرت اور رزق کریم کی بھی بشارت دی ہے اور بدری صحابہ کرام کے متعلق یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ اللہ کے راستے میں قتال کر رہے تھے اور اللہ تعالی کی خاص الخاص نصرت انہیں حاصل تھی۔ منافق و مرتد کی تو تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں تو ان کی نام نہاد نیکیوں کی اللہ تعالی بھلا مدح ہی کیوں فرمائے گا اور انہیں مغفرت اور رزق کریم کی بشارت ہی کیوں دے گا؟؟ نیز یہ بھی غور کیجیئے کہ تحویل قبلہ ( بیت المقدس کی بجائےخانہ کعبہ کو نماز کے لئے قبلہ مقرر کرنے) کا واقعہ غزوہ بدر سے کوئی ایک ماہ پہلے کا ہے۔ اس کے متعلق سورہ بقرہ میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ؛- وان کانت لکبیرة الا علی الذین ھدی الله وما کان الله لیضیع ایمانکم۔ان الله بالناس لرءوف رحیم ( البقرہ۱۴۳) ۔ ” یہ قبلہ ( بیت المقدس ) لوگوں پر بھاری تھا مگر ان پر بھاری نہیں تھا جنہیں اللہ نے ہدایت دی اور اللہ ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان کو ضائع کردے۔ بےشک اللہ لوگوں پر مشفق و مہربان ہے۔” رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی دلی خواہش تھی کہ نماز کے لئے بیت المقدس کی بجائے بیت اللہ ( کعبہ ) کو قبلہ مقرر کیا جائے ، لیکن کوئی سترہ ماہ تک اللہ تعالی کے حکم کی تعمیل میں آپ اور آپ کے اصحاب اپنی دلی خواہش کے برعکس قبلہ اول ( بیت المقدس) کی طرف منہ کرکے نمازیں پڑھتے رہے۔ اس پر اللہ تعالی نے سبھی صحابہ کرام کو ان کے ایمان کو ضائع نہ کرنے بلکہ قائم و دائم رکھنے کی بشارت و ضمانت عطا فرمادی۔ منافقین اس آیت کے مفہوم سے ازخود خادج ہوگئے کیونکہ منافق کا ایمان تو سرے سے ہوتا ہی نہیں۔ تو ایمان کی حفاظت کی بشارت یقینا مومنین صحابہ کرام کے لئے ہے اور غزوہ بدر میں شریک سبھی صحابہ کرام کا مومن کامل ہونا ابھی اوپر ثابت کیا جا چکا ہے۔ اگر یہاں آیت کے متعلقہ حصے’ وما کان الله لیضیع ایمانکم ‘ میں ایمان سے نماز مراد لی جائے کہ اللہ تمہاری نمازوں کے اجر کو ضائع نہیں کرے گا تو بھی ہمارا استدلال قطعا خلل پذیر نہیں ہوتا کیونکہ کسی بھی نیک عمل کے اجر کی بقاء سے لازما ایمان کی بقاء بھی ثابت ہوتی ہے۔ منافق اور مرتد کی تو تمام نیکیاں بالاتفاق برباد ہوجاتی ہیں۔ بات غزوہ بدر میں شریک صحابہ کرام کی چل رہی تھی۔ ان میں حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت علی ( رضی اللہ عنھم) بھی شامل تھے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ غزوہ بدر میں شریک نہیں ہوسکے تھے کیونکہ آپ کی اہلیہ حضرت رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سخت بیمار تھیں۔ ان کی عیادت اور تیمارداری کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے آپ کو مدینے میں ہی رکنا پڑا۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر میں حاصل ہونے والے اموال غنیمت میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حصہ بھی رکھا۔ یعنی انہیں بھی غزوہ بدر کے شرکاء میں ہی شمار کیا گیا۔ ( البدایہ والنھایہ ۳/۳۳۸) ۔ پس روافض کا پہلے تین خلفائے راشدین کو ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) کافر ، منافق ، مرتد یا مومن کی بجائے صرف مسلم قرار دینا اور خوارج کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو کافر یا مرتد قرار دینا قرآن کریم سے ہی خبیث ترین اور غلیظ ترین جھوٹ ثابت ہو رہا ہے۔
۲- جب خلفائے راشدین کا ناقابل تردید انداز سے خود قرآن کریم ہی سے مومن کامل ہونا ثابت ہو چکا اور یہ بھی معلوم ہو چکا کہ دیگر صحابہ کرام رض سمیت انہیں بھی تا دم آخر ایمان پر قائم و دائم رہنے اور ارتداد و نفاق سے محفوظ و مامون ہو نے کی ربانی بشارت و ضمانت بھی حاصل تھی ، تو صاف ظاہر ہے کہ بعد میں نمودار ہونے والے فتنہ ارتداد کے مکمل استیصال کا شرف بھی انہیں حضرات کو حاصل ہوا۔ یہ نا قابل انکار خارجی حقیقت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی کے آخری ایام میں ہی اور پھر آپ کی رحلت کے بعد ظہور پذیر جھوٹے مدعیان نبوت اور ان کے ساتھ منکرین زکوة کے فتنے کا خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کا بھرپور ساتھ دینے والے صحابہ کرام کی تینوں جماعتوں مہاجرین و انصار اور مولفتہ القلوب نے یکجا ہو کر قلع قمع کیا۔ سورہ مائدہ میں آیت ارتداد کا مضمون یہ ہے کہ ؛- ” اے ایمان والو ! اگر تم میں سے کوئی مرتد ہو جائے گا تو بہت جلد اللہ ایک ایسی قوم کو ( مرتدین کے مقابلے میں) لے آئے گا ، یحبونھم و یحبونه اذلة علی المومنین اعزة علی الکافرین۔ یجاھدون فی سبیل لله ولا یخافون لومة لائم۔ذالک فضل الله یوتیه من یشآء والله واسع علیم۔ ( المآئدہ) ” جن سے اللہ محبت رکھتا ہوگا اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہوں گے۔ یہ لوگ ایمان والوں کے لئے نرم اور کفار کے لئے سخت ہوں گے، وہ اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہیں ڈریں گے، یہ اللہ کا فضل ہے جسے چاہے وہ عطا فرماتا ہے اور اللہ بڑی وسعت والا اور علم رکھنے والا ہے۔” پس خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور ان کا ساتھ دینے والے دیگر سبھی صحابہ کرام ( رضی اللہ عنہم ) ان تمام اوصاف حمیدہ کے مالک ہیں جو مذکورہ آیت میں بیان ہوئے ہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حدیث حوض کا مصداق یہی مرتدین ہیں ، جن کی خبر مذکورہ آیت میں دی گئی اور جن کے خلاف حضرت ابوبکر صدیق اور دیگر صحابہ کرام نے بھرپور جہاد و قتال کرتے ہوئے ان کا استیصال کیا۔
حدیث حوض کا مفہوم یہ ہے کہ حوض کوثر پر کچھ لوگ حاضر ہوں گے لیکن ملائکہ انہیں پیچھے دھکیل دیں گے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ اس پر ملائکہ کہیں گے کہ آپ کو علم نہیں کہ آپ کے بعد ان لوگوں نے کیا کیا؟ عام الوفود میں بعض عرب قبائل کے وفود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کر لیا۔ ان لوگوں نے کسی جہاد میں حصہ نہیں لیا تھا اور نہ ہی انہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طویل صحبت اور تربیت حاصل ہوئی تھی۔ یہ لوگ اپنے قبائل میں واپس گئے تو انہوں بھی دیکھا دیکھی اسلام قبول کر لیا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد کچھ لوگ جو عام الوفود میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے، مرتد ہوئے۔ کچھ لوگوں نے مثلا اسود عنسی اور مسیلمہ کذاب وغیرہ نے تو آپ کی حیات طیبہ میں ارتداد اختیار کیا۔ ان چند مرتدین کے قبائل کے دیگر افراد نے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تک بھی نہیں تھا، اس لئے حدیث حوض کی مستند روایات میں “اصیحابی ” بصیغہ تصغیر ہے ۔ اگر خلفائے راشدین اور ان کے ساتھی مرتد ہوئے ہوتے تو آیت ارتداد کے تحت مغلوب و مقہور ہوتے نہ کہ ایسی زبردست امارت و خلافت کے مالک ہوتے جن کے آگے قیصر و کسری کی متکبر گردنیں جھک گئیں۔ نیز یہ بھی تو ثابت ہوچکا ہے کہ خلفائے راشدین مومن کامل تھے، جن کے ایمان کی بقا و حفاظت اور ارتداد سے محفوظ رہنے کی اللہ تعالی نے بشارت و ضمانت عطا فرما رکھی تھی۔ لہذا خلفائے راشدین اور ان کے ساتھیوں کا کسی فتنہ ارتداد کا شکار ہونا تو سرے سے خارج از بحث ہو جاتا ہے۔چنانچہ اس کا اعتراف مشہور شیعہ مفسر علامہ کاشانی کو بھی اپنی تفسیر منھج الصادقین میں کرنا پڑا۔ آیت زیر بحث کی تفسیر میں علامہ کاشانی نے جو کچھ لکھا ہے اس کے ضروری اقتباسات درج ذیل ہیں:-
1۔ در تاریخ مذکور است کہ سیزدہ قبائل از اسلام مرتد شدند۔ سہ در آخر عہد رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔وقتل اسود در شبے واقع شد کہ در صبح آں رسول خدا صلعم بجوار رحمت ایزدی پیوست۔۔۔
2- وبعد ازاں رسول خدا بیمار شد و بجوار ایزدی پیوست و کار مسیلمہ قوت گرفت و ابوبکر چوں بخلافت بنشست خالد بن ولید را با جماعتے بجانب خیبر فرستادتا او را مقہور کردند۔۔۔
3- در عہد ابوبکرہفت قبیلہ مرتد شد۔۔حق تعالی شر ایشاں را کفایت کردد بر دست مسلماناں بقتل آمدند۔۔۔در زمانہ عمر رض غسان قوم جبلہ بن ایہم نصرانی شدہ۔۔۔نقل کردہ اند کہ آیت دربارہ ابوبکر و اصحاب او است کہ بااہل ردہ کارزار کردند۔
1- تاریخ میں مذکور ہے کہ اسلام میں تیرہ قبیلے مرتد ہوئے،جن میں سے تین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری زمانے میں ہوئے۔۔۔اور اسود عنسی کا قتل اس رات کو واقع ہوا جس کی صبح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انتقال فرمایا۔
2- اس کے بعد رسول خدا بیمار ہوگئے اور انتقال فرماگئے۔ مسیلمہ نے قوت پکڑ لی۔ جب ابوبکر خلیفہ ہوئے تو آپ نے خالد بن ولید کو ایک جماعت کے ساتھ خیبر کی جانب بھیجا یہاں تک کہ انہوں نے مسیلمہ کو مغلوب کر دیا۔
3- ابوبکررض کے دور میں سات قبیلے مرتد ہوئے۔۔۔اللہ تعالی نے ان کے شر کو دور فرما دیا اور یہ لوگ مسلمانوں کے ہاتھوں مقتول ہوئے۔۔۔عمر( رضی اللہ عنہ) کے زمانے میں جبلہ بن ایہم کی قوم غسان نصرانی ہوگئی۔۔۔(مفسرین و مورخین) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت ابوبکر رض اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں ہے کہ انہوں نے مرتدین کے خلاف جنگ لڑی تھی۔
3۔ سورہ فتح میں ہے ؛- قل للمخلفین من الاعراب ستدعون الی قوم اولی باس شدید تقاتلونھم او یسلمون فان تطیعوا یوتکم الله اجرا حسنا وان تتولوا کما تولیتم من قبل یعذبکم عذابا الیما۔( الفتح ۱۶)۔
” ( ائے پیغمبر ) تو ( غزوہ حدیبیہ سے ) پیچھے رہ جانے والے اعراب ( بدوں) سے کہہ دے کہ عنقریب تمہیں ایک نہایت سخت جنگجو قوم کے خلاف ( لڑنے کے لئے ) بلایا جائے گا کہ تم ان سے جنگ لڑو گے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے ( یا جزیہ ادا کرکے مطیع ہوجائیں گے) تو اگر تم نے ( بلانے والے کی ) اطاعت کی تو اللہ تمہیں عمدہ اجر دے گا اور اگر تم نے منہ پھیرا جیسے پہلے پھیرا تھا تو وہ تمہیں دردناک عذاب دے گا۔”
آیت مذکورہ بالا میں روئے سخن بالاتفاق ان بدو قبائل کی طرف ہے جنہوں نے غزوہ حدیبیہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ نہیں دیا تھا اور صلح نامہ حدیبیہ ہوجانے کے بعد اپنی اس کوتاہی پر جھوٹے بہانے پیش کئے تھے۔ یہ لوگ غزوہ خیبر میں شریک ہونے پر آمادہ تھے لیکن ان کی اس پیشکش کو قبول نہیں کیا گیا۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے۔؛- سیقول المخلفون اذا انطلقتم الی مغانم لتاخذوھا ذرونا نتبعکم یریدون ان یبدلوا کلام الله قل لن تتبعونا کذالکم قال الله من قبل الآیة۔ ” یعنی عنقریب یہ پیچھے رہ جانے والے ( بدو) جب تم غنائم حاصل کرنے کے لئے ( غزوہ خیبر کے لئے ) چلو گے ، کہیں گے ہم بھی تمہارے ساتھ چلیں گے۔وہ چاہتے ہیں کہ اللہ کے کلام (فیصلے) کو بدل دیں ( اے پیغمبر!) ان سے کہہ دے کہ تم ہرگز ہمارے ساتھ نہیں جاوگے۔اللہ تعالی نے پہلے سے ہی یہ کہہ رکھا ہے۔”
یہ بدو قبائل اگرچہ قصور وار تھے لیکن اللہ تعالی نے ان پر یہ مہربانی فرمائی کہ انہیں اپنی اصلاح کا موقع فراہم کیا اور ان سے کہا گیا کہ فی الحال تو تم مسلمانوں کے ساتھ جہاد کے لئے نہیں جاو گے لیکن عنقریب تمہیں ایک اور جنگجو قوم کے خلاف دعوت جہاد دی جائے گی۔ صلح نامہ حدیبیہ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف چار غزوات ہوئے ، غزوہ خیبر ، غزوہ فتح مکہ ، غزوہ حنین اور غزوہ تبوک۔ غزوہ خیبر اور غزوہ حنین و ہوازن میں مسلمانوں کو غنیمتیں حاصل ہوئیں، لیکن غنیمتوں والے غزوات میں ان بدو قبائل کو شرکت کی اجازت ہی نہیں تھی۔ پھر غزوہ حنین کی غنیمتیں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے مہاجرین کو بہت ہی کم اور انصار کو بالکل ہی نہیں دیں بلکہ مولفتہ القلوب نومسلم قریش مکہ کو دیں۔ان بدو قبائل کا درمیان میں کہیں ذکر ہی نہیں۔ غزوہ فتح مکہ میں معمولی سی جھڑپ کے علاوہ کوئی جنگ ہی نہیں ہوئی اور غزوہ تبوک میں دشمن مقابلے کے لئے نکلا ہی نہیں۔ زیربحث آیت میں یہ بھی ہے کہ یا تم اس سخت جنگجو قوم سے لڑوگے یا وہ مسلمان ہوجائیں گے( یسلمون ) اگر اسلام کو لغوی معنی میں لیا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ تمہاری اطاعت قبول کرلیں گے، جس کی صورت یہ ہوگی کہ وہ جزیہ ادا کریں گے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں ایسی کوئی صورت پیش نہیں آئی ۔ اگر آیت ” یسلمون ” سے اسلام شرعی مراد لیا جائے تو اشارہ ان مرتدین کی طرف ہے جنہوں نے نبوت کا جھوٹا دعوی کیا یا زکوة کی ادائیگی سے منحرف ہوئے یا اسلام کو چھوڑ کر اپنے آبائی مشرکانہ مذہب پر چلے گئے۔ چونکہ مرتدین سے جزیہ نہیں لیا جاتا تو یا وہ مقتول ہوں گے یا از سرنو اسلام قبول کریں گے، اس لئے آیت میں ہے ” تقاتلونھم او یسلمون ” ۔ اس صورت میں آیت دعوت اعراب میں ” سخت جنگجو قوم ” کا مطلب یہ ہوا کہ یہ قریش مکہ نہیں ہوں گے بلکہ دوسری کوئی قوم ہوگی۔ کیونکہ ان اعراب ( بدوں ) کو غزوہ حدیبیہ میں قریش مکہ کے بالمقابل ہی تو مدعو کیا گیا تھا لہذا اب یہاں ” قوم ” سے دوسرے لوگ ہی مراد ہوسکتے ہیں۔ الغرض ہر صورت میں یہ تسلیم کئے بغیر چارہ نہیں کہ ان بدو قبائل کو مرتدین کے خلاف یا روم و ایران کی نہایت طاقتور حکومتوں کے خلاف جنگ کی دعوت خلفائے ثلاثہ کے عہد میں ہی دی گئی۔ مرتدین میں سے بھی بعض سخت جنگجو تھے مثلا مسیلمہ کذاب کے خلاف جہاد میں بہت سے مسلمان شہید ہوئے تھے۔ اگر کہا جائے کہ ان بدو قبائل کو دعوت جہاد سرے سے دی ہی نہیں گئی تو اس سے قرآنی پیش گوئی ( معاذاللہ ) غلط ثابت ہوگی، پس ان اعراب کو خلفائے ثلاثہ کے دور میں دعوت جہاد دی گئی اور قرآنی وعدہ کے مطابق یہ لوگ عمدہ اجر کے بھی مستحق ہوئے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ ان اعراب نے نفاق چھوڑ کر سچے دل سے اسلام قبول کرلیا تھا ورنہ منافق تو کافر ہوتا ہے اس سے اللہ اچھے اجر کا وعدہ نہیں کرتا۔ سورہ فتح میں اسی سلسلہ آیات میں یہ بھی فرمایا گیا تھا ؛- ولله ملک السموات والارض یغفر لمن یشآء و یعذب من یشآء وکان الله غفورا رحیما۔
” آسمانوں اور زمین کی حکومت اللہ ہی کے لئے ہے وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے عذاب دے اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔” اس آیت میں بھی اشارہ فرمادیا گیا تھا کہ یہ اعراب بالآخر مغفور و مرحوم ہوں گے ۔ آیت دعوت اعراب سے یہ واضح ہورہا ہے کہ جو لوگ انہیں دعوت جہاد دیں گے ، ان کی اطاعت پر الله اجر دے گا اور ان کی نافرمانی پر اللہ دردناک عذاب دے گا۔ اب جبکہ یہ ثابت ہوچکا کہ ان اعراب کو دعوت جہاد خلفائے ثلاثہ نے دی تھی تو یہ بھی ثابت ہوگیا کہ یہ خلفاء اللہ کے محبوب ہیں اور خلفائے راشدین کے مجموعی مسلک کا اتباع واجب ہے۔ ان سے ان کے معاصرین یعنی ہم زمانہ مسلمانوں کا اختلاف انتظام و تدبیر کے معاملے میں ہوسکتا ہے دین میں ہرگز نہیں ہوسکتا ۔ جب یہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنھم اللہ کے محبوب ہیں تو ان کے خلاف تمام مطاعن و مثالب کالعدم ہو جاتے ہیں۔
۴- اب ہم غزوہ حدیبیہ کے سلسلے میں آیات غنائم کو لیتے ہیں۔ غزوہ حدیبیہ میں جو مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اللہ تعالی نے انہیں اپنی رضامندی کی بشارت دی کیونکہ انہوں نے ( ببول کے ) درخت کے نیچے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی کہ جب تک ہم خون عثمان کا قریش مکہ سے قصاص نہیں لے لیتے، یہاں سے نہیں جائیں گے۔ قریش مکہ کے ہاتھوں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کی جھوٹی افواہ پھیل گئی تھی جس کے نتیجے میں یہ بیعت ہوئی ، اس بیعت کو بیعت رضوان کہا جاتا ہے۔ اس کا ذکر سورہ فتح میں ہے۔ بیعت رضوان پر اللہ تعالی نے اپنی رضامندی کا شد و مد سے اظہار فرمایا اور ساتھ ہی پے در پے ان غنیمتوں کی بشارتیں دے ڈالیں جو اہل حدیبیہ کو مستقبل قریب و بعید میں حاصل ہونے والی تھیں ، چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے ؛- و مغانم کثیرة یاخذونھا و کان الله عزیزا حکیما۔وعدکم الله مغانم کثیرة تاخذونھا فعجل لکم ھذه و کف ایدی الناس عنکم ولتکون آیة للمومنین و یھدیکم صراطا مستقیما۔و اخری لم تقدروا علیھا قد احاط الله بھا و کان الله علی کل شئی قدیرا۔ ولو قاتلکم الذین کفروا لولو الادبار ثم لا یجدون ولیا ولا نصیرا۔ سنة الله التی قد خلت من قبل ولن تجد لسنة الله تبدیلا۔
” یعنی ( مستقبل قریب میں حاصل ہونے والی غزوہ خیبر کی فتح) کے علاوہ یہ ( اصحاب حدیبیہ) اور بھی بہت سی غنیمتیں حاصل کریں گے اور اللہ زبردست ہے،حکمت والا ہے۔ اللہ نے تم سے بہت سی غنیمتوں کا وعدہ کر لیا ہے جو تم حاصل کروگے اور یہ غنیمت ( یعنی صلح نامہ حدیبیہ کی برکات اور غزوہ خیبر میں فتح و غنیمت) تمہیں بہت جلد دے دی اور لوگوں ( کفار مکہ ) کے ہاتھوں کو تم سے روک دیا تاکہ یہ صورت حال تمہارے لئے (اللہ کی قدرت کی ) نشانی بنے اور تاکہ وہ تمہیں سیدھی راہ پر چلائے رکھے۔ ان کے علاوہ اور غنیمتیں (بھی تم کو ملیں گی) جن تک ابھی تمہاری رسائی نہیں ہے اللہ نے ان غنائم کا احاطہ کر رکھا ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ اور اگر تم سے کافر جنگ لڑیں تو وہ پیٹھ پھیر جائیں گے پھر وہ اپنے لئے نہ کوئی حمایتی پائیں گے اور نہ مددگار۔ یہ اللہ کا طریقہ ہے جو پہلے بھی گزر چکا ( کہ وہ کفار کو مغلوب اور مومنین کاملین کو بالآخر غالب کیا کرتا ہے) اور تو اللہ کے اس طریقے میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔”
صلح نامہ حدیبیہ ۶ ھجری میں ہوا ۔ غزوہ خیبر ۷ ھجری میں، غزوہ فتح مکہ رمضان ۸ ھجری میں، غزوہ حنین شوال ۸ ھجری میں ، اور غزوہ تبوک ۹ ھجری میں ہوا۔ ۱۰ ھجری میں حجة الوداع ہوا اور ربیع الاول ۱۱ ھجری میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے۔ غزوہ خیبر کی غنیمت کا ذکر تو اللہ تعالی نے واثابھم فتحا قریبا ( اور بدلے میں ان اصحاب حدیبیہ کو مستقبل قریب کی فتح دی) اور “عجل لکم ھذه ” کے کلمات سے فرمادیا۔ غزوہ فتح مکہ میں قریش مکہ نے اسلام قبول کر لیا۔ غنیمت حاصل کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہ ہوا۔ غزوہ حنین و ھوازن میں بے شک بہت سا مال غنیمت حاصل ہوا لیکن یہ انتہائی بیش قیمت مال نومسلم مولفتہ القلوب ( قریش مکہ وغیرہ) کو دے دیا گیا۔ زیربحث آیات کے مخاطبین اہل حدیبیہ یعنی مہاجرین کو بہت کم اور انصار کو ان اموال غنیمت سے کچھ بھی نہیں دیا گیا تھا، غزوہ تبوک میں دشمن مقابلے پر نہیں آیا اور نہ ہی جنگ ہوئی، دیگر سرایا وغیرہ سے کچھ حاصل ہوا ہو تو یہ قابل ذکر غنیمتیں نہیں تھیں۔ حالانکہ زیربحث آیات غنائم میں پہلے بصیغہ غائب اور بعد میں بصیغہ خطاب اہل حدیبیہ کو غنائم کی بشارتیں دی گئیں۔ تیسری مرتبہ پھر بشارت دی گئی کہ اور غنیمتیں بھی تمہیں ملنے والی ہیں جن پر تم ابھی قادر نہیں ہوئے لیکن اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔ کوئی شخص معمولی سا بھی غور کرے تو اسے صاف صاف پتہ چلے گا کہ آیات میں ان غیرمعمولی غنیمتوں کی جانب واضح اشارات ہیں جو خلفائے راشدین کے دور میں صحابہ کرام کو روم اور ایران کے خلاف معرکوں میں حاصل ہوئیں اور مسلمان اس قدر متمول ہوگئے کہ کوئی زکوة لینے والا نہیں ملتا تھا۔ ان آیات سے خلفائے راشدین کی خلافت کا حق ہونا روز روشن کی طرح واضح ہوا۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ اہل حدیبیہ کو اللہ تعالی سیدھی راہ پر چلائے رکھنا چاہتا ہے ( و یھدیکم صراطا مستقیما ) پس وہ ہرگز مرتد اور گمراہ نہیں ہوئے۔ آخر میں کہا گیا ہے کہ اگر ان اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) سے کفار جنگ لڑیں تو بالآخر وہ مغلوب ہوں گے اور اللہ کا یہ قانون وہ قانون ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے کہ کسی بھی پیغمبر کے ساتھیوں پر کفار کو غلبہ حاصل نہیں ہوا بلکہ بالآخر کفار ہی مغلوب ہوکر یا مسلمان ہوئے یا عذاب الہی کی گرفت میں آکر نیست و نابود یا ذلیل و خوار ہوئے۔ اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے معاملے میں اللہ کا یہی قانون چلے گا۔ اکثر مفسرین نے اس آخری آیت کا یہ مفہوم لیا ہے کہ اگر صلح نامہ حدیبیہ نہ ہوتا اور قریش مکہ سے جنگ ہوتی تو وہ شکست خوردہ ہوکر پیٹھ پھیر جاتے، لیکن اعتبار خاص شان نزول کا نہیں ہوتا لہذا یہاں آیت کے مفہوم کو عام رکھا جائے گا کہ اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جنگ جن کفار سے بھی ہوگی وہ بالآخر مغلوب ہوں گے۔ چنانچہ قرآن کریم کی یہ غیبی خبر مستقبل میں بالکل صحیح ثابت ہوئی۔ جزیرة العرب اور قیصر و کسری کے وسیع و عریض علاقوں پر خلفائے راشدین کے عہد میں اصحاب رسول اللہ کو مکمل غلبہ اور تسلط حاصل ہوا اور دین اسلام ان کے ذریعہ مستحکم ہوا۔
5۔ ہم ان مباحث میں قسط نمبر ۶ میں سورہ نور کی آیت استخلاف کے حوالے سے ثابت کرچکے ہیں کہ اللہ تعالی نے اس آیت کے نزول کے وقت کے ان تمام لوگوں سے نہایت تاکیدی اور پختہ وعدہ خلافت ارضی عطا کرنے کا فرمایا ہے جو ایمان اور اعمال صالحہ کی نعمت سے مالامال تھے۔ چونکہ اللہ تعالی وعدہ پورا کرنے پر قادر مطلق ہے ، لہذا کسی نے کسی کا حق خلافت نہ تو چھینا اور نہ ہی چھین سکتا تھا۔ چنانچہ خلفائے راشدین اپنی اپنی باری پر مسند خلافت پر فائز ہوئے، جس کے ظاہری اسباب اللہ تعالی نے پیدا فرمادئیے۔ اس سے ان کی خلافت موعودہ بھا کی زمنی ترتیب بھی معنی خیز ہوگئی۔ چنانچہ اہل حق کے نزدیک تمام صحابہ کرام میں بلحاظ منقبت و فضیلت خلفائے راشدین کو سبقت و اولیت حاصل ہے۔ پھر ان چاروں حضرات کی فضیلت ان کی خلافت کی زمنی ترتیب کے اعتبار سے ہے۔
6– قرآن کریم میں منافقین کے جو اوصاف رذیلہ مذکور ہیں ان سے ان کا عام صحابہ کرام سے عموما اور خلفائے راشدین سے خصوصا بخوبی امتیاز ہوجاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کرتے ہوئے اللہ تعالی نے سورہ توبہ اور سورہ تحریم میں ارشاد فرمایا ہے ؛ یا ایھا النبی جاھد الکفار والمنافقین واغلظ علیھم و ماءواھم جھنم وبئس المصیر ( التوبہ ۷۳ التحریم ۹ )۔ ” اے نبی ! تو کافروں اور منافقوں کے خلاف جہاد کر اور ان پر سختی بھی کر اور ان کا ٹھکانہ جہنم ہے اور ( وہ) برا ٹھکانہ ہے۔ ”
منافقین پر سختی کرنے اور ( زبان سے ) ان کے خلاف جہاد کرنے کا کم سے کم تقاضا یہ بھی ہے کہ ان سے معاشرتی روابط میں سخت احتیاط برتی جائے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جن اصحاب سے رشتے ناطے قائم فرمائے وہ ہرگز منافق نہیں ہوسکتے۔ جن صحابہ کرام نے اپنی خوشی اور رضامندی سے اپنی بیٹیاں آپ کی زوجیت میں دینے کی سعادت عظمی حاصل کی اور خصوصا جن خواتین کو اپنی زوجیت میں لانے کی خواہش کا آپ نے خود اظہار فرمایا تو یہ خواتین اور ان کے اولیاء ہرگز منافق نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح جن اصحاب کے گھروں میں آپ کی بیٹیاں گئیں وہ بھی ہرگز منافق نہیں ہوسکتے۔ چاروں خلفائے راشدین سے آپ کے صہری روابط ہیں۔ حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ( رضی اللہ عنھما ) کی صاحبزادیوں حضرت عائشہ صدیقہ اور حضرت حفصہ ( رضی اللہ عنھما ) کو آپ کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا اور ام المومنین کے بلند منصب پر فائز ہوئیں۔ آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم (رضی اللہ عنھما ) کا یکے بعد دیگرے نکاح حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے ہوا۔ آپ کی صاحبزادی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نکاح میں آئیں۔ پس جس طرح غزوہ بدر کے حوالے سے ہم قبل ازیں قرآن کریم سے ناقابل تردید انداز میں ثابت کرچکے ہیں کہ خلفائے راشدین مومن کامل تھے ہرگز منافق نہیں تھے اور نہ ہی بعد میں ( معاذاللہ ) مرتد ہونے والے تھے۔ اسی طرح یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے درمیان ان صہری روابط سے بھی ان کا مومن کامل ہونا اور نفاق سے بری اور پاک و صاف ہونا روز روشن کی طرح واضح ہورہا ہے۔ منافقین کو اللہ تعالی نے سورہ آل عمران میں خبیث قرار دیا ہے۔ چنانچہ غزوہ احد میں پیش آنے والے مصائب و مشکلات کی ایک حکمت اللہ تعالی نے یہ بھی بیان فرمائی ہے؛-
ما کان الله لیذر المومنین علی ما انتم علیه حتی یمیز الخبیث من الطیب وما کان الله لیطلعکم علی الغیب ولکن الله یجتبی من رسله من یشآء۔ ” اللہ تعالی ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو اسی حال پر چھوڑ رکھے جس پر تم اب ہو جب تک کہ وہ خبیث ( منافق ) کو طیب ( پاکیزہ مسلمان ) سے الگ نہ کر دے اور اللہ ایسا نہیں ہے کہ تمہیں غیب کی اطلاع دے لیکن وہ اس مقصد کے لئے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہے منتخب کر لیتا ہے۔”
ناممکن ہے کہ اللہ تعالی نے آخر دم تک رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں سے خبیث یعنی گندے منافقین کو الگ نہ کیا ہو اور یہ بھی ناممکن ہے کہ اللہ تعالی کا رسول ان خبیث منافقین سے مسلمانوں جیسا سلوک کرے اور بحکم خداوندی ان پر سختی نہ کرے۔ ناممکن ہے کہ رسول ان خبیثوں سے رشتے ناطے قائم کرے۔ سوہ نور میں ہے ؛- الخبیثات للخبیثین والخبیثون للخبیثات والطیبات للطیبیین والطیبون للطیبات۔ ” خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لئے اور پاکیزہ عورتیں پاکیزہ مردوں کے لئے اور پاکیزہ مرد پاکیزہ عورتوں کے لئے ہیں۔ ”
اس سے ثابت ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ، جن سے بڑھ کر کوئی پاکیزہ نہیں ہوسکتا پاکیزہ عورت ہی ہوسکتی ہے۔ یہاں حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت لوط علیہ السلام کی کافر یا منافق بیویوں کی مثال دینا اس لئے غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت ان کی شریعت سے مختلف ہے ۔ شریعت محمدیہ ( علی صاحبھا الصلوة والسلام ) میں کفار میں سے اہل کتاب یعنی یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح درست ہے، دوسرے کفار کی عورتوں سے نکاح درست نہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی یہودی اور عیسائی عورت سے نکاح نہیں کیا، چہ جائیکہ مشرکہ یا منافقہ سے نکاح کریں اور اوپر آچکا ہے کہ اللہ تعالی نے منافقوں کو بھی خبیث قرار دیا ہے۔ تو منافق عورتیں خبیثات ہوئیں اور یہ بھی آچکا ہے کہ خبیث عورتیں خبیث مردوں کے لئے ہیں، یعنی شریعت محمدیہ میں بدکرداری اسی طرح کفر و نفاق کی وجہ سے خبیث عورتیں کسی عام پاکیزہ مرد کے بھی لائق نہیں، چہ جائیکہ ” بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر” کے مصداق سید الاولین والآخرین کی زوجیت کے لائق ہوں۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات و طیبات یعنی امہات المومنین کے متعلق لغو اور نا مناسب خیالات بالواسطہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین پر مشتمل ہیں۔
اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی( رضی اللہ عنھما) کو ( معاذاللہ) منافق قرار دینے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنات کی بھی سخت توہین لازم آتی ہے۔ اگر روافض کے اس جھوٹ کو قبول کر لیا جائے کہ حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم ( رضی اللہ عنھما) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسبی بیٹیاں نہیں بلکہ لےپالک تھیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نہایت سنگین الزام عائد ہوگا کہ آپ نے اپنی حقیقی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنھا کے لئے تو بہترین رشتہ تلاش کیا اور ( مبینہ ) لےپالک بیٹیاں ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) ایک منافق کے نکاح میں دے دیں۔ یہ خلفائے راشدین کی کرامت ہے کہ ان کی توہین سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین لازم آتی ہے۔ لہذا ان میں اور رسول اللہ میں تفریق کی روافض کی تمام کوششیں انتہائی نجس اور ناپاک ہیں۔ چونکہ سورہ توبہ و سورہ تحریم کی یہ زیربحث آیت روافض کے عقائد باطلہ کے لئے سم قاتل ثابت ہو رہی ہے، لہذا انہیں مجبورا ائمہ اور قرآن پر یہ جھوٹ باندھنا پڑا کہ اس آیت میں تحریف ہوگئی ہے۔ چنانچہ مولانا عبدالشکور لکھنوی رح امامیہ تفسیر صافی صفحہ ۲۱۴ کی یہ عبارت لکھتے ہیں ؛ و فی المجمع فی قراة اھل البیت جاھد الکفار بالمنافقین و فیه عن الصادق انه قراء جاھد الکفار بالمنافقین و قال ان رسول الله ( صلی الله علیه وسلم) لم یقاتل منافقا قط انما کان یتالفھم والقمی ایضا انما نزلت یا ایھا النبی جاھد الکفار بالمنافقین۔ ” یعنی تفسیر مجمع البیان میں ہے کہ اہل بیت کی قراءت میں جاھد الکفار بالمنافقین ہے نیز اسی تفسیر میں امام جعفر صادق رح سے منقول ہے کہ انہوں نے جاھد الکفار بالمنافقین پڑھا اور فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے کسی منافق سے کبھی قتال نہیں کیا بلکہ آپ تو منافقوں کی تالیف کیا کرتے تھے اور تفسیر قمی میں بھی ہے کہ یہ آیت اس طرح نازل ہوئی تھی کہ یا ایھا النبی جاھد الکفار بالمنافقین ، یعنی اے نبی ! منافقوں کو ساتھ لیکر کافروں سے جہاد کر۔”
اگر ان جھوٹی امامیہ روایات کو تسلیم کر لیا جائے تو اس سے صرف قرآن کریم کی ہی توہین نہیں بلکہ امام جعفر صادق کی بھی سخت تذلیل و تحقیر ہوتی ہے۔ اس سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ امام صاحب نے (معاذاللہ) کبھی پورا قرآن شریف پڑھا ہی نہیں تھا ۔ سورہ فرقان میں ہے ؛ فلا تطع الکافرین و جاھدھم به جھادا کبیرا۔ (الفرقان۵۲) ۔ ” پس ( اے پیغمبر ) تو کافروں کا کہنا نہ مان اور اس ( قرآن ) کے ذریعے ان سے پوری قوت سے بڑا جہاد کر ”
یہ مکی آیت ہے۔ ابھی کفار سے قتال کا حکم نازل نہیں ہوا تھا۔ اس لئے سیاق و سباق کے حوالے سے آیت میں ضمیر کا مرجع بالاتفاق قرآن کریم ہے کہ قرآن کے ذریعہ کفار کے ساتھ لسانی جہاد کرو۔ یہاں مسلح جہاد ہرگز مراد نہیں ہے۔ پس جہاد عام اور قتال خاص ہے۔ ہر قتال فی سبیل اللہ جہاد بھی ہے لیکن ہر جہاد فی سبیل اللہ کا قتال کی صورت میں ہونا ہرگز ضروری نہیں۔ جہاد لسانی، قلمی اور مالی وغیرہ صورتوں میں بھی ہوتا ہے، لیکن مذکورہ امامیہ روایات سے معلوم ہورہا ہے کہ امام جعفر صادق رحمہ اللہ تعالی جہاد اور قتال میں اس فرق کو پہچاننے سے بھی ( معاذاللہ ) قاصر تھے۔ قرآن کریم میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منافقین پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، چنانچہ منافقین کے مرنے پر ان کی نماز جنازہ پڑھنے سے بلکہ کسی بھی منافق کی قبر پر کھڑے ہونے تک سے آپ کو منع فرما دیا گیا۔ ( ولا تصل علی احد منھم مات ابدا ولا تقم علی قبرہ الآیه۔ التوبہ ۸۴ )۔ منافقین سے اعراض یعنی کنارہ کشی اور منہ پھیرنے کا حکم بھی آپ کو دیا گیا۔ مثلا سورہ نسآء میں ہے ؛- والله یکتب ما یبیتون فاعرض عنھم و توکل علی الله۔( النسآء ۸۱ )۔ ” اور اللہ ان منافقین کی راتوں کی ( خفیہ ) بات چیت کو لکھ رہا ہے ، تو ( اے پیغمبر ) ان سے کنارہ کشی کر اور اللہ پر توکل کر”۔ نیز ارشاد ہے ؛ اولئک الذین یعلم الله ما فی قلوبھم فاعرض عنھم۔( النسآء ۶۳ )۔ یہ ( منافقین ) وہ لوگ ہیں کہ اللہ جانتا ہے جو کچھ ان کے دلوں میں ہے، سو ( اے پیغمبر ) تو ان سے کنارہ کشی کر۔” یہ منافقین صحابہ کرام پر غصے سے اپنی انگلیاں کاٹتے تھے تو آپ کو ان کے لئے بد دعا کرنے کا حکم دیا گیا ؛- و اذا خلوا عضوا علیکم الانامل من الغیظ قل موتوا بغیظکم ان الله علیم بذاة الصدور۔( آل عمران ۱۱۹ )۔ ” اور جب وہ ( منافقین ) علیحدگی میں ہوتے ہیں تو تم ( اصحاب رسول ) پر غصے سے انگلیاں کاٹتے ہیں۔( اے پیغمبر ) تو کہہ دے کہ تم اپنے غصے میں مر جاو، بیشک اللہ سینے کی باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔” اللہ تعالی نے آپ کو منافقین کی باتوں اور ان کے مشوروں کو ماننے سے منع فرما دیا ؛- یا ایھا النبی اتق الله ولا تطع الکافرین و المنافقین ۔ان الله کان علیما حکیما،( الاحزاب ۱ )۔ ” اے نبی ! اللہ سے ڈر اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ مان ، بےشک اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔” نیز ارشاد ہے ؛- فلا تطع الکافرین و المنافقین و دع اذاھم و توکل علی الله۔(الاحزاب ۴۸ )۔ “( اے پیغمبر ) تو کافروں اور منافقوں کی بات نہ مان اور جو ایذا ( ان کی طرف سے پہنچے) اس کا خیال نہ کر اور اللہ پر توکل کر”۔ منافقین نے مسجد ضرار بنائی تو غزوہ تبوک کے واپسی کے سفر میں آپ مدینہ منورہ میں بعد میں داخل ہوئے اور ایک سریہ روانہ فرما کر منافقین کی مسجد کو پہلے مسمار کرایا۔ ادھر امامیہ روایات کے مطابق آپ منافقین کی ( معاذاللہ ثم معاذاللہ) تالیف قلب فرمایا کرتے تھے۔ غور کیجئیے کہ روافض نے امام جعفر صادق رح پر کس دیدہ دلیری سے جھوٹ باندھا ہے کہ اللہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا تھا کہ ان منافقین کو ساتھ لیکر کافروں کے خلاف جہاد کر۔ منافقین کی حیثیت مارآستین کی تھی، وہ درپردہ کافر تھے اور کفار سے ان کی دوستی اور دلی ہمدردی تھی۔ وہ پرلے درجے کے دغا باز اور بزدل تھے۔ غزوہ احد میں رئیس المنافقین عبد اللہ بن ابئی اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر الگ ہو گیا تھا۔ احد،احزاب اور تبوک کے غزوات میں منافقین کے گھناونے اور سازشی کردار کا حال سورہ آل عمران، سورہ احزاب اور سورہ توبہ میں اللہ تعالی نے تفصیل سے بیان فرمایا ہے۔ لیکن امامیہ روایات کے مطابق یہ معلوم ہو رہا ہے کہ امام جعفر صادق رح (معاذاللہ ثم معاذاللہ) ایسے تمام قرآنی مضامین سے بالکل بے خبر تھے۔ اصحاب رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی عداوت میں روافض کو قرآن اور امام دونوں پر بہتان باندھتے ہوئے عقل سلیم کو بھی الوداع کہنا پڑا۔
فاعتبروا یا اولی الابصار۔
7۔اوپر مذکور ہوچکا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالی نے منافقین کی باتیں نہ ماننے کا حکم دے رکھا تھا۔ لہذا آپ منافقین سے مشورہ نہیں لیا کرتے تھے۔ نیز آپ ان لوگوں سے بھی مشورہ نہیں لیتے تھے جن کے دل اللہ کی یاد سے غافل ہوں ، جو خواہش نفس کی پیروی کرنے والے ہوں اور جو دین کے معاملے میں افرط و تفریط کا شکار ہوں۔ اسی طرح آپ گناہ پر ڈٹ جانے والے فاسقوں اور ناشکرے لوگوں سے بھی مشورہ نہیں لیتے تھے۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے:- ولا تطع من اغفلنا قلبه عن ذکرنا واتبع ھواه وکان امره فرطا ( الکھف ۲۸ )۔ نیز ارشاد ہے :- فاصبر لحکم ربک ولا تطع منھم اثما او کفورا ( الدھر ۴۴ )۔ پس رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے جن اصحاب ( مثلا بالخصوص شیخین حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنھما ) سے اہم امور میں مشورہ فرمایا کرتے تھے ، وہ ہرگز منافق نہ تھے ، نہ ہی گناہ پر ڈٹ جانے والے اور ناشکرے تھے، نہ ہی اللہ کی یاد سے غافل تھے ، نہ ہی اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے تھے، نہ ہی دین کے کسی معاملے میں کمی بیشی کرنے اور افراط و تفریط میں مبتلا ہونے والے تھے۔ وہ معصوم عن الخطاء نہیں تھے اور بالفرض کبھی ان سے صغائر و کبائر کا صدور بھی ہوا ہو تو بھی وہ گنہگار اس لئے نہیں تھے کہ وہ اپنی غلطیوں اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے والے تھے ان پر اصرار کرنے والے ہرگز نہ تھے ورنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہرگز ان سے مشورہ نہ لیا کرتے کیونکہ اللہ تعالی نے آپ کو کسی بھی آثم ( گنہگار ) اور کفور (ناشکرے) کی بات ماننے سے منع فرما رکھا تھا۔ کئی مواقع پر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی رائے کو نظرانداز فرما کر اپنے اصحاب کے مشورے کو قبول فرمایا ۔ مثلا غزوہ احد میں اکابر صحابہ کی طرح آپ کا خیال بھی یہی تھا کہ مدینہ منورہ میں ہی رہ کر دشمن کے حملے کو روکا جائے جبکہ نوجوان اصحاب کی رائے یہ تھی کہ مدینہ منورہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، آپ نے بالآخر انہی کے مشورے کو قبول فرمایا۔ غزوہ احزاب میں آپ کا خیال تھا کہ قبیلہ غطفان کو مدینہ منورہ کی پیداوار کا کچھ حصہ دے کر اسے قریش سے الگ کر دیا جائے اور دشمن کی قوت کو کمزور کیا جائے لیکن حضرات سعدین رضی اللہ عنھما ( یعنی انصار مدینہ کے اوس اور خزرج قبائل کے سعد نامی دونوں سرداروں ) نے یہ عرض کیا کہ اگر یہ اللہ تعالی کا حکم ہے تو ہم تعمیل کریں گے لیکن اگر آپ کی ذاتی رائے ہے تو ہم نے تو زمانہ جاہلیت میں بھی ان لوگوں کی ایسی نازبرداری کبھی نہیں کی۔ اب تو اللہ تعالی نے اسلام کے ذریعے ہمیں عزت عطا فرمائی ہے ہم انہیں ایک دانہ بھی نہیں دیں گے اور ہمارے اور ان کے درمیان تلوار ہی سے فیصلہ ہوگا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جان نثار ساتھیوں کا مشورہ قبول فرمایا۔ (البدایہ والنھایہ لابن کثیر ۶/۱۰۶–۶/۱۰۷)
غزوہ بدر کے جنگی قیدیوں کے متعلق آپ نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا مشورہ قبول فرمایا کہ انہیں فدیہ لے کر رہا کر دیا جائے اور مثلا صلح حدیبیہ سے پہلے آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قریش مکہ کے پاس بطور سفیر بھیجنا چاہتے تھے لیکن حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ اس مقصد کے لئے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھیجنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ ان کا تعلق بنوامیہ سے ہے اور مکہ مکرمہ کا سردار ابوسفیان بھی اسی خاندان سے ہے، آپ نے مشورہ قبول فرمایا۔
8۔ سورہ توبہ میں ہے : المنافقون والمنافقات بعضھم من بعض یامرون بالمنکر و ینھون عن المعروف و یقبضون ایدیھم۔ ( التوبہ ۶۷ )۔ ” منافق مرد اور منافق عورتیں باہم ایک دوسرے کے ساتھ متفق ہیں، وہ برے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور نیک کاموں سے روکتے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو ( بوجہ بخل ) سمیٹے رہتے ہیں۔”
اس آیت سے منافقین کی نیکیوں سے نفرت ، برائیوں سے محبت اور مال خرچ کرنے میں بخل اور کنجوسی بخوبی ظاہر ہورہی ہے۔ اس کے برعکس صحابہ کرام عموما اور خلفائے ثلاثہ حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان ( رضی اللہ عنھم ) خصوصا امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے پابند تھے۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے والے تھے۔ مثلا غزوہ تبوک میں خلفائے ثلاثہ کی مالی خدمات مسلم ہیں۔ امامیہ عالم علامہ ابن میثم بحرانی شرح نہج البلاغہ میں اس شبہ کے جواب میں کہ سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے تو جنگ کی لیکن خلفائے ثلاثہ سے جنگ نہیں کی ، تحریر فرماتے ہیں : ان الفرق بین الخلفاء الثلثة وبین معاویة فی اقامة حدودالله والعمل بمقتضی اوامرہ و نواھیه ظاھر.( شرح نہج البلاغہ ابن میثم بحرانی بحوالہ تحفہ اہل سنت مولانا عبد الشکور لکھنوی، مکتبہ امدادیہ ،ملتان،ص ۴۹۷ ).” یعنی خلفائے ثلاثہ اور معاویہ کے درمیان اللہ کی حدوں کے قائم رکھنے اور اوامر و نواہی کے سلسلے میں شریعت کے مطابق طرزعمل اختیار کرنے میں جو فرق تھا ، وہ ظاہر ہے، ” پس امامیہ عالم کے مذکورہ اعتراف کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا کہ قرآنی شہادت کے مطابق منافقین تو شریعت کے اوامر و نواہی کو ملحوظ نہیں رکھتے تھے۔ پس امامیہ حضرات بھی ہرگز اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے پیش رو خلفائے راشدین سے مثالی تعاون فرمایا اور ان سے نہایت قریبی روابط رکھے۔ اپنے بھائی حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ کی بیوہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنھا کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے نکاح میں ہونا پسند فرمایا۔ بیت المقدس کی فتح کے موقع پر جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ دارالخلافہ مدینہ منورہ سے باہر گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا نائب بننا قبول فرمایا وغیرہ وغیرہ۔ یہاں تقیہ کا عذر اس لئے نہیں چل سکتا کہ آپ کی شجاعت و عزیمت کسی بھی شک و شبہ سے بالا تر ہے، بلکہ بقول امامیہ تو آپ اسد اللہ الغالب ہیں۔ نیز امامیہ حضرات تو انہیں ” مشکل کشا ” مانتے ہیں تو وہ ہرگز ہرگز مجبور و مغلوب نہیں تھے اور نہ ہی وہ خوف و دہشت کا شکار ہوسکتے تھے۔
9۔ سورہ توبہ میں ہے : و ممن حولکم من الاعراب منافقون . و من اھل المدینة مردوا علی النفاق لا تعلمھم . نحن نعلمھم سنعذبھم مرتین ثم یردون الی عذاب عظیم ( التوبہ ۱۰۱ ) ” اور تمہارے اردگرد ( رہائش پذیر ) بدووں میں سے کچھ منافق ہیں اور مدینہ کے رہنے والوں میں سے بھی کچھ منافقت پر ڈٹے ہوئے ہیں ( اے پیغمبر ) تو انہیں نہیں جانتا ہم انہیں جانتے ہیں ۔ ہم انہیں عنقریب دو مرتبہ عذاب دیں گے اور پھر انہیں ایک بڑے عذاب کی طرف پھیرا جائے گا ۔”
اس آیت میں اللہ تعالی نے منافقین کو دو قسموں میں منقسم کر دیا۔ ایک وہ اعراب ( بدوی لوگ ) جو مدینہ منورہ کے پڑوس کے علاقوں اور بستیوں میں رہائش پذیر تھے۔ دوسرے خاص مدینہ منورہ کے رہنے والے منافق تھے۔ اس سے معلوم ہوا کہ مہاجرین مکہ ( جن میں خلفائے راشدین بھی شامل ہیں ) میں سے کوئی بھی منافق نہ تھا کیونکہ یہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ آئے تھے۔ مدینہ ان کا آبائی وطن نہ تھا۔ مکہ میں یہ حضرات کفار کے مقابلے میں کمزور تھے تبھی تو ہجرت پر مجبور ہوئے تھے اس لئے ان کا ( معاذاللہ ) ازراہ نفاق اسلام قبول کرنا خلاف عقل بھی ہے۔ مدینہ ،منورہ کے بعض منافقین کا نفاق اس قدر گہرا تھا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی فراست کاملہ اور روشن ضمیری کے باوجود وحی کے بغیر ان کے نفاق سے باخبر نہ ہوسکتے تھے۔ ان منافقین کے متعلق یہ خبر دی گئی ہے کہ انہیں آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے بھی دو مرتبہ عذاب دیا جائے گا۔ اگر ان میں سے ایک عذاب قبر کا عذاب ہو تو بھی دنیا میں کم از کم ایک عذاب کا انہیں سامنا ہوگا اور یہی عذاب کیا کم ہے کہ دنیا میں ان کے نفاق کو ظاہر کرکے ان کی فضیحت کی جائے اور اپنی جن باتوں کے ظاہر ہونے سے وہ ڈرتے ہیں ،وہ ظاہر ہوکر رہیں چنانچہ ایسا یقینا ہوا۔ چنانچہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : ما کان الله لیذرالمومنین علی ما انتم علیه حتی یمیز الخبیث من الطیب۔ الآیة ( آل عمران ۱۷۹ ) ” یعنی اللہ ایسا نہیں ہے کہ مومنین کو اسی حال پر چھوڑ رکھے جس پر تم اب ہو جب تک کہ وہ خبیث ( منافقین ) کو پاکیزہ ( مومنین ) سے الگ نہ کر دے۔ ” نیز ارشاد ہے : یحذر المنافقون ان تنزل علیھم سورۃ تنبئھم بما فی قلوبھم قل استھزءوا ان الله مخرج ما تحذرون۔( التوبہ ۶۴ )۔ منافقین اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کے متعلق کوئی ایسی سورت نہ اتاری جائے جو ان کے دلوں کی باتوں کو ( اجمالا یا تفصیلا ) ان پر کھول دے۔ ( اے پیغمبر ) تو کہہ دے کہ ٹھٹھے اڑا لو ، بلاشبہ اللہ تعالی ان تمام باتوں کو ( وحی جلی یا خفی کے ذریعے ) ظاہر کرنے والا ہے جن سے تم ڈرتے ہو۔” پس عام اصحاب عموما اور خلفائے راشدین خصوصا منافقین سے متعلق ان آیات کے مصداق سے خارج ہیں ، خصوصا پہلے دو خلفاء حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر فاروق ( رضی اللہ عنھما ) کو دنیا میں بھی بے حد غلبہ ، عزت اور ترقی حاصل ہوئی۔ یہ خیال اپنی جگہ پر صحیح ہے کہ منافقین کے لئے دنیا کا عذاب ان کے اموال و اولاد کی صورت میں بھی تھا لیکن اس سے مذکورہ نوعیت کے عذاب کی ہرگز نفی نہیں ہوتی بلکہ اس کا ثبوت تو خود کتاب اللہ سے مل رہا ہے۔ نیز اللہ تعالی کا ارشاد ہے : فان یتوبوا یک خیرالھم وان یتولوا یعذبھم الله عذابا الیما فی الدنیا والآخرۃ۔ و ما لھم فی الارض من ولی ولا نصیر۔ ( التوبہ ۸۴ )۔ ” تو اگر ( یہ منافقین رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف سازشوں سے ) توبہ کرلیں تو اسی میں ان کے لئے بہتری ہے اور اگر وہ منہ پھیرتے ہیں تو اللہ انہیں دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب دے گا اور زمین میں ان کا کوئی ساتھی اور حمایتی نہ ہوگا۔ ”
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب کے دور کے منافقین کو آخرت کے علاوہ دنیا میں بھی عذاب ہوگا اور یہ کہ دنیا میں ان کا کوئی حمایتی اور مددگار نہ ہوگا جس کی حمایت اور مدد سے انہیں دنیا میں کامیابی اور سرخروئی حاصل ہو۔ تو ان مباحث میں ثابت ہوچکا کہ اپنے جن ساتھیوں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر بھر بہترین معاشرتی روابط قائم کئے اور بحال رکھے وہ ہرگز منافق نہیں ہوسکتے۔ یہاں آیت میں بالخصوص حضرت ابوبکر صدیق ، حضرت عمر فاروق اور ان کے ساتھیوں ( رضی اللہ عنھم ) کا مومن کامل ہونا اور ان کی خلافت کا صحیح ہونا روز روشن کی طرح واضح ہو رہا ہے کہ انہیں دنیا میں مسلمانوں کی زبردست حمایت حاصل ہوئی۔ جتنے مددگار اور دوست ان کے ہوئے کبھی کسی اور کے اتنے نہیں ہوئے۔ ان کے زمانے سے لیکر اب تک مسلمانوں کی زبردست اکثریت کی نصرت و حمایت انہیں حاصل رہی ہے اور رہے گی۔ اگر یہ حضرات منافق ہوتے تو مذکورہ آیت کے بموجب انہیں دنیا میں یہ ولایت و حمایت ہرگز حاصل نہ ہوتی۔
۱۰۔ سورہ احزاب میں ہے ؛ لئن لم ینته المنافقون والذین فی قلوبھم مرض والمرجفون فی المدینة لنغرینک بھم ثم لا یجاورونک فیھا الا قلیلا۔ ملعونین اینما ثقفوا اخذوا و قتلوا تقتیلا۔ سنة الله فی الذین خلو من قبل ولن تجد لسنة الله تبدیلا۔( الاحزاب ۶۰ ).” اگر یہ منافقین اور جن کے دلوں میں روگ ہے اور جو مدینہ میں سنسنی خیز ( جھوٹی ) خبریں اڑاتے ہیں ( اپنی ان حرکتوں سے ) باز نہ آئے تو ہم ضرور بالضرور تجھے ان کے پیچھے لگا دیں گے ( اور ان پر تجھے مسلط کر دیں گے ) پھر یہ لوگ تیرے پڑوس میں تھوڑا عرصہ ہی رہ سکیں گے ۔ ملعون ہوں گے جہاں کہیں بھی پائے جائیں گے پکڑ لئے جائیں گے اور خوب قتل کئے جائیں گے ۔اللہ کا یہ قانون ہے جو ان لوگوں پر بھی جاری رہ چکا ہے جو پہلے گزر چکے اور تو اللہ کے اس قانون میں ہرگز کوئی تبدیلی نہیں پائے گا۔”
اس آیت نے تو منافقین اور مومنین کے درمیان زبردست امتیاز پیدا کر دیا کیونکہ اس سے یہ معلوم ہو رہا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد جو منافقین بھی اپنے نفاق پر قائم رہتے ہوئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے رہیں گے ۔ انہیں دنیا میں بھی یہ سزائیں ضرور ملیں گی کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان پر مسلط کر دیا جائیگا۔ یہ منافقین آپ کے پڑوس میں تھوڑی مدت کے لئے ہی رہ سکیں گے اور یہ مدت آپ کی اس دنیا سے رحلت سے قبل ہی ختم ہو جائے گی کیونکہ آپ کے وصال مبارک کے بعد کسی منافق کا دنیوی زندگی میں آپ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا پڑوسی ہونا خارج از بحث ہے۔ یہ منافقین مدینہ سے بھاگ کر جہاں بھی جائیں گے وہیں پکڑے جائیں گے اور قتل کئے جائیں گے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے ان منافقین کو ان سزاوں کا ملنا اللہ تعالی کا ایسا قانون ہے جو گزشتہ زمانوں میں بھی تھا ورنہ منافقین کے منصوبے کامیاب ہوجائیں تو رسول کی بعثت ( معاذاللہ ) بے مقصد ٹھہرے گی۔ اس آیت سے اصحاب ثلاثہ ( حضرت ابوبکر صدیق،حضرت عمر فاروق اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھم ) کا نفاق سے بری ہونا اور ان کی خلافت کا حق ہونا بالخصوص ثابت ہوتا ہے کیونکہ اگر یہ حضرات ( معاذاللہ ) منافق ہوتے تو یقینا انہیں مدینہ منورہ سے نکال دیا جاتا اور ہرگز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وہ مستقل پڑوسی نہ رہتے بلکہ مدینہ منورہ سے باہر بھی جاتے تو بھی یقینا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ماخوذ و مقتول ہوتے۔ خوارج اس آیت کو سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ پر چسپاں نہیں کر سکتے کیونکہ آپ کا عبدالرحمن بن ملجم خارجی کے ہاتھوں مقتول ہونا ( معاذاللہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے نہ تھا نیز آپ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیوی زندگی میں مدینہ ہی میں رہے اور آپ کے انتقال کے بعد بھی عرصہ دراز تک مدینہ ہی میں رہے حالانکہ آیت سے واضح ہے کہ شرپسند منافقین کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پڑوس آپ کی حیات طیبہ میں ہی ختم ہو جائے گا۔ اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنھما بھی ( معاذاللہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے مقتول نہیں ہوئے اور نہ ہی انہوں نے کبھی مدینہ چھوڑا۔ شیخین حضرت ابوبکر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنھما کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایسا پڑوس حاصل ہوا کہ موت کے بعد بھی آپ کے پہلو میں مدفون ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بھی مدینہ منورہ ہی میں مدفون ہیں۔ یہاں یہ عذر کرنا لغو ہے کہ یہ آیت ان منافقوں کے متعلق ہے جو جنگ کے متعلق بری خبریں پھیلاتے تھے اور عورتوں سے چھیڑ چھاڑ کرتے تھے، ایذا رسانی بھی کرتے تھے پھر وہ لوگ ان شرارتوں سے باز آگئے لہذا اس آیت کا مصداق نہ ہوئے کیونکہ اگر یہ مفروضات قائم کئے جائیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی کے لئے پروانہ خلافت لکھوانا چاہتے تھے لیکن حضرت عمر نے ( معاذاللہ ) رکاوٹ کھڑی کر دی حالانکہ اس سے پہلے انہیں ( جھوٹے ) مفروضات کے تحت حجۃ الوداع میں غدیرخم کے مقام پر اس خلافت کا صاف اعلان بلکہ بیعت بھی ہوچکی تھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دنیوی زندگی کے آخری ایام میں حضرت اسامہ رض کا لشکر بھیجنا چاہتے تھے لیکن ان مفروضات کے مطابق ( معاذاللہ ) حضرات شیخین نے یہ مہم روانہ نہ ہونے دی۔
امہات المومنین حضرت عائشہ اور حضرت حفصہ رضی اللہ عنھما نے انہی مفروضات کے تحت ( معاذاللہ ) رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا تھا جس سے آپ نے اس دنیا سے رحلت فرمائی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں اور آپ کی رحلت کے فورا بعد سیدنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خلاف ( معاذاللہ ) سازش کی اور ان سے خلافت چھین لی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا سے ( معاذاللہ ) باغ فدک چھین لیا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ( معاذاللہ ) جبرا بیعت لی۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا کو ( معاذاللہ ) ناقابل بیان جسمانی اذیت بھی پہنچائی ، ان کے گھر کو جلایا گیا ( معاذاللہ ) تراویح کی بدعت جاری کی گئی ، ( مفروضہ حلال ) متعہ کو حرام قرار دیا گیا۔ قرآن کریم میں کم از کم اتنی تحریف تو ( معاذاللہ ) ہوئی کہ حضرت علی رض نے مبینہ طور پر جو قرآن ترتیب نزولی کے تحت جمع فرمایا تھا، اسے قبول ہی نہ کیا گیا اور نہ ہی چلنے دیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ تو ان مفروضات کو صحیح تسلیم کرنے کی صورت میں کون عقلمند یہ کہے گا کہ یہ حضرات عام ایذا رسانی تو ایک طرف رہی اسلام اور مسلمانوں کو ( معاذاللہ ) زبردست نقصان پہنچانے سے باز آگئے تھے کہ زیر بحث آیت کے مصداق سے باہر نکل جاتے؟؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور ہی میں اور آپ کے وصاک مبارک کے فورا بعد ان مفروضہ افعال شنیعہ سے زیادہ لرزہ خیز اور زلزلہ برپا کرنے والے اور کون سے کام ہوسکتے تھے حتی کہ انہی مفروضات کے تحت شیخین رض وغیرہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تجہیز و تکفین اور جنازے تک میں ( معاذاللہ ) شرکت نہ کی۔ اگر یہ مفروضات صحیح ہیں تو زیر بحث آیت کا مصداق ان لوگوں سے بڑھ کر اور کون ہو سکتا ہے؟؟ یہ کہنا بھی بے معنی ہے کہ شیخین کو روضہ رسول میں دفن ہونے سے جو شرف اور مرتبہ حاصل ہوا وہ کبھی کعبہ میں بتوں کو بھی حاصل تھا۔ یہ بات تب درست ہوتی کہ اللہ تعالی نے کسی بھی پیغمبر کے ذریعہ یہ اعلان فرمایا ہوتا کہ خانہ کعبہ میں کبھی بت نہیں ہوں گے اور اگر ہوئے تو قلیل مدت کے لئے ہوں گے۔ یہاں اس آیت کا حوالہ بھی غیر متعلق ہے ؛ وھوالذی مرج البحرین ھذا عذب فرات و ھذا ملح اجاج و جعل بینھما برزخا و حجرا محجورا۔( الفرقان ۵۳ )۔” اور وہی ہے جس نے دو دریاوں کو ملا دیا ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا اور دوسرے کا کھاری ہے چھاتی جلانے والا اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنا دی۔”
اس آیت کا حوالہ یہاں تب درست ہوتا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہوتا کہ کڑوے پانی کی لہر میٹھے پانی کے پڑوس میں نہیں رہ سکتی اور اگر رہی بھی تو تھوڑی مدت کے لئے رہے گی کیونکہ منافقین سے متعلق مذکورہ بالا آیت میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ منافقین تھوڑی مدت کے بعد سرے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ہی نہیں رہیں گے۔ اگر یہ کہا جائے کہ جس طرح کڑوے پانی کو اس کے پڑوس میں بہنے والے میٹھے پانی کی لہر کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اسی طرح حضرات شیخین کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس سے فائدہ نہ ہوگا تو یہ تب درست ہوتا اگر اللہ تعالی نے منافقین کے متعلق یہ فرمایا ہوتا کہ یہ منافقین رہےں گے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوس میں ہی مگر اس پڑوس کا انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ آیت کا مضمون تو یہ ہے کہ ان منافقین کو اس پڑوس سے ہی سرے سے محروم کر دیا جائے گا۔ عدم جوار ( پڑوس نہ ہونے ) اور عدم افادہ جوار ( پڑوس کے فائدہ نہ پہنچانے ) میں زمین و آسمان کا فرق ہے لہذا اس طرح کے تمام شبہات باطل ہیں۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس طرح کے کلمات خواہ کسی بھی غیر معصوم کی زبان و قلم سے نکلے ہوں ، قطعا غلط اور خلاف حقیقت ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کے بعد مدینہ منورہ ایسے منافقین سے ( معاذاللہ ) بھرا ہوا تھا جو اسلام اور اس وقت کے حاملین اسلام صحابہ کرام رض کو کوئی گزند پہنچانے پر قادر تھے کہ زمام اقتدار ان کے ہاتھ میں آجائے اور وہ اہل حق پر مسلط ہو جائیں۔
تحریر پروفیسر ظفر احمد